مقالات

حضرت امام رضا علیہ السلام کے اخلاق و عادات اور شمائل و خصائل

السلام علیک یا علی بن موسی الرضا علیہ اسلام

آپ کے اخلاق وعادات اور شمائل و خصائل کا لکھنا اس لیے دشوار ہے کہ وہ بے شمار ہیں ”مشتی نمونہ ازخرداری“ یہ ہیں بحوالہ علامہ شبلنجی ابراہیم بن عباس تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے کبھی کسی شخص کے ساتھ گفتگو کرنے میں سختی نہیں کی، اور کبھی کسی بات کو قطع نہیں فرمایا آپ کے مکارم عادات سے تھا کہ جب بات کرنے والا اپنی بات ختم کر لیتا تھا تب اپنی طرف سے آغاز کلام فرماتے تھے کسی کی حاجت روائی اور کام نکالنے میں حتی المقدور دریغ نہ فرماتے، کبھی ہم نشین کے سامنے پاؤں پھیلا کر نہ بیٹھتے اور نہ اہل محفل کے روبرو تکیہ لگا کر بیٹھتے تھے۔ کبھی اپنے غلاموں کو گالی نہ دی اور چیزوں کا کیا ذکر، میں نے کبھی آپ کو تھوکتے اور ناک صاف کرتے نہیں دیکھا، آپ قہقہہ لگا کر ہرگز نہیں ہنستے تھے خندہ زنی کے موقع پر آپ تبسم فرمایا کرتے تھے۔

محاسن اخلاق اور تواضع و انکساری کی یہ حالت تھی کہ دسترخوان پر سائیس اور دربان تک کو اپنے ساتھ بٹھا لیتے، راتوں کو بہت کم سوتے اور اکثر راتوں کو شام سے صبح تک شب بیداری کرتے تھے اکثر اوقات روزے سے ہوتے تھے مگر ہر مہینے کے تین روزے تو آپ سے کبھی قضا نہیں ہوئے ارشاد فرماتے تھے کہ ہر ماہ میں کم ازکم تین روزے رکھ لینا ایسا ہے جیسے کوئی ہمیشہ روزے سے رہے۔

آپ کثرت سے خیرات کیا کرتے تھے اور اکثر رات کے تاریک پردہ میں اس استحباب کو ادا فرمایا کرتے تھے موسم گرما میں آپ کا فرش جس پر آپ بیٹھ کر فتویٰ دیتے یا مسائل بیان کیا کرتے بوریا ہوتا تھا اور سرما میں کمبل آپ کا یہی طرز اس وقت بھی رہا۔ جب آپ ولی عہد حکومت تھے آپ کا لباس گھر میں موٹا اور خشن ہوتا تھا اور رفع طعن کے لیے باہر آپ اچھا لباس پہنتے تھے ایک مرتبہ کسی نے آپ سے کہا کہ حضور اتنا عمدہ لباس کیوں استعمال فرماتے ہیں آپ نے اندر کا پیراہن دکھلا کر فرمایا اچھا لباس دنیا والوں کے لیے اور کمبل کا پیراہن خدا کے لیے ہے۔

علامہ موصوف تحریر فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ حمام میں تشریف رکھتے تھے کہ ایک شخص جندی نامی آ گیا اور اس نے بھی نہانا شروع کیا۔ اس نے بھی نہانا شروع کیا دوران غسل اس نے امام رضا علیہ السلام سے کہا کہ میرے جسم پر پانی ڈالئے آپ نے پانی ڈالنا شروع کیا۔ اتنے میں ایک شخص نے کہا اے جندی فرزند رسولؑ سے خدمت لے رہا ہے ارے یہ امام رضا ہیں، یہ سننا تھا کہ وہ پیروں پر گر پڑا اور معافی مانگنے لگا۔
(نورالابصار صفحہ 38، 39)

ایک مرد بلخی ناقل ہے کہ حضرت کے ساتھ ایک سفر میں تھا ایک مقام پر دستر خوان بچھا تو آپ نے تمام غلاموں کو جن میں حبشی بھی شامل تھے بلا کر بٹھا لیا۔ میں نے عرض کیا مولا انہیں علیحدہ بٹھائیں تو کیاحرج ہے آپ نے فرمایا کہ سب کا رب ایک ہے اور ماں باپ آدم وحوا بھی ایک ہیں اور جزا و سزا اعمال پر موقوف ہے، تو پھر تفرقہ کیا آپ کے ایک خادم یاسر کا کہنا ہے کہ آپ کا یہ تاکیدی حکم تھا کہ میرے آنے پر کوئی خادم کھانا کھانے کی حالت میں میری تعظیم کو نہ اٹھے۔

معمر بن خلاد کا بیان ہے کہ جب بھی دستر خوان بچھتا آپ ہر کھانے میں سے ایک ایک لقمہ نکال لیتے تھے، اور اسے مسکینوں اور یتیموں کو بھیج دیا کرتے تھے۔ شیخ صدوق تحریرفرماتے ہیں کہ آپ نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ بزرگی تقویٰ سے ہے جو مجھ سے زیادہ متقی ہے وہ مجھ سے بہتر ہے۔

ایک شخص نے آپ سے درخواست کی کہ آپ مجھے اپنی حیثیت کے مطابق کچھ مال عنایت کیجیے، فرمایا یہ ممکن ہے چنانچہ آپ نے اسے دو سو اشرفی عنایت فرما دی، ایک مرتبہ نویں ذی الحجہ یوم عرفہ آپ نے راہ خدا میں سارا گھر لٹا دیا یہ دیکھ کر فضل بن سہیل وزیر مامون نے کہا حضرت یہ تو غرامت یعنی اپنے آپ کو نقصان پہنچانا ہے آپ نے فرمایا یہ غرامت نہیں ہے غنیمت ہے میں اس کے عوض میں خدا سے نیکی اور حسنہ لوں گا۔

آپ کے خادم یاسر کا بیان ہے کہ ہم ایک دن میوہ کھا رہے تھے اور کھانے میں ایسا کرتے تھے کہ ایک پھل سے کچھ کھاتے اور کچھ پھینک دیتے ہمارے اس عمل کو آپ نے دیکھ لیا اورفرمایا نعمت خدا کو ضائع نہ کرو ٹھیک سے کھاؤ اور جو بچ جائے اسے کسی محتاج کو دیدو، آپ فرمایا کرتے تھے کہ مزدور کی مزدوری پہلے طے کرنا چاہئے کیونکہ ںچکائی ہوئی اجرت سے زیادہ جو کچھ دیا جائے گا پانے والا اس کو انعام سمجھے گا۔

صولی کابیان ہے کہ آپ اکثر عود ہندی کا بخور کرتے اور مشک و گلاب کا پانی استعمال کرتے تھے عطریات کا آپ کو بڑا شوق تھا نماز صبح اول وقت پڑھتے اس کے بعد سجدہ میں چلے جاتے تھے اور نہایت ہی طول دیتے تھے پھر لوگوں کو پند و نصائح فرماتے۔

سلیمان بن جعفر کا کہنا ہے کہ آپ آباؤ اجداد کی طرح خرمے کو بہت پسند فرماتے تھے آپ شب و روز میں ایک ہزار رکعت نماز پڑھتے تھے جب بھی آپ بستر پر لیٹتے تھے تابہ خواب قرآن مجید کے سورے پڑھا کرتے تھے موسیٰ بن سیار کا کہنا ہے کہ آپ اکثر اپنے شیعوں کی میت میں شرکت فرماتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ہر روز شام کے وقت امام وقت کے سامنے شیعوں کے اعمال پیش ہوتے ہیں اگر کوئی شیعہ گناہ گار ہوتا ہے تو امام اس کے لیے استغفار کرتے ہیں علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ آپ کے سامنے جب بھی کوئی آتا تھا آپ پہچان لیتے تھے کہ مومن ہے یا منافق۔
(اعلام الوری، تحفہ رضویہ، کشف الغمہ  ص 112)

علامہ محمد رضا لکھتے ہیں کہ آپ ہر سوال کا جواب قرآن مجید سے دیتے تھے اور روزانہ ایک قرآن ختم کرتے تھے۔
(جنات الخلود صفحہ 31)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button