مقالات

نہج البلاغہ کی نظر میں آزادی

ایک اور اخلاقی نشان نہج البلاغہ میں یہ ہے کہ انسان آزاد پسند ہو، جی ہاں اپنے آپ کو غیر خدا کی بندگی سے نجات دلانا اور خدا کی بار گاہ کا اسیر ہو نے کا نام آزادی ہے امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

الف۔”ولا تکن عبد غیرک وقد جعلک اللہ حرا” (نامہ ٣١)
‘دوسروں کے غلام مت بنو بیشک خدا نے تمہے آزاد بنایا ہے’

ب۔”الاحر یدع ھذہ اللمأظة لاھلہا؛انہ لیس لانفسکم ثمن الا الجنةفلا تبیعوا ھا الا بھا” (حکمت٤٤٨)

‘کیا کوئی ایسا آزاد مرد نہیں ہے جو دنیا کے اس چبائے ہوئے لقمے کو دوسروں کے لئے چھوڑ دے ؟ یاد رکھو نفس کی کوئی قیمت جنت کے علاوہ نہیں ہے لہذا اسے کسی اور قیمت پر بیچنے کا ارادہ مت کرو!’

یہاں آزادی سے مراد غرب کی وہ جان لیوا آزادی نہیں ہے جو لبرل ازم (libralism) اور ہیومن ازم (humanism) جیسے کھولے مکتبوں کی دین ہے جہاں صرف انسان کو محور قرار دے کے اسے اصالت اور آزادی کے نام پہ ہر میدان میں عریان اور ننگا کرکے اخلاقی اقدار سے بہت نیچے گرا دیا گیا ہے اور خدا کا کہیں کوئی پتہ ہی نہیں چلتا اگر انسان آزادی کا حقیقی مفہوم سمجھ لیتا تو کبھی بھی اس کی زندگی میں اخلاقی انحطاط پیدا نہ ہوتا عصر حاضر کے انسان کو چاہیے کہ مکتب نہج البلاغہ سے آزادی کا حققی مفہوم لے کر اپنی زندگی کے اس اخلاقی خلا کو پر کریں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button