مقالات

زیارتِ اربعین اور  امام حسین (ع) کے زائرین کی خصوصیات

 

 زیارتِ اربعین  میں ایسے بہت سےاعلٰی مضامین موجود ہیں ۔ جن میں امام حسین علیہ السلام کے الٰہی رہبر اور خدائی نمائندہ ہونے کے حوالے سے آپ کی بہت سی صفات و خصوصیات کو ذکر کیا گیا ہے ۔ خود زیارتِ اربعین، امام حسن عسکری علیہ السلام کے فرمان کے مطابق حقیقی مومن کی نشانیوں میں سے ایک نشانی شمار کی گئی ہے ۔ پس امام حسین علیہ السلام کے زائرین کو بھی چاہیے کہ وہ مولا امام حسین علیہ السلام سے مزید قریب ہونے کیلئے اپنے وجود کو اِن صفات و خصوصیات سے مزین کریں ۔ کیونکہ  جو کوئی بھی حقیقت میں کسی سے محبت کرتا ہے تو اُسے اپنے محبوب کا مطیع و فرمانبردار ہونا چاہیئے۔  ان المحب لمن یحب مطیع۔

لہذا  زیارتِ اربعین کے تناظر میں امام حسین علیہ السلام کے حقیقی زائرین کی چند اہم خصوصیات درج ذیل ہیں۔

1۔ حریت و آزادگی

آزادگی اور حریت کا مطلب ہے کہ انسان کاحقارت اور ذلت آمیز قید و بند کے ماحول سے رہائی پاتے ہوئے  اپنے نفس کو شرافت و کرامت اور بزرگی و عظمت تک پہنچانا ہے ۔  آزاد منش انسان اپنی شرافت و کرامت کو جانتا ہے لہذا انسانی قدر و منزلت کو پامال کرتے ہوئے اپنے آپ  کو اِس پست دنیا کا قیدی نہیں بناتا ہے ۔ امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اعزاء و اقرباء اور اصحاب و انصار کے قاتلوں میں اس صفت و خصوصیت کے نہ پائے جانے کو زیارتِ اربعین میں اِن الفاظ کے ساتھ یاد کیا گیا ہے:

وَقَدْ تَوَازَرَعَلَیْہِ مَنْ غَرَّتْہُ الدُّنْیا، وَ بَاعَ حَظَّہُ بِالْاَرْذَلِ الْاَدْنیٰ، و شَرَیٰ آخِرَتَہُ بِالثَّمَنِ الْاَوْکَسِ، وَتَغَطْرَسَ وَتَرَدَّیٰ فِی ھَوَاہُ، وَٲَسْخَطَکَ وَٲَسْخَطَ نَبِیَّک ؛  جب کہ ان پران لوگوں نے ظلم کیا جنہیں دنیا نے مغرور بنا دیا تھا جنہوں نے اپنی جانیں معمولی چیز کے بدلے بیچ دیں اوراپنی آخرت کے لیے گھاٹے کا سودا کیا انہوں نے سرکشی کی اورلالچ کے پیچھے چل پڑے انہوں نے تجھے غضب ناک اور تیرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ناراض کیا۔

 (شیخ عباس قمی ، مفاتیح الجنان ، زیارتِ اربعین)

جبکہ امام حسین علیہ السلام کے مقدس وجود میں جذبہ آزادی و حریت موجزن ہے اسی لیئے تو   یزید کی بیعت کے معاملے میں امام حسین علیہ السلام کا جواب یہ ہے:

لا و اللهِ لا اُعطِیهم بِیدی اعطاءَ الذلیلِ و لا اُقِرُّ اقرارَ العبیدِ ؛ اللہ کی قسم ؛ ایسا نہیں ہوسکتا ۔ نہ تو اُن  کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر(ان کی بیعت کرکے) ذلت  اُٹھا سکتا ہوں اور نہ ہی غلاموں کی طرح اُن کی تصدیق کرکے سرتسلیم ہوسکتا ہوں۔

 یہی آزادی و حریت کا جذبہ امام حسین علیہ السلام کے اصحاب و انصار اور شہداء کربلا کے وجود میں بھی جلوہ گر اور نمایاں طورپرنظر آتا ہے۔  پس امام حسین علیہ السلام کے زائرین میں بھی   آزادی و حریت پسندی کا جذبہ پایا جانا چاہیئےکہ جو امام حسین علیہ السلام اور شہداء کربلا کے پیروکار اور اُن سے محبت کرنے والے ہیں۔

2۔ خود بابصیرت ہونا اور دوسروں کو آگہی و بصیرت دینا

امام حسین علیہ السلام کے زائر ین کو اپنے امام کی بھی معرفت ہونی چاہیئے اور اُن کے پیغام اور راہ کی بھی پہچان ہونی چاہیئے ۔ امام حسین علیہ السلام کا زائر ہمیشہ اپنے آپ کو اُن کی بارگاہ میں حاضر جانتا ہو اور یہ عقیدہ بھی رکھتا ہو کہ ہمارے امام علیہ السلام ہمارے تمام حالات پر نظر رکھتے ہیں اور اُن سے آگاہ ہیں۔ لہذا  نہ تو ایسی کوئی نیت اور ارادہ رکھنا چاہیئے اورنہ ہی ایسا کوئی  کام  کرنا چاہیئے جو امام عالیمقام کی ناراضگی کا باعث بنے ۔ امام حسین علیہ السلام کے زائرین کو چاہیئے کہ وہ اپنی پوری توانائی و کوشش کے ساتھ اِس عقیدے اور انگیزے کو دوسرے لوگوں کے اندر بھی راسخ  اور رائج کریں ۔  جس طرح امام حسین علیہ السلام نے جہالت  و نادانی سے انسانیت کی نجات کیلئے ہرممکنہ پوری کوشش کی اور اپنے خونِ جگر تک قربان کردیا۔ جیساکہ زیارتِ اربعین میں ہم یہ پڑھتے ہیں :

وَ بَذَلَ مُھْجَتَہُ فِیکَ لِیَسْتَنْقِذَ عِبَادَکَ مِنَ الْجَھَالَۃِ وَحَیْرَۃِ الضَّلالَۃِ  ؛ اور(اے اللہ ؛ امام حسین علیہ السلام نے )تیری خاطراپنی جان قربان کی تاکہ تیرے بندوں کو نادانی وگمرا ہی کی پریشانیوں سے نجات دلائیں۔

(شیخ عباس قمی ، مفاتیح الجنان، زیارتِ اربعین)

اللہ تعالٰی جل شانہ اور اُس کے بھیجے ہوئے تمام انبیاء ِالٰہی  اور پیغمبرانِ خدا  علیہم السلام کا اصلی اور نہائی مقصد بھی یہی تھا کہ انسانیت کو جہالت کی ظلمت و تاریکی اورگھٹاٹوپ اندھیروں سے نکالیں اور اُن کے دلوں کو معرفت و بصیرت اور علم و آگہی کے روشن و تابناک نور سے منور کریں۔

3۔ ایثارو فداکاری

ایثار یعنی تمام مسائل و معاملات میں دوسروں کو اپنے آپ پر مقدم رکھنا ،چاہے وہ مسائل مال سے مربوط ہوں یا جان سے ۔ اولیاء اللہ کی زندگی میں  ایثار و  فداکاری کی  صفت کمال کی حد تک پائی جاتی ہے ۔ اوراُن کی زندگی میں  اس کا بخوبی مشاہدہ  بھی کیا جاسکتا ہے۔ لہذا  زیارتِ اربعین میں پڑھتے ہیں:

وَ بَذَلَ مُھْجَتَہُ فِیکَ لِیَسْتَنْقِذَ عِبَادَکَ مِنَ الْجَھَالَۃِ و حَیْرَۃِ الضَّلالَۃِ ؛ اورتیری خاطراپنی جان قربان کی تاکہ تیرے بندوں کو نادانی وگمرا ہی کی پریشانیوں سے نجات دلائیں۔

 یعنی اے اللہ ؛ امام حسین علیہ السلام نے تیری بارگاہ میں اور تیری راہ میں اپنا خونِ جگر تک قربان کردیا  اور ایثار و فدا کاری کی انتہا کردی ہے۔

اسی طرح امام حسین علیہ السلام کے باوفا اصحاب و انصار کی ایثار وفداکاری سے لبریز زندگی توجہ طلب ہے ۔ جن کی زندگی نہضتِ عاشوراء (یعنی عاشورائی حسینی تحریک)میں ایثارو فداکاری اور جراءت و جوانمردی کے کمال تک پہنچی ہوئی تھی۔ جب تک امام حسین علیہ السلام کے باوفا اور بابصیرت  اصحاب  میں سے کوئی زندہ تھا تب تک خاندانِ رسالت کے کسی فرد کو میدان جنگ میں جانے نہیں دیا اور سب  خاندانِ رسالت پر قربان ہوگئے۔

شبِ عاشور جب حبیب بن مظاہر اسدی نے مولاحسین علیہ السلام کےاصحاب سے پوچھا :

اگر روزِ عاشور طلوع ہوگیا اور صبح ہوگئی تو کیا کرو گے؟

تو اُن کے جواب میں سب اصحاب نے کہا:

ہم سب بنی ہاشم سے پہلے میدان جنگ میں جائیں گے ۔ جب تک ہم میں سے کسی ایک کی رگوں اورجسم  میں خون کا ایک بھی قطرہ ہوگا ہم خاندانِ رسالت اور بنی ہاشم کے کسی فرد کو بھی قتل نہیں ہونے دیں گے ۔

لہذا امام حسین علیہ السلام کے زائرین  کوچاہیئے کہ وہ  بھی اپنے مظلوم  امام عالیمقام علیہ السلام اور آپ کے باوفا اصحاب کی پیروی کرتے ہوئے سچے دل کے ساتھ حسینیت کے راستے پرچلتے ہوئے دینِ اسلام کی بقاء کیلئے  اپنی جان ومال و اولاد  اور  ہر شی ء  سچائی اور خلوص کے ساتھ ایثار و فدکاری  کیلئے تیار رہیں اور ضرورت پڑنے  پر اپنا سب کچھ قربان کردیں ۔

4۔ اللہ تعالٰی پر توکل اور بھروسہ

قرآن کرین میں اللہ تعالیٰ جل جلالہ کا ارشاد ہے:

وَ عَلَى اللّهِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ؛  مومنین فقط  اپنےاللہ پر توکل کرتے ہیں  اور اسی ذات پربھروسہ رکھتے ہیں۔

(سورۃ   التغابن: آیت13)

اسی لیئے امام حسین علیہ السلام نے مدینہ منورہ سے ہجرت کرتے وقت  اپنے اللہ پر توکل اور بھروسہ کرتے ہوئے اس راہ کا انتخاب کیا تھا۔ لہذا اپنے اصحاب سے مسلسل یہی فرماتے تھے کہ جو جانا چاہتا ہے وہ واپس جاسکتا ہے۔

(محمد بن جریر طبری، تاریخ طبری، جلد3،ص 211 ؛   ابن اثیر  ، الکامل فی التاریخ، جلد 2، ص 9)

پورے واقعہ کربلا میں امام حسین علیہ  السلام کے اس جذبے کو واضح طور پر مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ جس کی ایک بہترین مثال اس فانی دنیا میں امام حسین علیہ السلام کا نیزہ لگنے اور زین سے زمین پر گرنے کے بعد اپنی زندگی کے آخری لمحات میں اپنے پروردگار سے مناجات کرنا ہے۔

استعین بک ضعیفاً و اتوکل علیک کافیاً  ؛  اے اللہ میں ضعیف ہوں اور تجھ سے مدد  مانگتا ہوں  اور تجھ ہی پر بھروسہ اور توکل کرتا ہوں کیونکہ تیری ذات  ہی کافی ہے۔

(عبدالرزاق الموسوی المقرم ، مقتل الحسین ، ص 358)

امام حسین علیہ السلام کے زائرین کو  چاہیئے کہ وہ  بھی اپنے وجود کے اندر اس خصوصیت یعنی اپنے اللہ پہ توکل اور بھروسہ کو اس طرح راسخ کرلیں ۔ نیز  اسی جذبہ و عقیدت کے ساتھ اپنے مظلوم امام عالیمقام علیہ السلام کے نقشِ قدم پہ چلتے ہوئے اُن کی پیروی کریں۔

5۔ صبر و استقامت

انسان کیلئے اندرونی و بیرونی  اور نفسانی و جسمانی سختیوں کے ساتھ مقابلہ کرنے اور ہدف و مقصد پہنچنے کی راہ میں آنے والی تمام مشکلات پر غلبہ پانے کیلئے استقامت و پائیداری کا ہونا  نہایت ضروری ہے ۔ اسی وجہ سے عاشوراء کے دن جو شیء سب سے زیادہ جلوہ گر  اور نمایاں تھی  وہ تمام تر مشکلات و مصائب اوردشمن کے حملوں کے مقابلہ میں امام حسین علیہ السلام اور آپ کے آل و اصحاب کا صبرکرنا اور استقامت دکھانا ہے۔ اسی طرح جو شیء واقعہ کربلا کو رہتی دنیا تک  ہمیشہ کیلئے اوج ِ کمال عطا کرتی ہے اور واقعہ کربلا کی تاثیر گذاری اور اس کی معنوی فتح و کامیابی کو ہمیشہ کیلئے زندہ و جاوید رکھے  ہوئے ہے وہ امام حسین علیہ السلام اورآپ کے اہل بیت علیہم السلام کا اپنی اولاد و اصحاب کی مظلومانہ شہادت کو اپنے اوپر ہونے والے سخت ترین روحی و نفسانی حملوں کو بھر پور صبر و استقامت کے ساتھ برداشت کرنا  اور اس جذبہ سے سرشار ہوناہے۔ جیساکہ مکہ مکرمہ سے نکلتے ہوئے امام حسین علیہ السلام نے اپنے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا:

نرضٰی برضائہ و نصبرعلٰی بلائہ و یوفینا اُجور الصابرین ؛ ہم اللہ کی رضا پہ راضی ہیں اور اس کی بلاء و آزمایش پر صابر ہیں اور  وہی ذات ہمیں صابرین کا بہترین اجر عطا فرمائے گی۔

(محمد باقر مجلسی ، بحارالانوار ،جلد44،ص 367)

 زیارتِ اربعین میں مرقوم ہے:

فَجاھَدَھُمْ فِیکَ صابِراً مُحْتَسِباً حَتَّی سُفِکَ فِی طَاعَتِکَ دَمُہُ وَاسْتُبِیحَ حَرِیمُہُ؛پس(اے اللہ ) حسین علیہ السلام ان سے تیرے لیے جم کرہوشمندی کیساتھ جم کرہوشمندی کے ساتھ لڑے یہاں تک کہ تیری فرمانبرداری کرنے پر انکا خون بہایا گیا اور انکے اہلِ حرم کو لوٹا گیا۔

(شیخ عباس قمی ، مفاتیح الجنان ، زیارتِ اربعین)

عصرِ حاضرمیں امام حسین علیہ السلام کے ہرحقیقی اور سچے زائرکیلئے  تمام صفات و خصوصیات میں سے جو صفت و خصوصیت  زیادہ نمایاں ہونی چاہیئے وہ زندگی کے ناخوشگوار واقعات ،مشکلات  اور سختیوں کے مقابلہ میں  ، الٰہی و قرآنی تعلیمات اور اہل بیت علیہم السلام کی سیرت اور مقصدِ حسینیت کی تبلیغ و ترویج میں  اور اسی طرح اللہ تعالٰی جل جلالہ کی عبادت و بندگی کی راہ میں پیش آنے والی تمام تر مشکلات و مصائب  اور صعوبتوں و سختیوں کے مقابلہ میں امام حسین علیہ  السلام کے زائر کا صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے ، استقامت و مداومت اور جراءت و مقاومت کرنا ہے ۔ جس طرح باعظمت شہداء کے خانوادوں نے اپنے اعزاء و اقرباء کی مفارقت و جدائی پر صبر کرنے کا طریقہ حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا  کے صبر و تحمل سےسیکھا ہے۔

6۔ انسانیت کی تعظیم و تکریم

غیر عاشورائی مکاتب فکر انسانوں کو اپنے ناجائز مقاصد کے حصول اور شوم اہداف تک رسائی  کیلئے  وسیلہ اور آلہ کار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ لیکن عاشورائی مکتب میں اور کربلائیوں کے اندیشہ و فکر میں باایمان انسان کی اپنی خاص کرامت وعزت اور قدر و قیمت ہے۔ سب انسان اپنے ایمان کے اعتبار سے موردِ احترام ہوتے ہیں۔ اس برتری کا معیار تقوای الٰہی ، ایمان اور خداوند متعال کے احکامات اور اپنے وظائف کی نسبت عملی طور پر پابند اور متعہد ہونا ہے ۔

عاشورائی مکتب فکرمیں انسانوں کے درمیان برتری کا معیار رنگ و نسل ، قوم و قبیلہ اور زبان و ملک نہیں ہے۔لہذا امام حسین علیہ السلام روزِ عاشور بلاتفریق اپنےشہید ہونے والے  تمام باوفا اصحاب و انصار کے سرہانے اپنے کو پہنچاتے تھے اور اُن کے سرِ مبارک کو اپنی گود میں رکھتے تھےاور ان کے درمیان کسی بھی قسم کا کوئی فرق نہیں رکھتے تھے۔جیساکہ آپ جانتے ہیں:

 امام حسین علیہ السلام اپنے بیٹے شبیہ رسول (ص )حضرت علی اکبر علیہ السلام کے لاشہ پر پہنچتے ہیں اور اپنے غلام کے لاشہ پر بھی پہنچتے ہیں اور ان کا سر اپنی گود ِ اطہر میں رکھتے ہیں۔

(عبدالرزاق الموسوی المقرم، مقتل الحسین، ص249 ؛  محمد باقر مجلسی ، بحار الانوار ، جلد 45،ص 30)

 اللہ تعالٰی جل جلالہ کو بھی ایسا ہی طرزِ عمل اور کردار پسند ہے۔ جو با ایمان انسانوں کو شخصیت و مقام دینے اور ان کی تعظیم و تکریم کرنے کا بہترین نمونہ ہے۔ جیساکہ زیارت ِ اربعین میں ذکر ہوا ہے :

اشھد انک معقل المومنین ؛  میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ مومنین کیلئے حقیقی پناہ گاہ ہیں۔

(شیخ عباس قمی ، مفاتیح الجنان، زیارتِ اربعین)

7۔ عبودیت و بندگی

          عبادات کو انجام دینے  اور دینی رسومات کی ادائیگی میں پوری توجہ اور انہماک   بالخصوص  اول وقت نماز کی ادائیگی کا خیال رکھنا  چاہیئے۔  زیارتِ اربعین میں پڑھتے ہیں۔

السلام علی صفی اللہ و ابن صفیہ  ؛ پسندیدہ اوراس پسندیدہ کے فرزند پرہمارا  سلام ہو۔

(شیخ عباس قمی ، مفاتیح الجنان، زیارتِ اربعین)

            امام حسین علیہ السلام اللہ تعالٰی جل جلالہ کے خالص عبادت گذار ہیں ۔  امام حسین علیہ السلام او آپ کے باوفا اصحاب و انصار کی ایک ممتاز صفت وخصوصیت یہی عبودیت و بندگی ہے۔

امام حسین علیہ السلام کے ان بلند مرتبہ مقامات اور  اعلٰی مقام ومنزلت کا راز بھی آپ علیہ السلام کی عبودیت و بندگی اور اللہ تعالی جل جلالہ کی رضا و خشنودی کےسامنے آپ کا مکمل طورسر تسلیم خم ہوناہے۔  عاشوراء کے دن ظہر کے وقت میدانِ کارِزار میں تیروں کی بارش کے سایہ میں نماز کو اولِ وقت میں بجالانا۔ امام حسین  علیہ السلام کے اس عمل کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے پیروکاروں اور حسینیوں  اور زائروں کو بھی چاہیئے کہ وہ اپنی تمام عبادات کو ہر طرح کے حالات میں  بھرپور  اہمیت دیں۔ خاص طور پر نماز کو پوری اہمیت دیتے ہوئے اسے اولِ وقت میں بجا لائیں۔جیسا کہ امام حسین علیہ السلام کے تمام زائرین اور عاشقانِ ھسینی جو نزدیک یا دور سے امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرتے اور پڑھتے ہیں ۔ وہ سب  اس بات کی گواہی دیتے ہیں :

اشھد انک قد اقمت الصلاۃ وآتیت الزکاۃ و امرت بالمعروف و نھیت عن المنکر ؛ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے میدانِِ کربلا میں نماز قائم کرکے اسے  ہمیشہ کیلئے زندہ کردیا ہے اور آپ نے زکات ادا کردی ہے اورامربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دے دیا ہے ۔

(محمدبن یعقوب کلینی، الکافی ، جلد4،ص574)

 8۔ حقوق الناس کا خیال رکھنا

امام حسین علیہ السلام یقینا جانتے تھے کہ آپ  کی اولاد، اعزاء و اقرباء اوراصحاب و انصار  روزِ عاشور شہید ہوجائیں گے ۔ اسی لیئے اپنے ایک صحابی سے فرماتے ہیں کہ:

اپنی سواری پر سوار ہوجائو اور بلند آواز سے اعلان کردو کہ جس کسی کے ذمہ حق الناس ہے وہ ہمارے ساتھ نہ آئے۔  میں تمہارے خون کی ذمہ داری تو لے سکتا ہوں لیکن لوگوں کے وہ حقوق جو تمہارے ذمہ ہیں ان کو میں اپنے ذمہ نہیں لے سکتا ہوں۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے بھی اسی مطلب کی تاکید فرمائی ہے۔

(آغا حسین بروجردی، منابع فقہ شیعہ ، ترجمہ جامع احادیث الشیعہ، جلد30 ، ص 575)

9۔ غیرت اورعفت  کی حفاظت کرنا

امام حسین علیہ السلام تمام تر مشکلات و خطرات کے باوجود کربلا تشریف لائے تاکہ عصمت اور عفت وپاکدامنی کورہتی دنیا تک زندہ و پایندہ رکھیں۔ہمیں چاہیئے کہ اپنے گھر اور معاشرے میں بالخصوص اپنی خواتین اور بچوں کیلئے شرم و حیا اور عفت و پاکدامنی کے فضائل بیان کرتے رہیں ۔ ان کا خاص خیال رکھیں  ۔ اِن صفات کو کمرنگ اورختم ہونے سے بچائیں۔ اما م حسین علیہ السلام کے زائرین  میں اخلاقی فساد ، بے حیائی اور بے عفتی اور بے غیرتی  و بے راہ روی وغیرہ بالکل نہیں ہونا چاہیئے ۔ کیونکہ امام حسین علیہ السلام حیا کا مجسم پیکر ہیں۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی شخص اپنے آپ کو اپنے مولا اور آقا امام حسین علیہ السلام کا مریداور محب کہے ،  امام حسین علیہ السلام کا حقیقی اور سچا  زائر سمجھے  اور خو دبے حیا اور بے غیرت ہو یا اسکے گھر میں اسکی بیوی یا بچے وغیرہ بے حیا ہوں ۔ کیونکہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

لو کان الحیاء صورۃ لکان الحسین ؛  اگر حیاء انسانی جسم کی صورت میں ہوتا تو وہ حسین علیہ السلام ہوتا۔

(ابن شاذان ، مئہ منقبۃ من مناقب امیرالمومنین والآئمۃ ، ص 136)

10۔ زیارتِ اربعین میں سلام کے حقیقی معانی پر خصوصی توجہ کرنا

سلام کا مطلب ہے آرامش خاطر ، سکون ، امن و سلامتی وغیرہ۔ جب زائر اپنے مظلوم مولا حسین علیہ السلام کی بارگاہ زیارت پڑھتا ہے اور اپناسلام بھیجتا ہے تووہ حقیقت میں اس بات کا اظہار اور اقرار کر رہا ہوتا ہے کہ میری طرف سےامام عالیمقام علیہ السلام کو کسی بھی  طرح کی تکلیف نہیں ہوگی۔ میری طرف سے امام عالیمقام علیہ السلام کیلئے امن و سلامتی کا پیغام ہے۔یعنی جب وہ سلام کررہا ہوتا ہے توایک طرح وہ اپنے امام عالیمقام علیہ السلام سے یہ عہد  اور وعدہ کررہا ہوتا ہے کہ :

اے میرے مولا ؛ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میری طرف سے ایسا کوئی کام سرزد نہیں ہوگا کہ جس کی وجہ سے آپ کو اذیت ہو اور تکلیف پہنچے ۔ جس کی وجہ سے آپ  کی مبارک  آنکھوں میں آنسو آئیں ۔لہذا امام حسین علیہ السلام کے  زائر ین کو چاہیئے کہ وہ اللہ تعالی جل جلالہ کی معصیت و نافرمانی  نہ کریں ۔ اپنے کو  اللہ تعالٰی کے دستورات سے سرپیچی کرنے ، حکمِ الٰہی  سے روگردانی اور اس کی مخالفت کرنے ،  اور بداخلاقی و بد کرداری سے بچانے کی ہرممکنہ کوشش کریں  ۔ ایسے سب کاموں سے اجتناب کریں جو اللہ تعالٰی جل جلالہ کی نافرمانی اور معصومین علیہم السلام کی ناراضگی  کا باعث بنیں۔کیونکہ امام حسین علیہ السلام کے زائرین  اور معصومین علیہم السلام کے شیعوں کابدکردار و نافرمان ہونا ، آپ علیہم السلام کیلئے تکلیف اور ان کی ناراضگی کاسبب بنتا ہے کہ جو سلام کے حقیقی معانی کے برخلاف ہے۔ لیکن اگر خدانخواستہ امام حسین علیہ السلام کے  زائرین میں سے کسی زائر سے گناہ و معصیت سرزد ہوبھی جائے  تو انہیں چاہیئے کہ پہلے  وہ اپنے دل کو توبہ و ندامت  کے آنسووں سے پاک و صاف کریں اور  پھر امام عالیمقام علیہ السلام کے حضور خلوصِ دل کے ساتھ یوں عقیدت بھرا  ہدیہ سلام پیش کریں۔

السلام علی الحسین و علٰی علی بن الحسین

 و علٰی اولاد الحسین و علٰی اصحاب الحسین علیہم السلام

 

دعاگو ہیں کہ اللہ تعالٰی جل جلالہ بحق محمد وآل محمد علیہم السلام منتقمِ خونِ حسینی کے ظہور پر نور میں تعجیل فرمائے۔ ہماراشمار ان کے اصحاب و انصار میں فرمائے۔ ہمیں صحیح معنوں میں ان مذکورہ صفات سے مزین ہونے کی توفیق عنایت فرمائے۔ ہمیں  اس دنیا میں معصومین علیہم السلام کی حقیقی معرفت و اطاعت ، مرتے دم ان کی زیارت اور قبر و حشر و تمام اُخروی مناز ل میں ان کا جوار و شفاعت نصیب فرمائے۔ دنیا کے گوشہ و کنار میں جہاں کہیں بھی عزاداران ِسید الشہداء پرسہ کے حقیقی وارث کی بارگاہ میں اپنا پرسہ پیش کررہے ہیں، ان سب کو اپنی حفظ و امان میں فرمائے اوران سب کا شمار مظلوم امام حسین علیہ السلام کے عزاداروں اور زائروں میں سے فرمائے۔ سب کو بار بار مقامات مقدسہ کی قریب سے زیارت کا شرف  اور اجر عظیم عطا فرمائے۔

 الٰہی آمین یا رب العالمین بحق سیدۃ النساء العالمین علیہا السلام

 

رُکنے نہ پائیں یہ قدم  ؛  حی علٰی خیرالعمل

بڑھتے رہیں یونہی قدم  ؛ حی علٰی خیرالعمل

 

محتاج دعا

ڈاکٹرقاضی فیاض حسین علوی

Qazifayaz5@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button