نہج البلاغہ مقالات

نہج البلاغہ کا تعارف

نہج البلاغہ کا تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ سبحانہ و تعالی  نے انسان کو خلقت سے نوازااور ارشاد فرمایا’’  ہم نے انسان کو بہترین  صورت اور بہترین نظام میں پیدا کیا‘‘(التین:۴)۔

کائنات کی ہر شی اس کی سہولت کے لئے پیدا کی اور خطاب فرمایا’’وہ خدا جس نے زمین کی تمام نعمتوں کو تمہارے لئے پیدا کیا‘‘(البقرہ:۲۹)

انسان کی آمد کا مقصد اپنی بندگی  کو قرار دیا اور فرمایا’’میں نے جنوں اور نسانوں کو پیدا نہیں کیا مگر اس لئے کہ وہ میری عبادت کریں‘‘(ذاریات:۵۶)اس کریم نے اپنی بندگی کے طریقے سکھانے کے لئے اپنے نمائندوں کو متعین کیا اور فرمایا’’اور ہر گروہ کے لئے ہدایت کرنے والا ہوتا ہے‘‘(رعد:۷)

سورہ رعد کی اس آیت کے ذیل میں اکثر مفسریں نے تحریر فرمایا کہ  یہاں ہادی سے مراد امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی ذات ہے۔ فخر الدین رازی ابن عبا س سے نقل کرتے ہیں:وضع رسول اللہ یدہ علی صدرہ فقال انا المنذر ،ثم اومأ الی منکب علی و قال انت الھادی بک یھتدی المھتدون من بعدی۔

رسول اللہ ﷺ نے اپنا ہاتھ اپنے سینے پر رکھا اور فرمایا: میں منذر ہوں ۔پھر علی ؑ کے کندھے کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا آپ ہادی ہیں اور میرے بعدہدایت پانے والے  آپ کے ذریعے ہدایت پائیں گے۔۔(تفسیر کبیر فخر رازی  جلد ۱۹؃۴۱)

اس ہادی برحق کے کلمات ِ صدق کوسید رضی رضوان اللہ علیہ نے  400 ھجری میں جمع کر کے نہج البلاغہ نام رکھا اور متلاشیانِ راہ ہدایت پر احسان فرمایا ۔نہج البلاغہ کےکلمات چراغ ہدایت بن کر  بھٹکی ہوئی انسانیت کی رہنمائی فرما رہے ہیں ۔

نہج البلاغہ  قرآن مجید کی آیت ’’من عندہ علم الکتاب ‘‘(الرعد:43 )کے مصداق  علی بن ابی طالب ؑ کے بیانات ہیں ( جلال الدین سیوطی   در المنثور اور الحاکم الحسکانی  الشواہد التنزیل جیسی متععد کتب میں موجود ہے کہ یہاں عالم الکتاب سے مراد علی ؑ کے علاوہ کوئی نہیں)

نہج البلاغہ باب  العلم النبی کے فرامین کا مجموعہ ہے۔(انا مدینۃ العلم و علی بابہا ) نبی اکرم ﷺ (146 حوالہ جات عبقات الانوار میں اس حدیث کے درج ہیں)

نہج البلاغہ  ھم کنوز الرحمن  (آل محمد  وہ اللہ کے خزینے ہیں)کے  موتیوں کی تقسیم ہے۔( نہج البلاغہ:خطبہ۱۵۲)

نہج البلاغہ اشم ریح النبوۃ(میں نبوت کی خوشبو سونگھتا تھا) کی خوشبو ہے(خطبہ ۱۹۰)

نہج البلاغہ ولی اللہ کی عبا داللہ کو دعوت الی اللہ ہے۔

نہج البلاغہ علی مع الحق کے حق سے محرومی کے نوحے ہیں۔

نہج البلاغہ امام مظلوم کے اپنوں کی بے وفائی کے مرثیے ہیں۔

نہج البلاغہ  ابن ملجم کی ضرب کھا کر فزت و رب الکعبہ کہنے والے کے بتلائے ہوئے کامیابی کے اصول ہیں۔

نہج البلاغہ ترجمان القرآن  کی بتائی ہوئی تفسیر قرآن ہے۔

نہج البلاغہ بندگان ِ الہی کو راہِ خدا کی طرف ہدایت ہے۔

نہج البلاغہ کی اپنے پیاروں مالک  اشتر و حار ث ہمدانی و سلمان فارسی و ابوذر غفاری   و حسن مجتبیٰ سے گفتگو ہے۔

نہج البلاغہ میدان کارزار سے شیر ِ خدا کی گرج ہے۔

نہج البلاغہ سیاست علوی کے اصول سیاست ہیں۔

نہج البلاغہ خدا کے حضور حاضر ہونے کے ڈھنگ ہیں

نہج البلاغہ سلونی کے مالک کی  ’’مجھ سے پوچھ لو‘‘ کی پکار ہے۔

نہج البلاغہ  علم لدنی کے مالک کے علم کے دریا کی روانی ہے۔

نہج البلاغہ حمد خدا کا سلیقہ ہے۔

نہج البلاغہ عظمت ِ مصطفیﷺ کے بیان کا طریقہ ہے۔

نہج البلاغہ امیر المؤمنین کی معرفت کی چوکھٹ ہے۔

نہج البلاغہ علی ؑ کی اپنی طرف بلانے کی صدائیں ہیں۔

نہج البلاغہ کلام امام سے ذات امام تک پہنچنے کا وسیلہ ہے۔

نہج البلاغہ  دنیا کی  حقیتقت اور بے وفائی کا تذکرہ ہے۔

نہج البلاغہ آخرت  و عاقبت کا توشہ ہے۔

نہج البلاغہ اس ہادی برحق کا اعلان  عام ہے کہ کل بھی ہم سے آپ کو ہدایت ملی اور آج اور آئندہ بھی ہم سے ہدایت پاؤ گے ۔

امام فرماتے ہیں’’ ہماری وجہ سے تم نے  (گمراہیوں) کی تیرگی میں ہدایت پائی اور رفعت و بلندی کی چوٹیوں پر قدم رکھا، اور ہمارے سبب سے اندھیری راتوں    کی تاریکیوںسےصبح ہدایت کے اجالوں میں آگئے۔وہ کان بہرے ہو جائیں جو چلانے والے کی چیخ پکار کو نہ سنیں،بھلا وہ کیونکر میری کمزور اور دھیمی آواز کو سن پائیں گے جو اللہ و رسول کی بلند بانگ صداؤں کے سننے سے بھی بہرے رہ چکے ہوں۔۔۔الیوم انطق لکم العجماء ذات البیان  آج میں نے اپنی اس خاموش زبان کو گویا کیا جس میں بیان کی بڑی قوت ہے۔( نہج البلاغہ:خطبہ ۴)

ہاں !نہج البلاغہ نہ ہر سینے میں سما سکتا ہے اور نہ عام ذھن کو سمجھ آسکتا ہے ۔صاحب نہج البلاغہ خود فرماتے ہیں ’’بلا شبہ ہمارا معاملہ ایک مشکل اور دشوار امر ہے جس کا متحمل وہی بندہ ٔ ِ مومن  ہو گا کہ جس کے دل کو اللہ نے ایمان  کے لئے پرکھ لیا ہو،اور ہمارے قول و حدیث کو صرف امانت دار سینے اور ٹھوس عقلیں ہی محفوظ رکھ سکتی ہیں ۔اے لوگو مجھے کھو دینے سے پہلے مجھ سے پوچھ لو ۔میں زمین کی راہوں سے زیادہ آسمان کے راستوں سے واقف ہوں‘‘۔(نہج البلاغہ:خطبہ ۱۸۷)

جناب امیر المؤمنین ؑ ارشاد فرماتے ہیں’’و انا لامراء الکلام ‘‘  ہم اقلیم سخن کے فرمانروا  ہیں۔(خطبہ ۲۳۰)

اس امیر کلام کے فرامین مقدس سے ہم نے کیا برتا  ؤ    کیا ۔اس بارے میں نہج البلاغہ پر اس دور میں بہت کام کرنے والی شخصیت  جناب استاد محمد دشتی  مرحوم ،جنہوں نے نہج البلاغہ کے ایک ایک لفظ پر غور کر کے  معجم المفھرس لالفاظ ِ نھج البلاغہ لکھی  جو ہر صاحب مطالعہ کی لائبریری کا حصہ بنی ، فرماتے ہیں’’میں اپنی تعلیم کے ا بتدائی ایام میں  جب نھج البلاغہ  کے ترجموں کو پڑھا کرتا تھا تو  ان میں موجود کمزوریوں کو دیکھ کر پریشان ہوتا اور اس کے راہِ حل کے متعلق سوچتا تھا کہ اچانک لبنان کے عربی ادبیات کے  ایک عیسائی استاد جورج جورداق کی ایک تحریر پڑھی   جس میں اس نے یہ اعتراف کیا کہ ’’کلمات امام علی ؑ کی کشش نے میرے اندر ایک ہیجان پیدا کیا اور میں نے ۲۰۰ بار نھج البلاغہ کا مطالعہ کیا‘‘۔

استاد محمد دشتی لکھتے ہیں ’’میں ان الفاظ کو پڑھ کر کانپ اٹھا اور میرے اعتقادی  فخر  وغرورکو  سخت ٹھیس لگی اور  کافی مدت تک میں بے حال رہا۔اپنے آپ  کو ملامت کی کہ ایک عیسائ  تو ۲۰۰ بار نھج البلاغہ کو پڑھتا ہے اور میں  نے جو اپنے آپ کو امام علیؑ کا شیعہ شمار کرتا ہوں اور امام سے محبت و ولایت کا دم بھرتا ہوں  نھج البلاغہ کو کتنی بار پڑھا ہے؟مجھے اس کے قیمتی مفاہیم کی کتنی  پہچان ہے؟ہم جو شیعہ گھرانے میں ،شیعہ ماں باپ سے ،شیعہ ملک میں پیدا ہوئے ہیں  کیوں نہج البلاغہ سے بے گانے رہیں؟(ترجمہ نھج البلاغہ :استاد محمد دشتی ؃۹)

اہل سنت کے مشہور عالم  ابن ابی الحدیدجنہوں نے ۲۰ جلدوں میں نھج البلاغہ کی بہترین شرح لکھی،جلد۱۱ ؃۱۵۳ پر لکھتے ہیں’’میں اس شخص کے بارے میں حیران ہوں کہ میدا ن ِ جنگ میں یوں خطبہ پڑھتا ہے گویا شیر کی سی اس کی طبیعت ہے اور اسی میدان میں جب موعظہ و پند و نصیحت فرماتا ہے  تو یوں گفتگو فرماتا ہے جیسےایک راھب   طبیعت اپنا راھبانہ لباس پہنے  اپنے مندر میں  زندگی گزار رہا ہے جس نے  کبھی کسی حیوان کا خون بھی نہیں بہایا بلکہ کسی حیوان کا گوشت بھی نہیں کھایا۔کبھی دور جاہلیت کے ان  تین بہادروں  بسطام بن قیس،عتیبہ بن حارث اور عامر بن الطفیل کے روپ  میں سامنے آتا ہے جن کے نام بہادری کی مثال تھے اور کبھی  سقراط حکیم ،یوحنا اور عیسی بن مریم کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

ابن ابی الحدید خطبہ نمبر۲۱۸ جو سورہ تکاثر کی تفسیر میں بیان ہوا ہےکی شرح میں لکھتے ہیں ’’گذشتہ پچاس سالوں میں اس خطبہ کو میں نے ایک ہزار بار پڑھا ہے‘‘

نھج البلاغہ کے متعلق کیا کہا گیا ہے اور کیا لکھا گیا ہے یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کے بارے  میں علما ءنے بہت ساری کتابیں تحریر فرمائی ہیں اور اس موضوع پر جناب رضا استادی کی کتاب ’’کتابنامۂ   نھج البلاغہ ‘‘  بہت مفید معلومات پر مبنی ہے۔عربی اور فارسی میں نھج البلاغہ پر کافی کام ہو چکا ہے اور ہو رہا ہے۔مصادر و مدارک نھج البلاغہ پر درج ذیل کتب عام مہیا ہیں

مدارک نھج البلاغہ: ھادی آل کاشف الغطاء

مصادر نھج البلاغہ و اسانیدہ :سید عبد الزھراء حسینی ۴  جلدیں

اسناد و مدارک نھج البلاغہ: استاد محمد دشتی

اسناد نھج البلاغہ  :امتیاز علی خان عرشی ہندوستان

نھج السعادۃ فی مستدرک نھج البلاغہ محمد باقر محمودی ۸ جلدیں

تمام نھج البلاغہ: سید صادق الموسوی

کلام جناب امیر المؤمنین خود امام کی زندگی میں ہی جمع کر لیا گیا تھا ۔ظاہراسب سے پہلے  ان خطبات کو امام کے ساتھی جناب حارث اعور ھمدانی نے جمع کیا ۔ شیخ یعقوب کلینی ؒ نے اصول کافی جلد ۱ ؃۱۴۱ پر اور شیخ صدوق ؒ نے کتاب التوحید ؃۱۳ پر ابو اسحاق سبیعی کی سند سے اور انہوں نے حارث اعور ھمدانی کے حوالے سے روایت کی ہے کہ ’’امیر امؤمنین نے ایک دن نماز عصر کے بعد ایک فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا ۔لوگوں کو اس خطبے سے بڑا تعجب ہوا ۔ابو اسحاق کہتے ہیں میں نے حارث سے پوچھا آیا اس خطبہ کو آپ نے حفظ کیا ہے؟ حارث نے جواب دیا میں نے اسے لکھ لیا ہے ۔ابو اسحاق کہتے ہیں پھر حارث نے وہ خطبہ اپنی کتاب سے مجھے سنایا‘‘

سید عبد الزھراء الحسینی نے اپنی کتا ب ’’مصادر نھج البلاغہ  و اسانیدہ ‘‘میں  ۱۱۴ کتابوں کے حوالوں سے نھج البلاغہ کی عبارتوں کو پیش کیا ہے ان میں سے بیس کتابیں سید رضی ؒ سے پہلے زمانے کی ہیں ۔

مولانا سید ذیشان حیدر جوادی مرحوم نے نھج البلاغہ کے  اپنے اردو ترجمے  کے مقدمے میں ان کتابوں کی تفصیل لکھی ہے اور ہر خطبہ اور خطوط کے شروع میں ان حوالوں کو درج کیا ہے۔

نھج البلاغہ پر عیسائ مفکرین کے قلم اٹھایا ،دیگر مذاھب کے  دانشمندوں نے تحریریں پیش کیں ،اہل سنت علماء کی بہت بڑی تعداد نے اس کلام کو سراہا اور شرحیں لکھیں اور شیعہ علماع نے اس میراث کو اجاگر کرنے کے لئے بہت محنت کی ۔عربی و فارسی میں اس سے متعلق ہزاروں کتب لکھی گئیں،سینکڑوں شرحیں اور تحقیقی مقالے لکھے گئے۔درجنوں ترجمے ہوئے۔بنیاد نھج البلاغہ کے نام سے بہت ہی ؑظیم ادارہ قائم کیا گیا جس نے نھج البلاغہ پر کانفرسیں کرائیں اور عظیم علما سے مقالے لکھوائے۔حوزہ علمیہ قم اور حوزہ علمیہ اصفہان کی طرف سے سینکڑوں کتابوں پر مشتمل سی ڈیز تیار کی گئیں،۔نھج البلاغہ کے نام سے کئی ویب سائٹ موجود ہیں ۔درجنوں ادارے نھج البلاغہ کے حفظ کا اہتمام کئے ہوئے ہیں اور بڑی تعداد میں حافظان نھج البلاغہ موجود ہیں۔ نھج البلاغہ کا فارسی میں منظوم ترجمہ بھی موجود ہے اور شعراء کا نھج البلاغہ کتا ب کے بارے میں کافی کلام موجود ہے اور اس کے مفاہیم کو اشعار میں پیش کرنے والے شعراء کی ایک طویل فہرست موجود ہے۔

اردو میں  اس موضوع پر اس حد تک کام نہیں ہوا جتنا ہونا چاہئے تھا مگر پھر بھی کئی اردو ترجمے موجود ہیں ۔نھج البلاغہ کی اسناد سے متعلق کتب تحریر کی گئی ہیں ۔اس کتابچے  میں ہم نھج البلاغہ کی اہمیت و عظمت پر لکھی گئی انتہائی علمی تحریر پیش کر رہے ہیں ۔برصغیر کی معروف علمی شخصیت علامہ سید علی نقی نقن اعل اللہ مقامہ نے علامہ مفید جعفر حسین مرحوم کے نھج البلاغہ کے اردو ترجمے کے مقدمے کے طور پر لکھی تھی۔یہ تحریر ۴ جمادی الثانی  ۱۳۷۵؁ ھج میں لکھی گئی تھی اور  مجمع اہل بیت برطانیہ کی طرف سے شائع ہونے والے سہ ماہی میگزین ’’ثقلین ‘‘نے نئی ترتیب سے اسے قسطوں میں شائع کیا ۔ہم ثقلین کی انتظامیہ کی اجازت سے قومی استفادے کے لئے اسے الگ چھپوا رہے ہیں۔

اس تحریر سے قوم کے تعلیم یافتہ افراد کو نھج البلاغہ جیسے عظیم سرمائے سے آشنا کرنا مقصود ہے اور امید رکھتے ہیں کہ ہم کلام امام علیہ السلام کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا کر محبت امام کا عملی ثبوت پیش کر سکتے ہیں۔

مرکز افکارِ اسلامی چند سالوں سے مختلف پروگراموں کے ذریعہ قم ،نجف ،مشہد ،شام   ، انگلینڈ اور پاکستان میں امام  مظلوم کے  غریب کلام کو محبان امام تک پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے ۔الحمد للہ  سینکڑوں مقالے درجنوں مو ضعوات پر لکھے گئے اور کئی کتابیں چھپ چکی ہیں ۔نھج البلاغہ میں سے سوالات ترتیب طے کر کئی انعامی مقابلے کرائے جا چکے ہیں جس میں ہزاروں افراد شرکت فرماچکے ہیں۔

امام علیہ السلام کا کلام کسی زمانے  اور زمین سے مخصوص نہیں بلکہ ہر ایک کے لئے ہے اور امام نے اپنی آخری وصیت میں اپنے بیٹوں امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کو فرمایا تھا ’’میں آپ کو،اپنی تمام اولاد کو،اپنے کنبہ کو اور جن تک میری یہ تحریر پہنچے سب کو وصیت کرتا ہوں۔۔۔‘‘   (       نھج البلاغہ وصیت ۴۷)

نھج البلاغہ امیر المؤمنین ؑ کے کلام کا ایک مختصر حصہ ہے جسے سید رضی ؒ نے جمع کیا ۔اس مختصر کلام میں امام علیہ السلام کبھی ہمام کو تو کبھی مالک اشتر کو،کبھی محمد بن ابی بکر کو تو کبھی عثمان بن حنیف کو ،کبھی سلمان فارسی کو تو کبھی ابوذر کو،کبھی حارث ہمدانی کو تو کبھی نوف بکالی کو مخطب ہوتے ہیں ۔وہ خطاب اس زمانے کے علی علیہ السلام کے پیاروں کے لئے مخصوص نہیں تھے بلکہ آج کے ہر مومن  سےبھی امام کی وہی  تمنا ہے جو اس وقت تھی۔

آئیں اس کلام سے خود آشنا ہوں اس پر عمل کر کے امام علیہ السلام کی روح کی تسکین کا سبب بنیں ۔ان گہر بے بہا کی حفاظت کریں اور ایسے اصولوں کی پیاس رکھنے والوں کو اس سے سیراب کریں۔ ہم اس کتابچے کے آخر میں امام علیہ السلام کی اپنے پیارے صحابی حارث ہمدانی کو  وصیت درج کر رہے ہیں تاکہ کلام امام علیہ السلام کا ایک نمونہ ہمارے سامنے رہے۔

آخر میں ہدیہ کے طور پر کلام امام  پیش خدمت ہے۔’’اگر تم دیکھو ،تو تمھیں دکھایا جا چکا ہے اور اگر تم ہدایت حاصل کر و تو تمہیں ہدایت کی جا چکی ہے اور اگر سننس چاہو تو تمہیں سنایا جا چکا ہے۔(کلمات قصار:۱۵۷)

والسلام علی من اتبع الھدی

تأ لیف: سید العلماء علامہ علی نقی نقوی(نقن) ؒ

ترتیب :مولانا لیاقت علی اعوان

ناشر:مرکزِ افکار اسلامی پاکستان

پوسٹ بکس ۶۲۱ راولپنڈی

Email:afkareislami@yahoo.com

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button