مقالات

دشمن سے برتاؤ

دشمن سے برتاؤ

إِذَا قَدَرْتَ عَلَى عَدُوِّكَ فَاجْعَلِ الْعَفْوَ عَنْهُ شُكْراً لِلْقُدْرَةِ عَلَيْهِ (حکمت:۱۰)

ترجمہ: دشمن پر قابو پاؤ تو اس قابو پانے کا شکرانہ اس کو معاف کر دینا قرار دو۔

مفتی جعفر حسین صاحب اس حکمت کے ذیل میں لکھتے ہیں:

عفو و درگزر کا محل وہی ہوتا ہے جہاں انتقام پر قدرت ہو ،اور جہاں قدرت ہی نہ ہو وہاں انتقام سے ہاتھ اٹھا لینا ہی مجبوری کا نتیجہ ہوتا ہے جس پر کوئی فضیلت مرتب نہیں ہوتی۔البتہ قدرت و اقتدار کے ہوتے ہوئے عفو درگذر سے کام لینا فضیلت انسانی کا جوہر اور اللہ کی اس بخشی ہوئی نعمت کے مقابلہ میں اظہار شکر ہے۔کیونکہ شکر کا جذبہ اس کا مقتضی ہو تا ہے کہ انسان اللہ کے سامنے تذلل و انکساری سے جھکے جس سے اس کے دل میں رحم و رافت کے لطیف جذبات پیدا ہوں گے اور غیظ و غضب کے بھڑکتے ہوئے شعلے ٹھنڈے پڑ جائیں گے جس کے بعد انتقام کا کوئی داعی ہی نہ رہے گا کہ وہ اس قوت و قدرت کو ٹھیک ٹھیک کام میں لانے کی بجائے اپنے غضب کے فرو کر نے کا ذریعہ قرار دے۔

اللہ والوں کا دشمنی و زیادتی کرنے والوں سے برتاؤ اوراق تاریخ کی زینت بنا ہوا ہے۔جناب یوسفؑ کے ساتھ بے شمار زیادتیاں کرنے والے بھائی جب مجبور ہو کر آپ کے پاس آتے ہیں اور عذر پیش کرنا چاہتے ہیں’’انہوں نے کہا :خدا کی قسم!خدا نے تجھے ہم پر مقدم رکھا اور ہم خطا کار تھے۔اُس نے کہا:آج تم پر کوئی ملامت و سرزنش نہیں ہے،خدا تمہیں بخشے اور وہ ارحم الراحمین ہے‘‘(یوسف:۹۱۔۹۲)

خدا وند متعال نے جناب ِیوسفؑ پر احسان کیا اور تمام امتحانات سے کامیابی سے ہمکنار فرمایا۔بھائی آپ سے شرمندہ تھے وہ یوسف ؑ کے چہرے کی طرف نظر بھر کے نہیں دیکھ پا رہے تھے شاید سوچ رہے ہوں کہ اب ہم سے انتقام لیا جائے گا مگر اللہ والے نے اپنی کامیابی و کامرانی کا شکرانہ ادا کرتے ہوئے فرمایا۔ آج کوئی سرزنش و توبیخ نہیں ہو گی بلکہ خدا کی رحمت کی تسلیاں دیں۔

جناب یوسفؑ کو اس بات سے تکلیف ہوتی تھی کہ ان کے بھائی گذشتہ واقعات کو یاد کریں اور پریشان و غمزدہ ہوں اور شرمندگی محسوس کریں۔

فخر یوسف نبی اکرم محمد مصطفیﷺ فتحِ مکہ کے روز جب شہر میں داخل ہوئے تو اپنے پرائے سب سوچ رہے تھے کہ آج انتقام کا دن ہے تو حبیبِ خدا نے فرمایا:میں تمہارے بارے میں وہی کچھ کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسفؑ نے اپنے بھائیوں کے بارے میں کامیابی کے وقت کہا تھا،آج تمہارے لئے رازِ ملامت و سرزنش نہیں ہے۔تمہارے لئے رحمت ہے۔

وہی قریشی جنہوں نے نبی ؐ کے پیاروں کے جگر نکال کر چبا ڈالے تھے انہیں فرما رہے تھے جاؤ ہم نے آپ کو آزاد کر دیا۔

زہر میں بجھی ہوئی تلوار کا وار کھا کر اپنے قاتل کے لئے سفارش کرنے والے کریم علی ؑ زندگی کا عجیب اصول بتا رہے ہیں۔فرمایا:دشمن پر قابو پاؤ،تو اِس قدرت و طاقت کے شکرانے کے طور پر دشمن کو معاف کر دیں۔

ہاں! علیؑ اپنے پیاروں سے ایسی زندگی چاہتے ہیں جہاں دشمن سے بھی ایسا برتاؤ ہو۔ اب اپنوں کے ساتھ کیسا تعلق امام ؑ دیکھنا چاہتے ہیں اسے اپنے مقام پر درج کیا جائے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button