شمع زندگیھوم پیج

29۔ برائی سے روکنا

وَ اِنْهَوْا غَيْرَكُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تَنَاهَوْا عَنْهُ فَاِنَّمَا اُمِرْتُمْ بِالنَّهْيِ بَعْدَ التَّنَاهِي۔ (نہج البلاغہ خطبہ۱۰۳)
دوسروں کو برائیوں سے روکو اور خود بھی رکے رہو، اس لیے تمھیں برائیوں سے رکنے کا حکم پہلے ہے اور دوسروں کو روکنے کا بعد میں ہے۔

انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ کسی کو تکلیف میں دیکھے تو اسے تکلیف ہوتی ہے۔ کسی راہ پر اگر دردندہ بیٹھا دیکھے تو اس طرف جانے والوں کو روکے گا۔ دریا میں طغیانی ہے اور ڈوب جانے کا خوف ہے تو اس جانب بڑھنے والوں کو خطرے سے آگاہ کرے گا۔ اس انداز میں روکنا حقیقت میں دوسروں کی بھلائی اور خطرے سے بچانا ہے۔ اخلاقیات میں بھی یہی پسندیدہ روش ہے کہ آپ کسی عمل کی کمزوری سے آگاہ ہیں مثلاً جھوٹ کی برائی سے آپ واقف ہیں، اب کوئی جھوٹ بولے گا تو اسے سمجھائیں گے۔ اس روکنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عقل کا تقاضا ہے کہ دوسرے کو نقصان سے بچائیں۔

امیرالمؤمنینؑ یہاں انسان کو ایک فریضے کے طور پر یاد دلا رہے ہیں کہ کوئی شخص جہالت و نادانی کی وجہ سے یا غفلت کی بنا پر غلطی کر رہا ہے تو آپ یہ مت سوچیں کہ مجھے کیا ہے بلکہ اسے سمجھانا بھی آپ کی ایک ذمہ داری ہے۔ البتہ اس سمجھانے کا اثر تب ہوگا جب آپ خود اس برائی سے دور رہیں گے۔ یعنی دوسروں کی اصلاح کریں مگر دوسروں کی اصلاح تب آسان ہوگی جب آپ پہلے اپنی اصلاح کریں گے۔ لوگ کہنے سے زیادہ کرنے کو دیکھتے ہیں۔

جس راہ پر کسی درندے کی موجودگی کی خبر آپ دے کر دوسروں کو ادھر جانے سے روک رہے ہیں اگر خود ادھر ہی جا رہے ہیں تو لوگ آپ کو جھوٹا سمجھیں گے یا دیوانہ۔ اس لئے جسے آپ دوسروں کے لیے بہتر نہیں سمجھتے اسے خود بھی ترک کریں۔ اس امر کی تاکید کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ آپ دوسروں کو روکیں مگر یاد رکھیں کہ دوسروں کو روکنے کا حکم آپ کے لیے بعد میں دیا گیا ہے اور خود رکنے کا حکم پہلے ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button