شمع زندگی

322۔ بڑی دولت مندی

اَلْغِنَى الْاَكْبَرُ الْيَاْسُ عَمَّا فِىْ اَيْدِى النَّاسِ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۳۴۲)
سب سے بڑ ی دولت مندی یہ ہے کہ دوسروں کے ہاتھوں میں جو ہے اُس کی آس نہ رکھی جائے۔

انسان کی عظمت و فضیلت کی حفاظت کا یہ بہترین نسخہ و اصول ہے۔ جس کی نظر دوسروں کے مال و دولت پر ہوتی ہے وہ کبھی سیر نہیں ہوتا اور اگر پوری دنیا بھی اسے دے دی جائے تو آنکھوں کی حرص اسے مطمئن نہیں بیٹھنے دیتی۔ ایسے لوگ سب کچھ ہونے کے با وجود بخل کی وجہ سے کسی کو کچھ نہیں دیتے بلکہ کبھی تو خود بھی جی بھر کر اس دولت سے مستفید نہیں ہوتے۔ مزید کی یوں لالچ کرتے ہیں جیسے ان کے پاس کچھ ہے ہی نہیں۔

اس کے برعکس وہ لوگ جن کے پاس اپنا مختصر سا مال ہے وہ اپنی سادہ زندگی پر مطمئن ہوتے ہیں۔ اور جو کچھ ان کے پاس ہے اس میں سے دوسروں کو بھی کھلاتے ہیں، یوں حریص بہت کچھ ہونے کے با وجود فقیر ہوتا ہے اور فقیر کچھ نہ ہونے کے با وجود ذہنی طور پر پر امید ہوتا ہے۔ جہاں انسان غربت کے باوجود دوسروں کی دولت کی طرف مڑ کر نہیں دیکھتا اور یہ سمجھتا ہے کہ فقر و فاقہ جسم کی کمزوری کا سبب ہوتا ہے مگر کسی کی طرف حرص سے دیکھنا نفس میں ذلت و حقارت کا احساس پیدا کرتا ہے تو وہ جسم کے فاقہ کو دوسروں کی طرف حرص سے دیکھنے یا دست سوال دراز کرنے پر ترجیح دیتا ہے۔

اس فرمان کا مفہوم یہ ہوا کہ سب سے بڑا دولت مند وہ ہے جو لوگوں کے ہاتھوں کے بجائے اللہ کے وعدوں پر بھروسا کرتا ہے اور اللہ کا دیا ہوا جو اس کے پاس ہے وہی سب سے بڑا سرمایہ ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button