صحیفہ کاملہ

3۔ حاملان عرش پر درود و صلوۃ

(۳) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ

فِی الصَّلٰوةِ عَلٰى حَمَلَةِ الْعَرْشِ وَ كُلِّ مَلَكٍ مُّقَرَّبٍ:

حاملان عرش اور دوسرے مقرب فرشتوں پر درود و صلوٰۃ کے سلسلہ میں آپؑ کی دُعا:

اَللّٰهُمَّ وَ حَمَلَةُ عَرْشِكَ الَّذِیْنَ لَا یَفْتُرُوْنَ مِنْ تَسْبِیْحِكَ، وَ لَا یَسْاَمُوْنَ مِنْ تَقْدِیْسِكَ، وَ لَا یَسْتَحْسِرُوْنَ مِنْ عِبَادَتِكَ، وَ لَا یُؤْثِرُوْنَ التَّقْصِیْرَ عَلَى الْجِدِّ فِیْ اَمْرِكَ، وَ لَا یَغْفُلُوْنَ عَنِ الْوَلَهِ اِلَیْكَ.

اے اللہ! تیرے عرش کے اٹھانے والے فرشتے جو تیری تسبیح سے اُکتاتے نہیں، اور تیری پاکیزگی کے بیان سے تھکتے نہیں، اور نہ تیری عبادت سے خستہ و ملول ہوتے ہیں، اور نہ تیرے تعمیل امر میں سعی و کوشش کے بجائے کوتاہی برتتے ہیں،اور نہ تجھ سے لو لگانے سے غافل ہوتے ہیں۔

وَ اِسْرَافِیْلُ صَاحِبُ الصُّوْرِ، الشَّاخِصُ الَّذِیْ یَنْتَظِرُ مِنْكَ الْاِذْنَ وَ حُلُوْلَ الْاَمْرِ، فَیُنَبِّهُ بِالنَّفْخَةِ صَرْعٰى رَهَآئِنِ الْقُبُوْرِ، وَ مِیكَآئِیْلُ ذُو الْجَاهِ عِنْدَكَ، وَ الْمَكَانِ الرَّفِیْعِ مِنْ طَاعَتِكَ، وَ جِبْرِیْلُ الْاَمِیْنُ عَلٰى وَحْیِكَ، الْمُطَاعُ فِیْۤ اَهْلِ سَمٰوٰتِكَ، الْمَكِیْنُ لَدَیْكَ، الْمُقَرَّبُ عِنْدَكَ،‏ وَ الرُّوْحُ الَّذِیْ هُوَ عَلٰى مَلٰٓئِكَةِ الْحُجُبِ، وَ الرُّوْحُ الَّذِیْ هُوَ مِنْ اَمْرِكَ.

اور ’’اسرافیلؑ‘‘ صاحب صور جو نظر اٹھائے ہوئے تیری اجازت اور نفاذ حکم کے منتظر ہیں تاکہ صور پھونک کر قبروں میں پڑے ہوئے مردوں کو ہوشیار کریں، اور ’’میکائیلؑ‘‘ جو تیرے یہاں مرتبہ والے اور تیری اطاعت کی وجہ سے بلند منزلت ہیں، اور ’’جبریلؑ‘‘ جو تیری وحی کے امانتدار اور اہل آسمان جن کے مطیع و فرمانبردار ہیں اور تیری بارگاہ میں مقام بلند اور تقرب خاص رکھتے ہیں اور وہ ’’روح‘‘ جو فرشتگان حجاب پر مؤکل ہے، اور وہ ’’روح‘‘ جس کی خلقت تیرے عالم امر سے ہے۔

فَصَلِّ عَلَیْهِمْ، وَ عَلَى الْمَلٰٓئِكَةِ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهِمْ: مِنْ سُكَّانِ سَمٰوٰتِكَ، وَ اَهْلِ الْاَمَانَةِ عَلٰى رِسَالَاتِكَ، وَ الَّذِیْنَ لَا تَدْخُلُهُمْ سَاْمَةٌ مِّنْ دُءُوْبٍ، وَ لَاۤ اِعْیَآءٌ مِّنْ لُّغُوْبٍ وَّ لَا فُتُوْرٌ، وَ لَا تَشْغَلُهُمْ عَنْ تَسْبِیْحِكَ الشَّهَوَاتُ، وَ لَا یَقْطَعُهُمْ عَنْ تَعْظِیْمِكَ سَهْوُ الْغَفَلَاتِ.

ان سب پر اپنی رحمت نازل فرما اور اسی طرح ان فرشتوں پر جو ان سے کم درجہ اور آسمانوں میں ساکن اور تیرے پیغاموں کے امین ہیں، اور ان فرشتوں پر جن میں کسی سعی و کوشش سے بددلی اور کسی مشقت سے خستگی و درماندگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ تیری تسبیح سے نفسانی خواہشیں انہیں روکتی ہیں اور نہ ان میں غفلت کی رُو سے ایسی بھول چوک پیدا ہوتی ہے جو انہیں تیری تعظیم سے باز رکھے۔

اَلْخُشَّعُ الْاَبْصَارِ فَلَا یَرُوْمُوْنَ النَّظَرَ اِلَیْكَ، النَّوَاكِسُ الْاَذْقَانِ، الَّذِیْنَ قَدْ طَالَتْ رَغْبَتُھُمْ فِیْمَا لَدَیْكَ، الْمُسْتَهْتَرُوْنَ بِذِكْرِ اٰلَآئِكَ، وَ الْمُتَوَاضِعُوْنَ دُوْنَ عَظَمَتِكَ وَ جَلَالِ كِبْرِیَآئِكَ، وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ اِذَا نَظَرُوْاۤ اِلٰى جَهَنَّمَ تَزْفِرُ عَلٰۤى اَهْلِ مَعْصِیَتِكَ: سُبْحَانَكَ مَا عَبَدْنَاكَ حَقَّ عِبَادَتِكَ.

وہ آنکھیں جھکائے ہوئے ہیں کہ ( تیرے نور عظمت کی طرف ) نگاہ اٹھانے کا ارادہ بھی نہیں کرتے، اور ٹھوڑیوں کے بل گرے ہوئے ہیں، اور تیرے یہاں کے درجات کی طرف ان کا اشتیاق بے حدوبے نہایت ہے، اور تیری نعمتوں کی یاد میں کھوئے ہوئے ہیں، اور تیری عظمت و جلال کبریائی کے سامنے سر افگندہ ہیں، اور ان فرشتوں پر جو جہنم کو گنہگاروں پر شعلہ ور دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں: ’’پاک ہے تیری ذات! ہم نے تیری عبادت جیسا حق تھا ویسی نہیں کی‘‘۔

فَصَلِّ عَلَیْهِمْ وَ عَلَى الرَّوْحَانِیِّیْنَ مِنْ مَّلٰٓئِكَتِكَ، وَ اَهْلِ الزُّلْفَةِ عِنْدَكَ، وَ حُمَّالِ الْغَیْبِ اِلٰى رُسُلِكَ، وَ الْمُؤْتَمَنِیْنَ عَلٰى وَحْیِكَ، وَ قَبَآئِلِ الْمَلٰٓئِكَةِ الَّذِیْنَ اخْتَصَصْتَهُمْ لِنَفْسِكَ، وَ اَغْنَیْتَهُمْ عَنِ الطَّعَامِ وَ الشَّرَابِ بِتَقْدِیْسِكَ، وَ اَسْكَنْتَهُمْ بُطُوْنَ اَطْبَاقِ سَمٰوٰتِكَ.

اے اللہ! تو ان پر اور فرشتگان رحمت پر، اور ان پر جنہیں تیری بارگاہ میں تقرب حاصل ہے، اور تیرے پیغمبروں کی طرف چھپی ہوئی خبریں لے جانے والے، اور تیری وحی کے امانتدار ہیں، اور ان قسم قسم کے فرشتوں پر جنہیں تو نے اپنے لئے مخصوص کر لیا ہے اور جنہیں تسبیح و تقدیس کے ذریعہ کھانے پینے سے بے نیاز کر دیا ہے، اور جنہیں آسمانی طبقات کے اندرونی حصوں میں بسایا ہے۔

وَ الَّذِیْنَ عَلٰۤى اَرْجَآئِهَاۤ اِذَا نَزَلَ الْاَمْرُ بِتَمَامِ وَعْدِكَ، وَ خُزَّانِ الْمَطَرِ وَ زَوَاجِرِ السَّحَابِ، وَ الَّذِیْ بِصَوْتِ زَجْرِهٖ یُسْمَعُ زَجَلُ الرُّعُوْدِ، وَ اِذَا سَبَحَتْ بِهٖ حَفِیْفَةُ السَّحَابِ الْتَمَعَتْ صَوَاعِقُ الْبُرُوْقِ، وَ مُشَیِّعِی الثَّلْجِ وَ الْبَرَدِ، وَ الْهَابِطِیْنَ مَعَ قَطْرِ الْمَطَرِ اِذَا نَزَلَ، وَ الْقُوَّامِ عَلَى خَزَآئِنِ الرِّیَاحِ، وَ الْمُوَكَّلِیْنَ بِالْجِبَالِ فَلَا تَزُوْلُ، وَ الَّذِیْنَ عَرَّفْتَهُمْ مَثَاقِیْلَ الْمِیَاهِ، وَ كَیْلَ مَا تَحْوِیْهِ لَوَاعِجُ الْاَمْطَارِ وَ عَوَالِجُهَا، وَ رُسُلِكَ مِنَ الْمَلٰٓئِكَةِ اِلَى اَهْلِ الْاَرْضِ بِمَكْرُوْهِ مَا یَنْزِلُ مِنَ الْبَلَآءِ، وَ مَحْبُوبِ الرَّخَآءِ.

اور ان فرشتوں پر جو آسمان کے کناروں میں توقف کریں گے جب کہ تیرا حکم وعدے کے پورا کرنے کے سلسلہ میں صادر ہو گا، اور بارش کے خزینہ داروں، اور بادلوں کے ہنکانے والوں پر، اور اس پر جس کے جھڑکنے سے رعد کی کڑک سنائی دیتی ہے، اور جب اس ڈانٹ ڈپٹ پر گرجنے والے بادل رواں ہوتے ہیں تو بجلی کے کوندے تڑپنے لگتے ہیں، اور ان فرشتوں پر جو برف اور اَولوں کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں اور جب بارش ہوتی ہے تو اس کے قطروں کے ساتھ اترتے ہیں اور ہوا کے ذخیروں کی دیکھ بھال کرتے ہیں، اور ان فرشتوں پر جو پہاڑوں پر مؤکل ہیں تاکہ وہ اپنی جگہ سے ہٹنے نہ پائیں اور ان فرشتوں پر جنہیں تو نے پانی کے وزن اور موسلادھار اور تلاطم افزا بارشوں کی مقدار پر مطلع کیا ہے اور ان فرشتوں پر جو ناگوار ابتلاؤں اور خوش آئند آسائشوں کو لے کر اہل زمین کی جانب تیرے فرستادہ ہیں۔

وَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ، وَ الْحَفَظَةِ الْكِرَامِ الْكَاتِبِیْنَ، وَ مَلَكِ الْمَوْتِ وَ اَعْوَانِهٖ، وَ مُنْكَرٍ وَّ نَكِیْرٍ، وَ رُوْمَانَ فَتَّانِ الْقُبُوْرِ، وَ الطَّآئِفِیْنَ بِالْبَیْتِ الْمَعْمُوْرِ، وَ مَالِكٍ، وَ الْخَزَنَةِ، وَ رِضْوَانَ، وَ سَدَنَةِ الْجِنَانِ.

اور ان پر جو اعمال کا احاطہ کرنے والے گرامی منزلت اور نیکوکار ہیں، اور ان پر جو نگہبانی کرنے والے کراماً کاتبین ہیں، اور ملک الموت اور اس کے اعوان و انصار، اور منکر نکیر اور اہل قبور کی آزمائش کرنے والے رومان پر، اور بیت المعمور کا طواف کرنے والوں پر، اور مالک اور جہنم کے دربانوں پر، اور رضوان اور جنت کے دوسرے پاسبانوں پر۔

وَ الَّذِیْنَ ﴿لَا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ۝﴾ وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ: ﴿سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ ۝﴾، وَ الزَّبَانِیَةِ الَّذِیْنَ اِذَا قِیلَ لَهُمْ: ﴿خُذُوْهُ فَغُلُّوْهُۙ۝ ثُمَّ الْجَحِیْمَ صَلُّوْهُۙ۝﴾، ابْتَدَرُوْهُ سِرَاعًا، وَ لَمْ یُنْظِرُوْهُ.

اور ان فرشتوں پر جو خدا کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم انہیں دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں اور ان فرشتوں پر جو (آخرت میں) سلام علیکم کے بعد کہیں گے کہ: ’’دنیا میں تم نے صبر کیا (یہ اسی کا بدلہ ہے) دیکھو تو آخرت کا گھر کیسا اچھا ہے‘‘، اور دوزخ کے ان پاسبانوں پر کہ جب ان سے یہ کہا جائے گا کہ: اسے گرفتار کر کے طوق و زنجیر پہنا دو پھر اسے جہنم میں جھونک دو تو وہ اس کی طرف تیزی سے بڑھیں گے اور اسے ذرا مہلت نہ دیں گے۔

وَ مَنْ اَوْهَمْنَا ذِكْرَهٗ، وَ لَمْ نَعْلَمْ مَكَانَهٗ مِنْكَ، وَ بِاَیِّ اَمْرٍ وَّكَّلْتَهٗ. وَ سُكَّانِ الْهَوَآءِ وَ الْاَرْضِ وَ الْمَآءِ، وَ مَنْ مِّنْهُمْ عَلَى الْخَلْقِ.

اور ہر اس فرشتے پر جس کا نام ہم نے نہیں لیا اور نہ ہمیں معلوم ہے کہ اس کا تیرے ہاں کیا مرتبہ ہے اور یہ کہ تو نے کس کام پر اسے معین کیا ہے، اور ہوا، زمین اور پانی میں رہنے والے فرشتوں پر اور ان پر جو مخلوقات پر معین ہیں۔

فَصَلِّ عَلَیْهِمْ یَوْمَ یَاْتِیْ كُلُّ نَفْسٍ مَّعَهَا سَآئِقٌ وَّ شَهِیْدٌ، وَ صَلِّ عَلَیْهِمْ صَلَاةً تَزِیْدُهُمْ كَرَامَةً عَلٰى كَرَامَتِهِمْ، وَ طَهَارَةً عَلٰى طَهَارَتِهِمْ.

ان سب پر رحمت نازل کر اس دن کہ جب ہر شخص اس طرح آئے گا کہ اس کے ساتھ ایک ہنکانے والا ہو گا اور ایک گواہی دینے والا، اور ان سب پر ایسی رحمت نازل فرما جو ان کیلئے عزت بالائے عزت اور طہارت بالائے طہارت کا باعث ہو۔

اَللّٰهُمَّ وَ اِذَا صَلَّیْتَ عَلٰى مَلٰٓئِكَتِكَ وَ رُسُلِكَ، وَ بَلَّغْتَهُمْ صَلَاتَنَا عَلَیْهِمْ، فَصَلِّ عَلَیْنَا بِمَا فَتَحْتَ لَنَا مِنْ حُسْنِ الْقَوْلِ فِیْهِمْ، اِنَّكَ جَوَادٌ كَرِیْمٌ.

اے اللہ! جب تو اپنے فرشتوں اور رسولوں پر رحمت نازل کرے اور ہمارے صلوٰۃ و سلام کو ان تک پہنچائے، تو ہم پر بھی اپنی رحمت نازل کرنا، اس لئے کہ تو نے ہمیں ان کے ذکر خیر کی توفیق بخشی۔ بے شک تو بخشنے والا اور کریم ہے۔

–٭٭–

اس دُعا میں امام علیہ السلام نے فرشتوں اور ملاء اعلیٰ کے رہنے والوں پر دُرود و صلوٰۃ کے سلسلہ میں ان کے اوصاف و اقسام اور مدارج و طبقات کا ذکر فرمایا ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ ملائکہ کے بارے میں وہی کچھ کہہ سکتا ہے جس کی نگاہیں عالم ملکوت کی منزلوں سے آشنا ہوں۔ چنانچہ اس سلسلہ میں سب سے پہلے جس نے تفصیل سے روشنی ڈالی وہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ الصلوٰۃ و السلام ہیں اور اس کیلئے آپؑ کے خطبات شاہد ہیں جن میں ملائکہ کے صُور و اشکال، صفات و خصوصیات اور اللہ سے اُن کی والہانہ محبت و شیفتگی اور ان کی عبادت و وارفتگی کی مکمل تصویر کشی کی ہے۔ جس کی نظیر نہ اگلوں کے کلام میں ملتی ہے نہ پچھلوں کے۔ اسلام سے قبل اگرچہ کچھ افرادایسے موجود تھے جو حقائق و معارف سے وابستگی رکھتے تھے، جیسے عبد اللہ ابن سلام، اُمیّہ ابن ابی الصلت، ورقہ ابن نوفل، قلس ابن ساعدہ، اکثم ابن صیفی وغیرہ، مگر اس سلسلہ میں وُہ زبان و قلم کو حرکت نہ دے سکے اور اگر کچھ کہتے بھی تو وہ طرزِ بیان اور کلام پر اقتدار انہیں کہاں نصیب تھا جو پروردۂ آغوشِ نبوت امیر المومنین علیہ السلام کو حاصل تھا۔ اور دوسرے ادباء و شعرائے عرب تھے تو ان کا موضوعِ کلام عموماً گھوڑا، نیل گائے، اُونٹ وغیرہ ہوتا تھا یا حرب و پیکار کے خونی ہنگاموں اور خودستائی و تفاخر کے تذکروں پر مشتمل ہوتا تھا، یا اس میں باد و باراں کے مناظر، عشق و محبت کے واردات اور کھنڈروں اور ویرانوں کے نشانات کا ذکر ہوتا تھا اور مادیات سے بلند تر چیزوں تک ان کے ذہنوں کی رسائی ہی نہ تھی کہ ان کے متعلق وُہ کچھ کہہ سکتے۔ اگرچہ وہ فرشتوں کے وجود کے قائل تھے مگر انہیں خُدا کی چہیتی اور لاڈلی بیٹیاں تصور کیا کرتے تھے۔ چنانچہ قرآن مجید میں اُن کے غلط عقیدہ کا تذکرہ اس طرح ہے:

﴿فَاسْتَفْتِہِمْ اَلِرَبِّكَ الْبَنَاتُ وَلَہُمُ الْبَنُوْنَ۝۱۴۹ۙ اَمْ خَلَقْنَا الْمَلٰۗىِٕكَۃَ اِنَاثًا وَّہُمْ شٰہِدُوْنَ۝۱۵۰﴾

اے رسولؐ! ان سے پوچھو کہ کیا تمہارے پروردگار کی بیٹیاں ہیں اور ان کے بیٹے ہیں۔ کیا ہم نے فرشتوں کو طبقہ اناث سے پیدا کیا تو وہ دیکھ رہے تھے؟۔[۱]

امیر المومنین علیہ السلام کے بعد حضرت علی ابن الحسین علیہ السلام نے ملائکہ کے اصناف، ان کے درجات و مراتب کے تفاوت اور ان کے فرائض و مظاہرۂ عبودیت پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔

مذاہبِ عالم میں فرشتوں کے متعلق مختلف نظریے پائے جاتے ہیں۔ کچھ تو انہیں نور کا مظہر قرار دیتے ہیں، اور کچھ سعد ستاروں کو ملائکہ ٔ رحمت اور نحس ستاروں کو ملائکۂ عذاب تصور کرتے ہیں، اور کچھ کا خیال ہے کہ وہ عقولِ مجردہ و نفوس فلکیہ ہیں، اور کچھ کا مزعومہ یہ ہے کہ وہ طبائع و قویٰ ہیں یا دفع و جذب کی قوتیں ہیں۔ اور پھر جو انہیں کسی مستقل حیثیت سے مانتے ہیں ان میں بھی اختلافات ہیں کہ آیا وہ روحانی محض ہیں یا جسمانی محض یا جسم و روح سے مرکب ہیں۔ اور اگر جسمانی ہیں تو جسم لطیف رکھتے ہیں یا جسم غیر لطیف۔ اور لطیف ہیں تو از قبیل نور ہیں یا از قبیل ہوا،یا اُن میں سے بعض از قبیل نور ہیں اور بعض از قبیل ہوا۔ بہر حال ان کی حقیقت کچھ بھی ہو ہمیں یہ عقیدہ رکھنا لازم ہے کہ وہ اللہ کی ایک ذی عقل مخلوق ہیں جو گناہوں سے بری اور انبیاء و رُسل علیہم السلام کی جانب الٰہی احکام کے پہنچانے پر مامور ہیں۔ چنانچہ ان پر ایمان لانے کے سلسلہ میں قدرت کا ارشاد ہے:

﴿اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ كُلٌّ اٰمَنَ بِاللہِ وَمَلٰۗىِٕكَتِہٖ وَكُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ۝۰ۣ﴾

(ہمارے) پیغمبرﷺ جو کچھ ان پر ان کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان لائے اور مومنین بھی سب کے سب خُدا پر اور اس کے فرشتوں پر (اور اس کے کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر) ایمان لائے۔[۲]

حضرت علیہ السلام نے اس دُعا میں دس فرشتوں کو نام کے ساتھ یاد کیا ہے جو یہ ہیں:

جبرئیلؑ، میکائیلؑ، اسرافیلؑ، ملک الموت (عزرائیلؑ)، رُوح (القدس)، منکرؑ، نکیرؑ، رومانؑ، رضوانؑ، مالکؑ۔

ان میں پہلے چار فرشتے جن کے نام کا آخری جُز ’’ایل‘‘ ہے جس کے معنی عبرانی یا سریانی زبان میں ’’اللہ‘‘ کے ہوتے ہیں، سب ملائکہ سے افضل و برتر ہیں۔ اور میکائیل علیہ السلام کے متعلق یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ’’کیل‘‘ سے مشتق ہے جس کے معنی ناپنے کے ہوتے ہیں اور یہ چونکہ پانی کی پیمائش پر معیّن ہیں، اس لئے انہیں ’’میکائیل‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس صورت میں اُن کے نام کا آخری جُز ’’ایل‘‘ بمعنی ’’اللہ‘‘ نہیں ہو گا۔

اور ’’روح‘‘ کے متعلق مختلف روایات ہیں۔ بعض روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک فرشتہ کا نام ہے جو تمام فرشتوں سے زیادہ قدر و منزلت کا مالک ہے اور بعض روایات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جبرئیلؑ ہی کا دوسرا نام ’’رُوح‘‘ ہے اور بعض روایات میں یہ ہے کہ ’’رُوح‘‘ ایک نوع ہے جس کا کثیر التعداد ملائکہ پر اطلاق ہوتا ہے۔

اور’’منکر‘‘، ’’نکیر‘‘ اور ’’رومان‘‘ قبر کے سوال و جواب سے تعلق رکھتے ہیں۔ چنانچہ رومان، منکر و نکیر سے پہلے قبر میں آتا ہے اور ہر آدمی کو جانچتا ہے اور پھر منکر و نکیر کو اس کی اچھائی یا برائی سے آگاہ کرتاہے۔

اور’’ رضوان‘‘، جنّت کے پاسبانوں کا رأس و رئیس اور مالک جہنّم کے دربانوں کا سرخیل ہے جن کی تعداد انیس ہے۔ چنانچہ قدرت کا ارشاد ہے:

﴿عَلَيْہَا تِسْعَۃَ عَشَرَ۝۳۰ۭ﴾

جہنّم پر اُنیس فرشتے مقرر ہیں۔[۳]

ان کے علاوہ حسبِ ذیل اصنافِ ملائکہ کا تذکرہ فرمایا ہے:

۱۔ حاملانِ عرش:

یہ وہ فرشتے ہیں جو عرشِ الٰہی کو اُٹھائے ہوئے ہیں۔ چنانچہ ان کے متعلق ارشادِ الٰہی ہے:

﴿اَلَّذِيْنَ يَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہٗ يُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ﴾

جو فرشتے عرش کو اُٹھائے ہوئے ہیں اور جو اس کے گردا گرد ہیں اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں۔[۴]

۲۔ ملائکہ حُجب:

اس سے مراد وہ فرشتے ہیں جو اس عالمِ انوار و تجلیّات سے تعلق رکھتے ہیں جس کے گرد سرادقِ جلال و حجابِ عظمت کے پہرے ہیں اور انسانی علم و ادراک سے بالا تر ہیں۔

۳۔ ملائکہ سمٰوات:

اس سے مراد وہ فرشتے ہیں جو طبقاتِ آسمانی میں پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ قدرت کا ارشاد ہے:

﴿وَاَنَّا لَمَسْنَا السَّمَآءَ فَوَجَدْنٰہَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيْدًا﴾

ہم نے آسمانوں کو ٹٹولا تو اُسے قوی نگہبانوں سے بھرا ہوا پایا۔[۵]

۴۔ ملائکہ روحانیین:

اس سے مراد وہ فرشتے ہیں جو آسمانِ ہفتم میں حظیرۃ القدس کے اندر مقیم ہیں اور شب قدر زمین پر اُترتے ہیں۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:

﴿تَنَزَّلُ الْمَلٰىِٕكَۃُ وَالرُّوْحُ فِيْہَا بِاِذْنِ رَبِّہِمْ مِنْ كُلِّ اَمْرٍ﴾

اس رات فرشتے اور رُوح(القدس) ہر بات کا حکم لے کر اپنے پروردگار کی اجازت سے اُترتے ہیں۔[۶]

۵۔ ملائکہ مقرّبین:

یہ وہ فرشتے ہیں جنہیں بارگاہِ الٰہی میں خاص تقرب حاصل ہے اور انہیں ’’کروبیین‘‘ سے بھی یاد کیا جاتا ہے جو ’’کرب‘‘ بمعنی قُرب سے ماخوذ ہے۔ ان کے متعلق ارشادِ قدرت ہے:

﴿لَنْ يَّسْتَنْكِفَ الْمَسِيْحُ اَنْ يَّكُوْنَ عَبْدًا لِّلہِ وَلَا الْمَلٰۗىِٕكَۃُ الْمُقَرَّبُوْنَ﴾

مسیح کو اس میں عار نہیں کہ وہ اللہ کا بندہ ہو اور نہ اس کے مقرب فرشتوں کو[۷]

۶۔ ملائکہ رُسُل:

یہ وہ فرشتے ہیں جو پیغامبری کا کام انجام دینے پر مامور ہیں۔ چنانچہ قدرت کا ارشاد ہے:

﴿اَلْحَمْدُ لِلہِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ جَاعِلِ الْمَلٰۗىِٕكَۃِ رُسُلًا﴾

سب تعریف اس اللہ کیلئے جو آسمان و زمین کا بنانے والا اور فرشتوں کو اپنا قاصد بنا کر بھیجنے والا ہے۔[۸]

۷۔ ملائکہ مدبّرات:

یہ وہ فرشتے ہیں جو عناصر بسیط و اجسامِ مرکبہ جیسے پانی، ہوا، برق، باد و باراں، رعد اور جمادات و نباتات و حیوان پر مقرر ہیں۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے:

﴿فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا۝۵ۘ﴾

ان فرشتوں کی قسم جو امور عالم کے انتظام میں لگے ہوئے ہیں۔[۹]

پھر ارشاد ہے:

﴿فَالزّٰجِرٰتِ زَجْرًا۝۲ۙ﴾

جھڑک کر ڈانٹنے والوں کی قسم۔[۱۰]

ابنِ عباس کا قول ہے کہ: اس سے وُہ فرشتے مراد ہیں جو بادلوں پر مقرر ہیں۔

۸۔ ملائکہ حفظہ:

یہ وُہ فرشتے ہیں جو افرادِ انسانی کی حفاظت پر مامور ہیں۔ چنانچہ قدرت کا ارشاد ہے:

﴿لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْ بَيْنِ يَدَيْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ يَحْفَظُوْنَہٗ مِنْ اَمْرِ اللہِ﴾

اس کیلئے اس کے آگے اور پیچھے حفاظت کرنے والے فرشتے مقرّر ہیں جو خُدا کے حکم سے اس کی حفاظت و نگرانی کرتے ہیں۔[۱۱]

۹۔ ملائکہ کاتبین:

وُہ فرشتے جو بندوں کے اعمال ضبطِ تحریر میں لاتے ہیں۔ چنانچہ قدرت کا ارشاد ہے:

﴿اِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيٰنِ عَنِ الْيَمِيْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيْدٌ۝۱۷ مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَـدَيْہِ رَقِيْبٌ عَتِيْدٌ۝۱۸﴾

جب وُہ کوئی کام کرتا ہے تو دو لکھنے والے جو اس کے دائیں بائیں ہیں لکھ لیتے ہیں اور وہ کوئی بات نہیں کہتا مگر ایک نگران اس کے پاس تیار رہتا ہے۔[۱۲]

۱۰۔ ملائکہ موت:

وُہ فرشتے جو موت کا پیغام لاتے اور رُوح کو قبض کرتے ہیں۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:

﴿وَالنّٰزِعٰتِ غَرْقًا۝۱ۙ وَّالنّٰشِطٰتِ نَشْطًا۝۲ۙ﴾

ان فرشتوں کی قسم! جو ڈوب کر انتہائی شدّت سے کافروں کی رُوح کھینچ لیتے ہیں، اور اُن کی قسم جو بڑی آسانی سے مومنوں کی رُوح قبض کرتے ہیں۔[۱۳]

۱۱۔ ملائکہ طائفین:

وُہ فرشتے جو عرش اور عرش کے نیچے بیت المعمور کا طواف کرتے رہتے ہیں۔ چنانچہ قدرت کا ارشاد ہے:

﴿وَتَرَى الْمَلٰىِٕكَۃَ حَافِّيْنَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ﴾

تم عرش کے گردا گرد فرشتوں کو گھیرا ڈالے ہوئے دیکھو گے۔[۱۴]

۱۲۔ ملائکہ حشر:

وہ فرشتے جو میدانِ حشر میں انسانوں کو لائیں گے اور ان کے اعمال و افعال کی گواہی دیں گے۔ چنانچہ قدرت کا ارشاد ہے:

﴿وَجَاءَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّعَہَا سَاىِٕقٌ وَّشَہِيْدٌ۝۲۱﴾

اور ہر شخص ہمارے پاس آئے گا اور اس کے ساتھ ایک فرشتہ ہنکانے والا اور ایک اعمال کی شہادت دینے والا ہو گا۔[۱۵]

۱۳۔ ملائکہ جہنّم:

وُہ فرشتے جو دوزخ کی پاسبانی پر مقرر ہیں۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:

﴿عَلَيْہَا مَلٰۗىِٕكَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ﴾

جہنّم پر وُہ فرشتے مقرّر ہیں جو تُند خُو اور تیز مزاج ہیں۔[۱۶]

۱۴۔ ملائکہ بہشت:

وُہ فرشتے جو جنّت کے دروازوں پر مقرر ہیں۔ چنانچہ قدرت کا ارشاد ہے:

﴿حَتّٰٓي اِذَا جَآءُوْہَا وَفُتِحَتْ اَبْوَابُہَا وَقَالَ لَہُمْ خَزَنَـــتُہَا سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْہَا خٰلِدِيْنَ۝۷۳﴾

یہاں تک کہ جب وہ جنّت کے پاس پہنچیں گے اور اس کے دروازے کھول دئیے جائیں گے اور اس کے نگہبان اُن سے کہیں گے سلام علیکم تم خیر و خوبی سے رہے لہٰذا بہشت میں ہمیشہ کیلئے داخل ہو جاؤ۔[۱۷]

یہ وہ اصنافِ ملائکہ ہیں جن کا اس دُعا میں تذکرہ ہے اور ان کے علاوہ اور کتنے اقسام و اصناف ہیں تو ان کا احاطہ اللہ کے سوا کون کر سکتا ہے ﴿ وَمَا يَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّكَ اِلَّا ھُو ﴾ [۱۸]: ’’تمہارے پروردگار کے لشکروں کو اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا‘‘۔

[٭٭٭٭٭]

[۱]۔ سورۂ صافات، آیت ۱۴۹ – ۱۵۰

[۲]۔ سورۂ بقرہ، آیت ۲۸۵

[۳]۔ سورۂ مدثر، آیت ۳۰

[۴]۔ سورۂ مومن، (غافر) آیت ۴۰

[۵]۔ سورۂ جن، آیت ۸

[۶]۔ سورۂ قدر، آیت ۴

[۷]۔ سورۂ نساء، آیت ۱۷۲

[۸]۔ سورۂ فاطر، آیت ۱

[۹]۔ سورۂ نازعات، آیت ۵

[۱۰]۔ سورۂ صافات، آیت ۲

[۱۱]۔ سورۂ رعد، آیت ۱۱

[۱۲]۔ سورۂ ق آیت، ۱۷ – ۱۸

[۱۳]۔ سورۂ نازعات، آیت ۱- ۲

[۱۴]۔ سورۂ زمر، آیت ۷۵

[۱۵]۔ سورۂ ق، آیت ۲۱

[۱۶]۔ سورۂ تحریم، آیت ۶

[۱۷]۔ سورۂ زمر، آیت ۷۳

[۱۸]۔ سورۂ مدثر، آیت ۳۱

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button