شمع زندگی

294۔ ذلت کے قیدی

اَلطَّامِعُ فِى وِثَاقِ الذُّلِّ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۲۲۶)
لالچی ہمیشہ ذلّت کی زنجیروں میں جکڑا رہتا ہے۔

انسان کی کمال کی راہوں کی ایک رکاوٹ لالچ ہے۔ لالچی خود کو ذلیل تصور کرتا ہے اور حقیر و فقیر سمجھتا ہے اور جو خود کو پست سمجھنے لگے وہ کبھی کمال کو نہیں پا سکتا۔ علاوہ ازیں لالچی ہر کسی کے سامنے اپنی حقارت و ذلت کا اظہار کرتا ہے کہ شاید اس طرح کوئی اس کے حال پر رحم کرے اور یوں اس کے مقصد کے حصول کی راہ ہموار ہو۔

امیرالمومنینؑ نے اس فرمان میں لالچ کو اُس زنجیر سے تشبیہ دی ہے جس سے قیدی یا حیوان کو باندھا جاتا ہے۔ یا وہ زنجیر اس کے گلے میں ڈالی جاتی ہے اور اسے جس طرف لے جانا ہو کھینچ کر لے جایا جا سکتا ہے۔ آپؑ نے اپنے کلام میں متعدد مقامات پر لالچ کی مذمت کی ہے۔

لالچ: یعنی کوئی شخص اپنے حق سے زیادہ کی شدید طلب رکھتا ہو اور دوسروں کے پاس جو چیز ہے اس کی تمنا کرتا ہو۔ اس طلب و تمنا میں وہ خود کو دوسروں کے سامنے جھکاتا اور ذلیل کرتا ہے اور اپنے ہاتھوں سے ذلت کی زنجیر اپنی گردن میں ڈال لیتا ہے۔ گویا لالچ دیکھی نہ جانے والی وہ رسی ہے جو لالچی اپنی گردن میں ڈال کر اس کا دوسرا سرا اس کے ہاتھوں میں دے دیتا ہے جس کے پاس اس کی مطلوبہ چیز ہوتی ہے۔ اب وہ اپنی مرضی سے اسے کھینچے لیے پھرتا ہے۔

اس قیدِ حرص سے آزادی کی راہ قناعت ہے جو انسان کو سب سے بے نیاز کر دیتی ہے اور عزت و کرامت کی حفاظت کرتی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button