صحیفہ کاملہ

28۔ اللہ سے تضرع و زاری کے سلسلے میں

(۲۸) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ

مُتَفَزِّعًاۤ اِلَى اللّٰهِ عَزَّ وَ جَلَّ

اللہ تعالیٰ سے طلب و فریاد کے سلسلہ میں حضرتؑ کی دُعا:

اَللّٰهُمَّ اِنِّیْۤ اَخْلَصْتُ بِانْقِطَاعِیْۤ اِلَیْكَ، وَ اَقْبَلْتُ بِكُلِّیْ عَلَیْكَ، وَ صَرَفْتُ وَجْهِیْ عَمَّنْ یَّحْتَاجُ اِلٰى رِفْدِكَ، وَ قَلَبْتُ مَسْئَلَتِیْ عَمَّنْ لَّمْ یَسْتَغْنِ عَنْ فَضْلِكَ، وَ رَاَیْتُ اَنَّ طَلَبَ الْمُحْتَاجِ اِلَى الْمُحْتَاجِ سَفَهٌ مِّنْ رَّاْیِهٖ، وَ ضَلَّةٌ مِّنْ عَقْلِهٖ.

اے اللہ! میں پورے خلوص کے ساتھ دوسروں سے منہ موڑ کر تجھ سے لو لگائے ہوں، اور ہمہ تن تیری طرف متوجہ ہوں، اور اس شخص سے جو خود تیری عطا و بخشش کا محتاج ہے منہ پھیر لیا ہے، اور اس شخص سے جو تیرے فضل و احسان سے بے نیاز نہیں ہے سوال کا رخ موڑ لیا ہے، اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ محتاج کا محتاج سے مانگنا سراسر سمجھ بوجھ کی سبکی اور عقل کی گمراہی ہے۔

فَكَمْ قَدْ رَاَیْتُ- یَاۤ اِلٰهِیْ- مِنْ اُنَاسٍ طَلَبُوا الْعِزَّ بِغَیْرِكَ فَذَلُّوْا، وَ رَامُوا الثَّرْوَةَ مِنْ سِوَاكَ فَافْتَقَرُوْا، وَ حَاوَلُوا الْاِرْتِفَاعَ فَاتَّضَعُوْا، فَصَحَّ بِمُعَایَنَةِ اَمْثَالِهِمْ حَازِمٌ وَّفَّقَهٗ اعْتِبَارُهٗ، وَ اَرْشَدَهٗ اِلٰى طَرِیْقِ صَوَابِهٖ اخْتِیَارُهٗ.

کیونکہ اے میرے اللہ! میں نے بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو تجھے چھوڑ کر دوسروں کے ذریعہ عزت کے طلبگار ہوئے تو وہ ذلیل و رسوا ہوئے، اور دوسروں سے نعمت و دولت کے خواہشمند ہوئے تو فقیر و نادار ہی رہے، اور بلندی کا قصد کیا تو پستی پر جا گرے، لہٰذا ان جیسوں کو دیکھنے سے ایک دور اندیش کی دور اندیشی بالکل بر محل ہے کہ عبرت کے نتیجہ میں اسے توفیق حاصل ہوئی، اور اس کے(صحیح) انتخاب نے اسے سیدھا راستہ دکھایا۔

فَاَنْتَ یَا مَوْلَایَ دُوْنَ كُلِّ مَسْئُولٍ مَّوْضِعُ مَسْئَلَتِیْ، وَ دُوْنَ كُلِّ مَطْلُوْبٍ اِلَیْهِ وَلِیُّ حَاجَتِیْ، اَنْتَ الْمَخْصُوْصُ قَبْلَ كُلِّ مَدْعُوٍّ بِدَعْوَتِیْ، لَا یَشْرَكُكَ اَحَدٌ فِیْ رَجَآئِیْ، وَ لَا یَتَّفِقُ اَحَدٌ مَّعَكَ فِیْ دُعَآئِیْ، وَ لَا یَنْظِمُهٗ وَ اِیَّاكَ نِدَآئِیْ-.

جب حقیقت یہی ہے تو پھر اے میرے مالک! تو ہی میرے سوال کا مرجع ہے، نہ وہ جس سے سوال کیا جاتا ہے، اور تو ہی میرا حاجت روا ہے، نہ وہ جن سے حاجت طلب کی جاتی ہے، اور ان تمام لوگوں سے پہلے جنہیں پکارا جاتا ہے تو میری دُعا کیلئے مخصوص ہے، اور میری اُمید میں تیرا کوئی شریک نہیں ہے، اور میری دُعا میں تیرا کوئی ہم پایہ نہیں ہے، اور میری آواز تیرے ساتھ کسی اور کو شریک نہیں کرتی۔

لَكَ یَاۤ اِلٰهِیْ- وَحْدَانِیَّةُ الْعَدَدِ، وَ مَلَكَةُ الْقُدْرَةِ الصَّمَدِ، وَ فَضِیْلَةُ الْحَوْلِ وَ الْقُوَّةِ، وَ دَرَجَةُ الْعُلُوِّ وَ الرِّفْعَةِ، وَ مَنْ سِوَاكَ مَرْحُوْمٌ فِیْ عُمُرِهٖ، مَغْلُوْبٌ عَلٰۤى اَمْرِهٖ، مَقْهُوْرٌ عَلٰى شَاْنِهٖ، مُخْتَلِفُ الْحَالَاتِ، مُتَنَقِّلٌ فِی الصِّفَاتِ فَتَعَالَیْتَ عَنِ الْاَشْبَاهِ وَ الْاَضْدَادِ، وَ تَكَبَّرْتَ عَنِ الْاَمْثَالِ وَ الْاَنْدَادِ، فَسُبْحَانَكَ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ.

اے اللہ! عدد کی یکتائی، قدرت کاملہ کی کارفرمائی اور کمال قوت و توانائی اور مقام رفعت و بلندی تیرے لئے ہے، اور تیرے علاوہ جو ہے وہ اپنی زندگی میں تیرے رحم و کرم کا محتاج، اپنے امور میں درماندہ اور اپنے مقام پر بے بس و لاچار ہے، جس کے حالات گوناگوں ہیں، اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹتا رہتا ہے، تو مانند و ہمسر سے بلند تر، اور مثل و نظیر سے بالاتر ہے، تو پاک ہے، تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔

–٭٭–

یہ دُعا خلوص، اعتماد، توکل علی اللہ اور اسی کو حاجت روا و مرکز سوال قرار دینے کے سلسلہ میں ہے۔

خلوص، توکل، اور اعتماد کا تقاضا یہ ہے کہ دوسرے آستانوں سے منہ موڑ کر صرف اسی سے لو لگائی جائے اور اسی کے سامنے دامنِ سوال پھیلایا جائے اور کسی حالت میں بھی دوسرے سے سوال نہ کیا جائے تا کہ عزت و وقار محفوظ اور شرافت نفس برقرار رہے۔ اس لئے کہ جب انسان اپنے ایسوں سے احتیاج وابستہ نہیں کرتا تو وہ اپنے نفس میں سنگینی و وقار اور اپنے کو ایک باعزت و پرسکون فضا میں محسوس کرتا ہے۔ جہاں نہ دل و دماغ پر دباؤ، نہ قلب و ضمیر پر بوجھ، نہ احساسات مجروح، نہ خیالات پراگندہ، نہ ہاتھوں میں احسان مندی کی بوجھل ہتھکڑیاں اور نہ دوسروں کی تفوق پسندانہ ذہنیت کے مقابلہ میں احساس کمتری ہوتا ہے۔ اور پھر یہی کیا ضروری ہے کہ مانگے سے کچھ مل بھی جائے، جبکہ اکثر جگہوں سے ناکامی، دل شکستگی اور مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اگر عقل و بصیرت سے کام لیا جائے تو اس نتیجہ پر بآسانی پہنچا جا سکتا ہے کہ جو خود دوسروں کی مددگاری کا محتاج ہو وہ کسی اور کی احتیاج کا مداوا کیا کر سکتا ہے۔ اور اگر کر سکتا ہوتا تو پہلے اپنے دامن سے احتیاج کے دھبے دور کرتا،پھر دوسروں کی احتیاج رفع کرتا۔ اور جب مانگنا ہی ہے تو پھر اسی سے کیوں نہ مانگا جائے جس سے یہ مانگتا ہے اور اسی کے سامنے ہاتھ کیوں نہ پھیلایا جائے جو اس سے زیادہ کریم، غنی اور حاجت روا ہے۔ اور جبکہ وہ بھی اس جیسا محتاج ہے تو پھر محتاج سے حاجت برآری کی کیا امید اور زمین شور سے روئیدگی کی کیا توقع ہو سکتی ہے۔

لَمْ یَخْلُقِ الرَّحْمٰنُ اَحْمَقَ لِحْیَۃً

مِنْ سَآئِلٍ يَرْجُو الْغِنٰى مِنْ سَاۤئِلٍ

’’اللہ تعالیٰ نے اس سے زیادہ کم عقل دوسرا پیدا ہی نہیں کیا جو اپنے ایسے مانگنے والے سے غنا و ثروت کی توقع رکھتا ہے‘‘۔

بہرحال جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں سے بے نیازی کا خواہاں، جاہ و حشم کا طالب ہوتا ہے، وہ ہمیشہ ذلت و خواری میں مبتلا، اطمینان و یکسوئی سے محروم اور حقیقی ثروت و غنی سے تہی دامن رہتا ہے۔ چنانچہ حدیث قدسی میں وارد ہوا ہے:

اِنِّیْ وَضَعْتُ الْعِزَّةَ فِیْ خِدْمَتِیْ وَ النَّاسُ يَطْلُبُوْنَهَا فِیْ خِدْمَةِ السُّلْطَانِ فَلَمْ يَجِدُوْهَا، وَ وَضَعْتُ الْغِنٰى بِالْقَنَاعَةِ وَ النَّاسُ يَطْلُبُوْنَهٗ بِجَمْعِ الْمَالِ فَلَمْ يَجِدُوْهُ.

میں نے عزت کو اپنی خدمت سے وابستہ کیا ہے اور لوگ اسے شاہی دربار داری میں ڈھونڈتے ہیں جو انہیں حاصل نہیں ہوتی، اور میں نے دولت مندی کو قناعت میں قرار دیا ہے اور لوگ اسے مال کی فراہمی میں تلاش کرتے ہیں جو انہیں نصیب نہیں ہوتی۔[۱]

خداوند عالم ہر شخص کو اس کے ظرف و وسعت کے لحاظ سے اور اپنی مصلحت و مشیت کے اعتبار سے دیتا ہے اور وہی ہر بخشش و عطا کا سرچشمہ اور ہر رفعت و سر بلندی کا منبع ہے۔ اور دوسرے کو اس صفت میں اس کا شریک قرار دینا اس کے فضل و احسان اور ربوبیت کو ناقص و نا تمام سمجھنا ہے۔ اس کے نتیجہ میں خداوند عالم ایسے لوگوں کو انہی کے حوالے کر دیتا ہے جنہیں وہ اپنا حاجت روا و قبلۂ مقصود سمجھتے ہیں۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی بخشش و عطا سے محرومی خود انہی کے پیدا کر دہ اسباب کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ورنہ اس کی نعمتیں اور بخشائشیں کسی فرد یا گروہ کیلئے مخصوص نہیں ہیں، بلکہ ہر ایک کو حصہ رسدی اس کے خوانِ نعمت سے ملتاہے۔ اب اگر کوئی خود ہی فیوضِ الٰہی کے آگے روک بن کر کھڑا ہو جائے تو اسے محرومی و ناکامی سے دوچار ہونا ہی پڑے گا۔ اس حرماں نصیبی کے اسباب میں سب سے بڑا سبب یہی ہے کہ انسان دوسروں کو مرکزِ امید قرار دے کر اللہ سے امید و طلب کا سلسلہ قطع کر لے۔ چنانچہ حدیث قدسی میں وارد ہوا ہے کہ:

وَ عِزَّتِیْ وَ جَلَالِیْ وَ مَجْدِیْ وَ ارْتِفَاعِیْ عَلٰى عَرْشِیْ! لَاَقْطَعَنَّ اَمَلَ كُلِّ مُؤَمِّلٍ غَيْرِیْ بِالْيَاْسِ وَ لَاَكْسُوَنَّهٗ ثَوْبَ الْمَذَلَّةِ عِنْدَ النَّاسِ.

مجھے اپنے جلال و عزت اور عرش پر بلندی ور فعت کی قسم! جو میرے علاوہ دوسروں سے امید رکھے گا میں اس کی امید کو یاس سے بدل دوں گا اور لوگوں میں اسے ذلّت و رسوائی کا جامہ پہناؤں گا۔[۲]

[٭٭٭٭٭]

[۱]۔ نصائح، ص ۲۰۴

[۲]۔ الکافی، ج۲، ص ۶۶

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button