صحیفہ کاملہ

19۔ طلب باراں کی دعا

(۱۹) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ

عِنْدَ الْاِسْتِسْقَآءِ بَعْدَ الْجَدْبِ

قحط سالی کے موقع پر طلبِ باراں کی دُعا:

اَللّٰهُمَّ اسْقِنَا الْغَیْثَ، وَ انْشُرْ عَلَیْنَا رَحْمَتَكَ بِغَیْثِكَ الْمُغْدِقِ مِنَ السَّحَابِ الْمُنْسَاقِ، لِنَبَاتِ اَرْضِكَ الْمُوْنِقِ فِیْ جَمِیْعِ الْاٰفَاقِ.

بارالٰہا! ابرِ باراں سے ہمیں سیراب فرما، اور ان ابروں کے ذریعہ ہم پر دامن رحمت پھیلا جو موسلادھار بارشوں کے ساتھ زمین کے سبزۂ خوش رنگ کی روئیدگی کا سرو سامان لئے ہوئے اطراف عالم میں روانہ کئے جاتے ہیں۔

وَ امْنُنْ عَلٰى عِبَادِكَ بِاِیْنَاعِ الثَّمَرَةِ، وَ اَحْیِ بِلَادَكَ بِبُلُوْغِ الزَّهَرَةِ، وَ اَشْهِدْ مَلٰٓئِكَتَكَ الْكِرَامَ السَّفَرَةَ بِسَقْیٍ مِّنْكَ نَافِعٍ، دَآئِمٍ غُزْرُهٗ، وَاسِعٍ دِرَرُهٗ، وَابِلٍ سَرِیْعٍ عَاجِلٍ، تُحْیِیْ بِهٖ مَا قَدْ مَاتَ، وَ تَرُدُّ بِهٖ مَا قَدْ فَاتَ، وَ تُخْرِجُ بِهٖ مَا هُوَ اٰتٍ، وَ تُوَسِّعُ بِهٖ فِی الْاَقْوَاتِ، سَحَابًا مُّتَرَاكِمًا، هَنِیْٓئًا مَّرِیْٓئًا، طَبَقًا مُّجَلْجَلًا، غَیْرَ مُلِثٍّ وَدْقُهٗ، وَ لَا خُلَّبٍ بَرْقُهٗ.

اور پھلوں کے پختہ ہونے سے اپنے بندوں پر احسان فرما، اور شگوفوں کے کھلنے سے اپنے شہروں کو زندگیٔ نو بخش اور اپنے معزز و باوقار فرشتوں اور سفیروں کو ایسی نفع رساں بارش پر آمادہ کر جس کی فراوانی دائم اور روانی ہمہ گیر ہو، اور بڑی بوندوں والی، تیزی سے آنے والی اور جلد برسنے والی ہو، جس سے تو مردہ چیزوں میں زندگی دوڑا دے، گزری ہوئی بہاریں پلٹا دے اور جو چیزیں آنے والی ہیں انہیں نمودار کر دے، اور سامان معیشت میں وسعت پیدا کر دے، ایسا ابر چھائے جو تہہ بہ تہہ، خوش آئند و خوشگوار، زمین پر محیط اور گھن گرج والا ہو، اور اس کی بارش لگاتار نہ برسے (کہ کھیتوں اور مکانوں کو نقصان پہنچے) اور نہ اس کی بجلی دھوکا دینے والی ہو (کہ چمکے، گرجے اور برسے نہیں)۔

اَللّٰهُمَّ اسْقِنَا غَیْثًا مُّغِیْثًا، مَّرِیْعًا مُّمْرِعًا، عَرِیْضًا وَّاسِعًا غَزِیْرًا، تَرُدُّ بِهِ النَّهِیْضَ، وَ تَجْبُرُ بِهِ الْمَهِیْضَ.

بارالٰہا! ہمیں اس بارش سے سیراب کر جو خشک سالی کو دور کرنے والی، (زمین سے) سبزہ اُگانے والی، (دشت و صحرا کو) سر سبز کرنے والی، بڑے پھیلاؤ اور بڑھاؤ اور ان تھاہ گہراؤ والی ہو، جس سے تو مرجھائی ہوئی گھاس کی رونق پلٹا دے، اور سوکھے سڑے سبزے میں جان پیدا کر دے۔

اَللّٰهُمَّ اسْقِنَا سَقْیًا تُسِیْلُ مِنْهُ الظِّرَابَ، وَ تَمْلَاُ مِنْهُ الْجِبَابَ، وَ تُفَجِّرُ بِهِ الْاَنْهَارَ، وَ تُنبِتُ بِهِ الْاَشْجَارَ، وَ تُرْخِصُ بِهِ الْاَسْعَارَ فِیْ جَمِیْعِ الْاَمْصَارِ، وَ تَنْعَشُ بِهِ الْبَهَآئِمَ وَ الْخَلْقَ، وَ تُكْمِلُ لَنا بِهٖ طَیِّبَاتِ الرِّزْقِ، و تُنبِتُ لَنا بِهِ الزَّرْعَ ،وَ تُدِرُّ بِهِ الضَّرْعَ، وَ تَزِیْدُنَا بِهٖ قُوَّةً اِلٰى قُوَّتِنَا.

خدایا! ہمیں ایسی بارش سے سیراب کر جس سے تو ٹیلوں پر سے پانی کے دھارے بہا دے، کنویں چھلکا دے، نہریں جاری کر دے، درختوں کو تر و تازہ و شاداب کر دے، شہروں میں نرخوں کی ارزانی کر دے، چوپاؤں اور انسانوں میں نئی روح پھونک دے، پاکیزہ روزی کا سرو سامان ہمارے لئے مکمل کر دے، کھیتوں کو سر سبز و شاداب کر دے اور چوپاؤں کے تھنوں کو دودھ سے بھر دے اور اس کے ذریعہ ہماری قوت و طاقت میں مزید قوت کا اضافہ کر دے۔

اَللّٰهُمَّ لَا تَجْعَلْ ظِلَّهٗ عَلَیْنَا سَمُوْمًا، وَ لَا تَجْعَلْ بَرْدَهٗ عَلَیْنَا حُسُوْمًا، وَ لَا تَجْعَلْ صَوْبَهٗ عَلَیْنَا رُجُوْمًا، وَ لَا تَجْعَلْ مَآئَهٗ عَلَیْنَاۤ اُجَاجًا.

بارالٰہا! اس ابر کی سایہ افگنی کو ہمارے لئے جھلسا دینے والا لو کا جھونکا، اس کی خنکی کو نحوست کا سرچشمہ اور اس کے برسنے کو عذاب کا پیش خیمہ اور اس کے پانی کو (ہمارے کام و دہن کیلئے) شور نہ قرار دینا۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ، وَ ارْزُقْنَا مِن بَرَكَاتِ السَّمٰوَاتِ وَ الْاَرْضِ، اِنَّكَ عَلٰى‏ كُلِّ شَیْ‏ءٍ قَدِیْرٌ.

بار الٰہا! رحمت نازل فرما محمدؐ اور ان کی آلؑ پر اور ہمیں آسمان و زمین کی برکتوں سے بہرہ مند کر، اس لئے کہ تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

–٭٭–

جب بارش کے رُک جانے سے خشک سالی کے آثار ظاہر ہوتے ہیں تو اس سے سب ہی متاثر ہوتے ہیں۔ زمین پر تشنگی و بے آبی کی وجہ سے خاک اُڑتی ہے اور سیرابی کے نہ ہونے سے مُردہ ہو جاتی ہے۔ ہرے بھرے کھیت مُرجھا کر رہ جاتے ہیں۔ حیوان بوکھلائے ہوئے پریشان حال پھرتے ہیں۔ کسان حسرت بھری نظروں سے آسمان کو دیکھتا اور مایوسی سے سر جھکا لیتا ہے۔غرض ہر چہرہ قحط زدگی سے اُداس اُداس نظر آتا ہے۔ اس موقع پر گناہوں سے توبہ و استغفار کرنا، اللہ سے لَو لگانا اور اس سے بارش کی دُعا مانگنا چاہیے کہ یہی اس کا حل ہے۔ اور بہتر یہ ہے کہ نماز کے بعد دُعا مانگےکہ وہ جلدمستجاب ہوتی ہے اور اس سے بہتر یہ ہے کہ ’’نمازِ استسقاء‘‘ کی صورت میں دُعا کرے۔

’’نمازِ استسقاء‘‘ کا طریقہ یہ ہے کہ جمعہ کے دن خطیب یہ اعلان کرے کہ لوگ اپنے اخلاق و اطوار شائستہ بنائیں، توبہ و استغفار کریں، حقوق سے سبکدوش ہوں اور کل سے تین روزے مسلسل رکھیں اور تیسرے دن عجز و انکسار کے ساتھ توبہ و استغفار کرتے ہوئے صحرا کی طرف نکل کھڑے ہوں۔ اس طرح کہ جوتے اُتار کر ہاتھوں میں اٹھا لیں، بچے، بوڑھے، بوڑھی عورتیں اور چوپائے بھی ساتھ ہوں اور بچوں کو ماؤں سے علیحدہ کر دیا جائے اور صحرا میں پہنچ کر مؤذن تین مرتبہ "اَلصَّلٰوةَ” پکارے اور امام دو رکعت نمازِ استسقاء کی نیت کرے اور حمد و سورۃ بلند آواز سے پڑھے۔ سورۃ ختم کرنے کے بعد پانچ مرتبہ تکبیر کہے اور ہر تکبیر کے بعد قنوت کیلئے ہاتھ اٹھائے اور یہ دُعا پڑھے:

اَللّٰهُمَّ اسْقِ عِبَادَكَ وَ اِمَآئَكَ وَ بَهَآئِمَكَ، وَ انْشُرْ رَحْمَتَكَ، وَ اَحْیِ بِلَادَكَ الْمَيْتَةَ.

بارِ الہٰا! تو اپنے بندوں، کنیزوں اور چوپایوں کو سیراب فرما اور اپنے دامن رحمت کو پھیلا دے اور اپنے مُردہ شہروں میں پھر سے زندگی پیدا کر دے۔[۱]

پھر چھٹی تکبیر کہہ کر رکوع میں جائے اور دونوں سجدوں کے بعد دوسری رکعت کیلئے اٹھ کھڑا ہو اور حمد و سورۃ کے بعد چار مرتبہ تکبیر کہے اور ہر تکبیر کے بعد یہی دُعائے قنوت پڑھے اور پانچویں تکبیر کہہ کر رکوع میں جائے اور سجود اور تشہد کے بعد نماز ختم کرے اور ختم نماز کے بعد منبر پر جائے اور عبا کا دایاں حصّہ بائیں طرف اور بایاں حصّہ دائیں طرف کر لے۔ عبا کو اس طرح الٹنے سے اس طرف اشارہ ہے کہ خداوند عالم اسی طرح موسم میں تبدیلی کر سکتا اور خشک سالی کو شادابی و سیرابی سے بدل سکتا ہے۔ پھر دو خطبے پڑھے اور خطبوں سے فارغ ہونے کے بعد قبلہ رُخ ہو کر سو مرتبہ "اَللهُ اَکْبَرُ” کہے۔ پھر دائیں طرف رُخ کرے اور سو مرتبہ "لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللهُ” کہے۔ پھر بائیں طرف رُخ کرے اور سو مرتبہ "سُبْحَانَ اللهِ” کہے۔ پھر لوگوں کی طرف منہ کر کے سو مرتبہ "اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ” کہے۔ اور دوسرے لوگ بھی ان کلمات کو ساتھ ساتھ دہراتے جائیں۔ یہ نماز طلوعِ آفتاب سے لے کر زوالِ آفتاب تک پڑھی جا سکتی ہے۔

[٭٭٭٭٭]

[۱]۔ ریاض السالکین، ج ۳ ص ۲۳۲

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button