شمع زندگی

286۔ حیا کا پردہ

مَنْ كَسَاهُ الْحَيَاءُ ثَوْبَهٗ لَمْ يَرَ النَّاسُ عَيْبَهٗ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۲۲۳)
جسے حیا نے اپنا لباس اوڑھا دیا لوگوں سے اس کے عیب پوشیدہ رہیں گے۔

انسان زندگی میں جس کام کو برا اور معیوب سمجھتا ہے اسے انجام نہیں دیتا یا دوسروں سے چھپا کر انجام دیتا ہے۔ یہ ذہنی کیفیت شرم و حیا کہلاتی ہے۔ امیرالمومنینؑ نے یہاں حیا کو ایک لباس سے تعبیر کیا ہے کہ جس میں یہ کیفیت پیدا ہوگی یا تو وہ اس حیا کی وجہ سے اس برائی کو ترک کرے گا۔

جب برائی و عیب ہی نہ ہو تو لوگ اس سے آگاہ بھی نہیں ہوتے اور اگر کوئی جرأت کر کے برائی پر آمادہ ہو تو لوگوں سے شرم و حیا کی وجہ سے اسے چھپا کر انجام دے گا اور انجام دینے کے بعد بھی اسے چھپائے گا یوں بھی اس کے عیب پوشیدہ رہیں گے۔ اس لئے حیا کی اخلاقیات میں بہت تعریف کی گئی۔

جس طرح حیا کی وجہ سے معیوب کاموں سے بچا جاتا ہے اسی طرح حیا ہی کی خاطر بہت سے اچھے اعمال انجام دیے جاتے ہیں مثلاً ایک آدمی ماں باپ کی خدمت کے لئے ویسے تو آمادہ نہیں ہوتا مگر لوگوں سے شرم و حیا کی وجہ سے ان کی عزت کرتا ہے۔ یوں حیا نے اس کا ایک عیب چھپا لیا۔

اگر حیا ختم ہو جائے تو انسان غلطیوں پر جری ہو جاتا ہے اور ایک مرحلہ ایسا بھی آتا ہے کہ وہ کھلے عام گناہ کرنے لگتا ہے اور حیا کی وجہ سے معیوب کاموں سے رک جائے گا تو بھی عزت باقی رہے گی۔ اگر پوشیدہ رکھے گا تو آئندہ ایسے برے کاموں سے بچنے کی کوشش بھی کرے گا۔ یوں معاشرے میں ایک دوسرے کی عزت باقی رہے گی اور برائیوں میں بھی کمی واقع ہوگی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button