شمع زندگی

208۔ لا علمی کا اعتراف

وَ لَا يَسْتَحِيَنَّ اَحَدٌ مِنْكُمْ اِذَا سُئِلَ عَمَّا لَا يَعْلَمُ اَنْ يَقُوْلَ لَا اَعْلَمُ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۸۲)
اگر تم میں سے کسی سے ایسی بات پوچھی جائے کہ جسے وہ نہ جانتا ہو تو یہ کہنے میں نہ شرمائے کہ میں نہیں جانتا۔

انسانی زندگی کو کمال تک پہنچانے کے لئے یہاں پانچ اصول بیان ہوئے ہیں۔ ان کے حصول کے لئے فرمایا کہ اگر اونٹوں کو ایڑ لگا کر تیز ہنکاؤ تو یہ اصول اس قابل ہیں کہ اونٹ دوڑائے جائیں۔ اونٹ دوڑاؤ یعنی زیادہ سے زیادہ کوشش کرو، دور دراز کے سفر طے کرو، جلدی سے جلدی پہنچو، مشکلیں برداشت کرو مگر ان خصوصیات کو حاصل کرو۔ یہ خصوصیات سعادت و سربلندی کی بنیاد ہیں۔ ایک رہبر و راہنما کا منصبی فریضہ ہے کہ وہ عوام کو کمالات کی راہوں سے آشنا کرے اپنی ہدایت کرتے ہوئے ان کی راہوں کے چراغ روشن کرے، قوم کے افراد کو ساتھ لے کر چلے اور انھیں منزل تک پہنچائے۔

امیرالمومنینؑ اس ہادی کا فریضہ نبھا رہے ہیں۔ ان پانچ احکام میں سے یہاں تیسرے حکم کو بیان کیا جا رہا ہے جس میں فرمایا کہ اگر کسی چیز کو نہیں جانتے تو ’’نہیں جانتا‘‘ کہنے سے نہ شرماؤ۔ اگر اس فرمان کو لے لیا جائے تو ایک تو کبھی اپنے علم پر غرور نہیں ہوگا چونکہ زندگی کے کئی امور سے انسان آگاہ نہیں ہوتا یوں اپنی علمی کمی کا احساس ہوگا تو مزید سیکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ دوسرا یہ کہ اگر نہ جاننے کا اقرار نہیں کرے گا تو نہیں جانتا کہنے کے بجائے غلط جواب دے گا تو دوسروں کو گمراہ کرنے کا سبب بنے گا اور کل کسی کے سامنے جہالت ظاہر ہو گئی تو مزید شرمساری ہو گی اور توہین کا سبب بنے گی۔ اگر غلط بتانے پر کسی نے کچھ غلطی کر دی تو ساری زندگی ذہن میں ایک بے سکونی رہے گی کہ اس کا سبب میں تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button