خطبات

خطبہ (۱۷)

(۱٧) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

خطبہ (۱۷)

فِیْ صِفَةِ مَن يَّتَصَدّٰى لِلْحُكْمِ بَيْنَ الْاُمَّةِ وَ لَيْسَ لِذٰلِكَ بِاَهْلٍ:

ان لوگوں کے بارے میں جو اُمت کے فیصلے چکانے کیلئے مسند قضا پر بیٹھ جاتے ہیں حالانکہ وہ اس کے اہل نہیں ہوتے:

اِنَّ اَبْغَضَ الْخَلَآئِقِ اِلَى اللهِ رَجُلَانِ:

تمام لوگوں میں سب سے زیادہ خدا کے نزدیک مبغوض دو شخص [۱] ہیں:

رَجُلٌ وَّكَلَهُ اللهُ اِلٰى نَفْسِهٖ، فَهُوَ جَآئِرٌ عَنْ قَصْدِ السَّبِیْلِ، مَشْغُوْفٌۢ بِكَلَامِ بِدْعَةٍ وَّ دُعَآءِ ضَلَالَةٍ، فَهُوَ فِتْنَةٌ لِّمَنِ افْتَتَنَ بِهٖ، ضَالٌّ عَنْ هَدْیِ مَنْ كَانَ قَبْلَهٗ، مُضِلُّ لِّمَنِ اقْتَدٰى بِهٖ فِیْ حَیَاتِهٖ وَ بَعْدَ وَفَاتِهٖ، حَمَّالٌ خَطَایَا غَیْرِهٖ، رَهْنٌۢ بِخَطِیْٓئَتِهٖ.

ایک وہ جسے اللہ نے اس کے نفس کے حوالے کر دیا ہو (یعنی اس کی بداعمالیوں کی وجہ سے اپنی توفیق سلب کر لی) جس کے بعد وہ سیدھی راہ سے ہٹا ہوا، بدعت کی باتوں پر فریفتہ اور گمراہی کی تبلیغ پر مٹا ہوا ہے۔ وہ اپنے ہوا خواہوں کیلئے فتنہ اور سابقہ لوگوں کی ہدایت سے برگشتہ ہے۔ وہ تمام ان لوگوں کیلئے جو اس کی زندگی میں یا اس کی موت کے بعد اس کی پیروی کریں، گمراہ کرنے والا ہے۔ وہ دوسروں کے گناہوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے اور خود اپنی خطاؤں میں جکڑا ہوا ہے۔

وَ رَجُلٌ قَمَشَ جَهْلًا مُّوْضِعٌ فِیْ جُهَّالِ الْاُمَّةِ، عَادٍ فِیْۤ اَغْبَاشِ الْفِتْنَةِ، عَمٍۭ بِمَا فِیْ عَقْدِ الْهُدْنَةِ، قَدْ سَمَّاهُ اَشْبَاهُ النَّاسِ عَالِمًا وَّ لَیْسَ بِهٖ، بَكَّرَ فَاسْتَكْثَرَ مِنْ جَمْعٍ، مَا قَلَّ مِنْهُ خَیْرٌ مِّمَّا كَثُرَ، حَتّٰۤى اِذَا ارْتَوٰى مِنْ مَّآءٍ اٰجِنٍ، وَ اكْتَنَزَ مِن غَیْرِ طَآئِلٍ. جَلَسَ بَیْنَ النَّاسِ قَاضِیًا ضَامِنًا لِّتَخْلِیْصِ مَا الْتَبَسَ عَلٰى غیْرِهٖ، فَاِنْ نَزَلَتْ بِهٖۤ اِحْدَى الْمُبْهَمَاتِ هَیَّاَ لَهَا حَشْوًا رَّثًّا مِّنْ رَّاْیِهٖ، ثُمَّ قَطَعَ بِهٖ، فَهُوَ مِنْ لَّبْسِ الشُّبُهَاتِ فِیْ مِثْلِ نَسْجِ الْعَنْكَبُوْتِ، لَا یَدْرِیْۤ اَصَابَ اَمْ اَخْطَاَ، فَاِنْ اَصَابَ خَافَ اَنْ یَّكُوْنَ قَدْ اَخْطَاَ، وَ اِنْ اَخْطَاَ رَجَاۤ اَنْ یَّكُوْنَ قَدْ اَصَابَ. جَاهِلٌ خَبَّاطُ جَهَالَاتٍ، عَاشٍ رَّكَّابُ عَشَوَاتٍ، لَمْ یَعَضَّ عَلَى الْعِلْمِ بِضِرْسٍ قَاطِعٍ، یُذْرِی الرِّوَایَاتِ اِذْرَآءَ الرِّیْحِ الْهَشِیْمَ. لَا مَلِیٌّ وَاللهِ! بِاِصْدَارِ مَا وَرَدَ عَلَیْهِ، وَ لَا هُوَ اَهْلٌ لِّمَا فُوِّضَ اِلَیْهِ، لَا یَحْسَبُ الْعِلْمَ فِیْ شیْءٍ مِّمَّاۤ اَنْكَرَهٗ، وَ لَا یَرٰى اَنَّ مِنْ وَّرَآءِ مَا بَلَغَ مَذْهَبًا لِّغَیْرهٖ، وَ اِنْ اَظْلَمَ عَلَیْهِ اَمْرٌ اكْتَتَمَ بِهٖ لِمَا یَعْلَمُ مِنْ جَهْلِ نَفْسِهٖ، تَصْرُخُ مِنْ جَوْرِ قَضَآئِهِ الدِّمَآءُ، وَ تَعِجُّ مِنْهُ الْمَوَارِیْثُ.

اور دوسرا شخص وہ ہے جس نے جہالت کی باتوں کو (اِدھر اُدھر سے) بٹور لیا ہے۔ وہ اُمت کے جاہل افراد میں دوڑ دھوپ کیا کرتا ہے اور فتنوں کی تاریکیوں میں غافل و مدہوش پڑا رہتا ہے اور امن و آشتی کے فائدوں سے آنکھ بند کر لیتا ہے۔ چند انسانی شکل و صورت سے ملتے جلتے ہوئے لوگوں نے اسے عالم کا لقب دے رکھا ہے، حالانکہ وہ عالم نہیں۔ وہ ایسی (بے سود) باتوں کے سمیٹنے کیلئے منہ اندھیرے نکل پڑتا ہے جن کا نہ ہونا ہونے سے بہتر ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ اس گندے پانی سے سیراب ہو لیتا ہے اور لا یعنی باتوں کو جمع کر لیتا ہے تو لوگوں میں قاضی بن کر بیٹھ جاتا ہے اور دوسروں پر مشتبہ رہنے والے مسائل کے حل کرنے کا ذمہ لے لیتا ہے۔ اگر کوئی الجھا ہوا مسئلہ اس کے سامنے پیش ہوتا ہے تو اپنی رائے سے اس کیلئے بھرتی کی فرسودہ دلیلیں مہیا کر لیتا ہے اور پھر اس پر یقین بھی کر لیتا ہے۔ اس طرح وہ شبہات کے الجھاؤ میں پھنسا ہوا ہے جس طرح مکڑی خود اپنے ہی جالے کے اندر۔ وہ خود یہ نہیں جانتا کہ اس نے صحیح حکم دیا ہے یا غلط۔ اگر صحیح بات بھی کہی ہو تو اسے یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں غلط نہ ہو اور غلط جواب ہو تو اسے یہ توقع رہتی ہے کہ شاید یہی صحیح ہو۔ وہ جہالتوں میں بھٹکنے والا جاہل اور اپنی نظر کے دھندلا پن کے ساتھ تاریکیوں میں بھٹکنے والی سواریوں پر سوار ہے۔ نہ اس نے حقیقت علم کو پرکھا نہ اس کی تہ تک پہنچا۔ وہ روایات کو اس طرح درہم و برہم کرتا ہے جس طرح ہوا سوکھے ہوئے تنکوں کو۔ خدا کی قسم! وہ ان مسائل کے حل کرنے کا اہل نہیں جو اس سے پوچھے جاتے ہیں۔ اور نہ اس منصب کے قابل ہے جو اسے سپرد کیا گیا ہے۔ جس چیز کو وہ نہیں جانتا اس چیز کو وہ کوئی قابلِ اعتنا علم ہی نہیں قرار دیتا اور جہاں تک وہ پہنچ سکتا ہے اس کے آگے یہ سمجھتا ہی نہیں کہ کوئی دوسرا پہنچ سکتا ہے اور جو بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی اسے پی جاتا ہے، کیونکہ وہ اپنی جہالت کو خود جانتا ہے۔ (ناحق بہائے ہوئے) خون اس کے ناروا فیصلوں کی وجہ سے چیخ رہے ہیں اور غیر مستحق افراد کو پہنچی ہوئی میراثیں چلا رہی ہیں۔

اِلَى اللهِ اَشْكُوْ مِنْ مَّعْشَرٍ یَّعِیْشُوْنَ جُهَّالًا، وَ یَمُوْتُوْنَ ضُلَّالًا، لَیْسَ فِیْهِمْ سِلْعَةٌ اَبْوَرُمِنَ الْكِتَابِ اِذَا تُلِیَ حَقَّ تِلَاوَتِهٖ، وَلَا سِلْعَةٌ اَنْفَقُ بَیْعًا وَّ لَاۤ اَغْلٰى ثَمَنًا مِّنَ الْكِتَابِ اِذَا حُرِّفَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ، وَ لَا عِنْدَهُمْ اَنْكَرُ مِنَ الْمَعْرُوْفِ، وَ لَاۤ اَعْرَفُ مِنَ الْمُنكَرِ.

اللہ ہی سے شکوہ ہے ان لوگوں کا جو جہالت میں جیتے ہیں اور گمراہی میں مر جاتے ہیں۔ ان میں قرآن سے زیادہ کوئی بے قیمت چیز نہیں، جبکہ اسے اس طرح پیش کیا جائے جیسا پیش کرنے کا حق ہے اور اس قرآن سے زیادہ ان میں کوئی مقبول اور قیمتی چیز نہیں، اس وقت جب کہ اس کی آیتوں کا بے محل استعمال کیا جائے۔ ان کے نزدیک نیکی سے زیادہ کوئی برائی اور برائی سے زیادہ کوئی نیکی نہیں۔

۱؂امیر المومنین علیہ السلام نے دو قسم کے لوگوں کو اللہ کے نزدیک مبغوض اور بدترین خلائق قرار دیا ہے: ایک وہ جو سرے سے اصول عقائد ہی میں گمراہ ہیں اور گمراہی کی نشر و اشاعت میں لگے رہتے ہیں اور دوسرے وہ جو قرآن و سنت کو پسِ پشت ڈال کر اپنے قیاس و رائے سے احکام گھڑ لیتے ہیں اور اپنے مقلدین کا ایک حلقہ پیدا کر کے ان میں خود ساختہ شریعت کی ترویج کرتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی گمراہی و کجروی صرف ان کی ذات تک محدود نہیں رہتی، بلکہ ان کی ضلالت کا بویا ہوا بیج برگ و بار لاتا ہے اور ایک تناور شجر کی صورت اختیار کر کے گمراہوں کو ہمیشہ اپنے سایہ میں پناہ دیتا رہتا ہے اور یہ گمراہی بڑھتی ہی رہتی ہے اور چونکہ اس گمراہی کے اصل بانی یہی لوگ ہوتے ہیں، اس لئے دوسروں کی گمراہی کا بوجھ بھی انہی کے سر لادا جائے گا۔ چنانچہ قرآن کریم کا ارشاد ہے:

﴿وَلَيَحْمِلُنَّ اَ ثْقَالَهُمْ وَاَ ثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ﴾

یہ لوگ اپنے (گناہوں کا) بوجھ تو یقیناً اٹھائیں گے اور اپنے بوجھ کے ساتھ (جنہیں گمراہ کیا ہے) ان کے بوجھ بھی انہیں اٹھانا پڑیں گے۔[۱]

[۱]۔ سورۂ عنکبوت، آیت ۱۳۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button