خطبات

خطبہ (۱۷۰)

(۱٧٠) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

خطبہ (۱۷۰)

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ لَا تُوَارِیْ عَنْهُ سَمَآءٌ سَمَآءً، وَ لَاۤ اَرْضٌ اَرْضًا.

تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے جس سے ایک آسمان دوسرے آسمان کو اور ایک زمین دوسری زمین کو نہیں چھپاتی۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کے ذیل میں فرمایا]

وَ قَدْ قَالَ قَآئِلٌ: اِنَّكَ عَلٰی هٰذَا الْاَمْرِ یَا بْنَ اَبِیْ طَالِبٍ لَحَرِیْصٌ. فَقُلْتُ: بَلْ اَنْتُمْ وَاللهِ! لَاَحْرَصُ وَ اَبْعَدُ، وَ اَنَا اَخَصُّ وَ اَقْرَبُ، وَ اِنَّمَا طَلَبْتُ حَقًّا لِّیْ وَ اَنْتُمْ تَحُوْلُوْنَ بَیْنِیْ وَ بَیْنَهٗ، وَ تَضْرِبُوْنَ وَجْهِیْ دُوْنَهٗ، فَلَمَّا قَرَعْتُهٗ بِالْحُجَّةِ فِی الْمَلَاِ الْحَاضِرِیْنَ هَبَّ، كَاَنَّهٗ بُهِتَ لَا یَدْرِیْ مَا یُجِیْبُنِیْ بِهٖ!.

مجھ سے ایک کہنے والے [۱] نے کہا کہ: اے ابن ابی طالبؑ! آپؑ تو اس خلافت پر للچائے ہوئے ہیں تو میں نے کہا کہ: خدا کی قسم! تم اس پر کہیں زیادہ حریص اور (اس منصب کی اہلیت سے) دور ہو اور میں اس کا اہل اور (پیغمبر ﷺ سے) نزدیک تر ہوں۔ میں نے تو اپنا حق طلب کیا ہے اور تم میرے اور میرے حق کے درمیان حائل ہو جاتے ہو اور جب اسے حاصل کرنا چاہتا ہوں تو تم میرا رخ موڑ دیتے ہو۔ چنانچہ جب بھری محفل میں مَیں نے اس دلیل سے اس (کے کان کے پردوں) کو کھٹکھٹایا تو چوکنا ہوا اور اس طرح مبہوت ہو کر رہ گیا کہ اسے کوئی جواب نہ سوجھتا تھا۔

اَللّٰهُمَّ اِنِّیْۤ اَسْتَعْدِیْكَ عَلٰی قُرَیْشٍ وَّ مَنْ اَعَانَهُمْ! فَاِنَّهُمْ قَطَعُوْا رَحِمِیْ، وَ صَغَّرُوْا عَظِیْمَ مَنْزِلَتِیْ، وَ اَجْمَعُوْا عَلٰی مُنَازَعَتِیْ اَمْرًا هُوَ لِیْ.ثُمَّ قَالُوْا: اَ لَاۤ اِنَّ فِی الْحَقِّ اَنْ تَاْخُذَهٗ، وَ فِی الْحَقِّ اَنْ تَتْرُكَهٗ.

خدایا! میں قریش اور ان کے مدد گاروں کے خلاف تجھ سے مدد چاہتا ہوں۔ کیونکہ انہوں نے قطع رحمی کی اور میرے مرتبہ کی بلندی کو پست سمجھا اور اس (خلافت) پر کہ جو میرے لئے مخصوص تھی ٹکرانے کیلئے ایکا کر لیا ہے۔ پھر کہتے یہ ہیں کہ حق تو یہی ہے کہ آپؑ اسے لیں اور یہ بھی حق ہے کہ آپؑ اس سے دستبردار ہو جائیں۔ [۲]

[مِنْهَا: فِیْ ذِكْرِ اَصْحَابِ الْجَمَلِ]

[اس خطبہ کا یہ جز اصحاب جمل کے متعلق ہے]

فَخَرَجُوْا یَجُرُّوْنَ حُرْمَةَ رَسُوْلِ اللهِ -ﷺ كَمَا تُجَرُّ الْاَمَةُ عِنْدَ شِرَآئِهَا، مُتَوَجِّهِیْنَ بِهَاۤ اِلَی الْبَصْرَةِ، فَحَبَسَا نِسَآءَ هُمَا فِیْ بُیُوْتِهِمَا، وَ اَبْرَزَا حَبِیْسَ رَسُوْلِ اللهِ -ﷺ لَهُمَا وَ لِغَیْرِهِمَا، فِیْ جَیْشٍ مَّا مِنْهُمْ رَجُلٌ اِلَّا وَ قَدْ اَعْطَانِی الطَّاعَةَ، وَ سَمَحَ لِیْ بِالْبَیْعَةِ، طَآئِعًا غَیْرَ مُكْرَهٍ، فَقَدِمُوْا عَلٰی عَامِلِیْ بِهَا وَ خُزَّانِ بَیْتِ مَالِ الْمُسْلِمِیْنَ وَ غَیْرِهِمْ مِنْ اَهْلِهَا، فَقَتَلُوْا طَآئِفَةً صَبْرًا، وَ طَآئِفَةً غَدْرًا.

وہ لوگ (مکہ سے) بصرہ کا رخ کئے ہوئے اس طرح نکلے کہ رسول اللہ ﷺ کی حُرمت و ناموس کو یوں کھینچے پھرتے تھے جس طرح کسی کنیز کو فروخت کیلئے (شہر بشہر) پھرایا جاتا ہے۔ ان دونوں نے اپنی بیویوں کو تو گھروں میں روک رکھا تھا اور رسول اللہ ﷺ کی بیوی کو اپنے اور دوسروں کے سامنے کھلے بندوں لے آئے تھے۔ ایک ایسے لشکر میں کہ جس کا ایک ایک فرد میری اطاعت تسلیم کئے ہوئے تھا اور برضا و رغبت میری بیعت کر چکا تھا۔ یہ لوگ بصرہ میں میرے (مقررہ کردہ) عامل اور مسلمانوں کے بیت المال کے خزینہ داروں اور وہاں کے دوسرے باشندوں تک پہنچ گئے اور کچھ لوگوں کو قید کے اندر مار مار کے اور کچھ لوگوں کو حیلہ و مکر سے شہید کیا۔

فَوَاللهِ! لَوْ لَمْ یُصِیْبُوْا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ اِلَّا رَجُلًا وَّاحِدًا مُّعْتَمِدِیْنَ لِقَتْلِهٖ، بِلَا جُرْمٍ جَرَّهٗ، لَحَلَّ لِیْ قَتْلُ ذٰلِكَ الْجَیْشِ كُلِّهٖ، اِذْ حَضَرُوْهُ فَلَمْ یُنْكِرُوْا، وَ لَمْ یَدْفَعُوْا عَنْهُ بِلِسَانٍ وَّ لَا یَدٍ. دَعْ مَاۤ اَنَّهُمْ قَدْ قَتَلُوْا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ مِثْلَ الْعِدَّةِ الَّتِیْ دَخَلُوْا بِهَا عَلَیْهِمْ!.

خدا کی قسم! اگر وہ مسلمانوں میں سے صرف ایک ناکردہ گناہ مسلمان کو عمداً قتل کرتے تو بھی میرے لئے جائز ہوتا کہ میں اس تمام لشکر کو قتل کر دوں، کیونکہ وہ موجود تھے اور انہوں نے نہ تو اسے بُرا سمجھا اور نہ زبان اور ہاتھ سے اس کی روک تھام کی، چہ جائیکہ انہوں نے مسلمانوں کے اتنے آدمی قتل کر دیے جتنی تعداد خود ان کے لشکر کی تھی جسے لے کر ان پر چڑھ دوڑے تھے۔

۱؂حضرت عمر نے اپنے آخر وقت میں امیر المومنین علیہ السلام کے متعلق جس خیال کا اظہار کیا تھا اسی کو سعد ابن ابی وقاص نے شوریٰ کے موقعہ پر دہراتے ہوئے حضرتؑ سے کہا کہ: اے علیؑ! آپؑ اس منصب خلافت کے بہت حریص ہیں، جس کے جواب میں حضرتؑ نے فرما یا کہ: جو اپنا حق طلب کرے اسے حریص نہیں کہا جا سکتا، بلکہ حریص وہ ہے جو اس حق تک پہنچنے سے مانع اور سد راہ ہو اور نا اہلیت کے باوجود اسے حاصل کرنے کے درپے ہو۔

اس میں شک نہیں کہ امیر المومنین علیہ السلام اپنے کو حق دار سمجھتے تھے اور اپنا حق طلب کرتے تھے لیکن اس حق طلبی سے حق ساقط نہیں ہو جاتا کہ اسے خلافت کے نہ دینے کیلئے وجہ جواز قرار دے لیا جائے اور اسے حرص سے تعبیر کیا جائے اور اگر یہ حرص ہے تو پھر کون ایسا تھا جو حرص کے پھندوں میں جکڑا ہوا نہ تھا۔ کیا انصار کے مقابلہ میں مہاجرین کی زور آزمائی، ارکانِ شوریٰ کی باہمی کشمکش اور طلحہ و زبیر کی ہنگامہ آرائی اسی حرص کا نتیجہ نہ تھی؟ اگر امیر المومنین علیہ السلام کو منصب کا لالچ ہوتا تو جب ابن عباس اور ابو سفیان نے بیعت قبول کرنے کیلئے زور دیا تھا تو آپؑ نتائج و عواقب سے آنکھیں بند کر کے ان کے کہنے پر اٹھ کھڑے ہوتے اور جب دور ثالث کے بعد لوگ بیعت کیلئے ٹوٹ رہے تھے تو آپؑ بگڑے ہوئے حالات کا خیال کئے بغیر ان کی پیش کش کو فوراً قبول کر لیتے۔ مگر آپؑ نے کسی موقعہ پر بھی ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا جس سے یہ ظاہر ہو کہ آپؑ منصب کو منصب کی حیثیت سے چاہتے ہیں، بلکہ خلافت کی طلب تھی تو صرف اس لئے کہ شریعت کے خد و خال بگڑنے نہ پائیں اور دین دوسروں کی خواہشوں کی آماجگاہ نہ بنے، نہ یہ کہ دنیا کی کامرانیوں سے بہرہ اندوز ہوں کہ جسے حرص کہا جا سکے۔

۲؂مقصد یہ ہے کہ اگر وہ یہ نہ کہتے کہ میرا خلافت سے الگ رہنا بھی حق ہے تو میرے لئے اس پر صبر کرنا آسان ہوتا، اس خیال سے کہ کم از کم میرے حق کا اعتراف تو ہے، اگر چہ اسے ادا کرنے کیلئے تیار نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button