خطبات

خطبہ (۷۸)

(٧٧) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

خطبہ (۷۷)

قَالَهٗ لِبَعْضِ اَصْحَابِهٖ لَمَّا عَزَمَ عَلَى الْمَسِيْرِ اِلَى الْخَوَارِجِ فَقَالَ لَهٗ يَاۤ اَمِيْرَ الْمُؤْمِنِيْنَ! اِنْ سِرْتَ فِیْ هٰذَا الْوَقْتِ خَشِيْتُ اَنْ لَّا تَظْفَرَ بِمُرَادِكَ مِنْ طَرِيْقِ عِلْمِ النُّجُوْمِ، فَقَالَ ؑ:

جب آپؑ [۱] نے جنگ خوارج کیلئے نکلنے کا ارادہ کیا تو ایک شخص نے کہا کہ: یا امیر المومنینؑ! اگر آپ اس وقت نکلے تو علم نجوم کی رُو سے مجھے اندیشہ ہے کہ آپ اپنے مقصد میں کامیاب و کامران نہیں ہو سکیں گے، جس پر آپؑ نے فرمایا کہ:

اَ تَزْعَمُ اَنَّكَ تَهْدِیْۤ اِلَی السَّاعَةِ الَّتِیْ مَنْ سَارَ فِیْهَا صُرِفَ عَنْهُ السُّوْٓءُ؟ وَ تُخَوِّفُ مِنَ السَّاعَةِ الَّتِیْ مَنْ سَارَ فِیْهَا حَاقَ بِهِ الضُّرُّ؟ فَمَنْ صَدَّقَ بِهٰذَا فَقَدْ كَذَّبَ الْقُرْاٰنَ، وَ اسْتَغْنٰی عَنِ الْاِسْتِعَانَةِ بِاللهِ فِیْ نَیْلِ الْمَحْبُوْبِ وَ دَفْعِ الْمَكْرُوْهِ، وَ تَبْتَغِیْ فِیْ قَوْلِكَ لِلْعَامِلِ بِاَمْرِكَ اَنْ یُّوْلِیَكَ الْحَمْدَ دُوْنَ رَبِّهٖ، لِاَنَّكَ ـ بِزَعْمِكَ ـ اَنْتَ هَدَیْتَهٗۤ اِلَی السَّاعَةِ الَّتِیْ نَالَ فِیْهَا النَّفْعَ، وَ اَمِنَ الضُّرَّ.

کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ تم اس گھڑی کا پتہ دیتے ہو کہ اگر کوئی اس میں نکلے تو اس کیلئے کوئی بُرائی نہ ہو گی اور اس لمحے سے خبردار کرتے ہو کہ اگر کوئی اس میں نکلے تو اسے نقصان درپیش ہو گا، تو جس نے اسے صحیح سمجھا، اس نے قرآن کو جھٹلایا اور مقصد کے پانے اور مصیبت کے دور کرنے میں اللہ کی مدد سے بے نیاز ہو گیا۔ تم اپنی ان باتوں سے یہ چاہتے ہو کہ جو تمہارے کہے پر عمل کرے وہ اللہ کو چھوڑ کر تمہارے گُن گائے۔ اس لئے کہ تم نے اپنے خیال میں اس ساعت کا پتہ دیا کہ جو اس کیلئے فائدہ کا سبب اور نقصان سے بچاؤ کا ذریعہ بنی۔

ثُمَّ اَقْبَلَ ؑ عَلَی النَّاسِ فَقَالَ:

پھر آپؑ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:

اَیُّهَا النَّاسُ! اِیَّاكُمْ وَ تَعَلُّمَ النُّجُوْمِ، اِلَّاَ مَا یُهْتَدٰی بِهٖ فِیْ بَرٍّ اَوْ بَحْرٍ، فَاِنَّهَا تَدْعُوْ اِلَی الْكَهَانَةِ، وَ المُنَجِّمُ كَالْكَاهِنِ، وَ الْكَاهِنُ كَالسَّاحِرِ، وَ السَّاحِرُ كَالْكَافِرِ! وَ الْكَافِرُ فِی النَّارِ! سِیْرُوْا عَلَی اسْمِ اللهِ.

اے لوگو! نجوم کے سیکھنے سے پرہیز کرو، مگر اتنا کہ جس سے خشکی اور تری میں راستے معلوم کر سکو۔ اس لئے کہ نجوم کا سیکھنا کہانت اور غیب گوئی کی طرف لے جاتا ہے اور منجم حکم میں مثل کاہن کے ہے اور کاہن مثل ساحر کے ہے اور ساحر مثل کافر کے ہے اور کافر کا ٹھکانا جہنم ہے۔ بس اللہ کا نام لے کر چل کھڑے ہو۔

۱؂جب امیرالمومنین علیہ السلام نے خوارج کی شورشوں کو دبانے کیلئے نہروان کا ارادہ کیا تو عفیف ابن قیس نے آپؑ سے عرض کیا کہ: یہ ساعت اچھی نہیں ہے، اگر آپؑ اس وقت روانہ ہوئے تو فتح و ظفر مندی کے بجائے شکست و ہزیمت اٹھانا پڑے گی۔ مگر حضرتؑ نے اس کی بات کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا اور اسی وقت لشکر کو کوچ کا حکم دے دیا اور نتیجہ میں خوارج کو ایسی شکست فاش ہوئی کہ ان کے چار ہزار جنگجوؤں میں سے صرف نو آدمی بھاگ کر اپنی جان بچا سکے اور باقی کا صفایا ہو گیا۔

امیر المومنین علیہ السلام نے نجوم کے غلط و نادرست ہونے پر تین طرح سے استدلال فرمایا ہے:

پہلے یہ کہ اگر منجم کی باتوں کو درست مان لیا جائے تو قرآن کو جھٹلانا پڑے گا، کیونکہ منجم ستاروں کو دیکھ کر غیب میں چھپی ہوئی چیزوں کے جاننے کا ادّعا کرتا ہے اور قرآن یہ کہتا ہے کہ:

﴿ قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِى السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّٰ﴾

آسمان و زمین کے بسنے والوں میں سے کوئی بھی غیب نہیں جانتا سوائے اللہ کے۔[۱]

دوسرے یہ کہ وہ اپنے زعم ناقص میں یہ سمجھ لیتا ہے کہ وہ مستقبل کے حالات سے مطلع ہو کر اپنے نفع و نقصان کو جان سکتا ہے، تو وہ اللہ کی طرف رجوع ہونے اور اس سے مدد چاہنے میں اپنے کو بے نیاز سمجھے گا۔ اور یہ اللہ سے بے اعتنائی اور اس کے مقابلہ میں خود اعتمادی ایک طرح کا زندقہ و الحاد ہے جو اللہ سے اس کے توقعات ختم کر دیتا ہے۔

تیسرے یہ کہ اگر وہ کسی مقصد میں کامیاب ہو گا تو اس کامیابی کو اپنے علم کا نتیجہ قرار دے گا جس سے وہ اللہ کے بجائے خود اپنے نفس کو سراہے گا اور اس سلسلہ میں جن کی راہنمائی کرے گا ان سے بھی یہی چاہے گا کہ وہ اللہ کے شکر گزار ہونے کے بجائے اس کے شکر گزار ہوں۔

یہ تمام چیزیں فنِ نجوم میں اس حد تک مداخلت سے نہیں روکتیں جس حد تک نجوم کی تاثیر کو منجانب اللہ دواؤں کے طبعی اثر کے قبیل سے مانا جائے جس میں قدرت الٰہی پھر بھی موانع پیدا کر کے سدّ راہ ہو سکتی ہے۔ ہمارے اکثر علمائے اسلام جو علمِ نجوم میں مہارت حاصل کئے ہوئے تھے، وہ اسی بنا پر صحیح ہے کہ وہ اس کے نتائج کو قطعی نہ سمجھتے تھے۔

[۱]۔ سورۂ نمل، آیت ۶۵۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button