صحیفہ کاملہ

8۔ خواستگاری پناہ کے سلسلے کی دعا

(۸) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ

فِی الِاسْتِعَاذَةِ مِنَ الْمَكَارِهٖ وَ سَیِّئِ الْاَخْلَاقِ وَ مَذَامِّ الْاَفْعَالِ:

مصیبتوں سے بچاؤ اور بُرے اخلاق و اعمال سے حفاظت کے سلسلہ میں حضرتؑ کی دُعا:

اَللّٰهُمَّ اِنِّیْۤ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ هَیَجَانِ الْحِرْصِ، وَ سَوْرَةِ الْغَضَبِ، وَ غَلَبَةِ الْحَسَدِ، وَ ضَعْفِ الصَّبْرِ، وَ قِلَّةِ الْقَنَاعَةِ، وَ شَكَاسَةِ الْخُلُقِ، وَ اِلْحَاحِ الشَّهْوَةِ، وَ مَلَكَةِ الْحَمِیَّةِ وَ مُتَابَعَةِ الْهَوٰى، وَ مُخَالَفَةِ الْهُدٰى، وَ سِنَةِ الْغَفْلَةِ، وَ تَعَاطِی الْكُلْفَةِ، وَ اِیْثَارِ الْبَاطِلِ عَلَى الْحَقِّ، وَ الْاِصْرَارِ عَلَى الْمَاْثَمِ، وَ اسْتِصْغَارِ الْمَعْصِیَةِ، وَ اسْتِكْبَارِ الطَّاعَةِ. وَ مُبَاهَاةِ الْمُكْثِرِیْنَ، وَ الْاِزْرَآءِ بِالْمُقِلِّیْنَ، وَ سُوْٓءِ الْوِلَایَةِ لِمَنْ تَحْتَ اَیْدِیْنَا، وَ تَرْكِ الشُّكْرِ لِمَنِ اصْطَنَعَ الْعَارِفَةَ عِنْدَنَاۤ اَوْ اَنْ نَعْضُدَ ظَالِمًا، اَوْ نَخْذُلَ مَلْهُوْفًا، اَوْ نَرُوْمَ مَا لَیْسَ لَنا بِحَقٍّ، اَوْ نَقُوْلَ فِی الْعِلْمِ بِغَیْرِ عِلْمٍ.

اے اللہ! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں حرص کی طغیانی، غضب کی شدت، حسد کی چیرہ دستی، بے صبری، قناعت کی کمی، کج اخلاقی، خواہش نفس کی فراوانی، عصبیت کے غلبہ، ہوا و ہوس کی پیروی، ہدایت کی خلاف ورزی، خواب غفلت (کی مدہوشی) اور تکلف پسندی سے، نیز باطل کو حق پر ترجیح دینے، گناہوں پر اصرار کرنے، معصیت کو حقیر اور اطاعت کو عظیم سمجھنے، دولت مندوں کے سے تفاخر، محتاجوں کی تحقیر، اور اپنے زیردستوں کی بری نگہداشت، اور جو ہم سے بھلائی کرے اس کی ناشکری سے، اور اس سے کہ ہم کسی ظالم کی مدد کریں، اور مصیبت زدہ کو نظر انداز کریں، یا اس چیز کا قصد کریں جس کا ہمیں حق نہیں، یا دین میں بے جانے بوجھے دخل دیں۔

وَ نَعُوْذُ بِكَ اَنْ نَنْطَوِیَ عَلٰى غِشِّ اَحَدٍ، وَ اَنْ نُّعْجِبَ بِاَعْمَالِنَا، وَ نَمُدَّ فِیْۤ اٰمَالِنَا.

اور ہم تجھ سے پناہ مانگتے ہیں اس بات سے کہ کسی کو فریب دینے کا قصد کریں، یا اپنے اعمال پر نازاں ہوں، اور اپنی امیدوں کا دامن پھیلائیں۔

وَ نَعُوْذُ بِكَ مِنْ سُوْٓءِ السَّرِیْرَةِ، وَ احْتِقَارِ الصَّغِیْرَةِ، وَ اَنْ یَّسْتَحْوِذَ عَلَیْنَا الشَّیْطٰنُ، اَوْ یَنْكُبَنَا الزَّمَانُ، اَوْ یَتَهَضَّمَنَا السُّلْطَانُ.

اور ہم تجھ سے پناہ مانگتے ہیں، بدباطنی اور چھوٹے گناہوں کو حقیر تصور کرنے، اور اس بات سے کہ شیطان ہم پر غلبہ حاصل کر لے جائے، یا زمانہ ہم کو مصیبت میں ڈالے، یا فرمانروا اپنے مظالم کا نشانہ بنائے۔

وَ نَعُوْذُ بِكَ مِنْ تَنَاوُلِ الْاِسْرَافِ، وَ مِنْ فِقْدَانِ الْكَفَافِ.

اور ہم تجھ سے پناہ مانگتے ہیں فضول خرچی میں پڑنے اور حسب ضرورت رزق کے نہ ملنے سے۔

وَ نَعُوْذُ بِكَ مِنْ شَمَاتَةِ الْاَعْدَآءِ، وَ مِنَ الْفَقْرِ اِلَى الْاَكْفَآءِ، وَ مِنْ مَعِیْشَةٍ فِیْ شِدَّةٍ، وَ مِیْتَةٍ عَلٰى غَیْرِ عُدَّةٍ.

اور ہم تجھ سے پناہ مانگتے ہیں دشمنوں کی شماتت، ہم چشموں کی احتیاج، سختی میں زندگی بسر کرنے، اور توشۂ آخرت کے بغیر مر جانے سے۔

وَ نَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْحَسْرَةِ الْعُظْمٰى، وَ الْمُصِیْبَةِ الْكُبْرٰى، وَ اَشْقَى الشَّقَآءِ، وَ سُوْٓءِ الْمَاٰبِ، وَ حِرْمَانِ الثَّوَابِ، وَ حُلُوْلِ الْعِقَابِ.

اور تجھ سے پناہ مانگتے ہیں بڑے تاسف، بڑی مصیبت، بدترین بد بختی، برے انجام، ثواب سے محرومی، اور عذاب کے وارد ہونے سے۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اَعِذْنِیْ مِنْ كُلِّ ذٰلِكَ بِرَحْمَتِكَ، وَ جَمِیْعَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ، یَاۤ اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ.

اے اللہ! محمدﷺ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما، اور اپنی رحمت کے صدقہ میں مجھے اور تمام مومنین و مومنات کو ان سب برائیوں سے پناہ دے۔ اے تمام رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔

–٭٭–

انسان اس وقت تک مکارم اَخلاق سے آراستہ نہیں ہو سکتا جب تک ایک صحت مند ذہنیت کی تخلیق نہ کرے اور امراض نفسانیہ کے جراثیم سے قلب و ضمیر کی تطہیر کر کے اپنے کو فضائل و فواضل کے قبول کرنے کے قابل نہ بنائے۔ اس دُعا میں جن معائب و رذائل کو گنوایا گیا ہے وہ وہی جراثیم ہیں جو امراضِ نفسانیہ کی تولید کرتے اور انہیں پروان چڑھاتے ہیں اور انسان کے ارفع و اعلیٰ احساسات کو ختم کر کے اسے خواہشات کا پرستار بنا دیتے ہیں، جس کے بعد وہ اس سطح پر آ جاتا ہے جو ایک عام حیوان کی سطح ہوتی ہے، جہاں پر پہنچ کر فضائل کی بلندیاں اس کے دسترس سے باہر ہو جاتی ہیں اور رذائل و قبائح اس کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں اور اُسے اُن کی برائی کا احساس تک نہیں ہوتا کہ انہیں چھوڑنے کی ضرورت محسوس کرے۔ یوں تو اُن معائب میں سے ہر عیب ہلاکت آفرین و تباہ کن ہے، مگر حرص، غضب، حسد اور شہوت سرفہرست اور سب برائیوں کا سرچشمہ ہیں:

حرص:

یہ ہے کہ مالِ دنیا کی ہوس حدِ اعتدال سے تجاوز کر جائے اور روپیہ پیسہ، گھر بار سب کچھ ہونے کے باوجود طلب و خواہش بڑھتی ہی چلی جائے اور کہیں بھی اس میں کمی پیدا نہ ہونے پائے۔ حریص کا منتہائے مقصد یہ ہوتا ہے کہ جس طرح بن پڑے دنیا جہان کی دولت سمیٹ لے، چاہے اس کیلئے جو سا ذریعہ بھی اختیار کرنا پڑے۔ چنانچہ اسی تگ و دَو میں اپنی عمر اور قوتِ فکر و عمل کو ضائع کر دیتا ہے۔ اور چونکہ اپنی ہی سعی و کوشش پر اعتماد کرنے کا عادی ہو جاتا ہے، اس لئے خدا پر سے اُس کا اعتماد اُٹھ جاتا ہے، اور جہاں خُدا پر اعتماد ختم ہو جاتا ہے وہاں انسانی قدروں کی اہمیت بھی اس کی نظروں میں باقی نہیں رہتی۔ اسے نہ کسی کے مفاد کا لحاظ ہوتا ہے نہ کسی کے نقصان کی پروا، بلکہ دوسروں کے مفاد سے اگر تصادم ہوتا ہے تو ان کے بڑے سے بڑے نقصان کو نظرانداز کر کے اپنے تھوڑے سے فائدہ کو ترجیح دیتا ہے اور نتیجہ میں ایک ایسی خودغرضانہ ذہنیت تشکیل پا جاتی ہے جو حسد، نفرت و بدخواہی ایسے جذبات پیدا کر کے اس کی زندگی کو تلخ کر دیتی ہے۔ وہ مال کی اندھی ہوس میں دوسروں سے اُلجھتا اور ٹکراتا ہے جس سے ایک طرف معاشرہ پر بُرا اثر پڑتا ہے اور دوسری طرف وہ اس خوش نما جال سے نکلنے کے بجائے اس میں پھنستا ہی چلا جاتا ہے۔ چنانچہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے:

مَثَلُ الْحَرِيْصِ عَلَى الدُّنْيَا كَمَثَلِ دُوْدَةِ الْقَزِّ كُلَّمَا ازْدَادَتْ عَلٰى نَفْسِهَا لَفًّا كَانَ اَبْعَدَ لَهَا مِنَ الْخُرُوْجِ حَتّٰى تَمُوْتَ غَمّا.

دنیا میں حریص ریشم کے کیڑے کی مانند ہے کہ جتنا اپنے اوپر ریشم لپیٹتا جاتا ہے اتنا ہی اُس میں پھنستا چلا جاتا ہے اور نکلنا اس کیلئے دشوار ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ اسی میں گُھٹ کر مر جاتا ہے۔[۱]

اسلام نے مال کی پرستاری و سرمایہ اندوزی کے انسداد کیلئے، جمع آوری کے بجائے دولت کی تقسیم پر زیادہ زور دیا ہے اور مالی فرائض: خمس، زکوٰۃ، ردِ مظالم وغیرہ کی صورت میں عائد کر دئیے تا کہ دولت آتی بھی رہے اور بٹتی بھی رہے۔ اس طرح جمع آوری کا وہ جذبہ قہراً باقی نہیں رہتا جسے حرص سے تعبیر کیا جا سکے۔

غضب:

یہ ایک دفاعی جذبہ ہے جو انسانی فطرت میں ودیعت ہے جس سے انسان ان چیزوں کی روک تھام کرتا ہے جو اسے ناگوار معلوم دیتی ہیں یا جن سے گزند پہنچتا ہے۔ چنانچہ جب ناگواریوں سے دوچار ہوتا ہے تو اس کے غصہ کا پارہ چڑھ جاتا ہے اور قوت برداشت کم یا بالکل ختم ہو جاتی ہے۔ یہ ناگواری کی صورت اگر ایسے شخص کے مقابلہ میں ہو جو اس سے زیادہ طاقتور اور با اقتدار ہو اور اس سے انتقام لینا اس کیلئے ممکن نہ ہو تو اس سے خون کا دباؤ دل کی طرف بڑھ جاتا ہے جس سے ایک گھٹن سی محسوس کرتا ہے۔ اس انقباضی کیفیت کا نام ’’غم و حزن‘‘ ہے۔ اور اگر ایسے شخص کے مقابلہ میں ہو جو اسی کی سطح پر ہو تو اس سے انقباض و انبساط کی ایک ملی جلی کیفیت پیدا ہوتی ہے جس سے وہ تلملاتا اور پیچ و تاب کھاتا ہے اس حالت کو ’’حقد‘‘ (کینہ) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اور اگر اس شخص کے مقابلہ میں ہو جسے اپنے سے پست تر تصور کرتا ہے تو اس سے خون کھولتا اور باہر کی طرف جوش مارتا ہے جس سے گردن کی رگیں پُھول جاتی ہیں اور چہرہ اور آنکھیں سُرخ ہو جاتی ہیں۔ اس ہیجانی کیفیت کا نام ’’غضب‘‘ ہے جو بر محل اور حدّ اعتدال میں ہو تو ممدوح اور حد سے بڑھ جائے تو مذموم۔ افراط کی حالت میں پیش بینی و مآل اندیشی کے اوصاف سلب ہو جاتے ہیں، دماغی رطوبتیں خشک ہو جاتی ہیں اور ذہنی توازن برقرار نہیں رہتا۔ چنانچہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا ارشاد ہے:

اَلْحِدَّةُ ضَرْبٌ مِّنَ الْجُنُوْنِ، لِاَنَّ صَاحِبَهَا یَنْدَمُ، فَاِنْ لَّمْ یَنْدَمُ فَجُنُوْنُهٗ مُسْتَحْكَمٌ.

غصّہ ایک قسم کی دیوانگی ہے، کیونکہ غصّہ ور بعد میں پشیمان ضرور ہوتا ہے اور اگر پشیمان نہیں ہوتا تو اس کی دیوانگی پختہ ہے۔[۲]

یہ ایک ایسی بہیمانہ خصلت ہے جو انسان کو مجسم حیوان اور سراپا درندہ بنا دیتی ہے۔ چنانچہ جب آدمی کو بے تحاشا غصّہ آتا ہے تو اس کی نگاہوں میں قہر کی گھٹائیں اُمنڈ آتی ہیں، منہ سے جھاگ بہنے لگتی ہے، سانس پھول جاتی ہے، حواس منتشر اور چہرہ بھیانک ہو جاتا ہے، بھویں چڑھ جاتی ہیں، آنکھوں سے شرارے برسنے لگتے ہیں، جسم پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے، زبان سے اول فول بکتا ہے۔ ذرا تصور تو کیجئے کہ غصّہ میں اس کی ہیئت کذائی کیا سے کیا ہو جاتی ہے۔ اور اگر مدّ مقابل کو زیر نہ کر سکے تو اور عجیب و غریب قسم کی وحشیانہ حرکتیں کرتا ہے: کبھی کپڑے پھاڑتا ہے، کبھی منہ پر طمانچے مارتا ہے، بدحواسی میں ادھر سے اُدھر دوڑتا ہے، چیزیں اٹھا اٹھا کر پھینکتا اور توڑ پھوڑ کر رکھ دیتا ہے اور گالیاں دینے پر آتا ہے تو در و دیوار تک کو گالیاں دیتا ہے، اور کبھی یہ غضب انتہائی خطرناک اقدامات کو جنم دیتا ہے اور قتل تک نوبت پہنچ جاتی ہے اور اکثر و بیشتر قتل کی وارداتیں اسی غیظ و غضب کا نتیجہ ہوتی ہیں اور کبھی انتہائی طیش میں خود اس کی اپنی موت واقع ہو جاتی ہے۔ ایسے موقع پر سمجھانا بجھانا اور غصّہ کے نتائج بد سے آگاہ کرنا عموماً بے کار ثابت ہوتا ہے، بلکہ بعض اوقات الٹا اثر کرتا ہے اور سمجھانے والا خود اس کے غصّہ کی زد میں آ جاتا ہے۔ اس لئے سمجھانے بجھانے کے بجائے نفسیاتی طریقہ پر علاج کرنا چاہیے۔ چنانچہ پیغمبر اکرم ﷺ سے اس کا نفسیاتی علاج یوں وارد ہوا ہے کہ:

اگر غصّہ کی حالت میں انسان کھڑا ہو تو بیٹھ جائے، بیٹھا ہو تو ٹیک لگا لے اور ٹیک لگائے ہو تو لیٹ جائے[۳] اور ٹھنڈے پانی سے جسم کو دھوئے۔[۴]

اور امیرالمومنین علیہ السلام سے مروی ہے کہ:

غصّہ کی حالت میں ایک سے لے کر دس تک انگلیوں پر گنتی کرے۔

اس طرح جسم کو الٹنے پلٹنے اور بدن کو تر کرنے اور گنتی گننے سے طبیعت پلٹا کھائے گی اور طبیعت کے ساتھ غصّہ کا دھارا بھی مڑ جائے گا۔

حسد:

یہ بھی ایک نفسانی مرض ہے جو انسان کو گھن کی طرح اندر ہی اندر چاٹ جاتا ہے۔ حاسد اپنی خودساختہ طبیعت سے مجبور ہو کر دوسرے کی بلندی و برتری اور جاہ و اقبال کو دیکھتا ہے تو انگاروں پر لوٹتا اور پیچ و تاب کھاتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ اس کی برتری ذلّت میں اور اقبال و دولت نکبت و ادبار میں بدل جائے۔ اور اگر یہ چاہے کہ یہ عزّت و اقبال اسے بھی حاصل ہو جائے تو یہ ’’غبطہ‘‘ ہے۔ اور اگر اسے حاصل کرنے کیلئے عملاً تگ و دو بھی کرے تو یہ ’’منافسہ‘‘ ہے اور ’’غبطہ‘‘ اور ’’منافسہ‘‘ دونوں ممدوح صفتیں ہیں۔ اور حسد، پست ذہنیت و بد باطنی کی علامت ہے۔ چنانچہ پیغمبر اکرمﷺ کا ارشاد ہے کہ:

اَلْمُؤْمِنُ يَغْبِطُ وَ الْمُنَافِقَ يَحْسُدُ.

مومن غبطہ کرتا ہے اور منافق حسد کرتا ہے۔[۵]

اور ’’منافسہ‘‘ کے متعلق ارشادِ الٰہی ہے:

﴿وَفِيْ ذٰلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ۝۲۶ۭ﴾

اس کی طرف رغبت کرنے والوں کو شوق سے بڑھنا چاہیے۔[۶]

اور اگر انسان یہ سوچے کہ اس کے حسد کرنے سے دوسرے کا کچھ نہیں بگڑ سکتا اور نہ اُس کے جلنے کڑھنے سے کسی کی قدر و منزلت اور مال و دولت میں کمی واقع ہو سکتی ہے تو وہ اپنے کو حسد کی آگ میں جھونکنے سے بچا لے جا سکتا ہے۔ اور یہ سمجھ لینا کہ اس کے حسد سے دوسرے کی نعمتیں زائل ہو جائیں گی انتہائی جہالت کا نتیجہ ہے۔ اس لئے کہ اگر حسد سے نعمتیں زائل ہونے لگتیں تو پھر دنیا میں کسی کے پاس نعمت و دولت نہ رہتی، کیونکہ صاحب نعمت و ثروت دوسروں کے حسد سے بچ نہیں سکتا۔ چنانچہ پیغمبر اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:

غبطہ كُلُّ ذِیْ نِعْمَةٍ مَحْسُوْدٌ.

ہر صاحب نعمت محسود ہوتا ہے۔[۷]

اور اس سے بڑھ کر یہ جہالت ہے کہ وہ یہ سمجھے کہ اس کے حسد سے تو دوسروں کی نعمت پر اثر پڑ سکتا ہے اور کوئی اس پر حسد کرے تو اس کا بال بھی بیکا نہ ہو گا اور نہ اس کی نعمتوں پر زوال آئے گا۔

شہوت:

’’شہوت‘‘، ہوس و خواہشِ نفس کی پیروی کا نام ہے۔ خواہ اس خواہش کا تعلق شکم سے ہو یا جذبۂ نفسانی سے۔ یوں تو دونوں کشش کا مرکز اور حظ اندوزی کا سرچشمہ ہیں، مگر نفسانی جذبہ سب جذبات سے زیادہ انسان کے ذہن و عواطف کو مغلوب و متاثر کرتا ہے اور جب انسان اس میں منہمک رہنے کا خوگر ہو جاتا ہے تو پھر اس سے دست کش ہونا اس کیلئے مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک سوار ایسی تنگ گلی میں داخل ہونا چاہتا ہے جس میں سواری سمیت داخل تو ہو سکتا ہے مگر نہ آگے راستہ ہے کہ گزر سکے اور نہ سواری کے موڑنے کی کوئی جگہ ہے۔ تو اب ایک صورت تو یہ ہے کہ گلی کے باہر سواری کو کھڑا کرے اور خود اندر داخل ہو جائے اور دوسری صورت یہ ہے کہ سواری سمیت اندر داخل ہو جائے اور جب پلٹنا چاہے تو اسے باہر نکالنے کیلئے دُم سے پکڑ کر گھسیٹے اور زور لگائے۔ ظاہر ہے کہ پہلی صورت ایک آسان صورت ہے اور دوسری صورت مشکل۔ اور اگر سواری اڑیل اور منہ زور ہو تو دشواری اور بڑھ جائے گی اور اُسے نکال لے جانا طاقت و اختیار سے باہر ہو جائے گا۔

اسی طرح ابتدا میں نفس کو روکنا سہل ہوتا ہے، مگر عادی و خُوگر بنا دینے کے بعد روکنا ایسا ہی ہے جیسے اڑیل جانور کو دُم سے پکڑ کر پیچھے کی طرف گھسیٹنا۔ چنانچہ جب آدمی خُوگر ہو جاتا ہے اور ہوس پرستی کا جذبہ حد سے بڑھ جاتا ہے تو وہ حلال و حرام کا امتیاز بھی ختم کر دیتا ہے اور اس منزل پر پہنچ جاتا ہے جہاں نہ مذہبی قیود آڑے آتے ہیں اور نہ اخلاقی حدود مانع ہوتے ہیں اور وہ نفس کی ذرا سی تحریک پر خواہشات کے بہاؤ میں بہتا ہوا چلا جاتا ہے۔ کسی کو خوف و خطر، شرم و حیا اور تحفظ صحت کا خصوصی خیال مانع ہو تو ہو، ورنہ عموماً یہ مرحلہ انتہائی شکیب آزما ہوتا ہے اور انسان حُسن کی مسکراہٹوں اور جوانی کی انگڑائیوں میں کھو جاتا ہے اور اپنی سیرت کو داغدار بنا لیتا ہے اور جو نفس کی منہ زوری اور خواہش کی طغیانی پر قابو پا کر اپنے کردار پر دھبہ نہیں آنے دیتا اور اپنا دامن بچا لے جاتا ہے وہ ایک شہید راہِ خدا سے بھی بڑھ کر اجر و ثواب کا مستحق ہوتا ہے۔ چنانچہ امیر المومنین علیہ الصلوٰۃ و السلام کا ارشاد ہے:

مَا الْـمُجَاهِدُ الشَّهِیْدُ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ بِاَعْظَمَ اَجْرًا مِّمَّنْ قَدَرَ فَعَفَّ، لَكَادَ الْعَفِیْفُ اَنْ یَّكُوْنَ مَلَكًا مِّنَ الْمَلٰٓئِكَةِ.

وہ مجاہد جو خدا کی راہ میں شہید ہو اس شخص سے زیادہ اجر کا مستحق نہیں ہے جو قدرت و اختیار رکھتے ہوئے پاک دامن رہے۔ کیا بعید ہے کہ پاک دامن فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہو جائے۔[۸]

ان نفسانی جذبات کی اشتعال انگیزی کا سرچشمہ نگاہوں کا تصادم اور ان کا بے باکانہ ٹکراؤ ہے۔ چنانچہ ارشاد نبوی ﷺ ہے:

اَلنَّظِرَةُ سَهْمٌ مَّسْمُوْمٌ.

نظر، زہر میں بجھا ہوا ایک تیر ہے۔[۹]

چنانچہ جس طرح سم آلودہ تیر کے زہر کا اثر جسم کے تمام رگ و پے میں سرایت کر جاتا ہے اور صرف تیر خوردہ مقام ہی متاثر نہیں ہوتا، اسی طرح نگاہوں کا تبادلہ فکر و خیال اور جذبات و حسیات کو متاثر کرتا ہوا اپنی خمار آگیں کیفیتوں سے عقل و خرد پر چھا جاتا ہے۔ اسی کی میر تقی میر نے (یوں) ترجمانی کی ہے:

میرؔ ان نیم باز آنکھوں میں

ساری مستی شراب کی سی ہے

اس لئے نظر کے مسموم اثرات سے بچنے کیلئے نگاہوں کا احتساب ضروری ہے اور اس میں سہل انگاری سے کام لینا ایک طرح سے مفاسد کو دعوت دینا ہے۔ اور وہ مفاسد کیا ہیں؟ انہیں ایک مصری شاعر نے انتہائی اختصار کے ساتھ ایک طبعی ترتیب سے اس شعر میں جمع کر دیا ہے جس میں شاعری کے حُسن کے ساتھ حقیقت کی رعنائی بھی جلوہ گر ہے:

نَظْرَةٌ فَابْتِسَامَۃٌ فَسَلَامٌ

فَکَلَامٌ فَمَوْعِدٌ فَلِقَآءٌ

’’پہلے ناوک نگاہ، پھر دلفریب مسکراہٹ، پھر سلامِ شوق، پھر باہمی گفتگو، پھر ایفائے عہد کے تحت ملاقات‘‘۔

بہر حال حرص، غضب، حسد اور ہوائے نفس کے علاوہ جن دوسرے رذائل و اخلاقی معائب کا اس دُعا میں ذکر ہے ان کا سرچشمہ انہی چاروں عیوب میں سے کسی ایک نہ ایک کو سمجھنا چاہیے۔ چنانچہ:

بے جا تگ و دو، عدم قناعت،بےصبری اور طولِ امل حرص کی پیداوار ہیں۔

اور جن رذائل میں تفوق و سربلندی کا شائبہ ہے، جیسے: خود پسندی، حمیتِ جاہلیت، کج اخلاقی، غرورِ اطاعت، احسان ناشناسی، فخر و مباہات، غریبوں کی تحقیر و تذلیل، زیردستوں پر ظلم و تعدّی، یہ سب غضب کا شاخسانہ ہیں۔ اس لئے کہ غضب کا تجزیہ کیا جائے تو اس کا اصلی سبب کبر و احساس برتری ہی نظر آئے گا۔ اور اسی بنا پر غضب کا مظاہرہ ہمیشہ اس کے مقابلہ میں کیا جاتا ہے جسے اپنے سے پست تر تصور کیا جاتا ہے۔ اور یہ تفوق و سربلندی کا جذبہ اس آتشی کیفیت کا نتیجہ ہے جو غضب میں کارفرما ہوتی ہے۔ چنانچہ حدیث میں وارد ہوا ہے کہ:

اِنَّ الْغَضَبَ جَمْرَةٌ فِیْ قَلْبِ ابْنِ اٰدَمَ.

غضب اولادِ آدم کے دل میں چنگاری کی صورت میں دہکتا ہے۔[۱۰]

اور آگ طبعاً بلندی کی طرف مائل ہوتی ہے، چنانچہ اسی مادۂ ناری کی وجہ سے شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام کے مقابلہ میں غرور اور سربلندی کا مظاہرہ کیا جیسا کہ امیر المومنین علیہ السلام کا ارشاد ہے:

فَافْتَخَرَ عَلٰۤی اٰدَمَ بِخَلْقِهٖ، وَ تَعَصَّبَ عَلَیْهِ لِاَصْلِهٖ.

اس نے اپنے مادۂ تخلیق کی بنا پر آدم علیہ السلام کے مقابلہ میں گھمنڈ کیا اور اپنی اصل کے لحاظ سے ان کے سامنے اکڑ گیا۔[۱۱]

اور خبثِ باطن، غش و فریب اور شماتت، حسد کا کرشمہ ہیں۔

اور فضول خرچی، غفلت و بے اعتنائی، حق و ہدایت سے بے رُخی اور چھوٹے گناہوں کو حقیر سمجھنا یہ سب ہوائے نفس کی کارفرمائی کا نتیجہ ہیں۔

ان تمام معائب و معاصی میں اطاعت پر غرور اور چھوٹے گناہوں کو حقیر تصور کرنا سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ اس لحاظ سے کہ غرورِ اطاعت کو عیب ہی تصور نہیں کیا جا تا کہ اس جذبہ کو ختم کرنے کی ضرورت محسوس کی جائے۔ حالانکہ اطاعت پر غرور و افتخار کرنے اور اسے غیر معمولی اہمیت دینے سے عجز و خلوص کی روح ختم ہو جاتی ہے اور اطاعت، اطاعت ہی نہیں رہتی کہ اُسے سرمایۂ نازش سمجھ لیا جائے۔ کیونکہ روحِ بندگی تو یہ ہے کہ اللہ کے حضور عجز و تقصیر کا اعتراف، اپنی کوتاہی و بے بضاعتی کا اقرار اور اس کے جنبۂ اُلوہیت کے مقابلہ میں بڑی سے بڑی عبادت کو بھی حقیر و پست تصور کیا جائے۔

اور چھوٹے گناہوں کو حقیر اور غیر اہم سمجھنا دو لحاظ سے خطرناک ہے:

ایک تو یہ کہ یہی چھوٹے گناہ بڑے گناہوں کا پیش خیمہ ہوتے ہیں۔ مثلاً زنا گناہِ کبیرہ ہے مگر اس کا ارتکاب براہِ راست کم ہی ہوتا ہے۔ بلکہ نظر، لمس وغیرہ جذبات میں تحریک پیدا کر کے اس منزل تک لے آتے ہیں۔ اس لئے نبض شناس فطرت نے گڑھے میں گرنے سے روکنے کیلئے اس کے اردگرد چکر کاٹنے سے بھی منع کر دیا۔ کیونکہ جو آس پاس رہتا ہے وہی گرتا ہے اور جو اس سے دُور رہتا ہے اس کے گرنے کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ چنانچہ کبیرہ گناہ میں وہی مبتلا ہوتا ہے جس کیلئے صغیرہ گناہ راستہ ہموار کر تے، قدم بقدم چلاتے اور ہمت بڑھاتے اس مقام پر لا کھڑا کرتے ہیں جہاں گناہ کبیرہ اپنی مقناطیسی کشش سے جذب کر لیتا ہے اور انسان بے اختیار اس کی طرف کھنچ جاتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ صغیرہ گناہ سے بچا جائے تا کہ کبیرہ کی نوبت ہی نہ آئے۔

سرچشمه شايد گرفتن به بيل

چو پر شد نشايد گذشتن به پيل

اور دوسرے یہ کہ یہی صغیرہ اصرار سے کبیرہ ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ پیغمبر اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:

لَا صَغِيْرَةَ مَعَ الْاِصْرَارِ وَ لَا كَبِيْرَةَ مَعَ الِاسْتِغْفَارِ.

اگر صغیرہ پر اصرار ہو تو وہ صغیرہ نہیں رہتا اور کبیرہ کے ساتھ توبہ و استغفار ہو تو وہ کبیرہ نہیں رہتا۔[۱۲]

مقصد یہ ہے کہ اگر گناہ کبیرہ کے بعد صدق دل سے توبہ کر لی جائے تو خدا اس گناہ کو بخش دیتا ہے جس کے بعد وہ گناہ ہی نہیں رہتا چہ جائیکہ کبیرہ۔ اور صغیرہ کا اگر بار بار ارتکاب ہوتا رہے تو وہ سنگینی میں کبیرہ کے ہم وزن ہو جاتا ہے اور چونکہ اس کےہلاکت آفرین پہلو پر نظر نہیں کی جاتی اور اس سے توبہ کرنے میں سہل انگاری سے کام لیا جاتا ہے اس لئے توبہ کے بعد گناہ کبیرہ اتنا ہلاکت آفرین نہیں ہوتا جتنا صغیرہ پر اصرار مہلک ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ اگر کسی پتھر پر قطرہ قطرہ کر کے پانی ٹپکتا رہے تو اس سے پتھر پر نشان سا پڑ جاتا ہے اور اگر انہی قطروں کے مجموعی وزن کے برابر ایک دم اس پر پانی انڈیل دیا جائے تواس سے نہ پتھر پر کچھ اثر ہوتا ہے اور نہ کوئی نشان اُبھرتا ہے۔ اسی طرح اگر صغیرہ گناہ کا سلسلہ مسلسل جاری رہے تو وہ اپنا دیرپا اثر چھوڑ جاتا ہے اور کبیرہ گناہ کی ہلاکت آفرینی توبہ سے ختم ہو جاتی ہے۔

بہرحال وہ معائب جو بنیادی حیثیت رکھتے ہوں یا وہ جو اِن سے جنم لیتے ہوں سب ایسے ہیں جن سے نگہداشت ہی سے انسانیت کا جوہر باقی رہ سکتا ہے۔ چنانچہ امام علیہ السلام دوسروں کو ان عیوب کے عیوب ہونے سے آگاہ کرنے اور اُن سے دامن بچانے کی تعلیم دینے کیلئے ان رذائل سے یکسر پاک ہونےکے باوجود اللہ سے دُعا کرتے ہیں کہ وہ ان سے بچنے کی توفیق شاملِ حال رکھے۔ اور یہ خاصانِ خدا اور رہبر انِ حقیقی کا شیوہ ہے کہ وہ زیورِ کمال سے آراستہ ہونے کے باوجود کمالِ اُلوہیت کے آگے اپنے نقص کا اقرار اور پاکیزگیِ نفس کے ہر گوشے کی تکمیل کے بعد اس کے مقامِ تقدیس کے سامنے عجز و تقصیر کا اعتراف کرتے ہیں، تا کہ ہدایت کا فریضہ بھی ادا ہوتا رہے اور عبودیت کا حُسن بھی نکھرتا رہے۔ ورنہ اس قسم کے عیوب نہ اُن کے منصب کے لحاظ سے درست اور نہ اُن کے مزاجِ امامت سے سازگار ہو سکتے ہیں۔

چنانچہ جب ابن عمیر سے ہشام ابن حَکم نے عصمت آئمہؑ کی دلیل طلب کی تو انہوں نے کہا کہ تمام گناہوں کے محرک حرص، غضب، حسد اور شہوت کے جذبات ہوتے ہیں اور دوسرے تمام گناہ انہی کی پیداوار ہیں۔ تو جب یہ ثابت کر دیا جائے کہ ان میں سے کسی چیز کا وجود امامؑ میں نہیں پایا جا سکتا تو عصمت اپنے مقام پر ثابت ہو جائے گی۔

چنانچہ حرص اس لئے نہیں ہو سکتی کہ وہ ایسے خزانوں کے مالک ہوتے ہیں جن کے سامنے فرمانرواؤں کے خزانے ہیچ ہوتے ہیں، جس کے بعد ان سے حرص و طمع کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اس سلسلہ میں یہ واقعہ شاہد ہے کہ: عبد الملک جب حج کیلئے آیا تو اس نے امام زین العابدین علیہ السلام کو یاد کیا۔ جب حضرتؑ اس کے ہاں گئے تو اس نے کہا کہ آپؑ گاہے بگاہے ملتے رہا کیجئے تا کہ اس کے ذریعہ سے آپؑ کی دنیوی ضرورتیں پوری ہوتی رہیں۔ آپؑ نے یہ سن کر دوش پر سے عبا اُتاری اور اُسے زمین پر بچھا دیا اور کچھ ریت جمع کر کے اُس پر ڈال دی۔ عبد الملک نے دیکھا کہ وہ ریت کے ذرّے جواہرات کی صورت میں چمک رہے ہیں۔ امامؑ نے فرمایا کہ: جسے اللہ کی طرف سے یہ دولت نصیب ہو وہ دنیا کیلئے کسی آستانے پر نہیں جھک سکتا، جس کے بعد عبد الملک خود اپنی پیشکش پر شرمسار ہوا۔

اور غضب اس لئے نہیں ہوتا کہ امامؑ کے فرائض میں سے یہ ہے کہ وہ حق و انصاف کے ساتھ باہمی قضیوں کا تصفیہ کرے، حدود شرعیہ کو نافذ کرے۔ تو اگر وہ اپنے ذاتی غضب سے متاثر ہو گا تو اس سے عدل و انصاف کے قائم کرنے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اس لئے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے ذاتی غضب سے مشتعل ہو کر کوئی بے جا اقدام کر بیٹھے۔ اس لئے امامؑ کا غضب کسی ذاتی جذبہ کے زیرِ اثر نہیں ہوتا، بلکہ جہاں غضب کا مظاہرہ ہوتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی رضامندی ہی پیش نظر ہوتی ہے۔ چنانچہ اس کا شاہد یہ واقعہ ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے میدانِ جنگ میں ایک دشمن کو زمین پر گرا دیا اور اُس کے سینہ پر سوار ہو گئے۔ اُس نے طیش میں آپؑ کے چہرے پر تھوک دیا۔ آپؑ فوراً اُس کے سینہ سے اُتر آئے۔ جب وجہ پوچھی گئی تو فرمایا کہ: میں کسی مرحلہ پر بھی ذاتی غضب کو کار فرما کرنا نہیں چاہتا۔

اور حسد اس لئے نہیں ہوتا کہ حسد کا محل وہ ہے جہاں فریق مخالف اپنے سے بلند مرتبہ کا حامل ہو۔ لہٰذا امیر غریب پر، عالم جاہل پر، قوی کمزور پر اور بلند مرتبہ پست درجہ والے پر حسد نہیں کرے گا۔ تو اس اصول سے امامؑ اُسی پر حسد کرے گا جو اس سے بلند درجہ کا مالک ہو۔ اور جب امامت سے بلند تر دوسرا منصب نہیں ہے تو اس منصب پر فائز ہونے والا کس پر حسد کرے گا ؟ اور منصب امامت کی رفعت کا ثبوت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی امامت کا اعلان ﴿ اِنِّىْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا﴾ [۱۳] کے ذریعہ اس وقت کیا جاتا ہے جب وہ نبوت و رسالت کے منصب پر فائز ہو چکے تھے تو جو منصب نبوت و رسالت اور خصوصی امتحان کی کامیابی کے بعد حاصل ہوا ہو اس کی رفعت سے کون انکار کر سکتا ہے۔ لہٰذا اس بلند منزل پر فائز ہونے والا محسود ہو سکتا ہے مگر حاسد نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ ارشادِ الہٰی:

﴿اَمْ يَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰي مَآ اٰتٰىھُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ۝۰ۚ﴾ [۱۴]:

’’یا ان لوگوں پر حسد کرتے ہیں اس نعمت پر جو خدا نے ان کو اپنے فضل سے عطا کی ہے‘‘ کے ذیل میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

نَحْنُ وَ اللّٰهِ الْمَحْسُوْدُوْنَ.

خدا کی قسم! ہم ہی وہ ہیں جن پر حسد کیا گیا۔[۱۵]

اور ہوائے نفس کی چیرہ دستیوں سے اس لئے مغلوب نہیں ہوتا کہ یہ ایک فطری چیز ہے کہ پھولوں کو چھوڑ کر کانٹوں کیلئے دامن میں جگہ پیدا نہیں کی جاتی اور کوّے کی کائیں کائیں کی خاطر گلبانگ ہزار سے کان بند نہیں کئے جاتے۔ تو جس کی نگاہوں کے سامنے جنّت کے دلفریب نظارے اور حسین پیکروں کے محجوب اشارے ہوں وہ حُسنِ دنیا پر وارفتہ اور نفس کی ترغیب سے متاثر نہیں ہوتا۔ چنانچہ یہ واقعہ اس کا شاہد ہے کہ ہارون رشید نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو متہم کرنے کیلئے ان کے زمانۂ اسیری میں ایک کنیز کو ان کے پاس بھیجنے کا ارادہ کیا۔ مقصد یہ تھا کہ امامؑ پر الزام عائد کر کے ان کے قتل کا جواز پیدا کرے۔ امام علیہ السلام کو جب معلوم ہوا تو آپؑ نے فرمایا: «لَا حَاجَةَ لِیْۤ اِلٰی ذٰلِكَ« : ’’مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے‘‘، مگر اُسے تو بہرصورت بھیجنا تھا وہ بھیج دی گئی۔ اور پھر عصر کے وقت ایک شخص کو ٹوہ لگانے کیلئے تعاقب میں روانہ کیا۔ جب وہ زندان میں پہنچا تو دیکھا کہ کنیز سجدہ میں پڑی ہے۔ اس نے پلٹ کر ہارون رشید کو اس کی اطلاع دی۔ ہارون نے اس کنیز کو طلب کیا اور سجدہ کی وجہ دریافت کی۔ اس نے کہا کہ جب میں اُن کی خدمت میں حاضر ہوئی تو دیکھا کہ وہ مصروفِ نماز ہیں۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے کہا کہ مجھے آپؑ کی خدمت میں بھیجا گیا ہے۔ یہ سن کر آپؑ نے ایک طرف ہاتھ کا اشارہ کیا۔ میں نے اُدھر دیکھا تو ایک عجیب منظر تھا۔ پھلوں سے لدے پھدے درختوں کے جھنڈ، بلند و بالا عمارتیں اور اُن میں ایسی تابناک صورتیں کہ میری نگاہیں خیرہ ہو گئیں۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ: ’’اے کنیز! تو کیا خدمت کرے گی، ہم مدت سے منتظر ہیں کہ یہ عبد صالح ہمیں کوئی حکم دے تو ہم اُسے بجا لائیں‘‘۔ یہ دیکھ کر مجھ پر ایک ایسی دہشت سی طاری ہو گئی اور میں بے اختیار سجدہ میں گر پڑی۔ یہاں تک کہ آپ کا آدمی آیا اور مجھے یہاں لے آیا۔

[٭٭٭٭٭]

[۱]۔ الکافی، ج۲، ص ۱۳۴

[۲]۔ نہج البلاغہ، حکمت ۲۵۵

[۳]۔ اِذا غضِب احدُکُمْ وھو قائم فلیجلس فإن ذھب عنہ الغضب وإلا فلیضطجع۔ (تفسیر ابن کثیر، ج ۲، ص ۱۲۰)

[۴]۔ إن الغضب من الشیطان، وإن الشیطان خلق من النار، وإنما تطفأ النار بالماء، فإذا غضب أحدکم فلیتوضأ (تفسیر ابن کثیر، ج ۲، ص ۱۲۱)

[۵]۔ کشف الریبۃ، ص ۵۷

[۶]۔ سورۂ مطففین، آیت ۲۶

[۷]۔ تحف العقول، ص ۸

[۸]۔ نہج البلاغہ، حکمت نمبر ۴۷۴

[۹]۔ مستدرک الوسائل، ج ۱۴، ص ۲۶۸

[۱۰]۔ ریاض السالکین، ج ۲، ص ۳۳۶

[۱۱]۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ۱۹۰

[۱۲]۔ الکافی، ج۲، ص ۲۸۸

[۱۳]۔ سورۂ بقرہ، آیت ۱۲۴

[۱۴]۔ سورۂ نساء، آیت ۵۴

[۱۵]۔ بصائر الدرجات، ج۱، ص ۳۶

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button