صحیفہ کاملہ

37۔ ادائے شکر میں کوتاہی کی دعا

(۳۷) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ

اِذَا اعْتَرَفَ بِالتَّقْصِیْرِ عَنْ تَاْدِیَةِ الشُّكْرِ

جب ادائے شکر میں کوتاہی کا اعتراف کرتے تو یہ دُعا پڑھتے:

اَللّٰهُمَّ اِنَّ اَحَدًا لَّا یَبْلُغُ مِنْ شُكْرِكَ غَایَةً اِلَّا حَصَلَ عَلَیْهِ مِنْ اِحْسَانِكَ مَا یُلْزِمُهٗ شُكْرًا، وَ لَا یَبْلُغُ مَبْلَغًا مِّنْ طَاعَتِكَ، وَ اِنِ اجْتَهَدَ اِلَّا كَانَ مُقَصِّرًا دُوْنَ اسْتِحْقَاقِكَ بِفَضْلِكَ، فَاَشْكَرُ عِبَادِكَ عَاجِزٌ عَنْ شُكْرِكَ، وَ اَعْبَدُهُمْ مُقَصِّرٌ عَنْ طَاعَتِكَ، لَا یَجِبُ لِاَحَدٍ اَنْ تَغْفِرَ لَهٗ بِاسْتِحْقَاقِهٖ، وَ لَاۤ اَنْ تَرْضٰى عَنْهُ بِاسْتِیْجَابِهٖ، فَمَنْ غَفَرْتَ لَهٗ فَبِطَوْلِكَ، وَ مَنْ رَّضِیْتَ عَنْهُ فَبِفَضْلِكَ.

بارالٰہا! کوئی شخص تیرے شکر کی کسی منزل تک نہیں پہنچتا مگر یہ کہ تیرے اتنے احسانات مجتمع ہو جاتے ہیں کہ وہ اس پر مزید شکریہ لازم و واجب کر دیتے ہیں، اور کوئی شخص تیری اطاعت کے کسی درجہ پر چاہے وہ کتنی ہی سرگرمی دکھائے نہیں پہنچ سکتا، اور تیرے اس استحقاق کے مقابلہ میں جو بر بنائے فضل و احسان ہے قاصر ہی رہتا ہے۔ جب یہ صورت ہے تو تیرے سب سے زیادہ شکر گزار بندے بھی ادائے شکر سے عاجز اور سب سے زیادہ عبادت گزار بھی درماندہ ثابت ہوں گے، کوئی استحقاق ہی نہیں رکھتا کہ تو اس کے استحقاق کی بنا پر بخش دے، یا اس کے حق کی وجہ سے اس سے خوش ہو۔ جسے تو نے بخش دیا تو یہ تیرا انعام ہے، اور جس سے تو راضی ہو گیا تو یہ تیرا تفضل ہے۔

تَشْكُرُ یَسِیْرَ مَا شَكَرْتَهٗ، وَ تُثِیْبُ عَلٰى قَلِیْلِ مَا تُطَاعُ فِیْهِ، حَتّٰى كَاَنَّ شُكْرَ عِبَادِكَ الَّذِیْۤ اَوْجَبْتَ عَلَیْهِ ثَوَابَهُمْ، وَ اَعْظَمْتَ عَنْهُ جَزَآءَهُمْ اَمْرٌ مَّلَكُوا اسْتِطَاعَةَ الْاِمْتِنَاعِ مِنْهُ دُوْنَكَ فَكَافَیْتَهُمْ، اَوْ لَمْ یَكُنْ سَبَبُهٗ بِیَدِكَ فَجَازَیْتَهُمْ، بَلْ مَلَكْتَ- یَاۤ اِلٰهِیْۤ- اَمْرَهُمْ قَبْلَ اَنْ یَّمْلِكُوْا عِبَادَتَكَ، وَ اَعْدَدْتَّ ثَوَابَهُمْ قَبْلَ اَنْ یُّفِیْضُوْا فِیْ طَاعَتِكَ، وَ ذٰلِكَ اَنَّ سُنَّتَكَ الْاِفْضَالُ، وَ عَادَتَكَ الْاِحْسَانُ، وَ سَبِیْلَكَ الْعَفْوُ.

جس عمل قلیل کو تو قبول فرماتا ہے اس کی جزا فراواں دیتا ہے، اور مختصر عبادت پر بھی ثواب مرحمت فرماتا ہے، یہاں تک کہ گویا بندوں کا وہ شکر بجا لانا جس کے مقابلہ میں تو نے اجر و ثواب کو ضروری قرارد یا اور جس کے عوض ان کو اجر عظیم عطاکیا، ایک ایسی بات تھی کہ اس شکر سے دست بردار ہونا ان کے اختیار میں تھا تو اس لحاظ سے تو نے اجر دیا (کہ انہوں نے باختیارِ خود شکر ادا کیا) یا یہ کہ ادائے شکر کے اسباب تیرے قبضۂ قدرت میں نہ تھے (اور انہوں نے خود اسباب شکر مہیا کئے) جس پر تو نے انہیں جزا مرحمت فرمائی (ایسا تو نہیں ہے)، بلکہ اے میرے معبود! تو ان کے جملہ امور کا مالک تھا، قبل اس کے کہ وہ تیری عبادت پر قادر و توانا ہوں، اور تو نے ان کیلئے اجر و ثواب کو مہیا کر دیا تھا قبل اس کے کہ وہ تیری اطاعت میں داخل ہوں، اور یہ اس لئے کہ تیرا طریقہ انعام و اکرام، تیری عادت تفضل و احسان اور تیری روش عفو و درگزر ہے۔

فَكُلُّ الْبَرِیَّةِ مُعْتَرِفَةٌ بِاَنَّكَ غَیْرُ ظَالِمٍ لِّمَنْ عَاقَبْتَ، وَ شَاهِدَةٌ بِاَنَّكَ مُتَفَضِّلٌ عَلٰى مَنْ عَافَیْتَ، وَ كُلٌّ مُقِرٌّ عَلٰى نَفْسِهٖ بِالتَّقْصِیْرِ عَمَّا اسْتَوْجَبْتَ، فَلَوْ لَاۤ اَنَّ الشَّیْطٰنَ یَخْتَدِعُهُمْ عَنْ طَاعَتِكَ مَا عَصَاكَ عَاصٍ، وَ لَوْ لَاۤ اَنَّهٗ صَوَّرَ لَهُمُ الْبَاطِلَ فِیْ مِثَالِ الْحَقِّ مَا ضَلَّ عَنْ طَرِیْقِكَ ضَالٌّ.

چنانچہ تمام کائنات اس کی معترف ہے کہ تو جس پر عذاب کرے اس پر کوئی ظلم نہیں کرتا، اور گواہ ہے اس بات کی کہ جس کو تو معاف کر دے اس پر تفضل و احسان کرتا ہے، اور ہر شخص اقرار کرے گا اپنے نفس کی کوتاہی کا اس (اطاعت) کے بجا لانے میں جس کا تو مستحق ہے، اگر شیطان انہیں تیری عبادت سے نہ بہکاتا تو پھر کوئی شخص تیری نافرمانی نہ کرتا، اور اگر باطل کو حق کے لباس میں ان کے سامنے پیش نہ کرتا تو تیرے راستہ سے کوئی گمراہ نہ ہوتا۔

فَسُبْحَانَكَ! مَاۤ اَبْیَنَ كَرَمَكَ فِیْ مُعَامَلَةِ مَنْ اَطَاعَكَ اَوْ عَصَاكَ: تَشْكُرُ لِلْمُطِیْعِ مَاۤ اَنْتَ تَوَلَّیْتَهٗ لَهٗ، وَ تُمْلِیْ لِلْعَاصِیْ فِیْمَا تَمْلِكُ مُعَاجَلَتَهٗ فِیْهِ، اَعْطَیْتَ كُلًّا مِّنْهُمَا مَا لَمْ یَجِبْ لَهٗ، وَ تَفَضَّلْتَ عَلٰى كُلٍّ مِّنْهُمَا بِمَا یَقْصُرُ عَمَلُهٗ عَنْهُ. وَ لَوْ كَافَاْتَ الْمُطِیْعَ عَلٰى مَاۤ اَنْتَ تَوَلَّیْتَهٗ، لَاَوْشَكَ اَنْ یَّفْقِدَ ثَوَابَكَ، وَ اَنْ تَزُوْلَ عَنْهُ نِعْمَتُكَ، وَ لٰكِنَّكَ بِكَرَمِكَ جَازَیْتَهٗ عَلَى الْمُدَّةِ الْقَصِیْرَةِ الْفَانِیَةِ بِالْمُدَّةِ الطَّوِیْلَةِ الْخَالِدَةِ، وَ عَلَى الْغَایَةِ الْقَرِیْبَةِ الزَّآئِلَةِ بِالْغَایَةِ الْمَدِیْدَةِ الْبَاقِیَةِ.

پاک ہے تیری ذات! تیرا لطف و کرم، فرمانبردار ہو یا گنہگار، ہر ایک کے معاملہ میں کس قدر آشکارا ہے، یوں کہ اطاعت گزار کو اس عمل خیر پر جس کے اسباب تو نے خود فراہم کئے ہیں جزا دیتا ہے اور گنہگار کو فوری سزا دینے کا اختیار رکھتے ہوئے پھر مہلت دیتا ہے، تو نے فرمانبردار و نافرمان دونوں کو وہ چیزیں دی ہیں جن کا انہیں استحقاق نہ تھا، اور ان میں سے ہر ایک پر تو نے وہ فضل و احسان کیا ہے جس کے مقابلہ میں ان کا عمل بہت کم تھا، اور اگر تو اطاعت گزار کو صرف ان اعمال پر جن کا سر و سامان تو نے مہیا کیا ہے جزا دیتا تو قریب تھا کہ وہ ثواب کو اپنے ہاتھ سے کھو دیتا اور تیری نعمتیں اس سے زائل ہو جاتیں، لیکن تو نے اپنے جود و کرم سے فانی و کوتاہ مدت کے اعمال کے عوض طولانی و جاویدانی مدت کا اجر و ثواب بخشا اور قلیل و زوال پذیر اعمال کے مقابلہ میں دائمی و سرمدی جزا مرحمت فرمائی۔

ثُمَّ لَمْ تَسُمْهُ الْقِصَاصَ فِیْمَاۤ اَکَـلَ مِنْ رِّزْقِكَ الَّذِیْ یَقْوٰى بِهٖ عَلٰى طَاعَتِكَ، وَ لَمْ تَحْمِلْهُ عَلَى الْمُنَاقَشَاتِ فِی الْاٰلَاتِ الَّتِیْ تَسَبَّبَ بِاسْتِعْمَالِهَاۤ اِلٰى مَغْفِرَتِكَ، وَ لَوْ فَعَلْتَ ذٰلِكَ بِهٖ لَذَهَبَ بِجَمِیْعِ مَا كَدَحَ لَهٗ، وَ جُمْلَةِ مَا سَعٰى فِیْهِ جَزَآءً لِّلصُّغْرٰى مِنْ اَیَادِیْكَ وَ مِنَنِكَ، وَ لَبَقِیَ رَهِیْنًا بَیْنَ یَدَیْكَ بِسَآئِرِ نِعَمِكَ، فَمَتٰى كَانَ یَسْتَحِقُّ شَیْئًا مِّنْ ثَوَابِكَ لَا! مَتٰى!.

پھر یہ کہ تیرے خوان نعمت سے جو رزق کھا کر اس نے تیری اطاعت پر قوت حاصل کی اس کا کوئی عوض تو نے نہیں چاہا، اور جن اعضاء و جوارح سے کام لے کر تیری مغفرت تک راہ پیدا کی اس کا سختی سے کوئی محاسبہ نہیں کیا، اور اگر تو ایسا کرتا تو اس کی تمام محنتوں کا حاصل اور سب کوششوں کا نتیجہ تیری نعمتوں اور احسانوں میں سے ایک ادنیٰ و معمولی قسم کی نعمت کے مقابلہ میں ختم ہو جاتا، اور بقیہ نعمتوں کیلئے تیری بارگاہ میں گروی ہو کر رہ جاتا ( یعنی اس کے پاس کچھ نہ ہوتا کہ اپنے کو چھڑاتا)، تو ایسی صورت میں وہ کہاں تیرے کسی ثواب کا مستحق ہو سکتا تھا؟ نہیں! وہ کب مستحق ہو سکتا تھا؟۔

هٰذَا- یَاۤ اِلٰهِیْ- حَالُ مَنْ اَطَاعَكَ، وَ سَبِیْلُ مَنْ تَعَبَّدَ لَكَ، فَاَمَّا الْعَاصِیْۤ اَمْرَكَ وَ الْمُوَاقِعُ نَهْیَكَ، فَلَمْ تُعَاجِلْهُ بِنَقِمَتِكَ لِكَیْ یَسْتَبْدِلَ بِحَالِهٖ فِیْ مَعْصِیَتِكَ حَالَ الْاِنَابَةِ اِلٰى طَاعَتِكَ، وَ لَقَدْ كَانَ یَسْتَحِقُّ فِیْۤ اَوَّلِ مَا هَمَّ بِعِصْیَانِكَ كُلَّ مَاۤ اَعْدَدْتَّ لِجَمِیْعِ خَلْقِكَ مِنْ عُقُوْبَتِكَ، فَجَمِیْعُ مَاۤ اَخَّرْتَ عَنْهُ مِنَ الْعَذَابِ وَ اَبْطَاْتَ بِهٖ عَلَیْهِ مِنْ سَطَوَاتِ النَّقِمَةِ وَ الْعِقَابِ تَرْكٌ مِنْ حَقِّكَ، وَ رِضًى بِدُوْنِ وَاجِبِكَ.‏

اے میرے معبود! یہ تو تیری اطاعت کرنے والے کا حال اور تیری عبادت کرنے والے کی سرگزشت ہے، اور وہ جس نے تیرے احکام کی خلاف ورزی کی اور تیرے منہیات کا مرتکب ہوا اسے بھی سزا دینے میں تو نے جلدی نہیں کی، تاکہ وہ معصیت و نافرمانی کی حالت کو چھوڑ کر تیری اطاعت کی طرف رجوع ہو سکے۔ سچ تو یہ ہے کہ جب پہلے پہل اس نے تیری نافرمانی کا قصد کیا تھا جب ہی وہ ہر اس سزا کا جسے تو نے تمام خلق کیلئے مہیا کیا ہے مستحق ہو چکا تھا، تو ہر وہ عذاب جسے تو نے اس سے روک لیا اور سزا و عقوبت کا ہر وہ جملہ جو اس سے تاخیر میں ڈال دیا، یہ تیرا اپنے حق سے چشم پوشی کرنا اور استحقاق سے کم پر راضی ہونا ہے۔

فَمَنْ اَكْرَمُ- مِنْكَ یَاۤ اِلٰهِیْ-؟ وَ مَنْ اَشْقٰى مِمَّنْ هَلَكَ عَلَیْكَ؟ لَا، مَنْ؟ فَتَبَارَكْتَ اَنْ تُوْصَفَ اِلَّا بِالْاِحْسَانِ، وَ كَرُمْتَ اَنْ یُّخَافَ مِنْكَ اِلَّا الْعَدْلُ، لَا یُخْشٰى جَوْرُكَ عَلٰى مَنْ عَصَاكَ، وَ لَا یُخَافُ اِغْفَالُكَ ثَوَابَ مَنْ اَرْضَاكَ.

اے میرے معبود! ایسی حالت میں تجھ سے بڑھ کے کون کریم ہو سکتا ہے؟ اور اس سے بڑھ کے جو تیری مرضی کے خلاف تباہ و برباد ہو، کون بدبخت ہو سکتا ہے؟ نہیں! کون ہے جو اس سے زیادہ بدبخت ہو؟ تو مبارک ہے کہ تیری توصیف لطف و احسان ہی کے ساتھ ہو سکتی ہے، اور تو بلند تر ہے اس سے کہ تجھ سے عدل و انصاف کے خلاف کا اندیشہ ہو، جو شخص تیری نافرمانی کرے تجھ سے یہ اندیشہ ہو ہی نہیں سکتا کہ تو اس پر ظلم و جور کرے گا، اور نہ اس شخص کے بارے میں جو تیری رضا و خوشنودی کو ملحوظ رکھے تجھ سے حق تلفی کا خوف ہو سکتا ہے۔

فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ هَبْ لِیْۤ اَمَلِیْ، وَ زِدْنِیْ مِنْ هُدَاكَ مَاۤ اَصِلُ بِهٖ اِلَى التَّوْفِیْقِ فِیْ عَمَلِیْ، اِنَّكَ مَنَّانٌ كَرِیْمٌ.

تو محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور میری آرزوؤں کو برلا، اور میرے لئے ہدایت اور رہنمائی میں اتنا اضافہ فرما کہ میں اپنے کاموں میں توفیق سے ہمکنار رہوں۔ اس لئے کہ تو نعمتوں کا بخشنے والا اور لطف و کرم کرنے والا ہے۔

–٭٭–

یہ دُعا ادائے شکر میں اعتراف تقصیر کے سلسلہ میں ہے۔ یہ امر کسی دلیل کا محتاج نہیں ہے کہ خداوند عالم کی نعمتوں کا شکر ممکن ہی نہیں ہے:

اولاً یہ کہ اس کی نعمتوں کا شمار نہیں ہو سکتا، جیسا کہ ارشاد باری ہے:

﴿وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللہِ لَا تُحْصُوْہَا﴾

اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو ان کا احصاء نہیں کر سکتے۔[۱]

اور دوسرے یہ کہ شکرِ نعمت خود ایک نعمت ہے، اس طرح کہ اس نے نعمت کا احساس پیدا کرکے شکر نعمت کی توفیق عطا کی، لہذا اس نعمت پر بھی شکر واجب ہو گا اور یہ سلسلہ سوائے اعترافِ عجز کے کہیں ختم نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ: خداوند عالم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ: ’’اے موسیٰؑ! میرا شکر بجا لاؤ، ایسا کہ میرے شکر کا حق ادا ہو جائے‘‘۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ: میں کیونکر تیرے شکر کا حق ادا کر سکتا ہوں، جبکہ ادائے شکر خود ایک نعمت ہے تو قدرت کی طرف سے ارشاد ہوا: «يَا مُوْسٰى! الْاٰنَ شَكَرْتَنِیْ حِيْنَ عَلِمْتَ اَنَّ ذٰلِكَ مِنِّیْ «: ’’اے موسیٰ! اب تم نے میرا شکر ادا کیا، جبکہ یہ جان لیا کہ ادائے شکر بھی میری ایک نعمت ہے‘‘۔[۲]

شکر کے چند ارکان و اجزاء ہیں اور جس طرح ان اجزاء کے مجموعہ پر ’’شکر‘‘ کا اطلاق ہوتا ہے، اسی طرح اس کے ہر جزء پر بھی شکر کا اطلاق ہوتا ہے اور انہی اجزا کے بقدر اجر و ثواب کا استحقاق پیدا ہوتا ہے۔

پہلا جزء یہ ہے کہ انسان یہ علم و یقین پیدا کرے کہ اللہ تعالیٰ ہی تمام نعمتوں کا سرچشمہ اور وہی منعم حقیقی و ولی نعمت ہے اور جو کچھ بالواسطہ یا بلا واسطہ ملتا ہے اسی کی طرف سے ملتا ہے۔ جب وہ اس حقیقت کو سمجھ لیتا ہے اور اس پر یقین کر لیتا ہے تو وہ شکر کے ایک درجہ سے عہدہ برآ ہو جاتا ہے۔ چنانچہ مروی ہے کہ: حضرت داؤد علیہ السلام نے بارگاہ ایزدی میں عرض کیا کہ: اے میرے پروردگار! میں کیونکر تیرے شکر سے عہدہ برآ ہو سکتا ہوں جبکہ شکر بھی تیری ایک نعمت ہے جس پر شکر واجب ہے تو خداوند عالم نے ان پر وحی کی کہ: «اِذَا عَرَفْتَ اَنَّ النِّعَمَ مِنِّیْ رَضِيْتُ مِنْكَ بِذٰلِكَ شُكْرًا«: ’’میں مقام شکر میں اس بات پر تم سے خوش ہوں کہ تم نے یہ جان لیا کہ تمام نعمتیں میری جانب سے ہیں‘‘۔[۳]

دوسرا جزء یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر خوش و خوشنود رہے۔ نہ اس لحاظ سے کہ یہ نعمتیں دنیوی لذت و کامرانی کا ذریعہ ہیں، بلکہ اس اعتبار سے کہ وہ ان کے ذریعہ خدا کی خوشنودی حاصل کر سکتا ہے، اس طرح کہ صدقہ و خیرات دے، فرائض مالی ادا کرے، عزیزوں، رشتہ داروں، محتاجوں کو امداد دے کر انہیں احتیاج کی سطح سے بلند کر دے، دینی و مذہبی اور رفاہ عامہ کے کاموں میں حصہ لے۔ ان دونوں حالتوں میں اس طرح امتیاز کیا جا سکتا ہے کہ اگر امور خیر میں صرف کرنے سے دل میں مسرت پیدا ہو تو یہ نعمتوں پر خوشنودی اللہ تعالیٰ کیلئے ہے اور اگر امور خیر میں صرف کرنے پر دل آمادہ نہ ہو یا ان میں صرف کرنے سے دل میں اطمینان و مسرت کی کیفیت پیدا نہ ہو تو یہ خوشنودی صرف دنیوی حظ اندوزی کیلئے ہے جو شکر الٰہی میں محسوب نہ ہو گی۔

تیسرا جزء یہ ہے کہ دل اور زبان سے اللہ تعالیٰ کی تعریف و ستائش کرے۔ دل سے ستائش یہ ہے کہ اس کے عظمت و جلال اور ہیبت و اجلال سے متاثر ہو، اس کے افعال و آثار میں غور و تفکر کرے اور خلق خدا کیلئے نیک خیالات و جذبات کو دل میں جگہ دے اور ان سے نیکی و احسان کا ارادہ رکھے۔ اور زبان سے ستائش یہ ہے کہ حمد و ثنا کے الفاظ اپنی زبان سے ادا کرے۔

چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:

شُكْرُ كُلِّ نِعْمَةٍ وَّ اِنْ عَظُمَتْ اَنْ تَحْمَدَ اللّٰهَ عَزَّ وَ جَلَّ عَلَيْهَا.

نعمت خواہ کتنی بڑی ہو اس پر ادائے شکر کا طریقہ یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرو۔[۴]

چوتھا جزء یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو صرف ان چیزوں میں صرف کرے جن سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی و رضا وابستہ ہو اور انہیں حرام اور ناپسندیدہ کاموں میں صرف نہ کرے۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:

شُكْرُ النِّعْمَةِ اجْتِنَابُ الْمَحَارِمِ.

شکر نعمت یہ ہے کہ محرمات سے کنارہ کشی کرو۔[۵]

جو شخص ان تمام امور کو ملحوظ رکھتا ہے وہ اپنے پروردگار کا شکر گزار بندہ کہلاتا ہے، مگر ایسے شکر گزار بندے بہت کم ہیں جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے:

﴿وَقَلِيْلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُوْرُ۝۱۳﴾

میرے بندوں میں شکر گزار بندے بہت تھوڑے ہیں۔[۶]

[٭٭٭٭٭]

[۱]۔ سورۂ نحل آیت ۱۸

[۲]۔ عبارت منہاج البراعۃ، ج ۱ ص ۳۰۰

[۳]۔ الکافی، ج ۲، ص ۹۵

[۴]۔ الکافی، ج ۲، ص ۹۵

[۵]۔ الکافی ج ۲، ص ۹۵

[۶]۔ سورۂ سباء، آیت ۱۳

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button