صحیفہ کاملہ

26۔ ہمسایوں اور دوستوں کے لیے دعا

(۲۶) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ

لِجِیْرَانِهٖ وَ اَوْلِیَآئِهٖ اِذَا ذَكَرَهُمْ

جب ہمسایوں اور دوستوں کو یاد کرتے تو ان کیلئے یہ دُعا فرماتے:

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ تَوَلَّنِیْ فِیْ جِیْرَانِیْ وَ مَوَالِیَّ الْعَارِفِیْنَ بِحَقِّنَا، وَ الْمُنَابِذِیْنَ لِاَعْدَآئِنَا بِاَفْضَلِ وَلَایَتِكَ، وَ وَفِّقْهُمْ لِاِقَامَةِ سُنَّتِكَ، وَ الْاَخْذِ بِمَحَاسِنِ اَدَبِكَ فِیْۤ اِرْفَاقِ ضَعِیْفِهِمْ، وَ سَدِّ خَلَّتِهِمْ، وَ عِیَادَةِ مَرِیْضِهِمْ، وَ هِدَایَةِ مُسْتَرْشِدِهِمْ، وَ مُنَاصَحَةِ مُسْتَشِیْرِهِمْ، وَ تَعَهُّدِ قَادِمِهِمْ، وَ كِتْمَانِ اَسْرَارِهِمْ، وَ سَتْرِ عَوْرَاتِهِمْ، وَ نُصْرَةِ مَظْلُومِهِمْ، وَ حُسْنِ مُوَاسَاتِهِمْ بِالْمَاعُوْنِ، وَ الْعَوْدِ عَلَیْهِمْ بِالْجِدَةِ وَ الْاِفْضَالِ، وَ اِعْطَآءِ مَا یَجِبُ لَهُمْ قَبْلَ السُّؤَالِ.

اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور میری اس سلسلہ میں بہترین نصرت فرما کہ میں اپنے ہمسایوں اور ان دوستوں کے حقوق کا لحاظ رکھوں جو ہمارے حق کے پہنچاننے والے اور ہمارے دشمنوں کے مخالف ہیں، اور انہیں اپنے طریقوں کے قائم کرنے، اور عمدہ اخلاق و آداب سے آراستہ ہونے کی توفیق دے، اس طرح کہ وہ کمزوروں کے ساتھ نرم رویہ رکھیں، اور ان کے فقر کا مداوا کریں، مریضوں کی بیمار پرسی، طالبان ہدایت کی ہدایت، مشورہ کرنے والوں کی خیر خواہی اور تازہ وارد کی ملاقات کریں، رازوں کو چھپائیں، عیبوں پر پردہ ڈالیں، مظلوم کی نصرت اور گھریلو ضروریات کے ذریعہ حسن مواسات کریں، اور بخشش و انعام سے فائدہ پہنچائیں، اور سوال سے پہلے ان کے ضروریات مہیا کریں۔

وَ اجْعَلْنِی اللّٰهُمَّ اَجْزِیْ بِالْاِحْسَانِ مُسِیْٓئَهُمْ، وَ اُعْرِضُ بِالتَّجَاوُزِ عَنْ ظَالِـمِهِمْ، وَ اَسْتَعْمِلُ حُسْنَ الظَّنِّ فِیْ كَافَّتِهِمْ، وَ اَتَوَلّٰى بِالْبِرِّ عَامَّتَهُمْ، وَ اَغُضُّ بَصَرِیْ عَنْهُمْ عِفَّةً، وَ اُلِیْنُ جَانِبِیْ لَهُمْ تَوَاضُعًا، وَ اَرِقُّ عَلٰۤى اَهْلِ الْبَلَآءِ مِنْهُمْ رَحْمَةً، وَ اُسِرُّ لَهُمْ بِالْغَیْبِ مَوَدَّةً، وَ اُحِبُّ بَقَآءَ النِّعْمَةِ عِنْدَهُمْ نُصْحًا، وَ اُوْجِبُ لَهُمْ مَاۤ اُوْجِبُ لِحَامَّتِیْ، وَ اَرْعٰى لَهُمْ مَاۤ اَرْعٰى لِخَاصَّتِیْ.

اے اللہ! مجھے ایسا بنا کہ میں ان میں سے برے کے ساتھ بھلائی سے پیش آؤں، اور ظالم سے چشم پوشی کر کے درگزر کروں، اور ان سب کے بارے میں حسن ظن سے کام لوں، اور نیکی و احسان کے ساتھ سب کی خبر گیری کروں، اور پرہیز گاری و عفت کی بنا پر ان (کے عیوب) سے آنکھیں بند رکھوں، تواضع و فروتنی کی رو سے ان سے نرم رویہ اختیار کروں، اور شفقت کی بنا پر مصیبت زدہ کی دلجوئی کروں، ان کی غیبت میں بھی ان کی محبت کو دل میں لئے رہوں، اور خلوص کی بنا پر ان کے پاس سدا نعمتوں کا رہنا پسند کروں، اور جو چیزیں اپنے خاص قریبیوں کیلئے ضروری سمجھوں ان کیلئے بھی ضروری سمجھوں، اور جو مراعات اپنے مخصوصین سے کروں وہی مراعات ان سے بھی کروں۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ ارْزُقْنِیْ مِثْلَ ذٰلِكَ مِنْهُمْ، وَ اجْعَلْ لِّیْۤ اَوْفَى الْحُظُوْظِ فِیْمَا عِنْدَهُمْ، وَ زِدْهُمْ بَصِیْرَةً فِیْ حَقِّیْ، وَ مَعْرِفَةً بِفَضْلِیْ حَتّٰى یَسْعَدُوْا بِیْ وَ اَسْعَدَ بِهِمْ، اٰمِیْنَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ.

اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور مجھے بھی ان سے ویسے ہی سلوک کا روادار قرار دے، اور جو چیزیں ان کے پاس ہیں ان میں میرا حصہ وافر قرار دے، اور انہیں میرے حق کی بصیرت اور میرے فضل و برتری کی معرفت میں افزائش و ترقی دے، تاکہ وہ میری وجہ سے سعادت مند اور میں ان کی وجہ سے مثاب و ماجور قرار پاؤں، آمین، اے تمام جہاں کے پروردگار۔

–٭٭–

اسلام، افراد نوعِ انسانی کو ایک سلسلۂ وحدت میں مربوط کرنے کیلئے باہمی ہمدردی و تعاون کی تعلیم دیتا ہے اور نوعِ بشر کا ایک فرد ہونے کی حیثیت سے دوسرے پر اس کا حق عائد کرتا ہے، خواہ وہ اس کا ہم مسلک ہو یا نہ ہو، اس کا ہم قوم ہو یا نہ ہو، اس کا ہم وطن ہو یا نہ ہو۔ کیونکہ سب کا سلسلہ نسب وہ مشرق کا باشندہ ہو یا مغرب کا ایک ہی ماں باپ تک منتہی ہوتا ہے اور سب ایک ہی خالق کے بنائے سنوارے ہوئے ہیں۔

یہ وہ تعلیم ہے جو تہذیب و تمدن اجتماعی کیلئے سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لئے کہ اگر تعاون و اتحادِ باہمی کا جذبہ اور دوسروں کے دکھ درد کا احساس نہ ہو تو تمدن و اجتماع کی صورت تشکیل پذیر ہو ہی نہیں سکتی۔ کیونکہ انسان ہمدردی اور سازگاری ہی کی بدولت ایک دوسرے کے قریب ہوتا اور مدنیت کی ضرورت کا احساس کرتےہوئے تمدن و اجتماع کی بنیادیں استوار کرتا ہے۔

بیشک اسلامی برادری میں شمولیت سے ایک مسلمان کا حق دوسرے مسلمان پر قائم ہو جاتا ہے۔ مگر اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ جو ہم مسلک و ہم عقیدہ نہ ہو ان کا کوئی حق ہی نہیں ہے۔ اگر انہیں وہ حقوق حاصل نہیں ہیں جو اسلامی برادری سے وابستہ ہونے کی صورت میں عائد ہوتے ہیں تو مشترکہ انسانی حقوق سے تو محروم نہیں کئے جا سکتے۔ چنانچہ امیر المومنین علیہ السلام نے مالک اشتر نخعی کیلئے جو عہد نامہ تحریر کیا اس میں انسانی حقوق کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

فَاِنَّهُمْ صِنْفَانِ: اِمَّا اَخٌ لَّكَ فِی الدِّیْنِ وَ اِمَّا نَظِیْرٌ لَّكَ فِی الْخَلْقِ.

رعایا میں دو قسم کے لوگ ہیں: ایک تو تمہارے دینی بھائی اور دوسرے تمہارے جیسی مخلوقِ خدا۔[۱]

مقصد یہ ہے کہ جہاں مذہب و مسلک کے اتحاد کی بنا پر حقوق کا لحاظ رکھو وہاں انسانی حقوق کو نظر انداز نہ کرنا۔ کیونکہ سب ایک ہی خالق کے بنائے ہوئے ہیں اور ان دونوں کے حقوق کے سلسلہ میں تمہیں جواب دہ ہونا ہے۔ البتہ دونوں کے حقوق یکساں نہیں ہیں۔ اس لئے کہ جہاں نقاط مشترکہ کم ہوں گے وہاں حقوق بھی کم ہوں گے اور جہاں نقاط مشترکہ زیادہ ہوں گے وہاں حقوق بھی زیادہ ہوں گے۔ چنانچہ رشتۂ انسانیت کے ساتھ جہاں مذہبی رشتہ بھی ہو گا وہاں حقوق بڑھ جائیں گے۔ کیونکہ ایک مقام پر اشتراک صرف انسانیت میں ہے اور دوسرے مقام پر انسانیت اور مذہب دونوں میں ہے۔ چنانچہ امیر المومنین علیہ السلام کا ارشاد ہے:

فَضَّلَ حُرْمَةَ الْمُسْلِمِ عَلَی الْحُرَمِ كُلِّهَا، وَ شَدَّ بِالْاِخْلَاصِ وَ التَّوْحِیْدِ حُقُوْقَ الْمُسْلِمِیْنَ فِیْ مَعَاقِدِهَا، فَالْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِهٖ وَ یَدِهٖ اِلَّا بِالْحَقِّ، وَ لَا یَحِلُّ اَذَی الْمُسْلِمِ اِلَّا بِمَا یَجِبُ.

اس نے مسلمان کی عزت و حرمت کو تمام حرمتوں پر فضیلت دی ہے اور مسلمانوں کے حقوق کو ان کے موقع و محل پر اخلاص و توحید کے دامن سے باندھ دیا ہے۔ چنانچہ مسلمان وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان بچے رہیں، مگر یہ کہ کسی حق کی بنا پر ان پر ہاتھ ڈالا جائے اور ان کو ایذا پہنچانا جائز نہیں، مگر جہاں واجب ہو جائے۔[۲]

یہ ایک عام مسلمان کا حق ہے کہ اسے ہاتھ اور زبان سے گزند نہ پہنچایا جائے اور مومن کے حقوق تو اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ چنانچہ ابو اسمٰعیل روایت کرتے ہیں:

قُلْتُ لِاَبِیْ جَعْفَرٍؑ : جُعِلْتُ فِدَاكَ! اِنَّ الشِّيْعَةَ عِنْدَنَا كَثِيْرٌ، فَقَالَ: فَهَلْ يَعْطِفُ الْغَنِیُّ عَلَى الْفَقِيْرِ؟ وَ هَلْ يَتَجَاوَزُ الْمُحْسِنُ عَنِ الْمُسِیْٓ‏ءِ وَ يَتَوَاسَوْنَ؟ فَقُلْتُ: لَا، فَقَالَ: لَيْسَ هٰٓؤُلَآءِ شِيْعَةً،- الشِّيعَةُ مَنْ يَّفْعَلُ هٰذَا.

میں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے عرض کیا کہ: ہمارے ہاں شیعوں کی تعداد بہت ہے۔ فرمایا: ’’کیا ان میں کا دولتمند فقیر اور نادار سے حسن سلوک اور اچھا برے سے درگزر کرتا ہے اور کیا وہ آپس میں ہمدردی و مواسات کا برتاؤ کرتے ہیں‘‘؟ میں نے کہا: ایسا تو نہیں کرتے۔ فرمایا کہ: ’’پھر وہ شیعہ کہاں کے، شیعہ تو وہ ہے جو یہ سب کچھ کرے‘‘۔[۳]

پھر کچھ حقوق قوم و قبیلہ اور خاندانی اشتراک کے لحاظ سے عائد ہوتے ہیں۔ یہ حقوق بھی اہم اور قابل لحاظ ہیں۔ چنانچہ امیر المومنین علیہ السلام کا ارشاد ہے:

وَ اَكْرِمْ عَشِیْرَتَكَ، فَاِنَّهُمْ جَنَاحُكَ الَّذِیْ بِهٖ تَطِیْرُ، وَ اَصْلُكَ الَّذِیْۤ اِلَیْهِ تَصِیْرُ، وَ یَدُكَ الَّتِیْ بِهَا تَصُوْلُ.

اپنے قوم قبیلے کا اکرام و احترام کرو، کیونکہ وہ تمہارے ایسے پر و بال ہیں جن سے تم پرواز کرتے ہو اور ایسی بنیادیں ہیں جن کا تم سہارا لیتے ہو اور تمہارے وہ دست و بازو ہیں جن سے تم حملہ کرتے ہو۔[۴]

پھر قوم و قبیلہ میں جو قریبی عزیز ہوں ان کے حقوق الاقرب فالاقرب کے لحاظ سے عام قوم و قبیلہ کے حقوق سے زیادہ ہیں۔ جیسے ماں باپ، اولاد، بھائی بہن وغیرہ۔ یہ تمام حقوق وہ ہیں جو انسانیت، اتحادِ مذہب اور خویشی و قرابت کی وجہ سے عائد ہوتے ہیں۔ اب ان کے ساتھ اگر شہری و وطنی اتحاد بھی ہو تو ہم وطنی کے حقوق کا بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ حقوق بھی اپنے مقام پر اہمیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ زکوٰۃ و صدقات کی تقسیم میں خطہ ارضی کے لحاظ سے ہم وطنوں کو دوسروں پر ترجیح دی گئی ہے۔ پھر اہل شہر میں سے جن کے ساتھ معاشرتی تعلقات زیادہ وابستہ ہوتے ہیں وہ اردگرد بسنے والے ہمسائے ہوتے ہیں۔ اس لئے ان کا حق دوسرے اہل شہر سے زیادہ ہو گا۔ اس حق ہمسائیگی کے ساتھ مذہب یا قرابت یا دونوں کا انضمام بھی ہو تو اس انضمام کے لحاظ سے اس کی اہمیت بھی زیادہ ہو جائے گی۔ چنانچہ پیغمبر اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:

اَلْجِيْرَانُ ثَلَاثَةٌ: فَمِنْهُمْ مَنْ لَّهٗ ثَلَاثَةُ حُقُوْقٍ: حَقُّ الْاِسْلَامِ وَ حَقُّ الْجِوَارِ وَ حَقُّ الْقَرَابَةِ، وَ مِنْهُمْ مَنْ لَّهٗ حَقَّانِ: حَقُّ الْاِسْلَامِ وَ حَقُّ الْجِوَارِ، وَ مِنْهُمْ مَنْ لَّهٗ حَقٌّ وَاحِدٌ، الْكَافِرُ لَهٗ حَقُّ الْجِوَار.

ہمسایہ کی تین قسمیں ہیں: ایک وہ جس کیلئے تین حق ہیں: حق ہمسائیگی، حق اسلام اور حق قرابت۔ اور ایک وہ جس کیلئے دو حق ہیں: حقِ اسلام اور حق ہمسائیگی۔ اور ایک وہ جس کیلئے صرف ایک حق ہے اور وہ کافر ہے جو ہمسایہ میں ہو۔[۵]

اس ہمسائیگی کے حدود کیا ہیں تو اس سلسلہ میں عرف کی طرف رجوع کیا جائے گا اور جو عرف میں ہمسایہ کہلا سکتا ہو اسے ہی ہمسایہ قرار دیا جائے گا اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمسائیگی کے حدود ہر چہار طرف سے چالیس چالیس گھر ہیں۔ چنانچہ امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے:

حَدُّ الْجِوَارِ اَرْبَعُوْنَ دَارًا مِّنْ كُلِّ جَانِبٍ: مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ، وَ مِنْ خَلْفِهٖ، وَ عَنْ يَّمِيْنِهٖ، وَ عَنْ شِمَالِهِ.

ہمسائیگی کی حد سامنے، پیچھے، اور دائیں بائیں ہر چہار جانب سے چالیس گھروں تک ہے۔[۶]

اس دُعا میں پڑوسیوں کے جن حقوق کا تذکرہ فرمایا ہے وہ یہ ہیں:

ان سے تواضع و خوش اخلاقی سے پیش آئے، فقر و احتیاج میں ہو سکے تو مالی امداد کرے اور ان کی حالت کا اندازہ کر کے خود سے مالی امداد کی پیشکش کرے اور ان کے طلب کرنے پر موقوف نہ رکھے۔ قرضہ مانگیں یا عام گھریلو استعمال کی چیزیں طلب کریں تو انکار نہ کرے۔ اپنی نگاہوں کو تاک جھانک سے روکے۔ ان کے عیوب کی ٹوہ نہ لگائے، اور اگر اتفاقیہ ان کے کسی عیب پر مطلع ہو جائے تو اسے ظاہر نہ کرے اور ان کے بارے میں خواہ مخواہ بدگمانی سے کام نہ لے۔ بیماری میں عیادت کرے۔ مظلوم و ستم رسیدہ کی نصرت کرے۔ ان کے بارے میں ظاہر و باطن یکساں رکھے۔ اگر حج و زیارت یا سفر سے پلٹیں تو ملاقات کیلئے جائے۔ انہیں اپنے قریبی عزیزوں اور رشتہ داروں کی طرح سمجھے۔ ان کی خوشحالی و فارغ البالی کو دل سے چاہے۔ مشورہ کے موقع پر صحیح مشورہ دے۔ انہیں تعلیم و ہدایت کے موقع پر تعلیم و ہدایت کرے اور اگر برا سلوک کریں تو بھی ان سے اچھا برتاؤ کرے۔ غرض انہیں کسی طرح سے گزند نہ پہنچائے۔ چنانچہ پیغمبر اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:

مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِ فَلَا يُؤْذِ جَارَهٗ‏.

جو شخص اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے ہمسایہ کو کوئی تکلیف نہ پہنچائے۔[۷]

اس دُعا کے ابتدائی حصہ میں دُعا کا رخ دوستوں اور ہمسایوں کی طرف ہے کہ انہیں یہ توفیق حاصل ہو کہ وہ ان چیزوں پر عمل پیرا ہو کر دنیا و آخرت میں سعادت حاصل کریں اور دُعا کے آخری حصہ میں خود اپنے لئے دُعا فرمائی ہے کہ مجھے بھی ان کے ساتھ حسنِ سلوک اور شفقت و احسان کی توفیق عطا فرما، تا کہ میری تعلیم اور میرا عمل ان کیلئے ایک اخلاق آموز اُسوہ قرار پائے۔ کیونکہ انسان ناصح کی حیثیت سے اتنا متاثر نہیں ہوتا جتنا اس کے عمل سے متاثر ہوتا ہے۔ اور پھر یہ تمام اوصاف دُعائیہ پیرایہ میں بیان فرمائے ہیں جس سے اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ یہ خصائل و عادات جب ہی پیدا ہو سکتے ہیں جب خداوند عالم کی طرف سے توفیق بھی شامل حال ہو۔

بہرحال یہ وہ خصائل و عادات ہیں کہ اگر انسان ان پر عامل ہو تو وہ نہ صرف ہمسایوں کیلئے سراپا محبت ہو گا، بلکہ روزمرّہ کی زندگی میں اپنے افعال، اپنی روش اور دوسروں کے ساتھ اپنے طریق کار کو محبت و ہمدردی کے سانچے میں ڈھال لے گا۔ اور بعید نہیں کہ اس کے طرزِ عمل سے دوسروں کی زندگی میں بھی انقلاب آ جائے اور ایک پاکیزہ معاشرہ تشکیل پا جائے۔

[٭٭٭٭٭]

[۱]۔ نہج البلاغہ، مکتوب نمبر ۵۳

[۲]۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ۱۶۵

[۳]۔ الکافی، ج ۲، ص ۱۷۳

[۴]۔ نہج البلاغہ، مکتوب نمبر ۳۱

[۵]۔ روضۃ الواعظین ج ۲، ص ۳۸۹

[۶]۔ الکافی، ج ۲، ص ۶۶۹

[۷]۔ وسائل الشیعہ، ج ۱۲، ص ۱۲۶

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button