صحیفہ کاملہ

44۔ استقبال ماہ رمضان کی دعا

(۴۴) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ

اِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ

دُعائے استقبال ماہ رمضان:

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ هَدَانَا لِحَمْدِهٖ، وَ جَعَلَنا مِنْ اَهْلِهٖ لِنَكُوْنَ لِاِحْسَانِهٖ مِنَ الشَّاكِرِیْنَ، وَ لِیَجْزِیَنَا عَلٰى ذٰلِكَ جَزَآءَ الْمُحْسِنِیْنَ.

تمام تعریف اس اللہ کیلئے ہے جس نے اپنی حمد و سپاس کی طرف ہماری رہنمائی کی، اور ہمیں حمد گزاروں میں سے قرار دیا، تاکہ ہم اس کے احسانات پر شکر کرنے والوں میں محسوب ہوں، اور ہمیں اس شکر کے بدلہ میں نیکو کاروں کا اجر دے۔

وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ حَبَانَا بِدِیْنِهٖ، وَ اخْتَصَّنَا بِمِلَّتِهٖ، وَ سَبَّلَنا فِیْ سُبُلِ اِحْسَانِهٖ، لِنَسْلُكَهَا بِمَنِّهٖۤ اِلٰى رِضْوَانِهٖ، حَمْدًا یَّتَقَبَّلُهٗ مِنَّا، وَ یَرْضٰى بِهٖ عَنَّا.

اس اللہ کیلئے حمد و ستائش ہے جس نے ہمیں اپنا دین عطا کیا، اور اپنی ملت میں سے قرار دے کر امتیاز بخشا، اور اپنے لطف و احسان کی راہوں پر چلایا، تاکہ ہم اس کے فضل و کرم سے ان راستوں پر چل کر اس کی خوشنودی تک پہنچیں، ایسی حمد جسے وہ قبول فرمائے اور جس کی وجہ سے ہم سے وہ راضی ہو جائے۔

وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ جَعَلَ مِنْ تِلْكَ السُّبُلِ شَهْرَهٗ شَهْرَ رَمَضَانَ، شَهْرَ الصِّیَامِ، وَ شَهْرَ الْاِسْلَامِ، وَ شَهْرَ الطَّهُوْرِ، وَ شَهْرَ التَّمْحِیْصِ، وَ شَهْرَ الْقِیَامِ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ، هُدًى لِّلنَّاسِ، وَ بَیِّناتٍ مِّنَ الْهُدٰى‏ وَ الْفُرْقانِ.

تمام تعریف اس اللہ کیلئے ہے جس نے اپنے لطف و احسان کے راستوں میں سے ایک راستہ اپنے مہینہ کو قرار دیا، یعنی رمضان کا مہینہ، صیام کا مہینہ، اسلام کا مہینہ، پاکیزگی کا مہینہ، تصفیہ و تطہیر کا مہینہ، عبادت و قیام کا مہینہ، وہ مہینہ جس میں قرآن نازل ہوا، جو لوگوں کیلئے رہنما ہے، ہدایت اور حق و باطل کے امتیاز کی روشن صداقتیں رکھتا ہے۔

فَاَبَانَ فَضِیْلَتَهٗ عَلٰى سَآئِرِ الشُّهُوْرِ، بِمَا جَعَلَ لَهٗ مِنَ الْحُرُمَاتِ الْمَوْفُوْرَةِ، وَ الْفَضَآئِلِ الْمَشْهُوْرَةِ، فَحَرَّمَ فِیْهِ مَاۤ اَحَلَّ فِیْ غَیْرِهٖ اِعْظَامًا، وَ حَجَرَ فِیْهِ الْمَطَاعِمَ وَ الْمَشَارِبَ اِكْرَامًا، وَ جَعَلَ لَهٗ وَقْتًا بَیِّنًا، لَا یُجِیْزُ- جَلَّ وَ عَزَّ- اَنْ یُّقَدَّمَ قَبْلَهٗ، وَ لَا یَقْبَلُ اَنْ یُؤَخَّرَ عَنْهُ.

چنانچہ تمام مہینوں پر اس کی فضیلت و برتری کو آشکارا کیا، ان فراواں عزتوں اور نمایاں فضیلتوں کی وجہ سے جو اس کیلئے قرار دیں، اور اس کی عظمت کے اظہار کیلئے جو چیزیں دوسرے مہینوں میں جائز کی تھیں اس میں حرام کر دیں، اور اس کے احترام کے پیش نظر کھانے پینے کی چیزوں سے منع کر دیا، اور ایک واضح زمانہ اس کیلئے معین کر دیا، خدائے بزرگ و برتر یہ اجازت نہیں دیتا کہ اسے اس کے معینہ وقت سے آگے بڑھا دیا جائے، اور نہ یہ قبول کرتا ہے کہ اس سے مؤخر کر دیا جائے۔

ثُمَّ فَضَّلَ لَیْلَةً وَّاحِدَةً مِّنْ لَّیَالِیْهِ عَلٰى لَیَالِیْۤ اَلْفِ شَهْرٍ، وَ سَمَّاهَا لَیْلَةَ الْقَدْرِ، تَنَزَّلُ الْمَلٰٓئِكَةُ وَ الرُّوْحُ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ اَمْرٍ سَلَامٌ، دَآئِمُ الْبَرَكَةِ اِلٰى طُلُوْعِ الْفَجْرِ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ، بِمَاۤ اَحْكَمَ مِنْ قَضَآئِهٖ.

پھر یہ کہ اس کی راتوں میں سے ایک رات کو ہزار مہینوں کی راتوں پر فضیلت دی اور اس کا نام ’’شب قدر‘‘ رکھا، اس رات میں فرشتے اور روح القدس ہر اس امر کے ساتھ جو اس کا قطعی فیصلہ ہوتا ہے اس کے بندوں میں سے جس پر وہ چاہتا ہے نازل ہوتے ہیں، وہ رات سراسر سلامتی کی رات ہے جس کی برکت طلوع فجر تک دائم و برقرار ہے۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اَلْهِمْنَا مَعْرِفَةَ فَضْلِهٖ وَ اِجْلَالَ حُرْمَتِهٖ، وَ التَّحَفُّظَ مِمَّا حَظَرْتَ فِیْهِ، وَ اَعِنَّا عَلٰى صِیَامِهٖ بِكَفِّ الْجَوَارِحِ عَنْ مَّعَاصِیْكَ، وَ اسْتِعْمَالِهَا فِیْهِ بِمَا یُرْضِیْكَ، حَتّٰى لَا نُصْغِیَ بِاَسْمَاعِنَاۤ اِلٰى لَغْوٍ، وَ لَا نُسْرِعَ بِاَبْصَارِنَاۤ اِلٰى لَهْوٍ، وَ حَتّٰى لَا نَبْسُطَ اَیْدِیَنَاۤ اِلٰى مَحْظُوْرٍ، وَ لَا نَخْطُوَ بِاَقْدَامِنَاۤ اِلٰى مَحْجُوْرٍ، وَ حَتّٰى لَا تَعِیَ بُطُوْنُنَاۤ اِلَّا مَاۤ اَحْلَلْتَ، وَ لَا تَنْطِقَ اَلْسِنَتُنَاۤ اِلَّا بِمَا مَثَّلْتَ، وَ لَا نَتَكَلَّفَ اِلَّا مَا یُدْنِیْ مِنْ ثَوَابِكَ، وَ لَا نَتَعَاطٰۤى اِلَّا الَّذِیْ یَقِیْ مِنْ عِقَابِكَ، ثُمَّ خَلِّصْ ذٰلِكَ كُلَّهٗ مِنْ رِئَآءِ الْمُرَآءِیْنَ، وَ سُمْعَةِ الْمُسْمِعِیْنَ، لَا نُشْرِكُ فِیْهِۤ اَحَدًا دُوْنَكَ، وَ لَا نَبْتَغِیْ فِیْهِ مُرَادًا سِوَاكَ.

اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور ہمیں ہدایت فرما کہ ہم اس مہینہ کے فضل و شرف کو پہچانیں، اس کی عزت و حرمت کو بلند جانیں، اور اس میں ان چیزوں سے جن سے تو نے منع کیا ہے اجتناب کریں، اور اس کے روزے رکھنے میں ہمارے اعضاء کو نافرمانیوں سے روکنے اور ان کاموں میں مصروف رکھنے سے جو تیری خوشنودی کا باعث ہوں ہماری اعانت فرما، تاکہ ہم نہ بیہودہ باتوں کی طرف کان لگائیں، نہ فضول چیزوں کی طرف بے محابا نگاہیں اٹھائیں، نہ حرام کی طرف ہاتھ بڑھائیں نہ امر ممنوع کی طرف پیش قدمی کریں، نہ تیری حلال کی ہوئی چیزوں کے علاوہ کسی چیز کو ہمارے شکم قبول کریں، اور نہ تیری بیان کی ہوئی باتوں کے سوا ہماری زبانیں گویا ہوں، صرف ان چیزوں کے بجا لانے کا بار اٹھائیں جو تیرے ثواب سے قریب کریں، اور صرف ان کاموں کو انجام دیں جو تیرے عذاب سے بچا لے جائیں، پھر ان تمام اعمال کو ریاکاروں کی ریاکاری اور شہرت پسندوں کی شہرت پسندی سے پاک کر دے، اس طرح کہ تیرے علاوہ کسی کو ان میں شریک نہ کریں، اور تیرے سوا کسی سے کوئی مطلب نہ رکھیں۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ قِفْنَا فِیْهِ عَلٰى مَوَاقِیْتِ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ، بِحُدُوْدِهَا الَّتِیْ حَدَّدْتَّ، وَ فُرُوْضِهَا الَّتِیْ فَرَضْتَ، وَ وَظَآئِفِهَا الَّتِیْ وَظَّفْتَ، وَ اَوْقَاتِهَا الَّتِیْ وَقَّتَّ، وَ اَنْزِلْنَا فِیْهَا مَنْزِلَةَ الْمُصِیْبِیْنَ لِمَنَازِلِهَا، الْحَافِظِیْنَ لِاَرْكَانِهَا، الْمُؤَدِّیْنَ لَهَا فِیْۤ اَوْقَاتِهَا عَلٰى مَا سَنَّهٗ عَبْدُكَ وَ رَسُوْلُكَ،- صَلَوَاتُكَ عَلَیْهِ وَ اٰلِهٖ،- فِیْ رُكُوْعِهَا وَ سُجُوْدِهَا وَ جَمِیْعِ فَوَاضِلِهَا عَلٰۤى اَتَمِّ الطَّهُورِ وَ اَسْبَغِهٖ، وَ اَبْیَنِ الْخُشُوْعِ وَ اَبْلَغِهٖ.

اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور ہمیں اس میں نماز ہائے پنچگانہ کے اوقات سے ان حدود کے ساتھ جو تو نے معین کئے ہیں، اور ان واجبات کے ساتھ جو تو نے عائد کئے ہیں، اور ان آداب کے ساتھ جو تو نے قرار دئیے ہیں، اور ان لمحات کے ساتھ جو تو نے مقرر کئے ہیں آگاہ فرما، اور ہمیں ان نمازوں میں ان لوگوں کے مرتبہ پر فائز کر جو ان نمازوں کے درجات عالیہ حاصل کرنے والے، ان کے واجبات کی نگہداشت کرنے والے، اور انہیں ان کے اوقات میں اسی طریقہ پر جو تیرے عبد خاص اور رسولؐ نے رکوع و سجود اور ان کے تمام فضیلت و برتری کے پہلوؤں میں جاری کیا تھا، کامل اور پوری پاکیزگی اور نمایاں و مکمل خشوع و فروتنی کے ساتھ ادا کرنے والے ہیں۔

وَ وَفِّقْنَا فِیْهِ لِاَنْ نَّصِلَ اَرْحَامَنَا بِالْبِرِّ وَ الصِّلَةِ، وَ اَنْ نَّتَعَاهَدَ جِیْرَانَنَا بِالْاِفْضَالِ وَ الْعَطِیَّةِ، وَ اَنْ نُّخَلِّصَ اَمْوَالَنا مِنَ التَّبِعَاتِ، وَ اَنْ نُّطَهِّرَهَا بِاِخْرَاجِ الزَّكَوَاتِ، وَ اَنْ نُّرَاجِعَ مَنْ هَاجَرَنَا، وَ اَنْ نُّنْصِفَ مَنْ ظَلَمَنَا، وَ اَنْ نُّسَالِمَ مَنْ عَادَانَا، حَاشٰى مَنْ عُوْدِیَ فِیْكَ وَ لَكَ، فَاِنَّهُ الْعَدُوُّ الَّذِیْ لَا نُوَالِیْهِ، وَ الْحِزْبُ الَّذِیْ لَا نُصَافِیْهِ.

اور ہمیں اس مہینہ میں توفیق دے کہ نیکی و احسان کے ذریعہ عزیزوں کے ساتھ صلہ رحمی، اور انعام و بخشش سے ہمسایوں کی خبر گیری کریں، اور اپنے اموال کو مظلوموں سے پاک و صاف کریں، اور زکوٰۃ دے کر انہیں پاکیزہ و طیب بنا لیں، اور یہ کہ جو ہم سے علیحدگی اختیار کرے اس کی طرف دستِ مصالحت بڑھائیں، جو ہم پر ظلم کرے اس سے انصاف برتیں، جو ہم سے دشمنی کرے اس سے صلح و صفائی کریں، سوائے اس کے جس سے تیرے لئے اور تیری خاطر دشمنی کی گئی ہو، کیونکہ وہ ایسا دشمن ہے جسے ہم دوست نہیں رکھ سکتے، اور ایسے گروہ کا (فرد) ہے جس سے ہم صاف نہیں ہو سکتے۔

وَ اَنْ نَتَقَرَّبَ اِلَیْكَ فِیْهِ مِنَ الْاَعْمَالِ الزَّاكِیَةِ، بِمَا تُطَهِّرُنَا بِهٖ مِنَ الذُّنُوْبِ، وَ تَعْصِمُنَا فِیْهِ مِمَّا نَسْتَاْنِفُ‏ مِنَ الْعُیُوْبِ، حَتّٰى لَا یُوْرِدَ عَلَیْكَ اَحَدٌ مِّنْ مَّلٰٓئِكَتِكَ اِلَّا دُوْنَ مَا نُوْرِدُ مِنْ اَبْوَابِ الطَّاعَةِ لَكَ، وَ اَنْوَاعِ الْقُرْبَةِ اِلَیْكَ.

اور ہمیں اس مہینہ میں ایسے پاک و پاکیزہ اعمال کے وسیلہ سے تقرب حاصل کرنے کی توفیق دے جن کے ذریعہ تو ہمیں گناہوں سے پاک کر دے، اور از سر نو برائیوں کے ارتکاب سے بچالے جائے، یہاں تک کہ فرشتے تیری بارگاہ میں جو اعمال نامے پیش کریں وہ ہماری ہر قسم کی اطاعتوں اور ہر نوع کی عبادت کے مقابلہ میں سبک ہوں۔

اَللّٰهُمَّ اِنِّیْۤ اَسْئَلُكَ بِحَقِّ هٰذَا الشَّهْرِ، وَ بِحَقِّ مَنْ تَعَبَّدَ لَكَ فِیْهِ، مِنِ ابْتِدَآئِهٖۤ اِلٰى وَقْتِ فَنَآئِهٖ: مِنْ مَّلَكٍ قَرَّبْتَهٗ، اَوْ نَبِیٍّ اَرْسَلْتَهٗ، اَوْ عَبْدٍ صَالِحٍ اخْتَصَصْتَهٗ، اَنْ تُصَلِّیَ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اَهِّلْنَا فِیْهِ لِمَا وَعَدْتَّ اَوْلِیَآءَكَ مِنْ كَرَامَتِكَ، وَ اَوْجِبْ لَنا فِیْهِ مَاۤ اَوْجَبْتَ لِاَهْلِ الْمُبَالَغَةِ فِیْ طَاعَتِكَ، وَ اجْعَلْنَا فِیْ نَظْمِ مَنِ اسْتَحَقَّ الرَّفِیْعَ الْاَعْلٰى بِرَحْمَتِكَ.

اے اللہ! میں تجھ سے اس مہینہ کے حق و حرمت اور نیز ان لوگوں کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں جنہوں نے اس مہینہ میں شروع سے لے کر اس کے ختم ہونے تک تیری عبادت کی ہو، وہ مقرب بارگاہ فرشتہ ہو یا بنی مرسل یا کوئی مرد صالح و برگزیدہ، کہ تو محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرمائے اور جس عزت و کرامت کا تو نے اپنے دوستوں سے وعدہ کیا ہے اس کا ہمیں اہل بنا، اور جو انتہائی اطاعت کرنے والوں کیلئے تو نے اجر مقرر کیا ہے وہ ہمارے لئے بھی مقرر فرما، اور ہمیں اپنی رحمت سے ان لوگوں میں شامل کر جنہوں نے بلند ترین مرتبہ کا استحقاق پیدا کیا۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ جَنِّبْنَا الْاِلْحَادَ فِیْ تَوْحِیْدِكَ، وَ الْتَّقْصِیْرَ فِیْ تَمْجِیْدِكَ، وَ الشَّكَّ فِی دِیْنِكَ، وَ الْعَمٰى عَنْ سَبِیْلِكَ، وَ الْاِغْفَالَ لِحُرْمَتِكَ، وَ الِانْخِدَاعَ لِعَدُوِّكَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ.

اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور ہمیں اس چیز سے بچائے رکھ کہ ہم توحید میں کج اندیشی، تیری تمجید و بزرگی میں کوتاہی، تیرے دین میں شک تیرے راستے سے بے راہ روی اور تیری حرمت سے لاپرواہی کریں، اور تیرے دشمن شیطان مردود سے فریب خوردگی کا شکار ہوں۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اِذَا كَانَ لَكَ فِیْ كُلِّ لَیْلَةٍ مِّنْ لَّیَالِیْ شَهْرِنَا هٰذَا رِقَابٌ یُّعْتِقُهَا عَفْوُكَ، اَوْ یَهَبُهَا صَفْحُكَ، فَاجْعَلْ رِقَابَنَا مِنْ تِلْكَ الرِّقَابِ، وَ اجْعَلْنَا لِشَهْرِنَا مِنْ خَیْرِ اَهْلٍ وَّ اَصْحَابٍ.

اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور جبکہ اس مہینے کی راتوں میں ہر رات میں تیرے کچھ ایسے بندے ہوتے ہیں جنہیں تیرا عفو و کرم آزاد کرتا ہے، یا تیری بخشش و درگزر انہیں بخش دیتی ہے، تو ہمیں بھی انہی بندوں میں داخل کر، اور اس مہینہ کے بہترین اہل و اصحاب میں قرار دے۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ امْحَقْ ذُنُوْبَنَا مَعَ امِّحَاقِ هِلَالِهٖ، وَ اسْلَخْ عَنَّا تَبِعَاتِنَا مَعَ انْسِلَاخِ اَیَّامِهٖ، حَتّٰى یَنْقَضِیَ عَنَّا وَ قَدْ صَفَّیْتَنَا فِیْهِ مِنَ الْخَطِیْٓـئَاتِ، وَ اَخْلَصْتَنَا فِیْهِ مِنَ السَّیِّئَاتِ.

اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور اس چاند کے گھنٹے کے ساتھ ہمارے گناہوں کو بھی محو کر دے، اور جب اس کے دن ختم ہونے پر آئیں تو ہمارے گناہوں کا وبال ہم سے دور کر دے، تاکہ یہ مہینہ اس طرح تمام ہو کہ تو ہمیں خطاؤں سے پاک اور گناہوں سے بری کر چکا ہو۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اِنْ مِّلْنَا فِیْهِ فَعَدِّلْنَا، وَ اِنْ زُغْنَا فِیْهِ فَقَوِّمْنَا، وَ اِنِ اشْتَمَلَ عَلَیْنَا عَدُوُّكَ الشَّیْطٰنُ فَاسْتَنْقِذْنَا مِنْهُ.

اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور اس مہینہ میں اگر ہم حق سے منہ موڑیں تو ہمیں سیدھے راستہ پر لگا دے، اور کجروی اختیار کریں تو ہماری اصلاح و درستگی فرما، اور اگر تیرا دشمن شیطان ہمارے گرد احاطہ کرے تو اس کے پنجے سے چھڑا لے۔

اَللّٰهُمَّ اشْحَنْهُ بِعِبَادَتِنَاۤ اِیَّاكَ، وَ زَیِّنْ اَوْقَاتَهٗ بِطَاعَتِنَا لَكَ، وَ اَعِنَّا فِیْ نَهَارِهٖ عَلٰى صِیَامِهٖ، وَ فِیْ لَیْلِهٖ عَلَى الصَّلٰوةِ وَ التَّضَرُّعِ اِلَیْكَ، وَ الْخُشُوْعِ لَكَ، وَ الذِّلَّةِ بَیْنَ یَدَیْكَ، حَتّٰى لَا یَشْهَدَ نَهَارُهٗ عَلَیْنَا بِغَفْلَةٍ وَ لَا لَیْلُهٗ بِتَفْرِیْطٍ.

بار الٰہا! اس مہینہ کا دامن ہماری عبادتوں سے جو تیرے لئے بجا لائی گئی ہوں بھر دے، اور اس کے لمحات کو ہماری اطاعتوں سے سجا دے، اور اس کے دنوں میں روزے رکھنے اور اس کی راتوں میں نمازیں پڑھنے، تیرے حضور گڑگڑانے، تیرے سامنے عجز و الحاح کرنے اور تیرے روبرو ذلت و خواری کا مظاہرہ کرنے، ان سب میں ہماری مدد فرما تاکہ اس کے دن ہمارے خلاف غفلت کی اور اس کی راتیں کوتاہی و تقصیر کی گواہی نہ دیں۔

اَللّٰهُمَّ وَ اجْعَلْنَا فِیْ سَآئِرِ الشُّهُوْرِ وَ الْاَیَّامِ كَذٰلِكَ مَا عَمَّرْتَنَا، وَ اجْعَلْنَا مِنْ عِبَادِكَ الصّٰلِحِیْنَ، ﴿الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۝﴾، ﴿وَ الَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَاۤ اٰتَوْا وَّ قُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰی رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَۙ۝﴾، وَ مِنَ الَّذِیْنَ ﴿یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ هُمْ لَهَا سٰبِقُوْنَ۝﴾.

اے اللہ! تمام مہینوں اور دنوں میں جب تک تو ہمیں زندہ رکھے ایسا ہی قرار دے، اور ہمیں ان بندوں میں شامل فرما جو فردوس بریں کی زندگی کے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے وارث ہوں گے، اور وہ کہ جو کچھ وہ خدا کی راہ میں دے سکتے ہیں دیتے ہیں پھر بھی ان کے دلوں کو یہ کھٹکا لگا رہتا ہے کہ انہیں اپنے پروردگار کی طرف پلٹ کر جانا ہے، اور ان لوگوں میں سے جو نیکیوں میں جلدی کرتے ہیں، اور وہی تو وہ لوگ ہیں جو بھلائیوں میں آگے نکل جانے والے ہیں۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، فِیْ كُلِّ وَقْتٍ وَّ كُلِّ اَوَانٍ وَّ عَلٰى كُلِّ حَالٍ، عَدَدَ مَا صَلَّیْتَ عَلٰى مَنْ صَلَّیْتَ عَلَیْهِ، وَ اَضْعَافَ ذٰلِكَ كُلِّهٖ بِالْاَضْعَافِ الَّتِیْ لَا یُحْصِیْهَا غَیْرُكَ، اِنَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا تُرِیْدُ.

اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر ہر وقت اور ہر گھڑی اور ہر حال میں اس قدر رحمت نازل فرما جتنی تو نے کسی پر نازل کی ہو، اور ان سب رحمتوں سے دوگنی چوگنی کہ جسے تیرے علاوہ کوئی شمار نہ کر سکے، بیشک تو جو چاہتا ہے وہی کرنے والا ہے۔

–٭٭–

یہ دُعا ماہ رمضان کے خیر مقدم کے سلسلہ میں ہے۔ ماہ رمضان قمری سال کا نواں مہینہ ہے جس میں طلوع صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک چند امور بقصد قربت ترک کئے جاتے ہیں جیسے کھانا، پینا وغیرہ۔ اس ترک کا نام ’’روزہ‘‘ ہے جو اسلامی عبادات میں ایک اہم عبادت ہے۔ روزہ صرف مذہب اسلام ہی سے مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام ملل و مذاہب کسی نہ کسی صورت میں روزہ رکھتے اور اس کی افادیت کا اقرار کرتے ہیں۔ البتہ ماہ رمضان میں روزہ رکھنا اسلام سے مختص ہے۔ اسی لئے حضرتؑ نے اسے شهر الاسلام (اسلام کا مہینہ) فرمایا ہے۔ اس مہینہ کو ماہ رمضان کے نام سے موسوم کرنے کے سلسلہ میں چند اقوال ہیں۔

پہلا قول یہ ہے کہ ’’رمض‘‘ سے ماخوذ ہے اور ’’رمض‘‘ کے معنی دھوپ کی شدت سے پتھر، ریت وغیرہ کے گرم ہونے کے ہیں۔ اسی لئے جلتی ہوئی زمین کو ’’رمضاء‘‘ کہا جاتا ہے۔ اور جب پہلی دفعہ روزے واجب ہوئے تو ماہ رمضان سخت گرمی میں پڑا تھا اور روزوں کی وجہ سے گرمی و تپش کا احساس بڑھا تو اس مہینہ کا نام ماہ رمضان یعنی ماہ آتش فشاں پڑ گیا۔ یا اس لئے کہ یہ مہینہ گناہوں کو اس طرح جلاتا اور فنا کرتا ہے جس طرح سورج کی تمازت زمین کی رطوبتوں کو جلاتی اور فنا کرتی ہے۔ چنانچہ پیغمبر اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:

اِنَّمَا سُمِّیَ رَمَضَانَ لِاَنَّ رَمَضَانَ يَرْمَضُ الذُّنُوْبَ.

ماہ رمضان کو ماہ رمضان اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ گناہوں کو جلا دیتا ہے۔ [۱]

دوسرا قول یہ ہے کہ یہ ’’رمضی‘‘ سے ماخوذ ہے اور ’’رمضی‘‘ اس ابر و باراں کو کہتے ہیں جو موسم گرما کے اخیر میں آئے۔ اس سے گرمی کی تیزی دور ہو جاتی ہے، اسی طرح یہ مہینہ بھی گناہوں کے جوش کو کم کرتا اور برائیوں کو دھو ڈالتا ہے۔

تیسرا قول یہ ہے کہ یہ عربوں کے قول «رَمَضْتُ النَّصْلَ« سے ماخوذ ہے جس کے معنی دو پتھروں کے درمیان چھری، تلوار یا نیزہ کے پھل کو رکھ کر تیز کرنے کے ہیں۔ اور عرب اس مہینہ میں اپنے ہتھیاروں کو تیز کیا کرتے تھے تا کہ اشہر الحرام کے شروع ہونے سے پہلے ماہ شوال میں اپنی جنگ جویانہ طبیعت کے تقاضے پورے کر سکیں۔

چوتھا قول یہ ہے کہ یہ ’’ارتماض‘‘ سے ماخوذ ہے جس کے معنی قلق و اضطراب محسوس کرنے کے ہیں۔ چونکہ اس مہینہ میں بھوک پیاس کی وجہ سے بے چینی محسوس کی جاتی ہے اس لئے اس ماہ رمضان کے نام سے موسوم کیا گیا۔

پانچواں قول یہ ہے کہ یہ مشتق نہیں ہے، بلکہ اللہ کا نام ہے اور چونکہ اس مہینہ کو اللہ تعالیٰ سے خصوصی نسبت حاصل ہے اس لئے یہ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہو کر ماہ رمضان کہلاتا ہے۔ چنانچہ امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے:

لَا تَقُوْلُوْا هٰذَا رَمَضَانُ وَ لَا ذَهَبَ رَمَضَانُ وَ لَا جَآءَ رَمَضَانُ، فَاِنَّ رَمَضَانَ اسْمٌ مِّنْ اَسْمَآءِ اللّٰهِ تَعَالٰی وَ ھُوَ عَزَّ وَ جَلَّ لَا يَجِیْٓ‏ءُ وَ لَا يَذْهَبُ وَ لٰكِنْ قُوْلُوْا: شَهْرُ رَمَضانَ.

یہ نہ کہا کرو کہ یہ رمضان ہے اور رمضان گیا اور رمضان آیا، اس لئے کہ ’’رمضان‘‘ اللہ سبحانہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کہیں آتا جاتا نہیں، لہٰذا ماہ رمضان کہا کرو۔ [۲]

ماہ رمضان اس انتساب اور اپنے فیوض و برکات کے لحاظ سے تمام مہینوں پر فوقیت رکھتا ہے۔ چنانچہ پیغمبر اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:

قَدْ اَقْبَلَ اِلَيْكُمْ شَهْرُ اللّٰهِ بِالْبَرَكَةِ وَ الرَّحْمَةِ وَ الْمَغْفِرَةِ، شَهْرٌ هُوَ عِنْدَ اللّٰهِ اَفْضَلُ الشُّهُوْرِ وَ اَيَّامُهٗۤ اَفْضَلُ الْاَيَّامِ وَ لَيَالِيْهِ اَفْضَلُ اللَّيَالِیْ وَ سَاعَاتُهٗۤ اَفْضَلُ السَّاعَاتِ.

تمہاری طرف اللہ کا مہینہ برکت، رحمت اور مغفرت کا پیغام لے کر بڑھ رہا ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام مہینوں سے افضل ہے۔ اس کے دن تمام دنوں سے افضل، اس کی راتیں تمام راتوں سے بہتر، اس کے لمحے تمام لمحوں سے برتر ہیں۔ [۳]

اس مہینہ کی راتوں میں سے ایک رات ’’لیلة القدر‘‘ کے نام سے موسوم ہے جس میں بجا لائے ہوئے اعمال و عبادات ہزار مہینوں کے اعمال سے بہتر ہیں۔ چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے۔

اَلْعَمَلُ فِيْهَا خَيْرٌ مِّنَ الْعَمَلِ فِیْۤ اَلْفِ شَهْرٍ لَّيْسَ فِيْهَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ.

اس رات میں اعمال ان ہزار مہینوں کے اعمال سے بہتر ہیں جن میں لیلة القدر نہ ہو [۴]

اسی مہینہ میں تمام آسمانی کتابیں نازل ہوئیں اور اسی مہینہ میں قرآن مجید نازل ہوا۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:

﴿شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ۝۰ۚ﴾

رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔ وہ لوگوں کیلئے رہنما ہے اور ہدایت اور حق و باطل کے امتیاز کی روشن نشانیاں رکھتا ہے۔ [۵]

اس مہینہ کو روزوں سے مختص کرنے میں یہ مصلحت بھی ہو سکتی ہے کہ قرآن کی یاد تازہ رہے اور روزہ و عبادت کے جلو میں اس کے نزول کی تقریب کو منایا جا سکے اور یوں بھی عمل و عبادت کیلئے وقت و زمانہ کی پابندی اس کے بجا لانے کی قوی محرک ہوتی ہے۔ اگر روزوں کا زمانہ مقرر نہ ہوتا اور لوگوں کو یہ اختیار ہوتا کہ وہ سال میں جب چاہیں روزہ رکھ لیں، تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ بیشتر افراد روزہ رکھنے میں ٹال مٹول سے کام لیتے اور آج کل کرکے پورا سال گزار دیتے اور ایک آدھ دن بھی روزہ رکھنے کی توفیق نصیب نہ ہوتی۔ اور اگر ایک آدھ روزہ رکھ بھی لیتے تو اس پر کوئی فائدہ مرتب نہ ہوتا، بلکہ ایک معتاد زندگی میں خلل پیدا ہوتا اور پھر ہر شخص ایسے ہی زمانہ میں روزہ رکھتا جس میں روزے کی تکلیف کا احساس کم ہوتا اور مختلف موسموں میں روزہ رکھنے سے جو مختلف اثرات صحت انسانی پر پڑتے ہیں ان سے محروم ہونا پڑتا۔ اس کے علاوہ عبادت میں ہم آہنگی و اجتماعی شان باقی نہ رہتی اور یک رنگی ہی وہ چیز ہے جس سے تلخی بھی خوشگوار ہو جایا کرتی ہے۔ چنانچہ جب کوئی شخص دوسروں کو بے روزہ دیکھتا ہے اور خود روزہ سے ہوتا ہے تو اسے روزہ گراں گزرتا ہے، مگر دوسروں کو روزہ دار دیکھنے سے اس کی ناخوشگواری بار خاطر نہیں ہوتی۔ چنانچہ جب سفر یا مرض کی وجہ سے روزے قضا ہو جانے میں اور بعد میں رکھنا پڑتے ہیں تو وہ ماہ رمضان کے روزوں کی بہ نسبت شاق گزرتے ہیں اور دل میں ماہ رمضان کے روزوں کا سا ولولہ و جوش پیدا نہیں ہوتا۔ اور اس تحدید اوقات سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ انسان دوسروں کی دیکھا دیکھی روزہ رکھ لیتا ہے اور بے روزہ رہنے سے شرم و خجالت محسوس کرتا ہے۔

اسلامی روزہ فقط تعیین مدت ہی کے لحاظ سے امتیاز نہیں رکھتا کہ اسے آگے پیچھے نہیں کیا جا سکتا اور بھی چند وجوہ سے خصوصی امتیازات کا حامل ہے:

چنانچہ اسلام نے روزوں کی مدت نہ اتنی مختصر رکھی ہے کہ ان سے کوئی فائدہ و نتیجہ حاصل نہ ہو اور نہ اتنی طویل کہ زندگی کے معمول میں فرق پڑے اور اس سے عہدہ برآ ہونے میں دشواری محسوس ہو۔ اس معتدل مدت کے ساتھ روزہ کے اوقات بھی بالکل طبعی ہیں۔ یعنی طلوع صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک جنہیں بڑی آسانی سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح پوری مدت کی تعیین میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔ یوں کہ ایک چاند دیکھو تو روزے شروع کر دو اور دوسرا چاند دیکھو تو ختم کر دو۔ بخلاف دوسرے مذاہب کے کہ ان کے ہاں روزہ رکھنے کیلئے پورا حساب لگانے کی ضرورت پڑتی ہے اور بغیر حساب دانی کے نہ شروع کا وقت معلوم ہو سکتا ہے اور نہ ختم کا۔

اور پھر اسلامی روزہ صرف دن کے اوقات میں ہوتا ہے جبکہ انسان چلتا پھرتا اور حرکت کرتا رہتا ہے اور طبی حیثیت سے یہ مسلمہ طور پر ثابت ہے کہ جب انسان کے بدن میں حرکت نہ ہو تو اس حالت میں خالی پیٹ رہنا صحت کو معتدبہ نقصان پہچاتا ہے۔ اسی لئے آئمہ اہل بیت علیہ السلام نے رات کے وقت کچھ نہ کچھ کھا پی کر سونے کی ہدایت کی ہے اور ’’صوم وصال‘‘ یعنی دو روزوں کو ملا کر رکھنے کو حرام قرار دیا گیا ہے، تا کہ روزہ میں رات کا حصہ شامل نہ ہونے پائے۔ اس کے بر خلاف یہود و نصاری وغیرہ کے ہاں رات کا حصہ بھی شامل ہوتا ہے۔ چنانچہ یہودیوں کا روزہ ۲۲ گھنٹہ سے لے کر ۲۶ گھنٹہ تک کا ہوتا ہے۔ اور اتنا طویل فاقہ یقیناً صحت جسمانی کیلئے مضر ہوتا ہے۔ اور پھر روزہ کا سب سے اہم مقصد ضبط نفس کی مشق ہے اور یہ مقصد رات کے روزہ سے حاصل نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ رات تو سونے میں کٹ جاتی ہے اور اس کے ساتھ خواہشات و جذبات بھی سو جاتے ہیں۔ اس لئے خواہشات نفس کو روکنے کی ریاضت نہ ہو سکے گی۔ یہ ریاضت تو دن ہی کے روزہ سے ہو سکتی ہے جس سے انسان رفتہ رفتہ اپنے خواہشات پر قابو پا لیتا ہے۔ کبھی خواہشات پر اقتدار صرف اس حد تک ہوتا ہے کہ انسان بھوک پیاس کے ہوتے ہوئے نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے اور کبھی زبان، آنکھ، کان پر بھی قابو پا لیتا ہے اور انہیں بے راہ نہیں ہونے دیتا اور کبھی اپنے خیالات و تصورات پر بھی قابو حاصل کر لیتا ہے۔ اس اعتبار سے روزہ دار تین قسم کے ہیں:

ایک وہ جو صرف کھانے پینے اور دوسرے مفطرات سے اجتناب کرتے ہیں یہ ’’عوام‘‘ کا گروہ ہے۔

اور دوسرے وہ جو ہمہ تن روزہ دار ہوتے ہیں اور کسی عضو کو گناہ سے آلودہ نہیں ہونے دیتے۔ یہ ’’خواص‘‘ کی جماعت ہے اور در اصل روزہ دار یہی لوگ ہیں۔ چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:

اِذَا صُمْتَ فَلْيَصُمْ سَمْعُكَ وَ بَصَرُكَ وَ شَعْرُكَ وَ جِلْدُكَ… وَقَالَ: لَا يَكُوْنُ يَوْمُ صَوْمِكَ كَيَوْمِ فِطْرِكَ.

جب روزہ رکھو تو تمہارے کان، آنکھ، بال اور جسم کی کھال تک روزہ دار ہو اور تمہارے روزہ کا دن بے روزہ والے دن کے مانند نہ ہونا چاہیے۔ [۶]

اور تیسرے وہ جو اپنے دل و دماغ کو ہر قسم کے خیالات فاسدہ اور تصورات باطلہ سے پاک و صاف رکھتے ہیں اور ہمہ تن اللہ تعالیٰ کے ذکر و فکر میں مستغرق رہتے ہیں۔ یہ ’’مقربین‘‘ کی جماعت ہے۔ چنانچہ امام زین العابدین علیہ السلام کے متعلق وارد ہوا ہے کہ ماہ رمضان میں آپؑ کی زبان اقدس سے دُعا و تسبیح اور تکبیر و استغفار کے علاوہ کوئی کلمہ سننے میں نہ آتا تھا۔ یہاں تک کہ تمام ماہ مبارک اسی طرح سے گزر جاتا تھا۔

[٭٭٭٭٭]

[۱]۔ ریاض السالکین، ج ۶، ص ۱۱

[۲]۔ ریاض السالکین، ج ۶، ص ۱۵

[۳]۔ عیون اخبار الرضاؑ، ج ۱، ص ۲۹۵

[۴]۔ الکافی، ج ۴، ص ۱۷۵

[۵]۔ سورۂ بقرہ، آیت ۱۸۵

[۶]۔ الکافی، ج ۴، ص ۸۷

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button