صحیفہ کاملہ

7- دعائے روز شنبہ

۷۔ دُعَآءُ یَوْمِ السَّبْتِ

[۷] دُعائے روز شنبہ

بِسْمِ اللّٰهِ كَلِمَةِ الْمُعْتَصِمِیْنَ، وَ مَقالَةِ الْمُتَحَرِّزِیْنَ، وَ اَعُوْذُ بِالِلّٰهِ تَعَالٰى مِنْ جَوْرِ الْجَآئِرِیْنَ، وَ كَیْدِ الْحَاسِدِیْنَ، وَ بَغْیِ الظّٰلِمِیْنَ، وَ اَحْمَدُهٗ فَوْقَ حَمْدِ الْحَامِدِیْنَ.

مدد اللہ تعالیٰ کے نام سے جو حفاظت چاہنے والوں کا کلمۂ کلام اور پناہ ڈھونڈنے والوں کا وردِ زبان ہے، اور خداوند تعالیٰ سے پناہ چاہتا ہوں ستمگروں کی ستم رانی، حاسدوں کی فریب کاری اور ظالموں کے ظلم ناروا سے، میں اس کی حمد کرتا ہوں(اور سوال کرتا ہوں کہ وہ اس حمد کو) تمام حمد کرنے والوں کی حمد پر فوقیت دے۔

اَللّٰهُمَّ اَنْتَ الْوَاحِدُ بِلَا شَرِیْكٍ، وَ الْمَلِكُ بِلَا تَمْلِیْكٍ، لَا تُضَادُّ فِیْ حُكْمِكَ، وَ لَا تُنَازَعُ فِیْ مُلْكِكَ.

بار الٰہا! تو ایک اکیلا ہے جس کا کوئی شریک نہیں، اور بغیر کسی کے مالک بنائے تو مالک و فرمانروا ہے، تیرے حکم کے آگے کوئی روک کھڑی نہیں کی جا سکتی، اور نہ تیری سلطنت و فرمانروائی میں تجھ سے ٹکر لی جا سکتی ہے۔

اَسْئَلُكَ اَنْ تُصَلِّىَ عَلٰى مُحَمَّدٍ، عَبْدِكَ وَ رَسُوْلِكَ، وَ اَنْ تُوْزِعَنِیْ مِنْ شُكْرِ نُعْمَاكَ مَا تَبْلُغُ بِیْ غَایَةَ رِضَاكَ، وَ اَنْ تُعِیْنَنِیْ عَلٰى طَاعَتِكَ، وَ لُزُوْمِ عِبَادَتِكَ، وَ اسْتِحْقَاقِ مَثُوْبَتِكَ، بِلُطْفِ عِنَایَتِكَ، وَتَرْحَمَنِیْ وَ تَصُدَّنِیْ عَنْ مَّعَاصِیْكَ مَاۤ اَحْیَیْتَنِیْ، وَ تُوَفِّقَنِیْ لِمَا یَنْفَعُنِیْ مَاۤ اَبْقَیْتَنِیْ، وَ اَنْ تَشْرَحَ بِكِتَابِكَ صَدْرِیْ، وَ تَحُطَّ بِتِلَاوَتِهٖ وِزْرِیْ، وَ تَمْنَحَنِی السَّلَامَةَ فِیْ دِیْنِیْ وَ نَفْسِیْ، وَ لَا تُوْحِشَ بِیْۤ اَهْلَ اُنْسِیْ، وَ تُتِمَّ اِحْسَانَكَ فِیْمَا بَقِیَ مِنْ عُمُرِیْ، كَماۤ اَحْسَنْتَ فِیْمَا مَضٰى مِنْهُ، یَاۤ اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ.

میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو اپنے عبد خاص اور رسول حضرت محمد ﷺ پر رحمت نازل فرما اور اپنی نعمتوں پر ایسا شکر میرے دل میں ڈال دے جس سے تو اپنی خوشنودی کی آخری حد تک مجھے پہنچا دے، اور اپنی نظر عنایت سے اطاعت، عبادت کی پابندی اور ثواب کا استحقاق حاصل کرنے میں میری مدد فرمائے، اور جب تک مجھے زندہ رکھے گناہوں سے باز رکھنے میں مجھ پر رحم کرے، اور جب تک مجھے باقی رکھے ان چیزوں کی توفیق دے جو میرے لئے سود مند ہوں، اور اپنی کتاب کے ذریعہ میرا سینہ کھول دے، اور اس کی تلاوت کے وسیلہ سے میرے گناہ چھانٹ دے، اور جان و ایمان کی سلامتی عطا فرمائے، اور میرے دوستوں کو (میرے گناہوں کے باعث) وحشت میں نہ ڈالے، اور جس طرح میری گزشته زندگی میں احسانات کئے ہیں اسی طرح بقیه زندگی میں مجھ پر اپنے احسانات کی تکمیل فرمائے، اے رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔

–٭٭–

اس دُعا کا عنوان «دُعَآءُ یَوْمِ السَّبْتِ« ہے۔ ’’سبت‘‘ ہفتہ کے دن کو کہتے ہیں۔ اس دن یہود کو دنیا کے جھمیلوں سے الگ رہ کر عبادت و ذکر الٰہی میں مصروف رہنے کا حکم تھا۔ اور ’’سبت‘‘ کے لغوی معنی کار و کسب کے چھوڑنے اور آرام و استراحت کرنے کے ہیں۔ اس لئے اس دن کا نام ’’یوم السبت‘‘ یعنی ’’روز تعطیل‘‘ قرار پا گیا۔

حضرتؑ نے سرنامہ دُعا میں اسم جلالت کو حفاظت و نگہداشت چاہنے والوں کی زبانوں کا کلمہ و وِرد قرار دیا ہے۔ چنانچہ اس کے اسماء حسنیٰ میں سے سب سے زیادہ یہی نام زبانوں پر آتا ہے۔ اور کیا دُعا و مناجات ہو اور کیا فریاد و استغاثہ زیادہ تر وہ اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔ اور حفظ و امان طلبی کے موقع پر یہی نام سب سے زیادہ موزوں بھی ہے۔ کیونکہ اسے ’’اللہ‘‘ کہا ہی اس لئے جاتا ہے کہ «یَنَالُہٗ اِلَیْہِ کُلُّ مَخْلُوْقٍ«: ’’ہر مخلوق اس کی طرف رجوع ہوتی اور اس سے پناہ چاہتی ہے‘‘ اور یہ ’’اللہ‘‘ کا لفظ چونکہ اسم ذات ہے جو معنوی لحاظ سے اس کی تمام صفتوں کو حاوی ہے اس لئے جب ہم اسے ’’اللہ‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں تو گویا اس کی ایک ایک صفت کے ساتھ اسے پکارا ہے۔ اب ایک فقیر فقر و احتیاج کے ازالہ کیلئے اسے ’’اللہ‘‘ کہہ کر پکارتا ہے تو گویا اسے ’’غنی‘‘ کہہ کر پکار رہا ہے۔ کیونکہ یہ نام اس کے غنی و بے نیاز ہونے کا آئینہ دار ہے۔ اور ایک مریض شفا کیلئے اسے اس نام سے پکارتا ہے تو گویا اسی ’’شافی‘‘ کہہ کر مخاطب کر رہا ہے، کیونکہ یہ نام اس صفت پر بھی حاوی ہے۔ اور کوئی مظلوم اسے اس نام سے پکارتا ہے تو گویا اسے ’’عادل‘‘ و ’’منتقم‘‘ کہہ کر پکار رہا ہے، کیونکہ یہ نام اس کے عادل ہونے کا بھی پتہ دیتا ہے۔

اسی جامعیت کے لحاظ سے حضرتؑ نے ستمگاروں کے ستم، حاسدوں کے عناد اور ظالموں کے ظلم و جور سے اس نام کے ذریعہ پناہ چاہی ہے۔ کیونکہ اس ایک نام سے اس کی تمام صفتوں کی طرف ذہن منتقل ہو جاتا ہے۔ اور اس کی ان صفتوں کا تقاضا یہ ہے کہ دل سے اس کی عظمت کا اعتراف اور زبان سے اس کی تحمید و ستائش کی جائے۔ چنانچہ دشمنوں کے مقابلہ میں طلب اعانت و امداد کے بعد اس کی حمد سرائی کی ہے جس میں اس کی وحدت و یکتائی اور بلا شرکتِ غیرے سلطنت و فرمانروائی کا ذکر کیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ وہ اقتدارِ اعلیٰ کا مالک ہے اور کوئی چیز اس کے محیط اقتدار سے باہر نہیں ہے۔ لہٰذا ہر حاجت و خواہش اور تمنا و آرزو کو اسی کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ پیغمبر اکرم ﷺ پر درود بھیجنے کے بعد کہ جو دُعا کا زیور اور قبولیت کا ضامن ہے اس کی بارگاہ میں شکرِ نعمت، اطاعت، دوامِ عبادت اور اجتناب معاصی کی توفیق اور شرح صدر، عفوِ گناہ، دین کی سلامتی اور جان کی عافیت کا سوال کیاہے اور خاتمہ دُعا پر یہ التجا کی ہے کہ: اے معبود! جس طرح تو نے زندگی کے ان لمحوں میں جو گزر گئے مجھ پر پیہم احسانات کئے ہیں، اسی طرح زندگی کے بقیہ لمحوں میں مجھ سے اپنے احسانات و انعامات کا سلسلہ قطع نہ کرنا، بلکہ انہیں اِتمام تک پہنچانا اس لئے کہ: "اَلْاِحْسَانُ بِالْاِتْمَامِ”۔

بتائید خدائے توانا ترجمہ و حواشی صحیفۂ کاملہ روز جمعہ، دوازدھم ماہِ ربیع الثانی، سال ہزار و سہ صد و ھفتاد و نو ۱۳۷۹ھ با تمام رسید.

وَ اللّٰہُ ھَوَ الْمَسْؤٗلُ اَنْ یَّجْعَلَہٗ خَالِصًا لِوَجْھِہِ الْکَرِیْمِ وَ یُتِمَّ عَلٰۤی اِحْسَانِہِ الْعَمِیْمِ، وَ یَحْشُرَنِیْ وَ یَحُشُرَ وَالِدَیَّ فِیْ زُمْرَۃِ اَصْحَابِ الْیَمِیْنِ بِحُرْمَۃِ مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِہِ الْمُنْتَجَبِیْنَ.

٭٭٭٭٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button