صحیفہ کاملہ

6- کرب و مصیبت سے تحفظ اور لغزش و خطا سے معافی کیلئے حضرتؑ کی دعا

۶۔ وَ مِنْ دُعَآئِہٖ عَلَیْہِ السَّلَامُ فِی الْکَرْبِ وَ الْاِقَالَۃِ

کرب و مصیبت سے تحفظ اور لغزش و خطا سے معافی کیلئے حضرتؑ کی دُعا:

اِلٰهِیْ لَا تُشْمِتْ بِیْ عَدُوِّیْ، وَ لَا تَفْجَعْ بِیْ حَمِیْمِیْ وَ صَدِیْقِیْ.

اے میرے معبود! میرے دشمنوں کو میری حالت پر دل میں خوش ہونے کا موقع نہ دے اور میری وجہ سے میرے کسی مخلص و دوست کو رنجیدہ خاطر نہ کر۔

اِلٰهِیْ هَبْ لِیْ لَحْظَةً مِّنْ لَّحَظَاتِكَ، تَكْشِفُ عَنِّیْ مَا ابْتَلَیْتَنِیْ بِهٖ، وَ تُعِیْدُنِیْ اِلٰۤى اَحْسَنِ عَادَاتِكَ عِنْدِیْ، وَ اسْتَجِبْ دُعَآئِیْ وَ دُعَآءَ مَنْ اَخْلَصَ لَكَ دُعَآءَهٗ، فَقَدْ ضَعُفَتْ قُوَّتِیْ، وَ قَلَّتْ حِیْلَتِیْ، وَ اشْتَدَّتْ حَالِیْ، وَ اَیِسْتُ مِمَّا عِنْدَ خَلْقِكَ، فَلَمْ یَبْقَ لِیْۤ اِلَّا رَجَآؤُكَ عَلَیَّ.

بارالٰہا! اپنی نظر عنایات میں سے ایسی نظر توجہ میرے شاملِ حال فرما جس سے تو ان مصیبتوں کو مجھ سے ٹال دے جن میں مجھے مبتلا کیا ہے، اور ان احسانات کی طرف مجھے پلٹا دے جن کا مجھے خوگر بنایا ہے، اور میری دُعا اور ہر اُس شخص کی دُعا کو جو صدقِ نیت سے تجھے پکارے قبول فرما، کیونکہ میری قوت کمزور، چارہ جوئی کی صورت ناپید اور حالت سخت سے سخت تر ہو گئی ہے، اور جو کچھ تیرے مخلوقات کے پاس ہے اس سے میں بالکل نا اُمید ہوں، اب تو تیری پہلی نعمتوں کے دوبارہ حاصل ہونے میں تیری اُمید کے علاوہ کوئی صورت باقی نہیں رہی۔

اِلٰهِیْ اِنَّ قُدْرَتَكَ عَلٰى كَشْفِ مَاۤ اَنَا فِیْهِ، كَقُدْرَتِكَ عَلٰى مَا ابْتَلَیْتَنِیْ بِهٖ، وَ اِنَّ ذِكْرَ عَوَآئِدِكَ یُوْنِسُنِیْ، وَ الرَّجَآءُ فِیْۤ اِنْعَامِكَ وَ فَضْلِكَ یُقَوِّیْنِیْ، لِاَنِّیْ لَمْ اَخْلُ مِنْ نِّعْمَتِكَ مُنْذُ خَلَقْتَنِیْ، وَ اَنْتَ اِلٰهِیْ مَفْزَعِیْ وَ مَلْجَئِیْ، وَ الْحَافِظُ لِیْ وَ الذَّآبُّ عَنِّیْ، الْمُتَحَنِّنُ عَلَیَّ، الرَّحِیْمُ بِیْ، الْمُتَكَفِّلُ بِرِزْقِیْ، فِیْ قَضَآئِكَ كَانَ مَا حَلَّ بِیْ، وَ بِعِلْمِكَ مَا صِرْتُ اِلَیْهِ.

اے میرے معبود! جن رنج و آلام میں گرفتار ہوں ان سے چھٹکارا دلانے پر تو ایسا ہی قادر ہے جیسا ان چیزوں پر قدرت رکھتا ہے جن میں مجھے مبتلا کیا ہے، بے شک تیرے احسانات کی یاد میرا دل بہلاتی اور تیرے انعام و تفضل کی اُمید میری ہمت بندھاتی ہے، اس لئے کہ جب سے تو نے مجھے پیدا کیا ہے میں تیری نعمتوں سے محروم نہیں رہا، اور تو ہی اے میرے معبود! میری پناہ گاہ، میرا ملجاء، میرا محافظ و پشت پناہ،میرے حال پر شفیق و مہربان اور میرے رزق کا ذمہ دار ہے، جو مصیبت مجھ پر وارد ہوئی ہے وہ تیرے فیصلہ قضاء و قدر میں اور جو میری موجودہ حالت ہے وہ تیرے علم میں گزر چکی تھی۔

فَاجْعَلْ یَا وَلِیِّیْ وَ سَیِّدِیْ فِیْمَا قَدَّرْتَ وَ قَضَیْتَ عَلَیَّ، وَ حَتَمْتَ عافِیَتِیْ، وَ مَا فِیْهِ صَلَاحِیْ وَ خَلَاصِیْ مِمَّاۤ اَنَا فِیْهِ، فَاِنِّیْ لَاۤ اَرْجُوْ لِدَفْعِ ذٰلِكَ غَیْرَكَ، وَ لَاۤ اَعْتَمِدُ فِیْهِ اِلَّا عَلَیْكَ.

تو اے میرے مالک و سردار! جن چیزوں کو تیرے فیصلہ قضاء و قدر نے میرے حق میں طے کیا اور لازم و ضروری قرار دیا ہے، ان چیزوں میں سے میری عافیت، اور وہ چیز جس سے میری بہبودی اور جس حالت میں ہوں اس سے رہائی وابستہ ہے، قرار دے، کیونکہ میں اس مصیبت کے ٹالنے میں کسی پر اُمید نہیں رکھتا، اور نہ اس سلسلہ میں تیرے علاوہ کسی پر بھروسا کرتا ہوں۔

فَكُنْ یَا ذَا الْجَلَالِ وَ الْاِكْرَامِ، عِنْدَ اَحْسَنِ ظَنِّیْ بِكَ، وَ ارْحَمْ ضَعْفِیْ وَ قِلَّةَ حِیْلَتِیْ، وَ اكْشِفْ كُرْبَتِیْ، وَ اسْتَجِبْ دَعْوَتِیْ، وَ اَقِلْنِیْ عَثْرَتِیْ، وَ امْنُنْ عَلَیَّ بِذٰلِكَ، وَ عَلٰى كُلِّ دَاعٍ لَّكَ.

تو اے جلالت و بزرگی کے مالک! میرے اس حسنِ ظن کے مطابق ثابت ہو جو مجھے تیرے بارے میں ہے، اور میری کمزوری و بے چارگی پر رحم فرما، میری بے چینی کو دور کر، میری دُعا قبول فرما، میری خطا و لغزش کو معاف کر دے، اور مجھ پر اور جو بھی تجھ سے دُعا مانگے عفو و درگزر کر کے احسان فرما۔

اَمَرْتَنِیْ یَا سَیِّدِیْ بِالدُّعَآءِ، وَ تَكَفَّلْتَ بِالْاِجَابَةِ، وَ وَعْدُكَ الْحَقُّ الَّذِیْ لَا خُلْفَ فِیْهِ وَ لَا تَبْدِیْلَ.

اے میرے مالک! تو نے مجھے دُعا کا حکم دیا اور قبولیتِ دُعا کا ذمہ لیا، اور تیرا وعدہ ایسا سچا ہے جس میں خلاف ورزی و تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے۔

فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ نَّبِیِّكَ وَ عَبْدِكَ، وَ عَلَى الطَّاهِرِیْنَ مِنْ اَهْلِ بَیْتِهٖ، وَ اَغِثْنِیْ، فَاِنَّكَ غِیَاثُ مَنْ لَّا غِیَاثَ لَهٗ، وَ حِرْزُ مَنْ لَّا حِرْزَ لَهٗ، وَ اَنَا الْمُضْطَرُّ الَّذِیْۤ اَوْجَبْتَ اِجَابَتَهٗ، وَ كَشْفَ مَا بِهٖ مِنَ السُّوْٓءِ، فَاَجِبْنِیْ، وَ اكْشِفْ هَمِّیْ، وَ فَرِّجْ غَمِّیْ، وَ اَعِدْ حَالِیْۤ اِلٰۤى اَحْسَنِ مَا كَانَتْ عَلَیْهِ، وَ لَا تُجَازِنِیْ بِالِاسْتِحْقَاقِ، وَ لٰكِن بِرَحْمَتِكَ الَّتِیْ وَسِعَتْ كُلَّ شَیْءٍ.

تو اپنے نبی اور عبدِ خاص محمد ﷺ اور اُن کے اہل بیت اطہارؑ پر رحمت نازل فرما اور میری فریاد کو پہنچ، کیونکہ تو ان کا فریاد رس ہے جن کا کوئی فریاد رس نہ ہو، اور ان کیلئے پناہ ہے جن کیلئے کوئی پناہ نہ ہو، میں ہی وہ مضطر و لاچار ہوں جس کی دُعا قبول کرنے اور اس کے دکھ درد کے دور کرنے کا تو نے التزام کیا ہے، لہٰذا میری دُعا کو قبول فرما، میرے غم کو دور اور میرے رنج و اندوہ کو برطرف فرما، اور میری حالت کو پہلی حالت سے بھی بہتر حالت کی طرف پلٹا دے، اور مجھے استحقاق کے بقدر اجر نہ دے، بلکہ اپنی اس رحمت کے لحاظ سے جزا دے جو تمام چیزوں پر چھائی ہوئی ہے۔

یَا ذَا الْجَلَالِ وَ الْاِكْرَامِ! صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ، وَ اسْمَعْ وَ اَجِبْ یَا عَزِیْزُ.

اے جلالت و بزرگی کے مالک! تو رحمت نازل فرما محمدؐ اور آل محمدؑ پر اور میری دُعا کو سن اور اسے قبول فرما، اے غالب! اے صاحب اقتدار!

–٭٭–

حضرتؑ نے اس دُعا کے شروع میں ان مصائب و آلام سے بچاؤ کی التجا کی ہے جو دشمنوں کی شماتت اور دوستوں کیلئے اذیت کا باعث ہوتے ہیں۔ ’’شماتت‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ دشمن اپنے کسی حریف کو رنج و مصیبت اور کرب و اندوہ میں دیکھ کر بظاہر ہمدردی کا اظہار کرے اور بباطن خوش ہو۔ اور یہ شماتت اور ہمدردانہ لہجہ میں طنز کی آمیزش انتہائی روحانی اذیت کا باعث ہوتی ہے۔ اور انبیاءؑ و خاصان خدا کڑوے سے کڑوے گھونٹ پینے کے باوجود اس کی تلخی سے پناہ مانگتے تھے۔

چنانچہ حضرت ایوب علیہ السلام کے متعلق وارد ہوا ہے کہ جب ان کی تمام کی تمام اولاد مر گئی، مال مویشی تلف ہو گئے اور خود مختلف بیماریوں کا ہدف بن گئے تو خداوند عالم نے ان کے صبر و شکر کے نتیجہ میں انہیں پہلے سے بڑھ کر نعمتیں دیں۔ اس موقع پر ان سے پوچھا گیا کہ زمانۂ ابتلا و آزمائش میں کون سی مصیبت آپؑ پر سب سے زیادہ گراں گزری؟ آپؑ نے فرمایا کہ: ’’دشمنوں کی شماتت اور ان کا اظہارِ رنج و افسوس کے ساتھ خندۂ زیر لب‘‘۔

اسی شماتت کی تلخی کی بنا پر عباس ابن مرداس سلمی کے یہ دو شعر امیرالمومنین علی ابن ابی طالبؑ کی زبان سے نکل جایا کرتے تھے۔

فَاِنْ تَسْئَلِیْنِیْ كَیْفَ اَنْتَ؟ فَاِنَّنِیْ

صَبُورٌ عَلٰى رَیْبِ الزَّمَانِ صَلِیْبُ‏

”اگر تم مجھ سے پوچھتی ہو کہ کیسے ہو؟ تو سنو کہ میں زمانہ کی سختیاں جھیل لے جانے میں بڑا مضبوط اور کوہ صبر و تحمل ہوں“۔

یَعِزُّ عَلَیَّ اَنْ تُرٰى بِیْ كَاٰبَةٌ

فَیَشْمَتَ عَادٍ اَوْ یُسَآءَ حَبِیْبُ

”مجھے یہ گوارا نہیں کہ مجھ میں حزن و غم کے آثار دکھائی پڑیں کہ دشمن خوش ہونے لگیں اور دوستوں کو رنج پہنچے“۔[۱]

حضرتؑ شماتتِ اعداء سے دُعائے تحفظ کے بعد اللہ تعالیٰ کی نظر کرم و نگاہ مرحمت کی التجا کرتے ہیں۔ کیونکہ موت و حیات، عزت و ذلت، صحت و بیماری اور فقر و غنا، سب اسی نظر الٰہی کا کرشمہ و نتیجہ ہیں۔ چنانچہ حضرتؑ ہی کا ارشاد ہے:

اِنَّ لِلّٰهِ لَوْحًا مَّحْفُوْظًا يَّلْحَظُهٗ فِیْ كُلِّ يَوْمٍ ثَلَاثَمِائَةِ لَحْظَةٍ لَّيْسَ مِنْهَا لَحْظَةٌ اِلَّا يُحْيِیْ فِيْهَا وَ يُمِيْتُ وَ يُعِزُّ وَ يُذِلُّ وَ يَفْعَلُ مَا يَشَآءُ.

اللہ تعالیٰ کیلئے ایک لوح محفوظ ہے جس پر وہ ہر روز تین سو مرتبہ نظر ڈالتا ہے اور ہر نظر کے نتیجہ میں وہ کسی کو زندگی دیتا ہے کسی کو موت، کسی کو عزت دیتا ہے کسی کو ذلت اور جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے۔ [۲]

اس نگاہِ لطف و مرحمت کے بعد انسان صرف اسی سے اپنی امیدیں وابستہ رکھتا ہے اور اس کے علاوہ ہر فرد سے مایوس و نا امید ہو جاتا ہے۔ کیونکہ رجاءِ صادق وہی ہے جس کے بعد دنیا کی ہر مخلوق سے استغنا و بے نیازی ہو جائے۔ اور یہ بے نیازی امید و رجاء کا لازمی نتیجہ ہے۔ اور جو اللہ تعالیٰ کے بجائے دوسروں سے امید رکھتا ہے وہ سراپا فقر و احتیاج نظر آتا ہے، اگرچہ مال و دولت رکھتا ہو۔ اور اللہ تعالیٰ سے امید رکھنے والا فقر و تنگدستی میں بھی غنی و بے نیاز رہتا ہے۔ اس لئے کہ اسے یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود رزق کا ضامن و کفیل ہے اور وہ زندگی کے کسی دور میں اس کا سلسلہ بند نہیں کرے گا۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:

﴿وَمَامِنْ دَآبَّۃٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَي اللہِ رِزْقُہَا﴾

اس نے زمین پر چلنے پھرنے والی ہر مخلوق کی روزی کا ذمہ لیا ہے۔ [۳]

اس کے بعد اپنے مصائب و مِحَن کے سلسلہ میں قضا ؤ قدر الٰہی کا ذکر کیا ہے۔ اس طرح کہ جو مصائب و آلام مجھ پر وارد ہوئے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے علم اور فیصلۂ قضا و قدر کے مطابق ہیں۔ مسٔلۂ ’’قضاء و قدر‘‘ ان دقیق مسائل میں سے ہے جس میں سطحی ذہنیت کے لوگ غور و فکر سے اطمینان و یقین کی روشنی حاصل نہیں کر سکتے، بلکہ باریکیاں اور کاوشیں اسے اور پیچیدہ بنا دیتی ہیں۔ اسی لئے عوام کو اس میں غور و خوض اور رد و کد سے منع کیا گیا ہے۔

چنانچہ امیر المومنین علیہ السلام سے ایک شخص نے قضا و قدر کے متعلق دریافت کیا تو آپؑ نے اس سے فرمایا: "بَحْرٌ عَمِيْقٌ فَلَا تَلِجْهُ”: ’’یہ ایک گہرا سمندر ہے اس میں نہ اترو‘‘۔ اس نے پھر پوچھا تو فرمایا: "طَرِيْقٌ مُّظْلِمٌ فَلَا تَسْلُكْهُ”: ’’یہ ایک تاریک راستہ ہے اس میں قدم نہ اٹھاؤ‘‘، پھر پوچھا تو فرمایا: "سِرُّ اللّهِ فَلَا تَكَلَّفْهُ”: ’’یہ اللہ تعالیٰ کا ایک راز ہے اسے جاننے کی زحمت نہ اٹھاؤ‘‘۔ [۴]

یہ عقل کی درماندگی اور فہم و ادراک کی نارسائی ہی ہے جو انسان کو کبھی جبر کی طرف لے جاتی ہے اور کبھی تفویض تک پہنچا دیتی ہے۔ چنانچہ اس قضا و قدر میں فکر و تعمق کے نتیجہ میں ایک گروہ جبر کا قائل ہو گیا، اس طرح کہ انسان سے جو اچھے برے افعال صادر ہوتے ہیں وہ ان کے بجا لانے پر مجبور ہے اور اپنی اچھائی، برائی، نفع و نقصان کے سلسلہ میں اسے ذرا اختیار نہیں ہے۔ اور ایک گروہ تفویض کا قائل ہو گیا، اس طرح کہ انسان سے جو افعال بھی صادر ہوتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے علم و ارادہ سے باہر اور اس کی قضاء و قدر سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ مگر فرقہ امامیہ نے جو راہ اختیار کی ہے وہ ان دونوں راہوں کے درمیان جاتی ہے اور دونوں سے بچ کر نکلتی ہے۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:

لَا جَبْرَ وَ لَا تَفْوِيْضَ وَ لٰكِنْ اَمْرٌ بَيْنَ اَمْرَيْنِ.

نہ جبر ہے، نہ تفویض، بلکہ حقیقت ان دونوں کے بین بین ہے۔ [۵]

مطلب یہ ہے کہ نہ تو خدا کی طرف سے بندوں پر جبر ہے اور نہ ان کے افعال و اعمال کو اپنے قضا و قدر کے حدود سے باہر رکھا ہے۔ بلکہ انسان نیک اعمال بجا لاتا ہے تو اس لئے کہ اس کے ارادہ و اختیار کے ساتھ لطف و توفیقِ الٰہی شریک حال ہوتی ہے اور برے اعمال کا مرتکب ہوتا ہے تو اس لئے کہ اس نے باختیار خود ایسی صورت پیدا کر لی ہے، کہ اس سے توفیق سلب ہو جاتی ہے اور اللہ اس کے خود اختیاری افعال کے نتیجہ میں اسے گمراہیوں میں بھٹکنے کیلئے کھلا چھوڑ دیتا ہے۔ اس ”امر بین امرین“ کو اس طرح سمجھنا چاہیے کہ کسی کے گھر میں بجلی نصب ہو تو وہ جب چاہے روشنی کر سکتا ہے اور جب چاہے اندھیرا۔ مگر اس اختیار کے باوجود ایک لحاظ سے مجبور بھی ہے، وہ اس طرح کہ جو بجلی کے مرکز پر مسلط و کار فرما ہے وہ اسے بند کر دے تو یہ لاکھ بٹن دبائے تاروں میں برقی رو نہیں دوڑا سکتا، کیونکہ بجلی کا مرکز اس کے حدود و اختیار سے باہر ہے

٭٭٭٭٭

[۱]۔ نہج البلاغہ، مکتوب نمبر ۳۶

[۲]۔ بحارالانوار، ج ۴۶، ص ۱۳۲

[۳]۔ سورہ ھود، آیت ۶

[۴]۔ التوحید، شیخ صدوقؒ، ۳۶۵

[۵]۔ الکافی، ج ۱، ص ۱۶۰

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button