صحیفہ کاملہ

5- دعائے روزِ پنچ شنبہ

۵۔ دُعَآءُ یَوْمِ الْخَمِیْسِ

[۵] دُعائے روزِ پنچ شنبہ

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ اَذْهَبَ اللَّیْلَ مُظْلِمًا بِقُدْرَتِهٖ، وَ جآءَ بِالنَّهَارِ مُبْصِرًا بِرَحْمَتِهٖ، وَ كَسَانِیْ ضِیَآئَهٗ وَ اَنَا فِیْ نِعْمَتِهٖ.

سب تعریف اس اللہ کیلئے ہے جس نے اپنی قدرت سے اندھیری رات کو رخصت کیا، اور اپنی رحمت سے روشن دن نکالا، اور اس کی روشنی کا زر تار جامہ مجھے پہنایا، اور اس کی نعمت سے بہرہ مند کیا۔

اَللّٰهُمَّ فَكَمَاۤ اَبْقَیْتَنِیْ لَهٗ فَاَبْقِنِیْ لِاَمْثَالِهٖ، وَ صَلِّ عَلَى النَّبِیِّ مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ لَا تَفْجَعْنِیْ فِیْهِ وَ فِیْ غَیْرِهٖ مِنَ اللَّیَالِیْ وَ الْاَیَّامِ بِارْتِكَابِ الْمَحَارِمِ، وَ اكْتِسَابِ الْمَاٰثِمِ، وَ ارْزُقْنِیْ خَیْرَهٗ وَ خَیْرَ مَا فِیْهِ وَ خَیْرَ مَا بَعْدَهٗ، وَ اصْرِفْ عَنِّیْ شَرَّهٗ وَ شَرَّ مَا فِیْهِ وَ شَرَّ مَا بَعْدَهٗ.

بار الٰہا! جس طرح تو نے اس دن کیلئے مجھے باقی رکھا اسی طرح اس جیسے دوسرے دنوں کیلئے زندہ رکھ، اور اپنے پیغمبر محمدﷺ اور اُن کی آلؐ پر رحمت نازل فرما اور اس دن میں اور اس کے علاوہ اور راتوں اور دنوں میں حرام امور کے بجا لانے اور گناہ و معاصی کے ارتکاب کرنے سے رنجیدہ خاطر نہ کر، اور مجھے اس دن کی بھلائی اور جو اس کے بعد ہے اس کی بھلائی عطا کر، اور اس دن کی برائی اور جو کچھ اس دن میں ہے اس کی برائی اور جو اس کے بعد ہے اس کی برائی مجھ سے دور کر دے۔

اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ بِذِمَّةِ الْاِسْلَامِ اَتَوَسَّلُ اِلَیْكَ، وَ بِحُرْمَةِ الْقُرْاٰنِ اَعْتَمِدُ عَلَیْكَ، وَ بِمُحَمَّدٍ الْمُصْطَفٰى صَلَّى اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ اٰلِهٖ اَسْتَشْفِعُ لَدَیْكَ، فَاعْرِفِ اللّٰهُمَّ ذِمَّتِیَ الَّتِیْ رَجَوْتُ بِهَا قَضَآءَ حَاجَتِیْ، یَآ اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ.

اے اللہ! میں اسلام کے عہد و پیمان کے ذریعہ تجھ سے توسل چاہتا ہوں، اور قرآن کی عزت و حرمت کے واسطہ سے تجھ پر بھروسا کر تا ہوں، اور محمد مصطفیٰ ﷺ کے وسیلہ سے تیری بارگاہ میں شفاعت کا طلبگار ہوں، تو اے میرے معبود! میرے اس عہد و پیمان پر نظر کر جس کے وسیلہ سے حاجت بر آوری کا امیدوار ہوں، اے رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔

اَللّٰهُمَّ اقْضِ لِیْ فِی الْخَمِیْسِ خَمْسًا لَّا یَتَّسِعُ لَهَاۤ اِلَّا كَرَمُكَ، وَ لَا یُطِیْقُهَاۤ اِلَّا نِعَمُكَ: سَلَامَةً اَقْوٰى بِهَا عَلٰى طَاعَتِكَ، وَ عِبَادَةً اَسْتَحِقُّ بِهَا جَزِیْلَ مَثُوْبَتِكَ، وَ سَعَةً فِی الْحَالِ مِنَ الرِّزْقِ الْحَلَالِ، وَ اَنْ تُؤْمِنَنِیْ فِیْ مَوَاقِفِ الْخَوْفِ بِاَمْنِكَ، وَ تَجْعَلَنِیْ مِنْ طَوَارِقِ الْهُمُوْمِ وَ الْغُمُوْمِ فِیْ حِصْنِكَ.

بار الٰہا! اس روز پنجشنبه میں میری پانچ حاجتیں بر لا، جن کی سمائی تیرے ہی دامن کرم میں ہے اور تیری ہی نعمتوں کی فراوانی ان کی متحمل ہو سکتی ہے: ایسی سلامتی دے جس سے تیری فرمانبرداری کی قوت حاصل کر سکوں، ایسی توفیق عبادت دے جس سے تیرے ثوابِ عظیم کا مستحق قرار پاؤں، اور سر دست رزق حلال کی فراوانی اور خوف و خطر کے مواقع پر اپنے امن کے ذریعہ مطمئن کر دے،اور غموں اور فکروں کے ہجوم سے اپنی پناہ میں رکھ۔

صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اجْعَلْ تَوَسُّلِیْ بِهٖ شافِعًا یَّوْمَ الْقِیٰمَةِ نَافِعًا، اِنَّكَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ.

محمدﷺ اور اُن کی آل پر رحمت نازل فرما اور ان سے میرے توسل کو قیامت کے دن سفارش کرنے والا، نفع بخشنے والا قرار دے، بے شک تو رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔

–٭٭–

اس دُعا کے شروع میں رات کے رخصت ہونے کو اللہ تعالیٰ کی قدرت کا مظاہرہ اور دن کی آمد کو اس کی رحمت کا کرشمہ قرار دیا ہے:

قدرت کا مظاہرہ اس طرح ہے کہ زمین ایسا عظیم ترین کرہ اس کے ادنی اشارے سے پرِ کاہ کی طرح اڑتا اور ہر وقت گردش میں رہتا ہے اور اسی گردش کے نتیجہ میں موسموں کی تبدیلی، سورج کے طلوع و غروب کی نمود اور شب و روز کی تخلیق ہوتی ہے۔ اس طرح کہ جو حصہ سورج کے سامنے آتا ہے وہاں دن اور جو حصہ اس کے سامنے نہیں آتا وہاں رات ہوتی ہے جس سے ہماری آنکھوں کے سامنے کبھی اندھیرا اور کبھی اجالا ہو جاتا ہے اور یہ بالکل ایسا ہے جیسے کسی کمرہ میں روشنی کے بعد اندھیرا اور اندھیرے کے بعد روشنی کر دی جائے۔

اور رحمت کا کرشمہ اس طرح ہے کہ دن کے وجود سے بے شمار فوائد و منافع وابستہ ہیں۔ اس سے کرہ ارضی کی حیات اور اس پر بسنے والوں کی زندگی وابستہ ہے۔چنانچہ سورج کی کرنیں جب سمندر سے بخارات اٹھاتی ہیں تو وہ ابر بن کر برستے اور پیاسی زمین کو سیراب کرتے ہیں جس سے زمین کی قوت نشو و نما ابھرتی اور اس میں روئیدگی آتی ہے۔ اور اسی دن کی حرارت سے کھیتیاں پکتی اور پھل پختہ ہوتے ہیں جو انسان و حیوان کی زندگی و بقا کا سامان کرتے ہیں۔ اسی کی روشنی سے سبزہ و نبات کا رنگ نکھرتا اور پتھروں میں رنگ آمیزی ہوتی ہے جو لعل و یاقوت و زمرد کی صورت میں چمکتے، جگمگاتے اور نگاہوں کو خیرہ کرتے ہیں۔

دن رات کے ادلنے بدلنے سے اللہ تعالیٰ کی قدرت و رحمت پر دلیل لانے کے بعد زندگی و بقا کا سوال کیا ہے۔ یہ خواہش زندگی کی چاہت اور حظ اندوزی کیلئے نہیں ہے، بلکہ اس لئے ہے کہ آخرت کیلئے زیادہ سے زیادہ سر و سامان کریں اور اپنے خالق کی رضا و خوشنودی کا سرمایہ فراہم کریں۔ چنانچہ اس دُعا میں جو چیزیں طلب کی ہیں ان میں پہلی چیز یہ ہے کہ میں صحت و سلامتی چاہتا ہوں تو اس لئے کہ زندگی کے لمحات کو مقصد حیات کی تکمیل میں صرف کروں اور اپنے معبود کی اطاعت و فرمانبرداری کی قوت حاصل کر سکوں۔ اور عبادت کے ذریعہ ثواب اخروی کا مستحق قرار پاؤں اور خوف و خطر کے مقامات پر اس کے عذاب و عتاب سے محفوظ رہوں۔ اور غم و اندوہ سے نجات اور رزقِ حلال کا سوال کیا ہے تو اس لئے کہ رزق و معیشت کی تنگی اور غم و اندوہ کی فراوانی خیالات کو پراگندہ اور ذہن کو منتشر کر دیتی ہے اور ذہن میں یکسوئی نہ ہو تو طبیعت پوری توجہ کے ساتھ عبادات و اعمال کی طرف مائل نہیں ہوتی۔ غرض آپؑ کی زندگی کا مقصد اولین اللہ تعالیٰ سے وابستگی اور اس کی رضا جوئی تھا اور آپؑ کی پوری زندگی اسی محبوب ترین مشغلہ میں بسر ہوئی۔

٭٭٭٭٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button