صحیفہ کاملہ

1۔ خداوند عالم کی حمد و ستائش

(۱) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ

اِذَا ابْتَدَاَ بِالدُّعَآءِ بَدَاَ بِالتَّحْمِیْدِ لِلّٰهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ الثَّنَآءِ عَلَیْهِ، فَقَالَ:

جب آپؑ دُعا مانگتے تو اس کی ابتدا خدائے بزرگ و برتر کی حمد و ستائش سے فرماتے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں فرمایا:

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الْاَوَّلِ بِلَاۤ اَوَّلٍ كَانَ قَبْلَهٗ، وَ الْاٰخِرِ بِلَاۤ اٰخِرٍ یَّكُوْنُ بَعْدَهٗ، الَّذِیْ قَصُرَتْ عَنْ رُّؤْیَتِهٖۤ اَبْصَارُ النَّاظِرِیْنَ، وَ عَجَزَتْ عَنْ نَّعْتِهٖۤ اَوْهَامُ الْوَاصِفِیْنَ.

سب تعریف اس اللہ کیلئے ہے جو ایسا اوّل ہے، جس کے پہلے کوئی اوّل نہ تھا اور ایسا آخر ہے جس کے بعد کوئی آخر نہ ہو گا۔ وہ خدا جس کے دیکھنے سے دیکھنے والوں کی آنکھیں عاجز اور جس کی توصیف و ثنا سے وصف بیان کرنے والوں کی عقلیں قاصر ہیں۔

اِبْتَدَعَ بِقُدْرَتِهِ الْخَلْقَ ابْتِدَاعًا، وَ اخْتَرَعَهُمْ عَلٰى مَشِیَّتِهِ اخْتِرَاعًا. ثُمَّ سَلَكَ بِهِمْ طَرِیْقَ اِرَادَتِهٖ، وَ بَعَثَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ مَحَبَّتِهٖ، لَا یَمْلِكُوْنَ تَاْخِیْرًا عَمَّا قَدَّمَهُمْ اِلَیْهِ، وَ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ تَقَدُّمًا اِلٰى مَاۤ اَخَّرَهُمْ عَنْهُ.

اس نے کائنات کو اپنی قدرت سے پیدا کیا اور اپنے منشائے ازلی سے جیسا چاہا انہیں ایجاد کیا۔ پھر انہیں اپنے ارادہ کے راستہ پر چلایا اور اپنی محبت کی راہ پر ابھارا۔ جن حدود کی طرف انہیں آگے بڑھایا ہے، ان سے پیچھے رہنا اور جن سے پیچھے رکھا ہے ان سے آگے بڑھنا ان کے قبضہ و اختیار سے باہر ہے۔

وَ جَعَلَ لِكُلِّ رُوْحٍ مِّنْهُمْ قُوْتًا مَّعْلُوْمًا مَّقْسُوْمًا مِّنْ رِّزْقِهٖ، لَا یَنْقُصُ مَنْ زَادَهٗ نَاقِصٌ، وَ لَا یَزِیْدُ مَنْ نَّقَصَ مِنْهُمْ زَآئِدٌ.

اسی نے ہر (ذی) روح کیلئے اپنے (پیدا کردہ) رزق میں سے معین و معلوم روزی مقرر کر دی ہے۔ جسے زیادہ دیا ہے، اسے کوئی گھٹانے والا گھٹا نہیں سکتا اور جسے کم دیا ہے، اسے کوئی بڑھانے والا بڑھا نہیں سکتا۔

ثُمَّ ضَرَبَ لَهٗ فِی الْحَیٰوةِ اَجَلًا مَّوْقُوْتًا، وَ نَصَبَ لَهٗۤ اَمَدًا مَّحْدُوْدًا، يَتَخَطَّأُ اِلَیْهِ بِاَیَّامِ عُمُرِهٖ، وَ یَرْهَقُهٗ بِاَعْوَامِ دَهْرِهٖ، حَتّٰۤى اِذَا بَلَغَ اَقْصٰۤى اَثَرِهٖ، وَ اسْتَوْعَبَ حِسَابَ عُمُرِهٖ، قَبَضَهٗ اِلٰى مَا نَدَبَهٗۤ اِلَیْهِ مِنْ مَّوْفُوْرِ ثَوَابِهٖ، اَوْ مَحْذُوْرِ عِقَابِهٖ، ﴿لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَسَآءُوْا بِمَا عَمِلُوْا وَ یَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا بِالْحُسْنٰیۚ۝﴾، عَدْلًا مِّنْهُ، تَقَدَّسَتْ اَسْمَآئُهٗ وَ تَظاهَرَتْ اٰلَآ ئُہٗ ﴿لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَ هُمْ یُسْئَلُوْنَ۝﴾.

پھر یہ کہ اسی نے اس کی زندگی کا ایک وقت مقرر کر دیا اور ایک معینہ مدت اس کیلئے ٹھہرا دی۔ جس مدت کی طرف وہ اپنی زندگی کے دنوں سے بڑھتا اور اپنے زمانۂ زیست کے سالوں سے اس کے نزدیک ہوتا ہے، یہاں تک کہ جب زندگی کی انتہا کو پہنچ جاتا ہے اور اپنی عمر کا حساب پورا کر لیتا ہے تو اللہ اسے اپنے ثواب بے پایاں تک جس کی طرف اسے بلایا تھا یا خوفناک عذاب کی جانب جسے بیان کر دیا تھا، قبض روح کے بعد پہنچا دیتا ہے، تاکہ اپنے عدل کی بنا پر بُروں کو ان کی بداعمالیوں کی سزا اور نیکوکاروں کو اچھا بدلہ دے۔ اس کے نام پاکیزہ اور اس کی نعمتوں کا سلسلہ لگاتار ہے۔ وہ جو کرتا ہے اس کی پوچھ گچھ اس سے نہیں ہو سکتی اور لوگوں سے بہرحال بازپرس ہو گی۔

وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ لَوْ حَبَسَ عَنْ عِبَادِهٖ مَعْرِفَةَ حَمْدِهٖ عَلٰۤى مَاۤ اَبْلَاهُمْ مِنْ مِّنَنِهِ الْمُتَتَابِعَةِ، وَ اَسْبَغَ عَلَیْهِمْ مِنْ نِّعَمِهِ الْمُتَظَاهِرَةِ، لَـتَصَرَّفُوْا فِیْ مِنَنِهٖ فَلَمْ یَحْمَدُوْهُ، وَ تَوَسَّعُوْا فِیْ رِزْقِهٖ فَلَمْ یَشْكُرُوْهُ. وَ لَوْ كَانُوْا كَذٰلِكَ لَخَرَجُوْا مِنْ حُدُوْدِ الْاِنْسَانِیَّةِ اِلٰى حَدِّ الْبَهِیْمِیَّةِ، فَكَانُوْا كَمَا وَصَفَ فِیْ مُحْكَمِ كِتَابِهٖ: ﴿اِنْ هُمْ اِلَّا كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا۠۝﴾.

تمام تعریف اس اللہ کیلئے ہے کہ اگر وہ اپنے بندوں کو حمد و شکر کی معرفت سے محروم رکھتا، ان پیہم عطیوں پر جو اس نے دیئے ہیں اور ان پے در پے نعمتوں پر جو اس نے فراوانی سے بخشی ہیں، تو وہ اس کی نعمتوں میں تصرف تو کرتے مگر اس کی حمد نہ کرتے، اور اس کے رزق میں فارغ البالی سے بسر تو کرتے مگر اُس کا شکر بجانہ لاتے، اور ایسے ہوتے تو انسانیت کی حدوں سے نکل کر چوپائیوں کی حد میں آجاتے اور اس توصیف کے مصداق ہوتے جو اس نے اپنی محکم کتاب میں کی ہے کہ: ”وہ تو بس چوپائیوں کے مانند ہیں، بلکہ ان سے بھی زیادہ راہِ راست سے بھٹکتے ہوئے“۔

وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ عَلٰى مَا عَرَّفَنَا مِنْ نَّفْسِهٖ، وَ اَلْهَمَنَا مِنْ شُكْرِهٖ، وَ فَتَحَ لَنا مِنْ اَبْوَابِ الْعِلْمِ بِرُبُوْبِیَّتِهٖ، وَ دَلَّنَا عَلَیْهِ مِنَ الْاِخْلَاصِ لَهٗ فِیْ تَوْحِیْدِهٖ، وَ جَنَّبَنَا مِنَ الْاِلْحَادِ وَ الشَّكِّ فِیْ اَمْرِهٖ.

تمام تعریف اللہ کیلئے ہے کہ اس نے اپنی ذات کو ہمیں پہچنوایا اور حمد و شکر کا طریقہ سمجھایا اور اپنی پروردگاری پر علم و اطلاع کے دروازے ہمارے لئے کھول دیئے اور توحید میں تنزیہ و اخلاص کی طرف ہماری رہنمائی کی اور اپنے معاملہ میں شرک و کجروی سے ہمیں بچایا۔

حَمْدًا نُّعَمَّرُ بِهٖ فِیْمَنْ حَمِدَهٗ مِنْ خَلْقِهٖ، وَ نَسْبِقُ بِهٖ مَنْ سَبَقَ اِلٰى رِضَاهُ وَ عَفْوِهٖ.

ایسی حمد جس کے ذریعہ ہم اس کی مخلوقات میں سے حمد گزاروں میں زندگی بسر کریں اور اس کی خوشنودی و بخشش کی طرف بڑھنے والوں سے سبقت لے جائیں۔

حَمْدًا یُّضِیْ‏ءُ لَنَا بِهٖ ظُلُمٰتِ الْبَرْزَخِ، وَ یُسَهِّلُ عَلَیْنَا بِهٖ سَبِیْلَ الْمَبْعَثِ، وَ یُشَرِّفُ بِهٖ مَنَازِلَنا عِنْدَ مَوَاقِفِ الْاَشْهَادِ، یَوْمَ تُجْزٰى‏ ﴿كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ۝﴾، ﴿یَوْمَ لَا یُغْنِیْ مَوْلًی عَنْ مَّوْلًی شَیْا وَّ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَۙ۝﴾.

ایسی حمد جس کی بدولت ہمارے لئے برزخ کی تاریکیاں چھٹ جائیں اور جو ہمارے لئے قیامت کی راہوں کو آسان کر دے اور حشر کے مجمع عام میں ہماری قدر و منزلت کو بلند کر دے، جس دن ہر ایک کو اُس کے کئے کا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر کسی طرح کا ظلم نہ ہو گا۔ جس دن کوئی دوست کسی دوست کے کچھ کام نہ آئے گا اور نہ ان کی مدد کی جائے گی۔

حَمْدًا یَّرْتَفِعُ مِنَّاۤ اِلٰۤى اَعْلٰى عِلِّیِّیْنَ فِیْ كِتَابٍ مَّرْقُوْمٍ ﴿یَّشْهَدُهٗ الْمُقَرَّبُوْنَۙ۝﴾.

ایسی حمد جو ایک لکھی ہوئی کتاب میں ہے جس کی مقرب فرشتے نگہداشت کرتے ہیں، ہماری طرف سے بہشت بریں کے بلند ترین درجات تک بلند ہو۔

حَمْدًا تَقَرُّ بِهٖ عُیُوْنُنَاۤ اِذَا بَرِقَتِ الْاَبْصَارُ، وَ تَبْیَضُّ بِهٖ وُجُوْهُنَاۤ اِذَا اسْوَدَّتِ الْاَبْشَارُ.

ایسی حمد جس سے ہماری آنکھوں میں ٹھنڈک آئے جبکہ تمام آنکھیں حیرت و دہشت سے پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اور ہمارے چہرے روشن و درخشاں ہوں جبکہ تمام چہرے سیاہ ہوں گے۔

حَمْدًا نُّعْتَقُ بِهٖ مِنْ اَلِیْمِ نَارِ اللّٰهِ اِلٰى كَرِیْمِ جِوَارِ اللّٰهِ.

ایسی حمد جس کے ذریعہ ہم اللہ تعالیٰ کی بھڑکائی ہوئی اذیت دہ آگ سے آزادی پا کر اس کے جوارِ رحمت میں آجائیں۔

حَمْدًا نُّزَاحِمُ بِهٖ مَلٰٓئِكَتَهٗ الْمُقَرَّبِیْنَ، وَ نُضَامُّ بِهٖ اَنبِیَآئَهٗ الْمُرْسَلِیْنَ، فِیْ دَارِ الْمُقَامَةِ الَّتِیْ لَا تَزُوْلُ، وَ مَحَلِّ كَرَامَتِهِ الَّتِیْ لَا تَحُوْلُ.

ایسی حمد جس کے ذریعہ ہم اس کے مقرب فرشتوں کے ساتھ شانہ بشانہ بڑھتے ہوئے ٹکرائیں اور اس منزلِ جاوید و مقامِ عزت و رفعت میں جسے تغیر و زوال نہیں، اس کے فرستادہ پیغمبروں کے ساتھ یکجا ہوں۔

وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِی اخْتَارَ لَنَا مَحَاسِنَ الْخَلْقِ، وَ اَجْرٰى عَلَیْنَا طَیِّبَاتِ الرِّزْقِ، وَ جَعَلَ لَنَا الْفَضِیْلَةَ بِالْمَلَكَةِ عَلٰى جَمِیْعِ الْخَلْقِ، فَكُلُّ خَلِیْقَتِهٖ مُنْقَادَةٌ لَنا بِقُدْرَتِهٖ، وَ صَآئِرَةٌ اِلٰى طَاعَتِنَا بِعِزَّتِهٖ.

تمام تعریف اس اللہ کیلئے ہے جس نے خلقت و آفرینش کی تمام خوبیاں ہمارے لئے منتخب کیں اور پاک و پاکیزہ رزق کا سلسلہ ہمارے لئے جاری کیا اور ہمیں غلبہ و تسلط دے کر تمام مخلوقات پر برتری عطا کی۔ چنانچہ تمام کائنات اس کی قدرت سے ہمارے زیرِ فرمان اور اس کی قوت و سربلندی کی بدولت ہماری اطاعت پر آمادہ ہے۔

وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَغْلَقَ عَنَّا بَابَ الْحَاجَةِ اِلَّاۤ اِلَیْهِ، فَكَیْفَ نُطِیْقُ حَمْدَهٗ؟ اَمْ مَتٰى نُؤَدِّیْ شُكْرَهٗ! لَا، مَتٰى.

تمام تعریف اس اللہ تعالیٰ کیلئے ہے جس نے اپنے سوا طلب و حاجت کا ہر دروازہ ہمارے لئے بند کر دیا تو ہم (اس حاجت و احتیاج کے ہوتے ہوئے) کیسے اس کی حمد سے عہدہ برآ ہو سکتے ہیں؟ اور کب اس کا شکر ادا کر سکتے ہیں؟ نہیں! کسی وقت بھی اس کا شکر ادا نہیں ہو سکتا۔

وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ رَكَّبَ فِیْنَا اٰلَاتِ الْبَسْطِ، وَ جَعَلَ لَناۤ اَدَوَاتِ الْقَبْضِ، وَ مَتَّعَنَا بِاَرْوَاحِ الْحَیٰوةِ، وَ اَثْبَتَ فِیْنَا جَوَارِحَ الْاَعْمَالِ، وَ غَذَّانَا بِطَیِّبَاتِ الرِّزْقِ، وَ اَغْنَانَا بِفَضْلِهٖ، وَ اَقْنَانَا بِمَنِّهٖ.

تمام تعریف اس اللہ کیلئے ہے، جس نے ہمارے (جسموں میں) پھیلنے والے اعصاب اور سمٹنے والے عضلات ترتیب دیئے اور زندگی کی آسائشوں سے بہرہ مند کیا اور کار و کسب کے اعضاء ہمارے اندر ودیعت فرمائے اور پاک و پاکیزہ روزی سے ہماری پرورش کی اور اپنے فضل و کرم کے ذریعہ ہمیں بے نیاز کر دیا اور اپنے لطف و احسان سے ہمیں ( نعمتوں کا) سرمایہ بخشا۔

ثُمَّ اَمَرَنَا لِیَخْتَبِرَ طَاعَتَنَا، وَ نَهَانَا لِیَبْتَلِیَ شُكْرَنَا، فَخَالَفْنَا عَنْ طَرِیْقِ اَمْرِهٖ، وَ رَكِبْنَا مُتُوْنَ زَجْرِهٖ، فَلَمْ یَبْتَدِرْنَا بِعُقُوْبَتِهٖ، وَ لَمْ یُعَاجِلْنَا بِنِقْمَتِهٖ، بَلْ تَاَنَّانَا بِرَحْمَتِهٖ تَكَرُّمًا، وَ انْتَظَرَ مُرَاجَعَتَنَا بِرَاْفَتِهٖ حِلْمًا.

پھر اس نے اپنے اوامر کی پیروی کا حکم دیا تاکہ فرمانبرداری میں ہم کو آزمائے اور نواہی کے ارتکاب سے منع کیا تاکہ ہمارے شکر کو جانچے۔ مگر ہم نے اس کے حکم کی راہ سے انحراف کیا اور نواہی کے مرکب پر سوار ہو لئے۔ پھر بھی اس نے عذاب میں جلدی نہیں کی اور سزا دینے میں تعجیل سے کام نہیں لیا، بلکہ اپنے کرم و رحمت سے ہمارے ساتھ نرمی کا برتاؤ کیا اور حلم و رافت سے ہمارے باز آ جانے کا منتظر رہا۔

وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ دَلَّنَا عَلَى التَّوْبَةِ الَّتِیْ لَمْ نُفِدْهَاۤ اِلَّا مِنْ فَضْلِهٖ، فَلَوْ لَمْ نَعْتَدِدْ مِنْ فَضْلِهٖ اِلَّا بِهَا، لَقَدْ حَسُنَ بَلَآ ئُهٗ عِنْدَنَا، وَ جَلَّ اِحْسَانُهٗۤ اِلَیْنَا، وَ جَسُمَ فَضْلُهٗ عَلَیْنَا، فَمَا هٰكَذَا كَانَتْ سُنَّتُهٗ فِی التَّوْبَةِ لِمَنْ كَانَ قَبْلَنَا، لَقَدْ وَضَعَ عَنَّا مَا لَا طَاقَةَ لَنا بِهٖ، وَ لَمْ یُكَلِّفْنَاۤ اِلَّا وُسْعًا، وَ لَمْ یُجَشِّمْنَاۤ اِلَّا یُسْرًا، وَ لَمْ یَدَعْ لِاَحَدٍ مِّنَّا حُجَّةً وَّ لَا عُذْرًا، فَالْهَالِكُ مِنَّا مَنْ هَلَكَ عَلَیْهِ، وَ السَّعِیْدُ مِنَّا مَنْ رَّغِبَ اِلَیْهِ.

تمام تعریف اس اللہ کیلئے ہے جس نے ہمیں توبہ کی راہ بتائی کہ جسے ہم نے صرف اس کے فضل و کرم کی بدولت حاصل کیا ہے۔ تو اگر ہم اس کی بخششوں میں سے اس توبہ کے سوا اور کوئی نعمت شمار میں نہ لائیں تو یہی توبہ ہمارے حق میں اس کا عمدہ انعام، بڑا احسان اور عظیم فضل ہے۔ اس لئے کہ ہم سے پہلے لوگوں کیلئے توبہ کے بارے میں اس کا یہ رویہ نہ تھا۔ اس نے تو جس چیز کے برداشت کرنے کی ہمیں طاقت نہیں ہے، وہ ہم سے ہٹا لی اور ہماری طاقت سے بڑھ کر ہم پر ذمہ داری عائد نہیں کی اور صرف سہل و آسان چیزوں کی ہمیں تکلیف دی ہے اور ہم میں سے کسی ایک کیلئے حیل و حجت کی گنجائش نہیں رہنے دی۔ لہٰذا وہی تباہ ہونے والا ہے جواس کی منشاء کے خلاف اپنی تباہی کا سامان کرے، اور وہی خوش نصیب ہے جو اس کی طرف توجہ و رغبت کرے۔

وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ بِكُلِّ مَا حَمِدَهٗ بِهٖ اَدْنٰى مَلٰٓئِكَتِهٖ اِلَیْهِ، وَ اَكْرَمُ خَلِیْقَتِهٖ عَلَیْهِ، وَ اَرْضٰى حَامِدِیْهِ لَدَیْهِ، حَمْدًا یَّفْضُلُ سَآئِرَ الْحَمْدِ كَفَضْلِ رَبِّنَا عَلٰى جَمِیْعِ خَلْقِهٖ.

اللہ کیلئے حمد و ستائش ہے، ہر وہ حمد جو اس کے مقرب فرشتے، بزرگ ترین مخلوقات اور پسندیدہ حمد کرنے والے بجا لاتے ہیں۔ ایسی ستائش جو دوسری ستائشوں سے بڑھی چڑھی ہوئی ہو، جس طرح ہمارا پروردگار تمام مخلوقات سے بڑھا ہوا ہے۔

ثُمَّ لَهٗ الْحَمْدُ مَكَانَ كُلِّ نِعْمَةٍ لَّهٗ عَلَیْنَا، وَ عَلٰى جَمِیْعِ عِبَادِهِ الْمَاضِیْنَ وَ الْبَاقِیْنَ، عَدَدَ مَاۤ اَحَاطَ بِهٖ عِلْمُهٗ مِنْ جَمِیْعِ الْاَشْیَآءِ، وَ مَكَانَ كُلِّ وَاحِدَةٍ مِّنْهَا، عَدَدُهَاۤ اَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً اَبَدًا سَرْمَدًاۤ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ.

پھر اسی کیلئے حمد و ثنا ہے، اس کی ہر ہر نعمت کے بدلے میں جو اس نے ہمیں اور تمام گزشتہ و باقی ماندہ بندوں کو بخشی ہے، ان تمام چیزوں کے شمار کے برابر جن پر اس کا علم حاوی ہے اور ہر نعمت کے مقابلہ میں دوگنی چوگنی جو قیامت کے دن تک دائمی و ابدی ہو۔

حَمْدًا لَّا مُنْتَهٰى لِحَدِّهٖ، وَ لَا حِسَابَ لِعَدَدِهٖ، وَ لَا مَبْلَغَ لِغَایَتِهٖ، وَ لَا انْقِطَاعَ لِاَمَدِهٖ،

ایسی حمد جس کا کوئی آخری کنار اور جس کی گنتی کا کوئی شمار نہ ہو۔ جس کی حد و نہایت دسترس سے باہر اور جس کی مدت غیر مختتم ہو۔

حَمْدًا یَّكُوْنُ وُصْلَةً اِلٰى طَاعَتِهٖ وَ عَفْوِهٖ، وَ سَبَبًاۤ اِلٰى رِضْوَانِهٖ، وَ ذَرِیْعَةً اِلٰى مَغْفِرَتِهٖ، وَ طَرِیْقًاۤ اِلٰى جَنَّتِهٖ، وَ خَفِیْرًا مِّنْ نَّقِمَتِهٖ، وَ اَمْنًا مِّنْ غَضَبِهٖ، وَ ظَهِیْرًا عَلٰى طَاعَتِهٖ، وَ حَاجِزًا عَنْ مَّعْصِیَتِهٖ، وَ عَوْنًا عَلٰى تَاْدِیَةِ حَقِّهٖ وَ وَظَآئِفِهٖ.

ایسی حمد جو اس کی اطاعت و بخشش کا وسیلہ، اس کی رضا مندی کا سبب، اس کی مغفرت کا ذریعہ، جنت کا راستہ، اس کے عذاب سے پناہ، اس کے غضب سے امان، اس کی اطاعت میں مُعِین، اس کی معصیت سے مانع اور اس کے حقوق و واجبات کی ادائیگی میں مددگار ہو۔

حَمْدًا نَّسْعَدُ بِهٖ فِی السُّعَدَآءِ مِنْ اَوْلِیَآئِهٖ، وَ نَصِیْرُ بِهٖ فِیْ نَظْمِ الشُّهَدَآءِ بِسُیُوْفِ اَعْدَآئِهٖ، اِنَّهٗ وَلِیٌّ حَمِیْدٌ.

ایسی حمد جس کے ذریعہ ہم اس کے خوش نصیب دوستوں میں شامل ہو کر خوش نصیب قرار پائیں اور ان شہیدوں کے زمرہ میں شمار ہوں جو اس کے دشمنوں کی تلواروں سے شہید ہوئے۔ بیشک وہی مالک و مختار اور قابلِ ستائش ہے۔

–٭٭–

یہ کلمات دعا کا افتتاحیہ ہیں جو ستائشِ الہٰی پر مشتمل ہیں۔ حمد و ستائش، اللہ تعالیٰ کے کرم و فیضان اور بخشش و احسان کے اعتراف کا ایک مظاہرہ ہے اور دعا سے قبل اس کے جود و کرم کی فراوانیوں اور احسان فرمائیوں سے جو تاثّر دل و دماغ پر طاری ہوتا ہے اس کا تقاضا یہی ہے کہ زبان سے اُس کی حمد و ستائش کے نغمے اُبل پڑیں جس نے ایک طرف ﴿وَسْـــَٔـلُوا اللہَ مِنْ فَضْلِہٖ﴾ [۱]: ’’اللہ سے اُس کے فضل کا سوال کرو‘‘ کہہ کر طلب و سوال کا دروازہ کھول دیا اور دوسری طرف ﴿ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ﴾ [۲]:’’مجھ سے دُعا کرو میں قبول کروں گا‘‘ فرما کر استجابتِ دعا کا ذمہ لیا۔

اس تحمید میں خداوند عالم کی وحدت و یکتائی، جلال و عظمت، عدل و رأفت اور دوسرے صفات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ چنانچہ سرنامہ دعا میں خلاقِ عالم کی تین اہم صفتوں کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں تنزیہ و تقدیس کے تمام جوہر سمٹ کر جمع ہو گئے ہیں۔

پہلی صفت یہ کہ وہ اوّل بھی ہے اور آخر بھی۔ لیکن ایسا اوّل و آخر کہ نہ اس سے پہلے کوئی تھا اور نہ اس کے بعد کوئی ہو گا۔ اسے اوّل و آخر کہنے کے ساتھ دوسروں سے اوّلیت و آخریت کے سلب کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اس کی اوّلیت و آخریت اضافی نہیں بلکہ حقیقی ہے۔ یعنی وہ ازلی و ابدی ہے جس کا نہ کوئی نقطۂ آغاز ہے اور نہ نقطۂ اختتام۔ نہ اس کی ابتدا کا تصوّر ہو سکتا ہے اور نہ اس کی انتہاء کا۔ نہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ کب سے ہے، اور نہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ کب تک ہے۔ اور جو ’’کب سے‘‘ اور ’’کب تک‘‘ کے حدود سے بالاتر ہو اس کے لئے ایک لمحہ بھی ایسا فرض نہیں کیا جا سکتا جس میں وہ نیستی سے ہمکنار رہا ہو اور جس کے لئے عدم و نیستی کو تجویز نہ کیا جا سکے وہ ہے ’’واجب الوجود‘‘ جو مبدأ اوّل ہونے کے لحاظ سے اوّل اور غایت آخر ہونے کے لحاظ سے آخر ہو گا۔

دوسری صفت یہ ہے کہ وہ آنکھوں سے دکھائی نہیں دے سکتا کیونکہ کسی چیز کے دکھائی دینے کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی طرف میں واقع ہو۔ اور جب اللہ کسی طرف میں واقع ہو گا تو دوسری طرفیں اس سے خالی ماننا پڑیں گی۔ اور ایسا عقیدہ کیونکر درست تسلیم کیا جا سکتا ہے جس کے نتیجہ میں بعض جہات کو اس سے خالی ماننا پڑے۔ اور دوسرے یہ کہ اگر وہ کسی طرف میں واقع ہو گا تو اس طرف کا محتاج ہو گا۔ اور چونکہ وہ خالقِ اطراف ہے اس لئے کسی طرف کا محتاج نہیں ہو سکتا ورنہ اس کا خالق نہ رہے گا۔ اور تیسرے یہ کہ جہت میں وہی چیز واقع ہو سکتی ہے جس پر حرکت و سکون طاری ہو سکتا ہو اور حرکت و سکون چونکہ ممکن کی صفات ہیں اس لئے اللہ کے لئے انہیں تجویز نہیں کیا جا سکتا۔ اور جب وہ حرکت و سکون سے بری اور عرض و جوہر جسمانی کی سطح سے بلند تر ہے تو اس کے دکھائی دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

مگر اس کے باوجود ایک جماعت اس کی رویت کی قائل ہے۔ یہ جماعت تین مختلف قسم کے عقائد کے لوگوں پر مشتمل ہے:

ان میں سے کچھ کا عقیدہ یہ ہے کہ اس کی رویت صرف آخرت میں ہو گی، دنیا میں رہتے ہوئے اُسے دیکھا نہیں جا سکتا۔

اور کچھ افراد کا نظریہ یہ ہے کہ وہ آخرت کی طرح دنیا میں بھی نظر آسکتا ہے اگرچہ ایسا کبھی ہوا نہیں۔

اور کچھ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ جس طرح آخرت میں اس کی رویت ہو گی اسی طرح دُنیا میں بھی دیکھا جا چکا ہے۔

پہلے گروہ کی دلیل یہ ہے کہ رویت کا قرآن و حدیث میں صراحۃً ذکر ہے جس کے بعد انکار کا کوئی محل باقی نہیں رہتا۔ چنانچہ ارشاد باری ہے: ﴿وُجُوْہٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَۃٌ ۲۲ اِلٰى رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ۲۳﴾ [۳]: ’’اس دن بہت سے چہرے تر و تازہ و شاداب اور اپنے پروردگار کی طرف نگران ہوں گے‘‘۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ قیامت میں نظر آئے گا۔ اور دُنیا میں اس لئے نظر نہیں آ سکتا کہ یہاں ہمارے ادراکات و قویٰ کمزور ہیں جو تجلّی الٰہی کی تاب نہیں رکھتے۔ اور آخرت میں ہمارے حسّ و شعور کی قوتیں تیز ہو جائیں گی جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے: ﴿فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَآءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيْدٌ﴾ [۴]: ’’ہم نے تمہارے سامنے سے پردے ہٹا دئیے اب تمہاری آنکھیں تیز ہو گئیں‘‘۔ لہٰذا وہاں پر رویت سے کوئی امر مانع نہیں ہو سکتا۔

دوسرے گروہ کی دلیل یہ ہے کہ اگر دُنیا میں اس کی رویت ممکن نہ ہوتی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام ﴿رَبِّ اَرِنِيْٓ اَنْظُرْ اِلَيْكَ﴾ [۵]: اے میرے پروردگار! مجھے اپنی جھلک دکھا تا کہ میں تجھے دیکھوں‘‘ کہہ کر ایک انہونی اور نا ممکن بات کی خواہش نہ کرتے؛ اور اللہ تعالیٰ نے بھی اُسے استقرارِ جبل پر موقوف کرکے امکانِ رویت کی طرف اشارہ کر دیا۔ اس طرح اگر رویت ممکن نہ ہوتی، تو اُسے پہاڑ کے ٹھہراؤ پر کہ جو ایک امرِ ممکن ہے موقوف نہ کرتا۔ چنانچہ ارشادِ الہٰی ہے: ﴿وَلٰكِنِ انْظُرْ اِلَى الْجَـبَلِ فَاِنِ اسْـتَــقَرَّ مَكَانَہٗ فَسَوْفَ تَرٰىنِيْ۝۰ۚ﴾: ’’اس پہاڑ کی طرف دیکھو، اگر یہ اپنی جگہ پر ٹھہرا رہے تو پھر مجھے بھی دیکھ لو گے‘‘۔ اور اگر اس سلسلہ میں ﴿لَنْ تَرٰىنِيْ﴾: ’’تم مجھے قطعاً نہیں دیکھ سکتے‘‘ فرمایا تو اس سے صرف دُنیا میں وقوع رویت کی نفی مراد ہے نہ امکانِ رویت کی اور نہ اس سے رویتِ آخرت کی نفی مقصود ہے۔ کیونکہ جب یہ کہا جائے کہ ایسا کبھی نہیں ہو گا، تو عرف میں اس کے معنی یہی ہوتے ہیں کہ دُنیا میں ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ یہ مقصد نہیں ہوتا کہ آخرت میں بھی ایسا نہیں ہو گا۔ چنانچہ قرآن مجید میں یہود کے متعلق ارشاد ہے کہ: ﴿وَلَنْ يَّـتَمَنَّوْہُ اَبَدًا﴾ ۶: ’’وہ موت کی کبھی تمنّا نہیں کریں گے‘‘ تو یہ تمنّا کی نفی دُنیا کیلئے ہے کہ وہ دُنیا میں رہتے ہوئے موت کے خواہش مند کبھی نہیں ہوں گے اور آخرت میں تو وہ عذابِ جہنّم سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے بہرحال موت کی تمنّا و آرزو کریں گے۔ تو جس طرح یہاں پر نفی کا تعلّق صرف دُنیا سے ہے اسی طرح وہاں بھی نفی کا تعلّق صرف دُنیا سے ہے نہ آخرت سے۔

تیسرے گروہ کی دلیل یہ ہے کہ جب بیانِ سابق سے دُنیا میں اس کی رویت کا امکان ثابت ہو گیا تو اس کے وقوع کے لئے حسن بصری اور احمد ابن حنبل وغیرہ کا یہ قول کافی ہے کہ پیغمبرﷺ نے لیلۃ الاسرا میں اسے دیکھا۔

جب ان دلائل کا جائزہ لیا جاتا ہے تو وہ انتہائی کمزور اور اثباتِ مدّعا سے قاصر نظر آتے ہیں۔ چنانچہ:

پہلے گروہ کا یہ دعویٰ کہ قرآن و حدیث میں رویت کے شواہد بکثرت ہیں ایک غلط اور بے بنیاد دعویٰ ہے اور قرآن و حدیث سے قطعاً اس کا اثبات نہیں ہوتا بلکہ قرآن کے واضح تصریحات اس کے خلاف ہیں اور قرآنی تصریحات کے خلاف اگر کوئی حدیث ہو گی بھی تو وہ موضوع و مطروح قرار پائے گی۔ چنانچہ قرآن مجید میں نفی رویت کے سلسلہ میں ارشادِ الہٰی ہے کہ:

﴿لَا تُدْرِكُہُ الْاَبْصَارُ وَھُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَۚ وَھُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ۱۰۳﴾

آنکھیں اسے دیکھ نہیں سکتیں اور وہ آنکھوں کو دیکھ رہا ہے، اور وہ ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز سے آگاہ اور باخبر ہے۔[۷]

اور جس آیت کو اثباتِ رویت کے سلسلہ میں پیش کیا گیا ہے اس میں لفظ «نَاظِرَةٌ« سے رویت پر استدلال صحیح نہیں ہے کیونکہ اہلِ لغت نے نظر کے معنی انتظار، غور و فکر، مہلت، شفقت اور عبرت اندوزی کے بھی کئے ہیں اور جب ایک لفظ میں اور معنی کا بھی احتمال ہو تو اُسے دلیل بنا کر پیش نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ کچھ مفسّرین نے اس مقام پر نظر کے معنی انتظار کے لئے ہیں اور اس معنی کے لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ وُہ اس دن اللہ کی نعمتوں کے منتظر ہوں گے اور اس معنی کی شاہد یہ آیت ہے: ﴿فَنٰظِرَۃٌۢ بِمَ يَرْجِـــعُ الْمُرْسَلُوْنَ ۳۵﴾ [۸]: ’’وہ منتظر تھی کہ قاصد کیا جواب لے کر پلٹتے ہیں‘‘، اور کچھ مفسّرین نے نظر کے معنی دیکھنے کے کئے ہیں اور اس صورت میں لفظ ثواب کو یہاں محذوف مانا ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے پروردگار کے ثواب کی جانب نگراں ہوں گے۔ جس طرح ارشادِ الہٰی ﴿وَجَآءَ رَبُّكَ﴾ [۹]: ’’تمہارا پروردگار آیا‘‘ میں لفظ امر محذوف مانا گیا ہے اور معنی یہ کئے گئے ہیں کہ تمہارے پروردگار کا حکم آیا۔ اور پھر یہ کہاں ضروری ہے کہ جہاں نظر صادق آئے وہاں رویت بھی صادق آئے۔ چنانچہ عرب کا مقولہ ہے کہ: "نَظَرْتُ اِلَی الْھِلَالِ فَلَمْ اَرَہُ” : ’’میں نے چاند کی طرف نظر کی مگر دیکھ نہ سکا‘‘ یہاں نظر ثابت ہے مگر رویت ثابت نہیں ہے۔

اب رہا یہ کہ وہ دُنیا میں اس لئے نظر نہیں آسکتا کہ یہاں انسانی ادراکات و قویٰ ضعیف ہیں اور آخرت میں یہ ادراکات قوی ہو جائیں گے۔ تو یہ دنیا و آخرت کی تفریق اس بنا پر تو صحیح ہو سکتی ہے اگر اس کی ذات دکھائی دئیے جانے کے قابل ہو اور ہماری نگاہیں اپنے عجز و قصور کی بنا پر قاصر رہیں۔ لیکن جب اس کی ذات کا تقاضا ہی یہ ہے کہ وُہ دکھائی نہ دے تو محل و مقام کے بدلنے سے ناقابلِ رویت ذات قابل رویت نہیں قرار پا سکتی۔ اور اس سلسلہ میں جو آیت پیش کی گئی ہے اس میں تو یہ نہیں ہے کہ ادراکات و حواس کے تیز ہو جانے سے خُدا کو بھی دیکھا جا سکے گا بلکہ آیت کے معنی تو یہ ہیں کہ اس دن پردے ہٹا دئیے جائیں گے اور آنکھیں تیز ہو جائیں گی۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہاں پر تمام شبہات مٹ جائیں گے اور آنکھوں پر پڑے ہوئے غفلت کے پردے اٹھ جائیں گے، یہ معنی نہیں کہ وہ اللہ کو بھی دیکھنے لگیں گے۔ اور اگر ایسا ہی ہے تو یہ غفلت کے پردے تو کافروں کی آنکھوں سے اُٹھیں گے لہٰذا انہی کو نظر آنا چاہیے۔

دوسرے گروہ کی دلیل کا جواب یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے رویت باری کی خواہش اس لئے نہیں کی تھی کہ وہؑ اس کی رویت کو ممکن سمجھتے تھے اور انہیں اس کے ناقابلِ رویت ہونے کا علم نہ تھا۔ یقیناً وہ جانتے تھے کہ وہ ادراکِ حواس و مشاہدۂ بصری سے بلند تر ہے تو اس سوال کی نوبت اس لئے آئی کہ بنی اسرائیل نے کہا کہ: ﴿يٰمُوْسٰى لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللہَ جَہْرَۃً﴾ [۱۰]: ’’اے موسیٰ! ہم اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک خُدا کو ظاہر بظاہر نہ دیکھ لیں گے‘‘ تو موسیٰ علیہ السلام نے چاہا کہ ان پر ان کی بے راہروی ثابت کر دیں اور یہ واضح کر دیں کہ وُہ کوئی دکھائی دینے والی چیز نہیں ہے اس لئے اللہ کے سامنے ان کا سوال پیش کیا تا کہ وہ اپنے سوال کا نتیجہ دیکھ لیں اور اس غلط خیال سے باز آ جائیں۔ چنانچہ خداوند عالم کا ارشاد ہے کہ:

﴿فَقَدْ سَاَلُوْا مُوْسٰٓى اَكْبَرَ مِنْ ذٰلِكَ فَقَالُوْٓا اَرِنَا اللہَ جَہْرَۃً﴾

یہ لوگ تو موسیٰؑ سے اس سے بھی بڑا سوال کر چکے ہیں اور وہ یہ کہ موسیٰ سے کہنے لگے کہ ہمیں خُدا کو ظاہر بظاہر دکھا دیجیے۔[۱۱]

جب موسیٰ علیہ السلام نے اُن کے کہنے پر سوال کیا تو اس موقع پر قدرت کا یہ ارشاد کہ: ’’تم اس پہاڑ کی طرف دیکھو اگر یہ اپنی جگہ پر برقرار رہے تو مجھے دیکھ لو گے‘‘، امکانِ رویت کا پتہ نہیں دیتا۔ اس لئے کہ موقوف علیہ صرف پہاڑ کا ٹھہراؤ نہیں تھا کیونکہ وُہ تو اس وقت بھی ٹھہرا ہوا تھا جب رویت کو اس پر معلّق کیا جا رہا تھا بلکہ تجلّی کے وقت اس کا ٹھہراؤ مقصود تھا۔ اور جب تک اس موقع کے لئے اُس کے ٹھہراؤ کا امکان ثابت نہ ہو اس ٹھہراؤ کو امکان رویت کی دلیل نہیں قرار دیا جا سکتا۔ حالانکہ اس موقع پر تو یہ ہوا کہ: ﴿جَعَلَہٗ دَكًّا وَّخَرَّ مُوْسٰي صَعِقًا۝۰ۚ﴾ [۱۲]: ’’تجلّی نے اس پہاڑ کو چکنا چور کر دیا اور موسیٰؑ بے ہوش ہو کر گر پڑے‘‘ اور بنی اسرائیل پر ان کے بے محل سوال کی وجہ سے بجلی گری۔ جیسا کہ ارشادِ الہٰی ہے: ﴿فَاَخَذَتْہُمُ الصّٰعِقَۃُ بِظُلْمِہِمْ۝۰ۚ﴾ [۱۳]: ’’ان کی شرپسندی کی وجہ سے بجلی نے انہیں جکڑ لیا‘‘۔ اگر خداوند عالم کی رویت ممکن ہوتی تو ایک ممکن الوقوع چیز سے ایمان کو وابستہ کرنا ایسا جُرم نہ تھا کہ انہیں صاعقہ کے عذاب میں جکڑ لیا جائے اور ان کی خواہش کو ظلم سے تعبیر کیا جائے۔ آخر حضرت ابراہیمؑ نے بھی تو اپنے اطمینان کو مُردوں کے زندہ کرنے سے وابستہ کیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے کہا کہ: ﴿رَبِّ اَرِنِيْ كَيْفَ تُـحْيِ الْمَوْتٰى﴾ [۱۴]: ’’اے میرے پروردگار! مجھے دکھا کہ تو کیونکر مُردوں کو زندہ کرتا ہے‘‘،’ اس کے جواب میں قدرت نے فرمایا: ﴿اَوَلَمْ تُؤْمِنْ﴾: ’’کیا تم ایمان نہیں لائے‘‘، ابراہیمؑ نے عرض کیا: ﴿بَلٰي وَلٰكِنْ لِّيَطْمَىِٕنَّ قَلْبِىْ﴾: ’’ہاں ایمان تو لایا! لیکن چاہتا ہوں کہ دل مطمئن ہو جائے‘‘۔ اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے اطمینان کو مُردوں کے زندہ ہونے سے وابستہ کر سکتے ہیں تو ان لوگوں نے اگر اپنے ایمان کو رویتِ باری پر معلّق کیا تو جُرم ہی کون سا کیا جس پر انہیں لرزہ بر اندام کر دینے والی سزا دی جائے۔

اور اگر یہ کہا جائے کہ سزا اس بنا پر نہ تھی کہ انہوں نے رویت باری کا مطالبہ کیا تھا بلکہ ان کی سابقہ ضد، ہٹ دھرمی اور کٹ حجتی کے پیشِ نظر تھی۔ مگر یہ دیکھتے ہوئے کہ وہ مطالبہ تو وہ کریں جو کیا جا سکتا ہے اور ممکن الوقوع ہے اور اس ذریعہ سے اپنے ایمان کی تکمیل چاہیں مگر ان کی کسی سابقہ ضد اور سرکشی کو سامنے رکھتے ہوئے انہیں ایسی سزا دی جائے جو انہیں نیست و نابود کر دے، عقل میں آنے والی بات نہیں ہے۔

اور اگر یہ کہا جائے کہ رویت کے سلسلہ میں ان کی ضد پر انہیں سزا دی گئی تھی تو اس میں ضد کی کیا بات تھی؟ اگر انہوں نے موسیٰؑ کے قول کو مشاہدہ کے مطابق کر کے دیکھنا چاہا؛ اور اگر رؤیت مُردوں کو زندہ کرنے کی طرح ممکن تھی تو اس میں مضائقہ ہی کیا تھا کہ اُن کی خواہش کو پُورا کر دیا جاتا۔ اور جس طرح ابراہیمؑ کے ہاتھوں پر مُردوں کو زندہ کر کے ان کی خلش کو ہٹا دیا تھا، اسی طرح یہاں بھی رؤیت سے ان کے ایمان کی صورت پیدا کر دی ہوتی۔ اور اگر مصلحت اس کی مقتضی نہ تھی تو حضرت موسیٰؑ کے ذریعہ انہیں سمجھا دیا جاتا کہ دُنیا میں نہ سہی آخرت میں اُسے دیکھ لینا۔ مگر اُن کا مطالبہ پُورا کرنے کے بجائے انہیں موردِ عتاب ٹھہرایا جاتا ہے اور اُن کی خواہش کو ظلم و حد شکنی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور آخر انہیں خرمن ہستی کو جلانے والی بجلیوں میں جکڑ لیا جاتا ہے۔ یہ صرف اس لئے کہ انہوں نے ایک ایسی خواہش کا اظہار کیا جس سے خُدا کے دامن تنزیہ پر دھبّہ آتا تھا۔ اور یہ ایک ایسی انہونی چیز کا مطالبہ تھا جس پر انہیں سزا دینا ضروری سمجھا گیا تا کہ دوسروں کو عبرت حاصل ہو، اور بنی اسرائیل کے انجام کو دیکھ کر رویت باری کا تصوّر نہ کریں۔ چنانچہ اللہ سبحانہ نے اپنی رویت کو پہاڑ پر معلّق کرنے سے پہلے واضح الفاظ میں فرمایا کہ:: ﴿لَنْ تَرٰىنِيْ﴾: ’’اے موسیؑ! تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے‘‘، نہ دُنیا میں اور نہ آخرت میں۔ کیونکہ لفظ ﴿لَنْ﴾ نفی تابید کیلئے آتا ہے اور اس نفی تابید کو دوام عرفی پر محمول کرنا غلط ہے۔ یہ دوام عُرفی وہاں پر تو صحیح ہو سکتا ہے جہاں متکلّم و مخاطب دونوں فانی اور معرضِ زوال میں ہوں اور جہاں متکلّم ابدی سرمدی اور دائمی ہو وہاں نفی کے حدود بھی وہاں تک پھیلے ہوئے ہوں گے۔ جہاں تک اس ذاتِ سرمدی کا دامن بقا پھیلا ہوا ہے۔ اور چونکہ وہ ہمیشہ ہمیشہ رہنے والا ہے اس لئے اس کی طرف سے جو نفی تابید وارد ہو گی وہ دُنیا کی مدّتِ بقا میں محدود نہیں کی جا سکتی اور جس آیت کی نفی کو دوامِ عرفی کے معنی میں پیش کیا گیا ہے اس سے استشہاد اس بنا پر صحیح نہیں کہ وہ ان لوگوں کے متعلق ہے جو فانی و محدود ہیں۔ لہٰذا اس مقام کی نفی کا اس مقام کی نفی پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ اور اگر آیت ﴿وَلَنْ يَّـتَمَنَّوْہُ اَبَدًا﴾: ’’وہ موت کی ہرگز تمنّا نہیں کریں گے‘‘ میں بھی تابید حقیقی کے معنی مراد لئے جائیں تو لئے جا سکتے ہیں۔ کیونکہ آخرت میں وہ موت کی تمنّا کریں گے تو وہ در حقیقت موت کی تمنّا نہ ہو گی بلکہ اصل تمنّا عذاب سے نجات حاصل کرنے کی ہو گی جسے طلبِ موت کے پردے میں طلب کریں گے۔ اور یہ موت کی طلب نہ ہو گی بلکہ راحت و آسائش اور عذاب سے چھٹکارے کی طلب ہو گی۔ اور جبکہ عذاب کے بجائے انہیں راحت و سکون نصیب ہو تو وہ یقیناً زندگی کے خواہاں ہوں گے۔ اور پھر جب اصل معنی تابید حقیقی کے ہیں تو اس سے تابید عُرفی مراد لینے کے لئے کسی قرینہ کی ضرورت ہے اور یہاں کوئی قرینہ و دلیل موجود نہیں ہے کہ حقیقی معنی سے عدول کرنا صحیح ہو سکے۔

تیسرے گروہ کی دلیل کا جواب یہ ہے کہ اگر کچھ صحابہ و تابعین کا قول یہ ہے کہ پیغمبر اکرم ﷺ نے لیلۃ الاسرا میں اپنے رب کو دیکھا تو صحابہ و تابعین کی ایک جماعت اس کی بھی تو قائل ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ چنانچہ حضرت عائشہ اور صحابہ کی ایک بڑی جماعت کا یہی مسلک ہے؛ لہٰذا چند افراد کی ذاتی رائے کو کیسے سند سمجھا جا سکتا ہے جب کہ اس کے مقابلہ میں ویسے ہی افراد اس کے خلاف نظریہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ جناب عائشہ کا قول ہے:

مَنْ حَدَّثَكَ اَنَّ مُحَمَّدًاﷺ رَاٰى رَبَّهٗ فَقَدْ كَذَبَ، وَهُوَ يَقُولُ: ﴿لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ ؗ وَ هُوَ یُدْرِكُ الْاَبْصَارَ ۚ وَ هُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ۝۱۰۳﴾.

جو شخص تم سے یہ بیان کرے کہ محمّدﷺ نے اپنے رب کو دیکھا تو اس نے جھوٹ کہا۔ اور اللہ کا ارشاد تو یہ ہے کہ اسے نگاہیں دیکھ نہیں سکتیں البتہ وہ نگاہوں کو دیکھ رہا ہے اور وہ ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز سے آگاہ و خبردار ہے۔ (صحیح بخاری، ج۴، ص۱۶۸)

تیسری صفت یہ ہے کہ عقول انسانی اس کے اوصاف کی نقاب کشائی سے قاصر ہیں کیونکہ زبان انہی معانی و مفاہیم کی ترجمانی کر سکتی ہے جو عقل و فہم میں سما سکتے ہیں اور جن کے سمجھنے سے عقلیں عاجز ہوں وہ الفاظ کی صورت میں زبان سے ادا بھی نہیں ہو سکتے اور خُدا کے اوصاف کا ادراک اس لئے ناممکن ہے کہ اس کی ذات کا ادراک ناممکن ہے اور جب تک اس کی ذات کا ادراک نہ ہو اس کے نفس الامری اوصاف کو بھی نہیں سمجھا جا سکتا۔ اور ذات کا ادراک اس لئے نہیں ہو سکتا کہ انسانی ادراکات محدود ہونے کی وجہ سے غیر محدود ذات کا احاطہ نہیں کر سکتے۔ لہٰذا اس سلسلہ میں جتنا بھی غور و خوض کیا جائے اس کی ذات اور اس کے نفس الامری اوصاف عقل و فہم کے ادراک سے بالاتر ہی رہیں گے۔

[٭٭٭٭٭]

[۱]۔ سورۂ نساء، آیت ۳۲

[۲]۔ سورۂ مومن، (غافر) آیت ۶۰

[۳]۔ سورۂ قیامۃ، آیت ۲۲

[۴]۔ سورۂ ق، آیت ۲۲

[۵]۔ سورۂ اعراف، آیت ۱۴۳

[۶]۔ سورۂ بقرہ، آیت ۹۵

[۷]۔ سورۂ انعام، آیت ۱۰۳

[۸]۔ سورۂ نمل، آیت ۳۵

[۹]۔ سورۂ فجر، آیت ۲۲

[۱۰]۔ سورۂ بقرہ، آیت ۵۵

[۱۱]۔ سورۂ نساء، آیت ۱۵۳

[۱۲]۔ سورۂ اعراف، آیت ۱۴۳

[۱۳]۔ سورۂ نساء، آیت ۱۵۳

[۱۴]۔ سورۂ بقرہ، آیت ۲۶۰

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button