صحیفہ کاملہ

51۔ عجز و زاری کے سلسلہ میں دعا

(۵۱) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ

فِی التَّضَرُّعِ وَ الِاسْتِكَانَةِ

تضرع و فروتنی کے سلسلہ میں حضرت ؑ کی دُعا:

اِلٰهِیْۤ اَحْمَدُكَ وَ اَنْتَ لِلْحَمْدِ اَهْلٌ عَلٰى حُسْنِ صَنِیْعِكَ اِلَیَّ، وَ سُبُوْغِ نَعْمَآئِكَ عَلَیَّ، وَ جَزِیْلِ عَطَآئِكَ عِنْدِیْ، وَ عَلٰى مَا فَضَّلْتَنِیْ مِنْ رَّحْمَتِكَ، وَ اَسْبَغْتَ عَلَیَّ مِنْ نِّعْمَتِكَ، فَقَدِ اصْطَنَعْتَ عِنْدِیْ مَا یَعْجِزُ عَنْهُ شُكْرِیْ، وَ لَوْ لَاۤ اِحْسَانُكَ اِلَیَّ وَ سُبُوْغُ نَعْمَآئِكَ عَلَیَّ مَا بَلَغْتُ اِحْرَازَ حَظِّیْ، وَ لَاۤ اِصْلَاحَ نَفْسِیْ، وَ لٰكِنَّكَ ابْتَدَاْتَنِیْ بِالْاِحْسَانِ، وَ رَزَقْتَنِیْ فِیْۤ اُمُوْرِیْ كُلِّهَا الْكِفَایَةَ، وَ صَرَفْتَ عَنِّیْ جَهْدَ الْبَلَآءِ، وَ مَنَعْتَ مِنِّیْ مَحْذُوْرَ الْقَضَآءِ.

اے میرے معبود! میں تیری حمد و ستائش کرتا ہوں اور تو حمد و ستائش کا سزاوار ہے، اس بات پر کہ تو نے میرے ساتھ اچھا سلوک کیا، مجھ پر اپنی نعمتوں کو کامل اور اپنے عطیوں کو فراواں کیا، اور اس بات پر کہ تو نے اپنی رحمت کے ذریعہ مجھے زیادہ سے زیادہ دیا، اور اپنی نعمتوں کو مجھ پر تمام کیا، چنانچہ تو نے مجھ پر وہ احسانات کئے ہیں۔ جن کے شکریہ سے قاصر ہوں، اور اگر تیرے احسانات مجھ پر نہ ہوتے اور تیری نعمتیں مجھ پر فراواں نہ ہوتیں تو میں نہ اپنا حظ و نصیب فراہم کر سکتا تھا اور نہ نفس کی اصلاح و درستی کی حد تک پہنچ سکتا تھا، لیکن تو نے میرے حق میں اپنے احسانات کا آغاز فرمایا اور میرے تمام کاموں میں مجھے ( دوسروں سے) بے نیازی عطا کی، رنج و بلا کی سختی مجھ سے ہٹا دی اور جس حکم قضا کا اندیشہ تھا اسے مجھ سے روک دیا۔

اِلٰهِیْ! فَكَمْ مِن بَلَآءٍ جَاهِدٍ قَدْ صَرَفْتَ عَنِّیْ، وَ كَمْ مِنْ نِّعْمَةٍ سَابِغَةٍ اَقْرَرْتَ بِهَا عَیْنِیْ، وَ كَمْ مِّنْ صَنِیْعَةٍ كَرِیْمَةٍ لَّكَ عِنْدِیْ، اَنْتَ الَّذِیْۤ اَجَبْتَ عِنْدَ الِاضْطِرَارِ دَعْوَتِیْ، وَ اَقَلْتَ عِنْدَ الْعِثَارِ زَلَّتِیْ، وَ اَخَذْتَ لِیْ مِنَ الْاَعْدَآءِ بِظُلَامَتِیْ.

اے میرے معبود! کتنی بلا خیز مصیبتیں تھیں جنہیں تو نے مجھ سے دور کر دیا، اور کتنی ہی کامل نعمتیں تھیں جن سے تو نے میری آنکھوں کی خنکی و سرور کا سامان کیا، اور کتنے ہی تو نے مجھ پر بڑے احسانات فرمائے ہیں، تو وہ ہے جس نے حالت اضطرار میں میری دُعا قبول کی، اور (گناہوں میں) گرنے کے موقع پر میری لغزش سے درگزر کیا، اور دشمنوں سے میرے ظلم و ستم سے چھنے ہوئے حق کو لے لیا۔

اِلٰهِیٍْ مَا وَجَدْتُّكَ بَخِیْلًا حِیْنَ سَئَلْتُكَ، وَ لَا مُنْقَبِضًا حِیْنَ اَرَدْتُّكَ، بَلْ وَجَدْتُّكَ لِدُعَآئِیْ سَامِعًا، وَ لِمَطَالِبِیْ مُعْطِیًا، وَ وَجَدْتُّ نُعْمَاكَ عَلَیَّ سَابِغَةً فِیْ كُلِّ شَاْنٍ مِّنْ شَاْنِیْ، وَ كُلِّ زَمَانٍ مِّنْ زَمَانِیْ، فَاَنْتَ عِنْدِیْ مَحْمُوْدٌ، وَ صَنِیْعُكَ لَدَیَّ مَبْرُوْرٌ، تَحْمَدُكَ نَفْسِیْ وَ لِسَانِیْ وَ عَقْلِیْ، حَمْدًا یَّبْلُغُ الْوَفَآءَ وَ حَقِیْقَةَ الشُّكْرِ، حَمْدًا یَّكُوْنُ مَبْلَغَ رِضَاكَ عَنِّیْ، فَنَجِّنِیْ مِنْ سُخْطِكَ.

بار الٰہا!میں نے جب بھی تجھ سے سوال کیا تجھے بخیل اور جب بھی تیری بارگاہ کا قصد کیا تجھے رنجیدہ نہیں پایا، بلکہ تجھے اپنی دُعا کی نسبت سننے والا اور اپنے مقاصد کا بر لانے والا ہی پایا، اور میں نے اپنے احوال میں سے ہر حال میں اور اپنے زمانۂ (حیات) کے ہر لمحہ میں تیری نعمتوں کو اپنے لئے فراواں پایا، لہٰذا تو میرے نزدیک قابل تعریف اور تیرا احسان لائق شکریہ ہے، میرا جسم (عملاً)، میری زبان (قولاً) اور میری عقل ( اعتقاداً) تیری حمد و سپاس کرتی ہے، ایسی حمد جو حد کمال اور انتہائے شکر پر فائز ہو، ایسی حمد جو میرے لئے تیری خوشنودی کے برابر ہو، لہٰذا مجھے اپنی ناراضگی سے بچا۔

یَا كَهْفِیْ حِیْنَ تُعْیِیْنِی الْمَذَاهِبُ، وَ یَا مُقِیْلِیْ عَثْرَتِیْ، فَلَوْ لَا سَتْرُكَ عَوْرَتِیْ لَكُنْتُ مِنَ الْمَفْضُوْحِیْنَ، وَ یَا مُؤَیِّدِیْ بِالنَّصْرِ، فَلَوْ لَا نَصْرُكَ اِیَّایَ لَكُنْتُ مِنَ الْمَغْلُوْبِیْنَ.

اے میرے پناہ گاہ جبکہ (متفرق)راستے مجھے خستہ و پریشان کر دیں، اے میری لغزشوں کے معاف کرنے والے! اگر تو میری پردہ پوشی نہ کرتا تو میں یقیناً رسوا ہونے والوں میں سے ہوتا، اے اپنی مدد سے مجھے تقویت دینے والے! اگر تیری مدد شریک حال نہ ہوتی تو میں مغلوب و شکست خوردہ لوگوں میں سے ہوتا۔

وَ یَا مَنْ وَّضَعَتْ لَهُ الْمُلُوْكُ نِیْرَ الْمَذَلَّةِ عَلٰۤى اَعْنَاقِهَا، فَهُمْ مِنْ سَطَوَاتِهٖ خَآئِفُوْنَ، وَ یَاۤ اَهْلَ التَّقْوٰى، وَ یَا مَنْ لَّهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى‏، اَسْئَلُكَ اَنْ تَعْفُوَ عَنِّیْ، وَ تَغْفِرَ لِیْ فَلَسْتُ بَرِیْٓئًا فَاَعْتَذِرَ، وَ لَا بِذِیْ قُوَّةٍ فَاَنْتَصِرَ، وَ لَا مَفَرَّ لِیْ فَاَفِرَّ، وَ اَسْتَقِیْلُكَ عَثَرَاتِیْ، وَ اَتَنَصَّلُ اِلَیْكَ مِنْ ذُنُوْبِیَ الَّتِیْ قَدْ اَوْبَقَتْنِیْ، وَ اَحَاطَتْ بِیْ فَاَهْلَكَتْنِیْ، مِنْهَا فَرَرْتُ اِلَیْكَ- رَبِّ- تَآئِبًا فَتُبْ عَلَیَّ، مُتَعَوِّذًا فَاَعِذْنِیْ، مُسْتَجِیْرًا فَلَا تَخْذُلْنِیْ، سَآئِلًا فَلَا تَحْرِمْنِیْ، مُعْتَصِمًا فَلَا تُسْلِمْنِیْ، دَاعِیًا فَلَا تَرُدَّنِیْ خَآئِبًا.

اے وہ جس کی بارگاہ میں شاہوں نے ذلت و خواری کا جوا اپنی گردن میں ڈال لیا ہے اور وہ اس کے غلبہ و اقتدار سے خوف زدہ ہیں! اے وہ جو تقویٰ کا سزاوار ہے!اے وہ کہ حسن و خوبی والے نام بس اسی کیلئے ہیں! میں تجھ سے خواستگار ہوں کہ مجھ سے درگزر فرما اور مجھے بخش دے، کیونکہ میں بے گناہ نہیں ہوں کہ عذر خواہی کروں، اور نہ طاقتور ہوں کہ غلبہ پا سکوں، اور نہ گریز کی کوئی جگہ ہے کہ بھاگ سکوں، میں تجھ سے اپنی لغزشوں کی معافی چاہتا ہوں اور ان گناہوں سے جنہوں نے مجھے ہلاک کر دیا ہے اور مجھے اس طرح گھیر لیا ہے کہ مجھے تباہ کر دیا ہے، توبہ و معذرت کرتا ہوں، میں اے میرے پروردگار! ان گناہوں سے توبہ کرتے ہوئے تیری طرف بھاگ کھڑا ہوں، تو اب میری توبہ قبول فرما، تجھ سے پناہ چاہتا ہوں مجھے پناہ دے، تجھ سے امان مانگتا ہوں مجھے خوار نہ کر، تجھ سے سوال کرتا ہوں مجھے محروم نہ کر، تیرے دامن سے وابستہ ہوں مجھے میرے حال پر چھوڑ نہ دے، اور تجھ سے دُعا مانگتا ہوں لہٰذا مجھے ناکام نہ پھیر۔

دَعَوْتُكَ- یَا رَبِّ- مِسْكِیْنًا مُّسْتَكِیْنًا، مُشْفِقًا خَآئِفًا وَّجِلًا، فَقِیرًا مُّضْطَرًّاۤ اِلَیْكَ، اَشْكُوْۤ اِلَیْكَ یَاۤ اِلٰهِیْ ضَعْفَ نَفْسِیْ عَنِ الْمُسَارَعَةِ فِیْمَا وَعَدْتَّهٗ اَوْلِیَآءَكَ، وَ الْمُجَانَبَةِ عَمَّا حَذَّرْتَهٗ اَعْدَآءَكَ، وَ كَثْرَةَ هُمُوْمِیْ، وَ وَسْوَسَةَ نَفْسِیْ.

اے میرے پروردگار! میں نے ایسے حال میں کہ میں بالکل مسکین، عاجز، خوف زدہ، ترساں، ہراساں، بے سرو سامان اور لاچار ہوں تجھے پکارا ہے، اے میرے معبود! میں اس اجر و ثواب کی جانب جس کا تو نے اپنے دوستوں سے وعدہ کیا ہے جلدی کرنے، اور اس عذاب سے جس سے تو نے اپنے دشمنوں کو ڈرایا ہے دوری اختیار کرنے سے اپنی کمزوری اور ناتوانی کا گلہ کرتا ہوں، نیز افکار کی زیادتی اور نفس کی پریشان خیالی کا شکوہ کرتا ہوں۔

اِلٰهِیٍْ لَمْ تَفْضَحْنِیْ بِسَرِیْرَتِیْ، وَ لَمْ تُهْلِكْنِیْ بِجَرِیْرَتِیْ، اَدْعُوْكَ فَتُجِیْبُنِیْ وَ اِنْ كُنْتُ بَطِیْٓئًا حِیْنَ تَدْعُوْنِیْ، وَ اَسْئَلُكَ كُلَّمَا شِئْتُ مِنْ حَوَآئِجِیْ، وَ حَیْثُ مَا كُنْتُ وَضَعْتُ عِنْدَكَ سِرِّیْ، فَلَاۤ اَدْعُوْ سِوَاكَ، وَ لَاۤ اَرْجُوْ غَیْرَكَ، لَبَّیْكَ لَبَّیْكَ، تَسْمَعُ مَنْ شَكَاۤ اِلَیْكَ، وَ تَلْقٰى مَنْ تَوَكَّلَ عَلَیْكَ، وَ تُخَلِّصُ مَنِ اعْتَصَمَ بِكَ، وَ تُفَرِّجُ عَمَّنْ لَّاذَ بِكَ.

اے میرے معبود! تو میری باطنی حالت کی وجہ سے مجھے رسوا نہ کرنا، اور میرے گناہوں کے باعث مجھے تباہ و برباد نہ ہونے دینا، میں تجھے پکارتا ہوں تو تو مجھے جواب دیتا ہے، اور جب تو مجھے بلاتا ہے تو میں سستی کرتا ہوں، اور میں جو حاجت رکھتا ہوں تجھ سے طلب کرتا ہوں، اور جہاں کہیں ہوتا ہوں اپنے راز دلی تیرے سامنے آشکارا کرتا ہوں، اور تیرے سوا کسی کو نہیں پکارتا، اور نہ تیرے علاوہ کسی سے آس رکھتا ہوں، حاضر ہوں، میں حاضر ہوں! جو تجھ سے شکوہ کرے تو اس کا شکوہ سنتا ہے، اور جو تجھ پر بھروسا کرے اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے، اور جو تیرا دامن تھام لے اسے (غم و فکر سے) رہائی دیتا ہے، اور جو تجھ سے پناہ چاہے اس سے غم و اندوہ کو دور کر دیتا ہے۔

اِلٰهِیْ! فَلَا تَحْرِمْنِیْ خَیْرَ الْاٰخِرَةِ وَ الْاُوْلٰى لِقِلَّةِ شُكْرِیْ، وَ اغْفِرْ لِیْ مَا تَعْلَمُ مِنْ ذُنُوْبِیْ، اِنْ تُعَذِّبْ فَاَنَا الظَّالِمُ الْمُفَرِّطُ الْمُضَیِّعُ، الْاٰثِمُ الْمُقَصِّرُ، الْمُضَجِّـعُ الْمُغْفِلُ حَظَّ نَفْسِیْ، وَ اِنْ تَغْفِرْ فَاَنْتَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ.

اے میرے معبود! میرے ناشکرے پن کی وجہ سے مجھے دنیا و آخرت کی بھلائی سے محروم نہ کر، اور میرے وہ گناہ جو تیرے علم میں ہیں بخش دے، اور اگر تو سزا دے تو اس لئے کہ میں ہی حد سے تجاوز کرنے والا، سست قدم، زیاں کار، عاصی، تقصیر پیشہ، غفلت شعار اور اپنے حظ و نصیب میں لاپرواہی کرنے والا ہوں، اور اگر تو بخش دے تو اس لئے کہ تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔

–٭٭–

یہ دُعا خداوند عالم کی نعمتوں کے اقرار اور اپنے گناہوں کے اعتراف کے سلسلہ میں ہے۔

’’اقرار نعمت‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ تمام نعمتوں کا سرچشمہ ذات احدیت کو سمجھتے ہوئے ان پر شکر ادا کرے اور ’’اعتراف گناہ‘‘ کا مقصد یہ ہے کہ اپنے گناہوں پر اظہار ندامت کرتے ہوئے توبہ کرے۔ اس طرح نعمتوں کے اقرار سے نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور گناہوں کے اعتراف سے گناہ دھل جاتے ہیں۔ چنانچہ امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے:

لَا وَ اللّٰهِ مَاۤ اَرَادَ اللّٰهُ تَعَالٰى مِنَ النَّاسِ اِلَّا خَصْلَتَيْنِ اَنْ يُّقِرُّوْا لَهٗ بِالنِّعَمِ فَيَزِيْدَهُمْ وَ بِالذُّنُوْبِ فَيَغْفِرَهَا لَهُمْ.

خدا کی قسم! اللہ بندوں سے صرف دو خصلتوں کا طلبگا رہے: ایک یہ کہ اس کی نعمتوں کا اقرار کریں تا کہ وہ ان میں اضافہ کرے، اور دوسرے یہ کہ اپنے گناہوں کا اعتراف کریں تا کہ وہ ان کے گناہوں کو معاف کر دے۔ [۱]

خداوند عالم کی نعمتیں اس قدر ہیں کہ ان کا شمار ناممکن ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:

﴿وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللہِ لَا تُحْصُوْہَا﴾

اگر تم اس کی نعمتوں کو گننا چاہو تو گن نہیں سکتے۔ [۲]

اس نے اپنی رحمت و ربوبیت کے پیش نظر ہر فرد کی ضرورت اور اس کی بقا کا سامان مہیا کر دیا ہے اور زندگی کی بقا کیلئے جن چیزوں کی سب سے زیادہ ضرورت ہے اسی قدر انہیں فراوانی سے پیدا کیا ہے اور ان تک رسائی کے وسائل آسان کر دیئے ہیں، تا کہ ہر شخص اپنی ضرورت و حاجت کے مطابق ان سے فائدہ حاصل کرے۔ چنانچہ ہر جاندار کی بقاء کیلئے سب سے ضروری چیز ’’ہوا‘‘ ہے۔ اس لئے زمین کا کوئی قطعہ اور معمورۂ عالم کا کوئی گوشہ اس سے خالی نہیں ہے اور انسان دنیا کے کسی حصہ میں ہو اسے سانس لینے کیلئے ’’ہوا‘‘ کے تلاش کرنے کی ضرورت نہ پڑے گی۔ ہوا کے بعد ’’پانی‘‘ کی ضرورت سب سے زیادہ ہے، اس لئے قدرت نے زمین کے نیچے ’’پانی‘‘ کا ایک وافر ذخیرہ جمع کر دیا ہے اور زمین کی سطح پر دریا اور چشمے رواں کر دیئے ہیں اور پھر وقتاً فوقتاً بادلوں سے مینہ برسانے کا سامان کر دیا ہے تا کہ جہاں زمین کھود کر پانی نہ نکالا جا سکے وہاں دریاؤں اور چشموں سے اور جہاں دریا اور چشمے نہ ہوں وہاں بادلوں سے سیرابی کا سامان ہو سکے۔ پانی کے بعد پھر ’’غذا‘‘ کی ضرورت سب سے زیادہ ہے، اس لئے اس نے زمین میں قوت نامیہ دوڑا کر روئیدگی کا انتظام کیا اور ہر مخلوق کی ضرورت و حاجت کے مطابق اس کے گرد نعمتیں پھیلا دی ہیں۔ چنانچہ ارشاد باری ہے:

﴿وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيْہَا مَعَايِشَ﴾

ہم نے زمین میں تمہاری زندگی و معیشت کا سامان مہیا کر دیا ہے۔ [۳]

اور پھر انہیں حاصل کرنے کے طریقے بتلا دیئے ہیں۔

ان نعمتوں کا تقاضا تو یہ تھا کہ منعم کے احسانات و انعامات کو یاد رکھا جاتا اور ان نعمتوں کو معاصی میں صرف کرکے کفران نعمت کا ارتکاب نہ کیا جاتا، مگر اکثر افراد ان نعمتوں کو فراموش کر دیتے ہیں اور بے کھٹکے اس کی معصیت کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ ان نعمتوں کی حق ادائیگی کی ایک ہی صورت تھی کہ اس کے گناہوں سے بچ کر رہا جاتا۔ اور یوں تو اس کی کسی نعمت کا بھی حق ادا نہیں ہو سکتا اور اسی ادائے حق میں کوتاہی کا احساس خاصان خدا کو گناہوں سے محفوظ ہونے کے باوجود اس کی بارگاہ میں تقصیر و کوتاہی کے اقرار پر آمادہ کرتا ہے اور وہ اس کی بارگاہ میں گڑگڑاتے اور تضرع و زاری کے ساتھ توبہ و استغفار میں مصروف رہتے ہیں اور اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس سے عفو و درگزر کی بھیک مانگتے ہیں اور اپنے اعمال پر نازاں ہونے کے بجائے اعتراف عجز و تقصیر ہی کو سرمایہ عبودیت سمجھتے ہیں۔

در کوی دوست شوکت شاهی نمی ‌خرند

اقرار بندگی کن و اظهار چاکری

[٭٭٭٭٭]

[۱]۔ الکافی، ج ۲، ص ۴۲۶

[۲]۔ سورہ نحل، آیت ۱۸

[۳]۔ سورہ اعراف، آیت ۱۰

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button