مقالاتنہج البلاغہ مقالات

نہج البلاغہ پر ایک نظر

تحریر: حجۃ الاسلام والمسلمین جناب علامہ سید مرتضیٰ حسین صاحب اعلیٰ اللہ مقامہ

”نہج البلاغہ“ عہد تالیف سے اب تک اس قدر مقبول رہی ہے کہ عربی ادب و تاریخ میں کسی انسان کی تالیف نثر کو یہ شہرت نصیب نہ ہو سکی۔ میں نے اپنی مختصر کتاب “نہج البلاغہ کا ادبی مطالعہ” اسی موضوع کے دو پہلوؤں پرلکھی ہے۔ (طبع ادارۂ تعلیمات الہیہ کراچی) اس وقت اس کتاب کے بارے میں صرف اسلامی نقطۂ نظر سے سرسری گفتگو کرنا ہے۔

نہج البلاغہ کی زبان:

ابن ابی الحدید سے محمدعبدہ تک غیر شیعہ شارح اور جرجی زیدان، فواد افرام، جارج جرداق جیسے عیسائی مؤرخ، عمر فروخ، احمد حسن زیات، محمد بہجۃ الاثری، محمد حسن نائل المرصفی، محمد بک دیاب، طہٰ حسین جیسے اکابر نقد و ادب نے اس کتاب کو جن لفظوں میں خراج عقیدت پیش کیا ہے، اس کا خلاصہ یہ وقیع جملہ ہے کہ

” لَوْلَا كَانَ كِتَابُ نَهْجِ الْبَلَاغَةِ لَمَا عَرَفْنَا دَرَجَةَ فَصَاحَةِ الْقُرْاٰنِ“
اگر کتاب نہج البلاغہ نہ ہوتی تو ہم اعجازقر آن کا معیار نہ سمجھ سکتے۔

یہ پہلی کتاب ہے جس میں قرآن مجید کا اسلوب اور حدیث نبوی ﷺ کی روح اسی لب و لہجے میں پائی گئی۔ اس کے چھوٹے چھوٹے فقرے، اس کے سادہ سادہ جملے، اس کی رواں اور شستہ عبارتیں جیسے وحی و حدیث کے صاف و شفاف چشموں کے در شاہوار ہیں۔ چونکہ امامؑ آغوش نبوت ﷺ میں پلے، خدائی انعامات و علوم سے سرفراز ہوئے تھے، وحی کی تلاوت زبان محمد مصطفےٰ ﷺ سے سنی، خود ترجمان وحی بن کر پیغمبر کریم ﷺ کی نمائندگی کے فرائض انجام دیے، حضرتؐ کے کاتب خاص، حضرتؐ کے کلام و کمال کے جامع، حضرتؐ کی حدیث کے شارح، حضرتؐ کی ارشاد کردہ تفسیر کے حافظ تھے۔ اس لیے زندگی بھر اسی زبان، اسی لہجے، اسی معجز نما عربی فصیح میں کلام فرمایا۔ خلیل بن احمد عروضی و جاحظ و ابن عبدر به، مسعودی، ابن جنی وغیرہ گواہ ہیں کہ ان خطبوں، خطوں، اور فقروں پر تو جمال قرآن، عکس نورِ حدیث موجود ہے کہ عرب پڑھتے پڑھتے سرشار و مسرور ہوتے ہیں۔

نہج البلاغہ کے مسائل و موضوعات: مسعودی کے بقول چار پانچ سو خطب وکتب کا ذخیرہ وہ تھا جس سے لوگ مستفید ہوتے تھے ۔ یہ ذخیرۂ علم وادب آج بھی قدیم مآخذ میں پھیلا ہوا ہے، سیدرضیؒ نے سوانح امیر المومنینؑ“خصائص الائمہ ”کے لیے اس دفتر سے کچھ انتخاب، اور یعقوبی (۲۹۲) مسعودی (م ۳۴۵) مفید (م ۴۱۳، استاد سید رضی و مرتضیٰ کی طرح شر یک کتاب کرنا چاہا ۔ لیکن یہ کام اتنا بڑھا کہ ۴۰۰ ہجری میں مستقل کتاب بن گیا۔

سید رضیؒ نے اس کی سرسری ترتیب خطب، کتب (خطوط) و کلمات قصار کے لحاظ سے قرار دی ۔ یہی تین باب نہج البلاغہ کے تین حصے ہیں۔ موضوعاتی اعتبار سے اس کتاب کے عنوانات حسب ذیل ہیں۔

ا۔ توحید: اسلام کے عقیدۂ توحید باری پر تفہیمات،ادلّہ ،حکیمانہ تقریریں اور بحیثیت امام کے اس کی تشریح جس میں نفسیاتی انداز خطاب و تدریس کو مقام اعجاز تک پہنچا دیا ہے ۔ اس ذیل میں عدل و صفاتِ خداوندی ، اور مسائل کلام پر بھی جامع بیانات موجود ہیں۔

۲۔ رسالت: شان رسالتﷺ، غرض نبوت و بعثت، فرائض و اعمال نبی پر سیر حاصل گفتگو، قرآن کی روشنی میں تعلیماتِ الہیہ کی تشریح۔

۳۔ امامت: اوصاف و ضرورت امام، امام کے فرائض ، امامت کے حدود، اپنا اور غیروں کا مقابلہ ، بعد کے ائمہ پر اشارات – نبوت و امامت کا فرق ۔ امام کی عظمت منصبی ۔

۴۔ قیامت: آثار و علامات، منظر کشی، گنہ گاروں اور نیکو کاروں کا عالم، قیامت کے فائدے ، اس عقیدے کے فلسفیانہ و حکیمانہ اور اسلامیاتی تشریحات ۔

۵۔ قرآن: عظمت قرآن، علوم قرآن، تفسیر، تشریح، استعمال، احترامات، اس کی افادیّت اور مختلف پہلوؤں پر غور وفکر۔ تنزیل ، ترتیب ، رموز و نکات کا بیان ۔

۶۔ حدیث: درایت کے اصول، حدیث کا مرتبہ، راویوں کی حیثیت، آنحضرت ﷺ کا طریق کلام، اس سے فائدہ اٹھانے کے طریقے، آداب و احکام، متن اور اس کی شرح ۔ خود امامؑ کا فنِ حدیث میں درجہ۔

۷۔ تاریخ: عرب کی جاہلیت اور عالمی مذاہب کا پسِ منظر، مختلف قوموں کی تباہی کا عبرت ناک نقشہ، اسلام کے ابتدائی دن اور چشم دید حالات، آنحضرتؐ کی بعثت، اسلام کی اشاعت، لوگوں کا قبول اسلام، دشمنوں کا رنگ، فتوحات کے نتائج، ہجرت اور اس میں اپنا بیان، مدنی زندگی، آنحضرتؐ کی وفات کا واقعہ، تجهیز وتکفین و دفن۔

۸۔ خلافتوں کا زمانہ: خلفاء اور امراء کے کردار و حالات پر گفتگو، قتل عثمان ؓ، اپنی خلافت ظاہری، بیعت کا منظر، لوگوں کی مخالفت، اس کے اسباب، جمل و صفین و نہروان کے اسباب، لوگوں کی باتیں، اس کے جواب، جنگ کے نتائج، اشخاص و افراد کا تعارف، عقائد و رحجانات پر روشنی، حسنین و فاطمہ زہرا علیہم السّلام کا تذکرہ۔ وصیت نامہ و الوداع۔

۹۔ سیرت النبی ﷺ: نہج البلاغہ میں سب سے پہلے آنحضرتؐ کے اخلاق وعادات، سیرت وسنت پر والہانہ اندازمیں روشنی ملتی ہے، امیرالمومنینؑ نے آنحضرتؐ کے رحم و کرم، جود و سخاوت، امانت و مجاہدت، استقامت و تبلیغ پر اتنی وسیع بحث کی ہے کہ اگر الگ کر لیا جائے تو ایک کتاب تیار ہو سکتی ہے۔ آپ کو اس میں ملے گا کہ حضورؐ اپنوں سے کس طرح ملتے تھے، دشمنوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے تھے۔ خدا کے ساتھ کس طرح کے معاملات تھے اور امت کے ساتھ کیا انداز معاشرت تھا؟

۱۰۔ سیاست: اسلامی سیاست کے اصول، مسلمان فرماں روا  کے قوانین واصول زندگی، اسلامی مملکت کے دستور کی مدح، مسلمانوں کا مسلمانوں اور مسلمانوں کا غیر مسلمانوں سے برتاؤ، حدودو احکام، پولیس، عدالت، دربار، اطلاعات، تجارت، فوج، حکّام، امراء، غرباء اور دوسرے طبقاتی تعلقات کی نوعیت مالیے، تحصیل وصول اور اس کی تقسیم میں احتیاط۔

۱۱۔ قانون: قانون کا متن (گورنروں کے نام خط اور اس میں سے مالک اشتر کے نام حضور کا مرتبۂ دستور حکومت وسیاست) قانون کے اغراض ، اس کی روح ،محافظین قانون ، قاضیوں اور امراء کے فرائض پر مکمل دستاویزات۔

۱۲۔ وغط: آپ نے بہت سے واعظ سنے ہوں گے ۔ مگر قرآن مجید کا اندازِ ہدایت ہی نرالا ہے۔ امیرالمومنینؑ کے مواعظ سراپا خلوص، سرا پا قرآن، سراپا تقویٰ، سرا پا صداقت و عبدیت تھا ۔ اس دل کی آواز جو کبھی یادِ خدا سے غافل نہ رہا، وہ زبان جو کبھی تلاوت قرآن سے نہ رُ کی ، وہ دہن جو کبھی کذب سے آشنا نہ ہو ا، ظاہر ہے کس درجہ اثر انگیز وعظ کہ سکتا ہے ۔ اور پھر علی ؑ جو کعبے میں پیدا ہوئے، مسجد کوفہ میں شہید ہوئے ، جو خود فرماتے ہیں کہ نَحْنُ لَأُمَرَاءُ الْکَلَامِ۔ جو کہتے ہیں: سَلُوْنِیْ قَبْلَ اَنْ تَفْقِدُوْنِیْ۔ چنانچہ ان تقریروں کا یہ اثر ہے کہ اُس عہد میں ہمام خطبہ سنتے سنتے جان بحق ہو گئے اور آج ہم جیسے گنہ گار بھی لرزہ براندام ہو جاتے ہیں ۔ در حقیقت امیر المومنینؑ نے جس طرح سے اسلامی روح کو جھنجھوڑا ، جس انداز سے تقویٰ اور عمل صالح کی دعوت دی ہے وہ آج تک بے نظیر ہے۔ انھوں نے جنت و جہنم، مومن و کافر، عامل وبے عمل، عالم و جاہل کی متحرک اثر انگیز تصویریں کھینچ دی ہیں۔

۱۳۔مشاہدات و فلسفہ و سائنس: آپ کو متعدد ایسے خطبے ملیں گے جس میں قرآن کی طرح آفاق و انفس ،تخلیق و تکوین پر غور کرنے کی دعوت دی گئی ہے ۔پھر آسمان و زمین کے محسوس و نا محسوس مخلوقات کے بارے میں اجزاء و تشریح ،صورت و حقیقت پر باریک سے باریک ترمسائل پر توجہ دلائی ہے، آسمان کیا ہے ؟ فرشتہ کیا ہے؟ چیونٹی کیا ہے؟ پانی کیا ہے؟ پہاڑ کیا ہے؟

امام ؑ نے اپنے مخاطبین کی فہم و عقل کے مطابق اشارے کیے تھے جو آج طویل و وقیع تحقیقات کے لیے دفتر کا کام دے سکتے ہیں۔

۱۴- اخلاق و اصول معاشرت: معاشرتی زندگی ، نفسیاتی مسائل، اقتصادی نکتے، صلح و جنگ ، میل جول ، لین دین ، خاندان و احباب کے تعلقات ، عالم و جاہل کے اصول حیات ، دنیا و آخرت کی کامیابی کے طریقے، معیاری انسان، معیاری کردار کی پرکھ پر آپ جو کچھ تلاش کرنا چاہیں اس کتاب میں “قرآن و حدیث کے تحت ”سب کچھ مل سکتا ہے۔

غرض یہ کتاب ادیب مؤرخ، فلسفی، سائنس دان، ماہر قانون، عالم علوم اسلامی، حکمراں، سپہ سالار، سپاہی، مرد مومن، عابد اور دنیا دار۔ ہر شخص کے لیے بہترین دستاویز بصیرت، بہترین سرچشمہ ہدایت ہے۔ اگر کچھ نہ ہوتا، صرف یہی کتاب ہوتی۔ تو دلیل قاطع اور واضح ثبوت تھا کہ امیر المومنین علیہ السلام حجتِ خدا، وصی نبیؐ اور اسلام و مسلمان کا سرمایۂ رشد و ہدایت ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button