
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مقدمہ
ساری تعریف اس خالق و مالک اور وحدہ لا شریک کے لئے ہے جس نے انسانوں کو بے پناہ استعداد اور صلاحیتوں سے نوازا اور اسے ایک قطرئہ ناچیز سے قابل ذکر بنا دیا، صلوات وسلام رسول عربی اور انکی پاک و پاکیزہ آل پر کہ جو منتخب ومقرب بارگاہ الہ ہیں۔
اما بعد: خداوند کریم کا نہایت شکر گزار ہوں کہ اس نے بندئہ ناچیز کو ایک مرتبہ پھر نہج البلاغہ کے معارف کے سمندر میں غوطہ زن ہونے اور علوم علوی سے آشنا ہونے کا موقع اور سعادت عنایت فرمائی۔
مقالہ ہذا ظلم کے خلاف جہاد کے عنوان سے قارئین کی خدمت میں حاضر ہے کہ جس کا مرکز و محور خطیب نہج البلاغہ امیر المومنین مولائے کائنات امام علی علیہ السلام کا کلام انور و اقدس و اطہر ہے۔
حقیر نے حتیٰ المقدور سعی و کوشش کی ہے کہ نہج البلاغہ سے ہی سارے عناوین و مطالب کو پیش کیا جائے تاہم قارئین کرام مکمل طور پر معارف نہج البلاغہ سے مستفید ہو سکیں اور بہت ہی کم ایسے موارد ہیں کہ جہاں پر دیگر کتابوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔
بندہ نے اس موضوع کا انتخاب اس لئے کیا چونکہ دور حاضر میں اس کی اشد ضرورت کو محسوس کیا آج جہاں بھی نگاہ دوڑائیں ہر طرف ظلم اور ظالم اپنی جڑوں کو پھیلائے اور پنکھ پسارے نظر آتا ہے۔ انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں کہ جہاں ظلم اپنا رسوخ پیدا نہ کر چکا ہو، انسان گھر میں ہے تو ظلم، باہر ہے تو ظلم، جلوت میں ہو یا کہ خلوت میں ہرجگہ ظالم بنا ہوا نظر آرہا ہے، گویا کہ ظلم کے شکنجہ میں اس طرح قید ہوچکا ہے کہ جس سے چھٹکارے کا راستہ نظر نہیں آتا۔ اب ایسے میں صرف محمد و آل محمد ﷺ کا کردار و گفتار ہی ہے کہ جو مشعل راہ بن کر انسان کی ہدایت کر سکتا اور اسے ظلم و ستم سے نجات دلاسکتا ہے۔
واقعاً غور طلب امر ہے کہ یہ دنیا کتنی بے رحم اور ظالم ہے کہ جس نے اپنے محسن اور مہربان و شفیق امام پر بھی مظالم کے پہاڑ توڑ کر ظلم کی انتہا کر دی، آخر اس امام نے اس دنیا سے کیا لیا؟! بلکہ لینا کیسا اس نے تو ہمیشہ دنیا کو عطا کیا ہے خود ہمارے مولا فرماتے ہے: خدا گواہ ہے کہ علی نے اس دنیا سے سوائے دو لقمہ نان اور دو بوسیدہ پیراہن کے اور کچھ نہیں لیا۔ (وصیت نامہ 45 کا ایک حصہ)
ہائے کیسا مظلوم ہے ہمارا امام کہ جس کے سینہ میں علم کا سمندر ٹھاٹھے مار رہا ہے مگر اس کا لینے والا کوئی نہیں، مو لائے کل ہوتے ہوئے بھی سوائے چند افراد کے کوئی اپنا نہیں، رسول اکرم ﷺ کا حقیقی خلیفہ ہے مگر ظاہراً خلافت پر قبضہ طاغوت کا ہے، فدک آپ کی زوجہ کی ملکیت ہے مگر غاصب دینے سے انکار کر رہا ہے، ایک مونس و غمخوار زوجہ تھی وہ بھی داغ مفارقت دے گئی، کتنا یک و تنہا ہے ہمارا مولا کوئی نہیں جو اس کے دکھ میں شریک ہو، کوئی نہیں جو اس کی زخموں کا مداوا کرے، کون ہے جو اس کے اندوہ کو ہلکا کرے، ایسے میں شجاعت بو طالبی کہتی ہے کہ پل بھر میں حکومت کا تخت و تاج تہہ و با لا کر دے، مگر مصلحت اسلام کہتی ہے کہ صبر سے کام لیا جائے، تاہم پچیس سال کا عرصہ دراز خاموشی و سکوت اور حکومت سے لا تعلقی سے گذرا، اس کے باوجود بھی وقتاً فوقتاً جب بھی خلفاء ظالمین و غاصبین نے کوئی
مشورہ لیا تو محبت دین اور محبت خدا کی خاطر اپنی عمدہ رائے سے بھی نوازا۔
کون ہے ایسے بلند کردار کامالک جو اپنے حق کے غاصبوں کو بھی صحیح اور بہترین مشورہ سے نوازے؟
دنیا اس کا نعم البدل اور جواب لانے سے قاصر ہے، تاریح گنگ ہے الفاظ میں اتنی وسعت نہیں کہ اس کی توصیف کو اپنے دامن میں جگہ دے سکے، زبان میں اتنی قوت و طاقت نہیں کہ اس کی مدح و ثنا کے حق کو ادا کر سکے۔
ہائے! کیسے کیسے ظلم و ستم ہمارے مولا و آقا پر ہوئے کہ لوگوں سے اتنا متنفر ہوئے کہ یوں گویا ہوئے:
اے مردوں کی شکل و صورت والو اور واقعا نامردوں! تمھاری فکریں بچوں جیسی ہیں اور تماری عقلیں حجلہ نشین عورتوں جیسی ہیں میر ی دلی خواہش تھی کہ اے کاش میں تمہیں نہ دیکھتا اور تم سے متعارف نہ ہوتا جس کا نتیجہ صرف ندامت اور رنج و افسوس ہے اللہ تمہں غارت کر دے تم نے میرے دل کو پیپ سے بھر دیا ہے اور میرے سینے کو رنج و غم سے چھلکا دیا ہے، تم نے ہر سانس میں ہم و غم کے گھونٹ پلائے ہیں (خطبہ نمبر 27 نہج البلاغہ ترجمہ اردو علامہ جوادی)
امام عالی مقام کے یہ فقرات خود گویا ہیں کہ لوگو ں نے حضرت کو کس قدرستایا ہے!
لہذا امام کے مختلف خطبات و کلامات ہیں کہ جن میں آپ نے اپنے اوپر ہونے والے مظالم کا شکوہ اور تذکرہ کیا ہے اور ظالمین کو تا ابد رسوا اور خوار و ذلیل کرکے اس کے چہرے پر سے شرافت اور اسلام کا نقاب اتار پھینکا اور ایسا اقدام کرنا بھی امام کے لئے بہت ضروری تھا تاکہ بعد کے آنے والی نسلیں کسی کے ظاہری اسلام سے دھوکا نہ کھا جائیں اور انھیں حق و حقیقت کا پاسباں نہ سمجھ بیٹھیں اور دوسرے یہ کہ:
کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعجاز سخن
ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے
آخر میں چلتے چلتے، قارئین کرام سے التماس ہے کہ حقیر کے حق میں دعائے خیر فرمائیں تاکہ توفیق خداوند کریم بندہ کے شامل حال ہو سکے اور آئندہ بھی مزید خدمات انجام دی جا سکے۔ِ (بعون اللہ و توفیقہ ان شاء اللہ)
والسلام
سید محمد اصغر علی نقوی
حوزہ علمیہ قم المقدسہ
الانتساب
حقیر کی یہ ادنیٰ سی کوشش و کاوش اسی غریب زمانہ کے نام جسے لوگوں نے بعد از رسول اکرم ﷺ یک و تنہا چھوڑ دیا اور وہ وطن میں رہتے ہو ئے بھی غریب الوطن ہو گیا۔ امید ہے مولا اس نا چیز سعی کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائیں گے۔ اور اگر ذرہ برابر بھی اخلاص میری نیت میں پایا جاتا ہے تو اسی خلوص کی خاطر آقا میرے مرحومین والدین کو اپنے جوار کرم میں جگہ عنایت فرمائیں گے۔
(ان شاء اللہ)
ظلم اور عدل
ظلم کے معنی حق سے تجاوز کرنے اور اپنی حد سے آگے بڑھ جانے کے ہیں چاہے وہ حد شکنی کسی بھی طرح کی ہو اور عقلی لحاظ سے خدا وند عالم کے بنائے ہو ئے قوانین اور اصول و ضوابط کہ جو موجودات کے تکامل کیلئے ہیں ان سے انحراف بھی ظلم شمار ہوتا ہے۔
راغب اصفہانی کہتے ہیں: ظلم اہل لغت اور بہت سے علماء کے نزدیک کسی چیزکو اس کی جگہ سے ہٹاکر کسی اور جگہ پر قرار دینے کو کہتے ہیں، خواہ کمی کی صورت میں ہو یا زیادتی کی صورت میں۔ (1)
ظلم ایک ایسا مفہوم ہے جو نہ صرف شرعی لحاظ سے بلکہ عقلی لحاظ سے بھی قابل مذمت ہے اسلئے کہ اگر ایک شخص کو سرے عام بے دردی کے ساتھ مارا جا رہا ہو تو کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ شخص اچھا کام کر رہا ہے، بلکہ ہر وہ انسان کہ جو صاحب عقل سلیم ہوگا اور اس کے اندر تھوڑی سی بھی غیرت پائی جائے گی تو اگرچہ ظاہری اعتبار سے نہ سہی مگر دل سے اس امر کی ضرور ملامت کرے گا، اور اگر کوئی شخص ایسا نہ کرے تو خود اس کا ضمیر اس کی ملامت کرے گا۔
ظلم کے مقابل میں عدل اور انصاف ہے کہ جس کے معنی ہیں ہر شئی کو اس کے مقام پر رکھنا، یا ہر شی کو اس کا حق ادا کر دینا،یا مولائے متقیان کے کلام کی روشنی میں کہ آپ نے فرمایا: (العدل یضع الامور مواضعھا)
یعنی ہر امر کو اس کے مقام پر رکھنا۔ (2)
یہ بات مسلم ہے کہ ظلم کسی بھی اعتبار سے قابل ستائش اور اچھا نہیں، مگر بحث یہ ہے کہ کون ظلم کی زیادہ مخالفت کرتا ہے یوں تو ہر ایک ہی مدعی مخالف ظلم ہے۔ لیکن اگر تاریخ انسانیت پر دقت نظر کیا جائے اور خاص کر اسلامی نظریات پر غور کیا جائے تو اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ جتنا دین اسلام اور اس کے راہنماؤں نے ظلم کے خلاف آواز بلند کی ہے اتنا کسی اور دین و مذہب میں یہ بات دیکھنے کو نہیں ملتی۔
خداوند متعال کی طرف سے آنے والے راہنما کا کمال ہی یہ رہا ہے کی نہ انھوں نے کسی پر ظلم کیا اور نہ ہی ظلم کو ایک لمحہ کیلئے برداشت کیا اس لئے کہ جو بھیجنے والا ہے اس نے پہلے ہی اعلان کر دیا کہ:
ان اللہ لا یظلم الناس شئیا و لکن الناس انفسھم یظلمون
خدا کسی پر ظلم نہیں کرتا بلکہ یہ لوگ ہیں جو خود اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں۔ (3)
لہذا جب بھیجنے والا ہر نقص و عیب اور ظلم سے پاک و منزہ ہے تواب اس کے نمائندے کیسے ظلم کر سکتے ہیں، کیونکہ اگر یہ ظلم کریں گے تو بات پھر اس پر آ جائے گی شاید یہی وجہ تھی کہ اس نے اپنی پاگیزگی کے ساتھ ساتھ اپنے بھیجے ہوئے ہادی کے بھی ہر طرح کے عیب و نقص اور ظلم سے مبرا ہونے کا اعلان کردیا ارشاد ہوا:
لا ینال عھد الظالمین
یہ عہدہ ظالمین تک نہیں پہنچے گا۔
چونکہ ظلم ایک عیب ہے لہذا الٰہی منصب دار وہی ہو گا جو ظلم سے پاک و پاکیزہ ہوگا۔
چنانچہ امیر کائنات خظیب نہج البلاغہ اپنے الہی عہد کا ثبوت پیش کرتے ہوئے یہ ارشاد فرماتے ہیں:
و اللہ لان ابیت علی حسک السعدان مسھدا اواجر فی الاغلال مصفدا احب الی من ان القی اللہ و ر سو لہ یوم القیامہ ظالما لبعض العباد (4)
خدا گواہ ہے کہ میرے لئے سعدان کی خار دار جھاڑی پر جاگ کر رات گزار دینا یا زنجیروں میں قید ہو کر کھنچا جانا اس امر سے زیادہ عزیز ہے کہ میں روز قیامت پروردگار اور اس کے رسول ﷺ سے اس عالم میں ملاقات کروں کہ کسی پر ظلم کر چکا ہوں۔ (5)
اقسام جہاد:
یوں تو تمام نمائندگان خدا کی یہ خاصیت رہی ہے کہ انھوں نے ظلم سے نبرد آزمائی کی اور اس خلاف آوازحق بلند کرتے رہے مگر مولائے کائنات کی ذات اقدس ان تمام میں نمایاں طور سے نظر آتی ہے، مولا ئے کائنات کا ہر ہر قدم ظلم کے خلاف ایک جہاد ہے، جسے امام تا حیات کرتے رہے۔
واضح رہے کہ صرف تلوار لیکر میدان جنگ میں جا کر دشمنوں کے خلاف لڑائی کرنا ہی جہاد نہیں بلکہ جہاد کی متعدد قسمیں ہیں، جب جہاد تلوار کے ذریعہ ہوتا ہے تو اسے جہاد باالسیف کہا جاتا ہے جب دشمن کے خلاف کلمئہ حق قلم کے ذریعہ لکھا جاتا ہے تو اسے جہاد بالقلم کہتے ہیں، جب تقاریر اور خطبات کو ذریعہ بنا یا جا تا ہے تو جہاد با للسان کہلاتا ہے، جب دشمنوں کے خلاف مال ودولت صرف کیا جا تا ہے تو جہاد بالمال ہوتا ہے، اور جب اپنے کردار عمل کے ذریعہ نفس و خواہشات کا مقابلہ کیا جا ہے تو اسے جہاد بالنفس کا نام دیا جا تا ہے۔ وغیرہ۔۔۔
امیر المومنین کی تمام تر زندگی ظلم کے خلاف جہاد اور ایک تحریک کا نام ہے، مولائے کائنات کے جہاد بالسیف کے گواہ بدر و ا حد و خیبر و خندق اور صفین و نہروان کے میدان ہیں، جہاد باللسان کی گواہی خطبات و کلمات مولا دے رہے ہیں، جہاد بالقلم کی گواہی خطوط و مرسلات دے رہے ہیں، آپکے جہاد بالمال کے گواہ وہ فقراء و مساکین ہیں کہ جو اس در پر آ کر بے ذر سے ابو ذر بن گئے اور جہاد بالنفس کا گواہ خود دشمن اسلام عمر و بن عبدود کا سر ہے۔
تقسیمات ظلم
کلی اعتبار سے اگر ظلم کو تقسیم کیا جا ئے تو اس کی تین قسمیں ہوتی ہیں:
(1) ظلم علی اللہ
(2) ظلم علی العباد
(3) ظلم علی ذاتہ۔
(1) ظلم علی اللہ: یعنی وہ حق جو خدا اور اس کے بندے کے درمیان ہیں انسان اس کی حق تلفی کرے یعنی اسے پورا نہ کرے مثلاً، نماز، روزہ، وغیرہ۔
(2) ظلم علی العباد: یعنی وہ حقوق کہ جو انسانوں کے درمیان ہیں انسان اسے پورا نہ کرے، مثلاً کسی کو بے جا ستانا، کسی کا مال غصب کر لینا، امانت میں خیانت وغیرہ۔
(3) ظلم علی ذاتہ: یہ وہ حقوق ہیں کہ جس کا تعلق خود انسا ن کی اپنی ذات اور اپنے نفس سے ہے مثلاً اگر کسی نامحرم کو بری نگاہوں سے دیکھا تو اپنی آنکھوں پر ظلم کیا، اگرذہن سے شیطانی منصوبہ اور خرافات سوچے تو ذہن پر ظلم کیا، اسی طرح دیگر اعضاء و جوارح کہ اگر ان سے غلط کام لیا تو یہ خود اپنے آپ پر ظلم ہے اس لئے کہ جس مقصد کے تحت ان کو خداوند عالم نے ہمیں عطا کیا ہے اس کے بر عکس اور خلاف استعمال ہوئے۔
مولائے کائنات ارشاد فرماتے ہیں:
اقل ما یلزمکم للہ الا تستعینوا بنعمہ علی ماصیہ
خدا کا سب سے مخصتر ِحق یہ ہے کہ اس کی نعمت کو اس کی معصیت کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔ (6)
مذکورہ بالا پہلی دو قسموں کو ظلم علی غیرہ اور آخری قسم کو ظلم علی نفسہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، اور ظلم اپنی تمام تر قسموں کے ساتھ قبیح ہے اگر چہ ظلم کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے لیکن اگر تامل سے کام لیا جائے اور غور و فکر کیا جائے تو ہر طرح کا ظلم ظلم علی نفسہ ہے کیونکہ ظلم کرنے کے بعد انسان عذاب الٰہی کا مستحق قرار پاتا ہے جب تک کہ توبہ نہ کرے، یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس نے ظاہراً دوسروں پر ظلم کیا مگر باطنی طور اور در حقیقت اپنے آپ پر ظلم کیا۔ اسی بات کی طرف مولائے کائنات کا کلام بھی ہماری راہنمائی فرمارہا ہے ارشاد ہوا:
ولا یکبرن علیک ظلم من ظلمک فانہ یسعی فی مضرتہ (7)
اور کسی ظالم کے ظلم کو بڑا تصورنہ کرنا کہ وہ اپنے کو نقصان پہنچا رہا ہے، یعنی خود اپنے اوپر ظلم کر رہا ہے۔ (8)
بہرحال ظلم اور حق تلفی چاہے جس طرح کی ہو اس کا اثر انسانی زندگی پر پڑتا ہے انسان اس سے مفر اختیار نہیں کر سکتا اور کتنے ہی ظلم ایسے ہیں کہ انسان کو اس کا احساس تک نہیں ہوتا لہذا انسان کو ہمیشہ اہنے مالک سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہنا چاہئے۔ اسی بات کی طرف مولائے متقیان دعائے کمیل میں ظلمت نفسی کہہ کر ہمیں متوجہ کر رہے ہیں۔
(یہاں پر اس فقرے سے یہ تصور و گمان نہ پیدا ہونے پائے کہ معاذ اللہ مولائے کائنات کسی ظلم میں ملوث تھے۔ جو اس طرح دعا فرما رہے ہیں نہیں، ہرگز ایسا نہیں ہے، مولائے کائنات ایک الہی عہدیدار ہیں جہاں ظلم کا شائبہ بھی نہیں پایا جاتا، یہ ہم جیسے گناہ گار اور ناقص انسانوں کے لئے تعلیم و تربیت کا مقام ہے کہ ہم اس طرح اپنے رب کی بارگاہ میں مناجات کریں)
ان باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ظلم کئی طرح کے ہیں چنانچہ اسلام اور اسلامی لیڈروں نے ہر طرح کے ظلم سے مقابلہ کرنے کیلئے الگ الگ طریقے بھی بتائے کہ جس درجہ کا ظلم ہوگا اسی اعتبار سے اس کے خلاف جہاد ہوگا اگر ظلم صرف انسان کی اپنی ذات تک محدود ہے تو توبہ اور استغفار سے کام چل جائے گا لیکن اگر ظلم، شرک اور کفر کی حدوں کو پار کرتا ہوا اتنا عظیم ہو جائے کہ صرف ظالم کی ذات تک محدود نہیں بلکہ بندگان خدا کی اذیت کا بھی سبب بن رہا ہو وہاں پر جہاد بھی اسی کے اعتبار سے ہوگا اور اب صرف توبہ سے کام چلنے والا نییں بلکہ امام معصوم جیسی شخصیت کو اس کا سامنا کرنے کیلئے قیام کرنا پڑے گا۔
مصادیق ظلم
یہاں پر ہم بطور نمونہ چند موارد کو ذکر کر رہے ہیں کہ جن کو قرآن کریم نے ظلم سے تعبیر کیا ہے، تاکہ ہماری بحث ناقص نہ رہ جائے اور پھر ان کو امام کے زمانہ پر تطبیق کریں گے:
(1) شرک: یعنی خدا کا شریک ٹھہرانا اور یہ ایسا گناہ ہے کہ جس کو قرآن کریم نے ظلم عظیم سے تعبیر کیا ہے۔
(ان الشرک لظلم عظیم) بے شک شرک ظلم عظیم سے تعبیر کیا ہے۔ (9)
(2) آیات الٰہی کی تکذیب: یعنی جو آیات و نشانی خدا کو جھٹلائے۔
فمن اظلم ممن کذب بآیات اللہ و صدف عنھا
اس سے بڑا ظالم کون ہے جو آیات خدا کی تکذیب کرے اور حق سے منہ موڑلے۔ (10)
(3) حدود الٰہی کو توڑنا: حریم و حدود الٰہی کا پاس و لحاظ نہ رکھنے والا بھی ظلم کرتا ہے۔
و من یتعدحدود اللہ فاولئک ھم الظالمون جو حدود الہی سے تجاوز کر جائے وہ ستمگار اور ظالم ہے۔ (11)
(4) قانون خدا کے خلاف حکم دینا: یعنی دستورات الٰہی کے خلاف حکم صادر کر نا ظلم ہے۔
ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الظالمون
جو خدا کے نازل کے ہوئے احکام کے خلاف حکم صادر کر ے وہ ظالم ہے۔ (12)
(5) راہ حق سے منحرف کرنا: یعنی جو لوگوں کو راہ حق و حقیقت سے منحرف اور گمراہ کرے ظلم کرتا ہے۔
الا لعنة اللہ علی الظالمین، الذین یصدون عن سبیل اللہ و یبغو نھا عوجا
آگاہ ہو جاؤ کہ ظالموں پر خدا کی لعنت ہے اور ان پر کہ جو لوگوں کو راہ حق سے دور کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کو راہ حق سے منحرف کردیں۔ (13)
(6) کفار کو ولی بنانا: یعنی ہادی برحق کو چھوڑ کر کفار کو اپنا ولی و سرپرست قرار دے وہ ظلم ہے۔
و من یتولھم منکم فاولئیک ھم الظالمون اور تم میں سے جو بھی کفار کو اپنا ولی بنائے بلا تردید وہ ظالم ہے۔ (14)
(7) خدا پر جھوٹ باندھنا: خداوند متعال پر جھوٹ باندھنا بھی ظلم ہے۔
ومن اظلم ممن افتری علی للہ الکذب اس سے بڑا ظالم اور ستمکار کون ہوگا کہ جو خدا پر جھوٹ اور بہتان باند ہے۔ (15)
(8) کتمان شہادت الٰہی: گواہی خدا کو چھپانا بھی ظلم ہے۔
(و من اظلم ممن کتم شھا دة عندہ من اللہ) اس سے بڑا ظالم کون ہوگا کہ جو (انبیاء کے بارے میں) خدا کی گواہی چھپائے۔ (16)
(9) لوگوں پر تجاوز کرنا: یعنی بندگان خدا کو ستانا اور ان کا حق تلف کرنا۔
انما السبیل علی الذین یظلمون الناس و یبغون فی الارض بغیر الحق اولئک لھم عذاب الیم سرزنش اور ملامت کی راہ صرف ان لوگوں کیلئے ہے کہ جو لوگوں پر ظلم و ستم کرتے اور زمین پر ناحق تجاوز کرتے ہیں، ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (17)
(10) عصیان و نافرمانی خدا: اس سلسلہ میں متعدد آیات پائی جاتی ہیں کہ جو اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ گناہ کرنا اور معصیت خداوندعالم انجام دینا ظلم ہے، جیسا کہ یہ آیت کر یمہ: فمنہم ظالم لنفسہ بندوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو اپنے اوپر ظلم کرنے والے ہیں۔ (18)
یہ وہ موارد تھے کہ جن کو قرآن نے ظلم اور اس کے انجام دینے والے کو ظالم کہا ہے۔
(واضح رہے کہ مندرجہ بالا موارد میں ابتداء کے آٹھ مصادیق وہ ہیں کہ جن کا تعلق انسان اور خدا سے ہے یعنی یہ وہ مظالم ہیں کہ جسے انسان خدا پر کرتا ہے۔ شمارہ 9 کا تعلق اس ظلم سے ہے کہ جو ایک انسان دوسر ے انسان پر روا رکھتا ہے، اور قسم آخر کا تعلق خود انسان کی اپنی ذات سے ہے)
آئیے! اب دیکھتے ہیں کہ مولائے کائنات کے زمانہ میں یہ تمام مظالم پائے جاتے تھے یا نہیں؟
امرالمومنین امام علی علیہ السلام کے زمانہ کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ اندازاہ ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے جن موارد کو ظلم سے تعبیر کیا ہے وہ تمام کے تمام بطور اتم آپ کے زمانہ امامت میں پائے جاتے تھے اور امام علیہ السلام کو ان سب کا سامنا کرنا تھا۔ قرآن نے شرک کو ظلم عظیم کہا چنانچہ ہم دیکھتے ہیں امام کے متعدد خطبات ہیں کہ جس میں آپ نے صفات پروردگار کا تذکرہ کیا ہے اور لوگوں کو اس کا شریک قرار دینے سے منع کیا ہے مثلاً خطبہ نمبر1 کا ایک حصہ کہ جس میں فرماتے ہیں:
فمن و صف اللہ سبحانہ فقد قرنہ ومن قرنہ فقد تراہ۔ ۔ الی۔۔ فقد عدہ
اس کے لئے الگ سے صفات کا اثبات ایک شریک کا اثبات ہے اور اس کا لازمی نتیجہ ذات کا تعدد ہے اور تعدد کا مقصد اس کے لئے اجزاء کا عقیدہ ہے اور اجزاء کا عقیدہ صرف جہالت ہے معرفت نہیں، اور جو بے معرفت ہو گیا اس نے اشارہ کرنا شروع کر دیا اور جس نے اس کی طرف اشارہ کیا اس نے اسے ایک سمت میں محدود کر دیا اس نے گنتی کا شمار کر لیا، (جو سرا سر خلاف توحید ذات ہے۔ (19)
امام علیہ السلام کا اس طرح کے خطبات کا دینا خود اس بات کی دلیل ہے کہ لوگ ظاہراً مسلمان تھے لیکن باطنی شرک جیسے عظیم ظلم میں ملوث تھے۔
قرآن نے آیات الٰہی کی تکذیب کرنے، شہادت الٰہی کو چھپانے، راہ حق سے منحرف کرنے اور خدا کے منصوب کردہ کے علاوہ کسی اور کو اپنا ولی قرار دینے والے کو ظالم کہا ہے۔
کیا مولائے کائنات سے بڑی آیت خدا بھی کوئی آپ کے زمانہ میں تھی؟ کہ مولا نے خود ہی فرمایا کہ میں خدا کی عظیم آیت ہوں۔
کیا آپ کی زوجہ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا طاہرہ اور صدیقہ نہیں تھیں؟
جن کی طہارت اور صداقت کی گواہی قرآن دے رہا ہے، کیا آپ کے سلسلہ میں قرآن نے گواہی نہیں دی کہ آپ اول الامر اور مومنوں کے ولی ہیں؟
تو اگر ان تمام تر حقائق کے روشن ہو جانے کے بعد بھی لوگوں نے آپ کی تکذیب کی، آپ کی زوجہ کے حق کو غصب کیا، لوگوں کو آپ کے در سے منحرف کیا اور آپ کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا ولی اور سرپرست قرار دیا تو اس کا صاف اور کھلا ہوا مطلب یہ ہے کہ لوگوں نے ظلم کیا، اور یہ وہ مظالم تھے کہ جن کے خلاف مولا نے بارہا احتجاج کیا اور مولا کے خطبات اور کلمات ان احتجاجات سے پر ہیں کہ جس کا ایک نمونہ خطبہ شقشقیہ ہے۔
قرآن نے خدا پر جھوٹ باندھنے، حدود الٰہی سے تجاوز کرنے، قانون الٰہی کی خلاف ورزی کرنے، لوگوں پر تجاوز کرنے اور ہر طرح کے گناہ کو ظلم کہا ہے، تو کیا جب امام کی زوجہ جناب سیدہ نے اپنے حق کا مطالبہ کیا لوگوں نے ان کی گواہی کو جھٹلا نہیں دیا، تو کیا آپ کو جھٹلانا خدا کو جھٹلانا نہیں تھا؟
اور کیا آپ کو آپ کا حق نہ دینا یہ دستور خدا اور قانون خدا کی خلاف ورزی نہیں تھی؟
کیا آپ کے دروازہ پر آگ اور لکڑی کا جمع کرنا اور دروازہ میں آگ کا لگانا بندگان خدا پر ظلم اور حدود الٰہی سے تجاوز کرنا نہیں تھا؟
اور کیا یہ تمام تر اعمال و افعال عصیان و نافرمانی خدا نہیں تھے؟
ظاہر ہے کہ یہ تاریخ کے وہ حقائق ہیں کہ جو روز روشن کی طرح واضح ہیں اور اس کے لئے کسی سند اور حوالہ کی ضرورت نہیں، اور اپنے ہی کیا اس کا اعتراف غیروں نے بھی کیا ہے۔
یہ وہ حالات اور مظالم تھے کہ جن سے مولائے کائنات کو گزرنا پڑا کہ ایک طرف امت کی ہدایت کی ذمہ داری اور دوسری طرف دشمنوں کے مظالم کا مقابلہ اور ان کے خلاف جہاد کرنا، ایک عجیب و غریب اور کشمکش کے حالات تھے کہ جن کا اندازہ مولا کے اس کلام سے ہوتا ہے، فرمایا فان اقل یقولوا: حرص علی الملک وان اسکت یقولوا: جزع الموت (20)
میری مشکل یہ ہے کہ میں بولتا ہوں تو کہتے ہیں کہ اقتدار کی لالچ رکھتے ہیں اور خاموش ہو جاتا ہوں تو کہتے ہیں موت سے ڈر گئے ہیں۔ (21)
ایسے حالات میں رہنا اوراس کا مقابلہ کرنا واقعاً یہ عام انسان کے بس کی بات نہیں صرف امام ہی کا کردار تھا۔
علامات ظلم و ظالم: امیرالمومنین کی ذات گرامی ظلم اور ظالم سے اس قدر بیزار ہے کہ آپ زندگی کے کسی شعبہ میں بھی ظلم اور ظالم کو قطعاً برداشت نہیں کر سکتے، لہذا اپنے چاہنے والوں اور عقیدت مندوں کو علامات ظلم اور ظالم سے بھی باخبر کر دیا، اس سلسلہ میں امام کے چند اقوال ملاحظہ فر مائیں:
1۔ انصف اللہ وانصف ا لناس من نفسک ومن خاصة اھلک، ومن لک فیہ ھوی من رعیتک فانک الا تفعل تظلم۔ (22)
اپنی ذات، اپنے اہل و عیال اور رعایا میں جن سے تمہیں تعلق خاطر ہے سب کے سلسلہ میں اپنے نفس اور اپنے پروردگار سے انصاف کرنا کہ اگر ایسا نہ کرو گے تو ظالم ہو جاؤ گے۔ (23)
یہ وہ خط ہے کہ جسے امام نے مالک اشتر کو اس وقت تحریر فرمایا کہ جب انھیں محمد بن ابی بکر کے حالات خراب ہو جانے کے بعد مصر اور اس کے اطراف کا عامل (گورنر) مقرر فرمایا اور یہ عہد نامہ حضرت کے تمام سرکاری خطوط میں سب سے زیادہ مفصل اور محاسن کلام کا جامع ہے۔
مذکورہ بالا جملہ میں امام نے ظلم کی یہ علامت بتائی کہ اگر کوئی شخص اپنے اہل و عیال اور لوگوں کے بارے میں خود اپنے اور اپنے رب کریم سے انصاف نہ کرے تو اس نے ظلم کیا ہے یعنی اگر نا انصافی سے کسی کے بھی سلسلہ میں کام لیا تو یہ ظلم ہے، اور ظالم کہتے ہی اسے ہیں کہ جو عدل و انصاف اور حق سے دور ہو۔
2۔ من بالغ فی الخصومة اثم ومن قصر فیھا ظلم۔ (24)
جو لڑائی جھگڑے میں آگے نکل جائے وہ گناہگار ہوتا ہے، اور جو کوتاہی کرے وہ اپنے نفس پر ظلم کرتا ہے۔ (25)
یعنی لڑائی جھگڑے میں زیادتی کرنا اور اس بارے میں کوتاہی برتنا نشانی ظلم ہے۔
3۔ الحجر الغصیب فی الدار رھن علی خرابھا۔ (26)
گھر میں ایک پتھر بھی غصبی ہو تو اس کی بربادی کیلئے کافی ہے۔ (27)
یعنی اگر گھر بر بادی اور ہلاکت کی طر جاتا ہوا دکھائی دے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی بنیاد ظلم پر رکھی گئی ہے کیو نکہ غصب ظلم ہے اور ظلم کا انجام بہرحال بر بادی ہے (یعنی گھر کی بربادی نشانی ظلم ہے)
4۔ للظالم من الرجال ثلاث علامات: یظلم من فوقہ بالمعصیہ، ومن دونہ با لغلبہ، و یظاھر القوم الظلمہ (28)
لوگوں میں ظالم کی تین علامات ہوتی ہیں: اپنے سے بالا تر پر معصیت کے ذریعہ ظلم کرتا ہے، اپنے سے کمتر پر غلبہ اور قہر کے ذریعہ ظلم کرتا ہے اور، تیسری علامت یہ ہے کہ ظالم قوم کی حمایت کرتا ہے۔ (29)
نہی از ظلم و ستم:
اس بحث میں حضرت کے ان اقوال و فرامین کو پیش کریں گے کہ جن میں امام نے لوگوں کو ظلم و تعدی سے منع فرمایا ہے۔ چونکہ حضرت خود ایک ایسے خدا کے فرستادہ ہیں کہ جو نہ ظلم کرتا اور نہ ظلم برداشت کرتا ہے جو خود بھی عادل ہے اور عدل و انصاف کا حکم بھی دیتا ہے۔ (ان اللہ یامر بالعدل)
لہذا امام نے بھی دنیا کے سامنے وہی الٰہی کردار پیش کیا چند نمونے ملا حظہ فرمائیں:
1۔ کردار علوی کا نمونہ دیکھئے کہ جب حضرت کے سر پر ضربت لگی اور امام کا سر شگاف ہو چکا، زخمی حالت میں بستر مرگ پر ہیں اور اب ایسے عالم میں آپ کے قاتل عبد الرحمان ابن ملجم کو مولا کے سامنے پیش کیا گیا۔ تو سب سے پہلا جملہ کہ اس کے ہاتھ کھول دیئے جائیں، اور پھر فرمایا کہ اس کے لئے شربت لایا جائے مگر پھر بھی دیکھا کہ وہ ڈرا ڈرا سا ہے فرمایا خوف نہ کر اور جب پوری طرح مطمئن ہو گیا تو صرف ایک سوال کیا کہ اے ابن ملجم! یہ بتا کیا میں تمہارا برا امام تھا؟ قاتل ہے مگر امام کے رحم و کرم کا نمونہ دیکھ چکا ہے رفتار و گفتار و کردار علوی سے بخوبی آشنا ہے۔ لہذا کوئی جواب نہ بن پڑا کہے تو کیا کہے شرمندگی سے سر جھکا کر صرف یہی کہا کہ مولا آپ سے بہتر کون ہو سکتا ہے مگر میں کیا کروں کہ جس نے خود ہی اپنے سے جہنم کا انتخاب کر لیا ہو اسے کون روک سکتا ہے۔
بات صرف اسی مقام پر ختم نہیں ہو جاتی، اس کے بعد امام اپنے عزیز و اقارب کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: یا بنی عبد المطلب! لا القینکم تحوضون دماء المسلمیں حوضا تقو لوا: قتل امیر المومنین الا لا تقتلن بی الا قاتلی۔ (30)
اے اولاد عبد المطلب! خبر دار میں یہ نہ دیکھوں کہ تم مسلمانوں کا خون بہانا شروع کر دو صرف اس نعرہ پر کہ امیر المومنین قتل کر دیئے گئے۔ میرے بدلے میں صرف میرے قاتل کے علاوہ کسی اور کو قتل نہیں کیا جا سکتا۔
بات یہاں پر بھی تمام نہ ہوئی بلکہ امام نے لا تقتلن بی الا قاتلی کی بھی وضاحت فر مادی کہ میرے قاتل کو کس طرح اور کیسے قتل کرنا۔ انتقام کی آگ میں جل کر انسانیت کو بالائے طاق نہ رکھ دینا اور ظالموں اور جابروں کا رویہ نہ اختیار کر لینا۔ چنانچہ فرمایا: انظر وا اذاانا مت من ضربتہ ھذہ، فاضربوہ ضربة بضربْة ولا تمثلو ا با لر جل، فانی سمعت رسول اللہ یقول: ایا کم والمثلة و لو بالقلب العقور۔
دیکھو! اگر میں اس ضربت سے جانبر نہ ہو سکا تو ایک ضربت کا جواب ایک ہی ضربت ہے۔ اور دیکھو میرے قاتل کے جسم کے ٹکڑے نہ کرنا کہ میں نے خود رسول اکرم ﷺ سے سنا ہے کہ خبردار کا ٹنے والے کتے کے بھی ہاتھ پیر نہ کاٹنا۔ (31)
کون دنیا میں ایسا شریف النفس اور بلند کردار ہے جو قانون خدا کی سر بلندی کیلئے اپنے نفس کا موازنہ اپنے دشمن سے کرے۔ اور اعلان کر دے کہ اگرچہ مالک نے مجھے نفس اللہ اور نفس پیغمبر ﷺ قرار دیا ہے اور میرے نفس کے مقابلہ کائنات کے جملہ نفوس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ لیکن جہاں تک اس دنیا میں قصاص کا تعلق ہے میرا نفس بھی ایک ہی نفس شمار کیا جائے گا اور میرے دشمن کو بھی ایک ہی ضرب لگائی جائے گی تاکہ دنیا کو یہ احساس پیدا ہو جائے کہ مذہب کی تر جمانی کیلئے کس بلند کردار کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور سماج میں خون ریزی اور فساد کے روکنے کا واقعی راستہ کیا ہوتا ہے۔ یہی وہ افراد ہیں جو خلافت الہیہ کے حقدار ہیں اور انہیں کے کردار سے اس حقیقت کی وضاحت ہوتی ہے کہ انسانیت کا کام فساد اور خون ریزی نہیں ہے بلکہ انسان زمین پر فساد اور خون ریزی کے روک تھام کیلئے پیدا کیا گیا ہے اور اس کا منصب واقعی خلافت الہیہ ہے۔
2۔ امام حسن کو وصیت فرماتے ہوئے ایک خط میں یوں فرمایا: لا تظلم کمالا تحب ان تظلم
جس طرح تم ظلم کو اپنے لیے پسند نہیں کرتے تم بھی کسی پر ظلم نہ کرنا۔ (32)
3۔ مالک اشتر کو یوں تحریر فرماتے ہیں: والتغائی عما تعنی بہ مما و قد وضیح للعیون۔۔۔
اور جو حق نگاہوں کے سامنے واضح ہو جائے اس سے غفلت نہ برتنا کہ دوسروں کیلئے یہی تمہاری ذمہ داری ہے اور عنقریب تمام امور سے پردے اٹھ جائیں گے اور تم سے مظلوم کا بدلہ لیا جائے گا۔ (33)
4۔ اسی نامہ کے ایک اور حصہ میں یوں فرمایا والشعیر قلبک الر حمہ للر عیہ لھم۔۔۔
اور رعایا کے ساتھ مہربانی، محبت اور رحمت کو دل کا شعار بنالو اور خبردار ان کے حق میں پھاڑ کھانے والے درندے کے مثل نہ ہو جانا کہ انہیں کھا جانا ہی غنیمت سمجھو۔ مخلوقات خدا کی دو قسمیں ہیں: بعض تمہارے دینی بھائی ہیں اور بعض خلقت میں تمہارے جیسے بشر ہیں جن سے لغزشیں بھی ہو جاتی ہیں اور انھیں خطاؤں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اور جان بوجھ کر یا دھوکہ سے ان سے غلطیاں بھی ہو جاتی ہیں۔ لہذا انھیں ویسے ہی معاف کر دینا کہ جس طرح تم چاہتے ہو کہ پروردگار تمہاری غلطیوں سے در گزر کرے۔ (34)
واقعاً انسانیت کے لئے لمحہء فکریہ ہے کہ وہ مولا جو اپنے عامل اور گورنر کو اس طرح سے محبت اور الفت کی وصیت کر ریا ہے وہ امام خود کتنا مہر بان اور رؤف ہوگا اور ا پنی رعایا سے کس قدر محبت سے پیش آتا ہوگا مگر افسوس تو اسی بات کا ہے کہ دنیا نے اس کے فضل و کرم کا مشاہدہ کرنے کے بعد بھی اسے اپنے ظلم کا نشانہ بنا لیا۔
یہ چند کلمات امام تھے جنھیں یہاں ظلم سے نہی کے سلسلہ میں پیش کیا گیا اور اسی طرح سینکڑوں کلمات ہیں مگر ہم انہی پر اکتفا کرتے ہیں۔
ظلم و ظالم سے اعلان برائت
امام کے کلام میں ایسے جملات و فقرات بے شمار پائے جاتے ہیں کہ جہاں پر آپ نے ظلم اور ظالم سے اعلان برائت اور بیزاری فرمائی ہے۔ چنانچہ جیسا کہ پہلے بھی عرض ہوا کہ اسلامی لیڈروں کا کمال کردار ہی یہ رہا ہے کہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ ظلم و تعدی سے کام نہیں لیا بلکہ ہمیشہ ظلم و ستم کے مد مقابل رہے، گویا ان کی زندگی کا مقصد ہی ظلم اور ظالم کے خلاف جہاد کرنا رہا۔ اور یہی سیرت تمام ائمہ علیہم السلام کی بھی رہی ہے خاص طور پر یہ پہلو امام علیؑ کی حیات طیبہ میں نمایاں طریقہ سے دیکھنے کو ملتا ہے۔
جنہوں نے علیؑ کے علاوہ کسی دوسرے کو اپنا رہنما مانا انھوں نے بہت ہی آسان کام کیا۔ کہ ان کے ماننے والے کو نہ جنگ کرنی ہے نہ جدال کوئی کچھ بھی کرے ان کو کسی سے بھی کوئی مطلب نہیں ان کو تو صرف اپنی کرسی بچانی ہے اور حکومت چلانی ہے۔ مگر جنھوں نے علیؑ کو اپنا قائد اور رہنما تسلیم کیا انہوں نے بہت ہی سخت کام کیا اور سنگین ذمہ داری اپنے اوپر لی۔ اس لئے کہ علیؑ وہ ہے کہ جو نہ ظلم کے خلاف خاموش بیٹھتا ہے اور نہ ہی اپنے ماننے والوں کو چپ بیٹھنے دیتا ہے، نہ خود ظلم کرتا ہے اور نہ ہی کسی کو ظلم کرنے دیتا ہے۔ لہذا اگر علیؑ کی امامت میں رہنا ہے تو اپنے اندر بھی ظلم و ستم کے خلاف وہی نفر ت پیدا کرنی ہوگی کہ جیسا علیؑ چاہتے ہیں، اپنے اندر ظالم سے مقابلہ کرنے کا وہی جوش وجذبہ پیدا کرنا ہوگا کہ جو شایان شان محبان علیؑ ہے۔
علیؑ کو مالک اشتر، سلمان فارسی، ابوذر غفاری، میثم تمار، اور مختار ثقفی جیسے کردار کی ضرورت ہے کہ جو ظالم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گفتگو کرے، جو ایک پل بھی ظلم اور ظالم کے خلاف چین سے نہ بیٹھے۔ جو ظلم کی بساط کو تہہ و بالا کر دے۔
لہذا یہ مسلم بات ہے کہ کھبی بھی حق والوں اور باطل کی پیروی کرنے والوں میں میل و ملاپ نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ دونوں میں زمین و آسمان جیسا فرق ہے حق پسند ظالم سے نفرت اور ظلم کو نا پسند کرتا ہے اور اہل باطل ظلم کو پسند کرتے ہیں، یہ ظلم کو روکنا چاہتے ہیں جبکہ وہ ظلم کو فروغ دیتا ہے۔ حق اور باطل تضاد ہیں جیسے کہ نور اور ظلمت، علم اور جہل، رات اور دن کہ جس طرح یہ تمام چیزیں باہم جمع نہیں ہو سکتیں اسی طرح عدل و انصاف حق وحقیقت اور باطل پرست کے نمائندے بھی آپس میں کبھی اتفاق نہیں کر سکتے۔
مولائے کائنات کے چند کلمات اس سے متعلق ملاحظہ فرمائیے:
1۔ ایھا المومنین۔۔۔ ایمان والو! جو شخص دیکھے کہ ظلم و تعدی پر عمل ہو رہا ہے اور برائیوں کی طرف دعوت دی جا رہی ہے اور اپنے دل سے اس کا انکار کر دے تو گویا کہ محفوظ رہ گیا اور بری ہوگیا۔ اور اگر زبان سے انکار کر دے تو اجر کا حقدار بھی ہو گیا کہ یہ قلبی انکار سے بہتر صورت ہے، اور اگر کوئی شخص تلوار کے ذریعہ اس کی روک تھام کرے تاکہ اللہ کا کلمہ بلند ہو جائے اور ظالمین کی بات پست ہو جائے تو یہی وہ شخص ہے جس نے ہدایت کے راستہ کو پا لیا ہے اور اس کے دل میں یقین کی روشنی پیدا ہو گئی ہے۔ (35)
2۔ اسی سے متعلق دوسرے مقام پر فرمایا: فمنہم المنکر للمنکر بیدہ۔۔۔
بعض لوگ منکرات کا انکار دل، زبان اور ہاتھ سب سے کرتے ہیں تو یہ خیر کے تمام شعبوں کے مالک ہیں اور بعض لوگ صرف زبان اور دل سے انکار کرتے ہیں اور ہاتھ سے روک تھام نہیں کرتے ہیں تو انہوں نے نیکی کی دو خصلتوں کو حاصل کیا ہے اور ایک کو برباد کر دیا ہے، اور بعض لوگ صرف دل سے انکار کرتے ہیں اور نہ ہاتھ استعمال کرتے ہیں اور نہ ہی زبان تو ان لوگوں نے دو خصلتوں کو ضائع کر دیا ہے اور صرف ایک کو پکڑ لیا ہے اور بعض وہ ہیں کہ جو دل زبان اور ہاتھ کسی سے بھی برائیوں کا انکار نہیں کرتے تو یہ زندوں کے درمیان مردوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور یاد رکھو کہ جملہ اعمال خیر مع جہاد در راہ خدا امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے مقابلہ وہی حیثیت رکھتے ہیں جو گہرے سمندر میں لعاب کے ذرات کی حیثیت ہوتی ہے اور ان تمام اعمال سے بلند تر عمل حاکم ظالم کے سامنے کلمہ انصاف و حق کا اعلان ہے۔ (36)
تاریخ اسلام میں اس کی بہترین مثال ابن السکیت کا کردار ہے کہ جہاں متوکل نے ان سے یہ سوال کر لیا کہ تمہاری نگاہ میں میرے دونوں فرزند معتز اور موید بہتر ہیں یا علی کے دونوں فرزند حسن اور حسین۔ تو ابن السکیت نے ظالم سلطان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فرمایا کہ حسن و حسین کا کیا ذکر ہے تیرے فرزند اور تو دونوں مل کر علی کے غلام قنبر کی جوتیوں کے تسمہ کے برابر نہیں ہیں۔
جس کے بعد متوکل نے حکم دے دیا کہ ان کی زبان کو گدی سے کھینچ لیا جائے۔ اور ابن السکیت نے نہایت درجہ سکون قلب کے ساتھ اپنی قربانی کو پیش کر دیا۔ اور اپنے پیشرو میثم تمار، حجر بن عدی، عمرو بن الحمق، ابو ذر، عمار یاسر اور مختار سے ملحق ہو گئے۔ (جوادی)
دفاع از مظلوم
الہی نمائندوں کی خاصیت اور شیوہ یہ ر ہا ہے کہ انھوں اس دنیامیں آنے کے بعد باطل کا انکار کیا اور ساتھ ہی مظلوم طبقہ کا دفاع بھی کیا۔
چونکہ ہماری بحث کا محور نہج البلاغہ اور امام علی کی ذات اقدس ہے لہذا آپ ہی کے کلام اور حیات طبقہ سے چند مثالیں مظلوموں کے حق کے دفاع کے سلسلہ میں پیش کی جارہی ہیں:
1۔ غور طلب بات یہ ہے کہ آپ کے زمانہ میں حضرت سے زیادہ کوئی مظلوم واقع نہ ہوا، لہذا مولا نے اس پہلو کو بھی نظر انداز نہ کیا اور بارہا اپنی مظلومیت کو لوگوں کے سامنے اپنے خطبات اور کلام کے ذریعہ واضح کرتے رہے۔ چنانچہ خطبہ نمبر 3 (کہ جو خطبئہ شقشقیہ کے نام سے مشہور ہے) اسی طرح نامہ نمبر 55 میں (کہ جسے معاویہ کے نام تحریر فرمایا کہ جب عثمان کے قتل کا الزام حضرت پر لگایا گیا) اسی طرح بے انتہا کلام امام ہیں کہ جس میں امامؑ نے اپنی مظلومیت کو ثابت کیا اور ظالم کے خلاف احتجاج فرمایا مگر ہم یہاں اختصار کے مد نظر صرف چند باتوں پر اکتفا کریں گے کہ جس میں حضرت نے مظلوم کے حق کی خاطر اقدام فرمایا:
2۔ سعد ابن قیس ہمدانی کہتے ہیں کہ کوفہ کی گرمی شباب پر تھی ایسے عالم میں میں نے امیر المومنین کو دیکھا در حالیکہ حضرت دیوار سے تکیہ کئے بیٹھے تھے۔ میں نے کہا مولا اس گرمی کی شدت میں آپ یہاں کیوں اور کس لئے بیٹھے ہیں؟
امام نے فرمایا: میں گھر سے باہر آیا ہوں تاکہ مظلوم اور غم رسیدہ دل کی مدد کروں۔
تبھی میں نے دیکھا ایک عورت پریشانی کے عالم میں حضرت کے پاس آئی اور عرض کیا یا امیرالمومنین! میرے شوہر نے مجھ پر ظلم و ستم کیا ہے اور اس نے قسم کھائی ہے کہ مجھے مارے گا۔ امامؑ نے تھوڑی دیر تک سر کو نیچے جھکائے رکھا اس کے بعد آسمان کی طرف بلند کر کے فرمایا: خدا کی قسم میں مظلوم کا حق دلوا کر رہوں گا۔
امام اس عورت کے ساتھ چل پڑے اور اس کے گھر کے قریب پہنچ کر اہل خانہ (اس کے شوہر ) کو سلام کیا وہ جوان کہ جو رنگ برنگا لباس پہنے ہوئے تھا گھر سے باہر نکلا۔ امامؑ نے فرمایا: خدا سے ڈر کہ تو نے اپنی زوجہ کو ڈرایا ہے۔ جوان نے جواب دیا کہ تم کو میری زوجہ سے کیا سروکار؟ خدا کی قسم اب تمہارے اس کلام کی خاطر میں اسے نذز آتش کرون گا۔ (امام کے چہر ے پر جلالت کے آثار نمودار ہوئے) تلوار کو نیام سے نکال کر فرمایا: میں تجھے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کر رہا ہوں اور تو میری بات کو رد کر رہا ہے۔ توبہ کرو ورنہ میں تجھے ابھی قتل کر دوں گا۔ اتنے میں لوگ جمع ہو گئے۔ اور جب اس نے جان لیا کہ یہ امیر المومنین امام علی علیہ السلام ہیں پس حضرت کے قدموں پر گر کر عذر خواہی کرنے لگا۔ اس کے بعد امامؑ نے جوان کو گھر جانے کا حکم دیا درحالیکہ اس آیت کی تلاوت فرما رہے تھے (لا خیر فی کثیر من نجوا ھم الا امر بصدقة او معروف او اصلاح بین الناس) پھر اس امر پر خدا کا شکر ادا کیا اس طرح کہ خدا کا شکر ہے میرے ہاتھوں عورت اور اس کے شوہر کے درمیان صلح ہو گئی۔ (37)
3۔ اسی طرح کی متعدد مثالیں ہیں کہ جو حضرتؑ کی حیات طیبہ میں دیکھنے کو ملتی ہیں مثلاً جب حضرت کسی شخص کو کسی بھی مقام کا عامل مقرر فرماتے تو حضرت کا دستور اور طریقہ یہ ہوتا کہ اس کے نام ایک خط تحریر فرماتے کہ جس میں اس کو عدل و انصاف کی وصیت کی جاتی اور ظلم و تعدی سے منع کیا جاتا تھا۔ اور اگر کسی بھی وقت امام کو اس کے خلاف کوئی بات پتہ چلتی کہ مثلاً اس نے لوگوں پر کسی طرح سے تجاوز کیا ہے فوراً حضرت اس کے نام خط تحریر فرماتے کہ جس میں سخت لہجہ سے کلام ہوتا تھا۔ یعنی مقصد یہ تھا کہ علیؑ کسی پر بھی ظلم و تعدی کو برداشت نہیں کر سکتا خواہ اپنا ہو یا پرایا خواہ ظلم کرنے والا محب ہو یا غیر محب۔
حضرت کا ایک خط کہ جو بہت ہی مشہور و معروف ہے جو مالک اشتر کے نام لکھا گیا۔ اور یہ تمام خطوط میں سب سے تفصیلی اور بہترین خط شمار کیا جاتا ہے۔
اس میں ایک جگہ اس طرح ارشاد فرمایا: (ولیکن احب الا۔۔۔)
تمہارے نزدیک پسندیدہ کام وہ ہونا چاہئے کہ جو حق کے اعتبار سے بہترین اور اوصاف کے اعتبار سے لوگوں کو شامل اور رعایا کی مرضی سے اکثر کے لئے پسندیدہ ہو۔
مشاورت کے بارے میں فرمایا: دیکھو! کسی حریص اور لالچی سے مشورہ نہ لینا کہ وہ ظالمانہ طریقہ سے مال جمع کرنے کو بھی تمہاری نگاہوں میں آراستہ کر دے گا۔
وزارت کے سلسلہ میں فرمایا: دیکھو خبردار! ان افراد کو اپنا وزیر نہ بنانا کہ جو پہلے اشرار کے وزیر رہ چکے ہوں اور ان کے گناہوں میں شریک رہے ہوں۔ اس لئے کہ یہ ظالموں کے مددگار اور خیانت کاروں کے بھائی بند ہیں۔ لہذا ایسے افراد کا انتخاب کرنا کہ جو نہ کسی ظالم کے ظلم میں شریک ہوں اور نہ کسی گناہ گار کا ساتھ اس کے گناہ میں دیا ہو۔
ایک اور جگہ خرید و فروخت کے سلسلہ میں ارشاد فرمایا: اے مالک! لوگوں کو ذخیرہ اندوزی سے منع کرو کہ رسول اکرم ﷺ نے اس سے منع کیا ہے۔ خرید و فروخت میں سہولت ضروری ہے جہاں عادلانہ میزان ہو اور قیمت معین ہو جس سے خر یدار یا بیچنے والے کسی فریق پر بھی ظلم نہ ہو۔ (38)
ان فقرات مذکورہ بالا سے واضح ہوتا ہے کہ امام چونکہ امام عادل ہیں لہذا ظلم کو کسی قیمت پر بھی بر داشت نہیں کر سکتے۔ گویا امام کا تمام تر مقصد حیات عدل و انصاف کا قیام، مظلوموں کا دفاع اور ظلم کے خلاف نبرد آزمائی ہے۔
ظالم سے قسم لینے کا طریقہ
خطیب نہج البلاغہ امیر کائنا ت حضرت امام علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:
کہ جب کسی ظالم سے قسم لینا ہو تو اس طرح لو: با نہ بری من حول اللہ و قوتہ۔
کہ وہ پروردگار کی طاقت اور قوت سے بیزار ہے اگر اس کا بیان صحیح نہ ہو۔ کہ اگر اس طرح جھوٹی قسم کھائے گا تو فورا مبتلائے عذاب ہو جائے گا۔ اور اگر خدائے وحدہ لا شر یک کے نام کی قسم کھائے گا تو عذاب میں عجلت نہ ہوگی کہ بہرحال توحید پروردگار کا اقرار کر لیا ہے۔ (39)
واضح رہے ظلم ایسا فساد ہے کہ جو پو رے معاشرے کو خراب کر دیتا ہے لہذا ظلم اور ظالم دونوں سے بیزاری ضروری ہے اور اگر وقت پڑ جائے اور ظالم اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے اور اپنے عمل کو عین عدل و انصاف سے تعبیر کرے تو دین اسلام نے اس کا بھی راستہ رکھا کہ اس سے قسم لو اور وہ بھی ایسی قسم کہ وہ کہے کہ اگر اس کا قول و فعل غلط ہے تو وہ خداوند عالم کی قوت و طاقت سے بیزار ہے کیونکہ یہ خدا کے مقابلہ میں ایک طرح کی خدائی کا اقرار ہے اور اس دنیا میں خدا کے علاوہ کسی اور کی خدائی نہیں لہذا وہ عذاب الٰہی کا مستحق قرار پائے گا اور ذلت و خواری اس کا مقدر بن جائے گی۔
(عام حالات میں اسلام نے ایسی قسم کو حرام قرار دیا ہے کہ اس میں عذاب کے نازل ہونے اور اسلام سے برخاست ہو جانے کا خطرہ ہے لیکن ظالموں کے حق میں ایسی ہی قسم کو رکھا گیا ہے تاکہ نہ ان کے بارے میں عذاب سے بچانے کا کوئی تصور ہے اور نہ ان کے اسلام سے نکل جانے کی کوئی پرواہ ہے بلکہ ان کا دائرہ اسلام سے نکل جانا ہی معاشرہ کی تطہیر کا بہتر ین ذر یعہ ہے) (40)
انجام ظلم و ظالم
ظلم اور ظالم کا انجام بہت ہی خطرناک اور بھیانک ہے۔ قرآن کریم نے متعدد انجام بیان کئے ہیں مثلاً انتقام الٰہی (حجر آیت 79) محرومیت از رحمت خدا (ہود آیت 44) ضلالت و گمراہی (ابراہیم آیت 27) لعنت الٰہی (ہود آیت 18) ہلا کت (کہف آیت 59) وغیرہ۔
اس کی بعد قرآن نے ایک کلی پیغام انسانیت کو دیا کہ ہرگز یہ گمان نہ ہونے پائے کہ ظالمین جو عمل انجام دے رہے ہیں خدا ان سے غافل ہے۔ (41)
مگر چونکہ ہماری بحث نہج البلاغہ سے مختص ہے لہذا آیئے کلام امیر المومنین میں تلاش کرتے ہیں کہ حضرت نے ظلم کا کیا انجام بیان فرمایا ہے۔ چند کلمات ملاحظہ فر مائیں!
1۔ یوم العدل علی الظالم اشد من یوم الجور علی المظلوم (42)
مظلوم کے حق میں ظلم کے دن سے شدید ظالم کے حق میں انصاف کا دن ہوگا۔
2۔ بئس الزاد الی المعاد العدوان علی العباد (43)
روز قیامت کے لئے بد ترین زاد سفر بندگان خدا پر ظلم ہے۔
3۔ للظالم البادی غدا بکفہ عضہ (44)
ظلم کی ابتداء کرنے والے کو کل ندامت سے اپنا ہاتھ کاٹنا پڑے گا۔
یہ حضرت کے چند کلمات تھے کہ للظالم البادی غدا بکفہ عضہ بطور نمونہ پیش کیا گیا۔ وگرنہ اس کے علاوہ بھی متعدد کلمات ہیں لیکن اگر مذکورہ کلمات اور دیگر کلمات امامؑ پر غور کیا جائے تو اس سے یہی واضح ہوتا ہے کہ ظلم کا انجام بہت ہی شدید اور بدتر ہے۔
اور ایک جملہ میں خلاصہ کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ظلم کا نتیجہ نہایت ذلت و خواری، ندامت و پشیمانی، ہلاکت، بربادی اور تباہی کے سوا اور کچھ نہیں۔
تو اگر دنیا میں ظلم کرنے والے کا انجام یہ ہے تو پھر اس کے بارے میں کیا کہا جائے گا جس نے عالم اسلام میں ظلم کی ابتداء کی ہے اور جس کے مظالم کا سلسلہ آج تک جاری ہے اور اولاد رسول اکرم ﷺ کسی آن بھی مظالم سے محفو ظ نہیں ہے! (45)
خلاصہء بحث
یہ امیر المومنین امام علی علیہ السلام کے چند اقوال و فرا مین تھے کہ جنہیں یہاں پر مختصراً ذکر کیا گیا۔ ان تمام مذکورہ فقرات و جملات اور کلمات سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ظلم کیا ہے، انسان کس طرح ظلم کوانجام دیتا ہے۔ اور پھر مولائے کائنات نے ظلم کو کس قدر حقیر اور پست بتایا اور ظالم کا انجام کیا ہوتا ہے۔
لہذا حضرت ہر مقام پر لوگوں کو ظلم سے منع کرتے، ظالم کے خلاف جہاد کرتے اور مظلوموں کے حق سے دفاع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مزید یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت چو نکہ مولائے کل ہیں اس لئے کسی پر بھی امام کو ذرہ برابر ظلم برداشت نہیں، چاہے اپنا ہو یا پرایا۔ اور اس کی جیتی جاگتی مثال جنگ صفین کا واقعہ ہے، کہ اگرچہ مد مقابل نے پانی پر پابندی لگا دی تھی مگر مولا نے نہر کو قبضہ میں لینے کے بعد کسی کو بھی پانی لینے سے نہ روکا اگرچہ امام ایسا کر سکتے تھے، وہ صرف دشمن امام ہی نہیں بلکہ دشمن اسلام بھی تھے مگر نہیں، پانی کو آزاد کرکے ایک طرف امام اپنے بلند و بالا کردار کا ثبوت دے رہے تھے تو دوسری طرف اپنے امام عادل ہونے کا اعلان فرما رہے تھے۔ اب اس کے بعد بھی اگر کوئی آپ کی امامت سے انکار کرے تو اسے قلوبھم اقفالھا کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے؟
اپنی بات کو حضرت کے اس فقرہ پر تمام کرتا ہوں کہ جسے امامؑ نے اپنے آخری لمحات میں امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کو وصیت کے طور پر ارشاد فرمایا۔
واضح رہے کہ یہ ظاہراً حسنین علیہما السلام کو وصیت تھی مگر باطناً اور در حقیقت یہ ایک پیغام ہے کہ جسے امامؑ پوری انسانیت کو دے رہے تھے۔
فرمایا: کونا للظالم خصما و للمظلوم عونا (46)
دیکھو! ہمیشہ ظالم کے دشمن اور مظلوم کے حامی و مددگار رہنا۔
مالک سے دعا کہ وہ ہمیں امام علی علیہ السلام کے نقش قدم پر چلنے اور آپ کے اقوال و فرامین پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عنایت فرمائے تاکہ ہم امام کے واقعاً چاہنے والے اور شیعہ کہے جانے کے قابل ہو سکیں۔ (آمین)
اعوذ باللہ من الظلم والعدوان
و آخر دعوانا ان الحمد لللہ رب العالمین
حوالہ جات
[1] مفردات راغب[2] حکمت نمبر429نہج البلاغہ
[3] سورہ یونس آیت نمبر 44
[4] نہج البلاغہ، خطبہ نمبر 224 کا ایک حصہ
[5] ترجمہ اردو علامہ جوادی
[6] حکمت نمبر 330
[7] وصیت نمبر 31
[8] ترجمہ اردو علامہ جوادی
[9] سورہ لقمان آیت 13
[10] سورہ انعام آیت
[11] سورہ اعراف آیت 44
[12] سورہ مائدہ آیت 45
[13] سورہ ہود آیت 18،19
[14] سورہ توبہ آیت نمبر 23
[15] سورہ صف آیت
[16] سورہ بقرہ
[17] سورہ شوری آیت نمبر 42
[18] سورہ فاطر آیت نمبر 32
[19] ترجمہ علامہ جوادی
[20] خطبہ نمبر5
[21] ترجمہ علامہ جوادی
[22] نامہ نمبر 53نہج البلاغہ
[23] ترجمہ اردو علامہ جوادی
[24] حکمت نمبر 298 نہج لبلاغہ
[25] ترجمہ علامہ جوادی
[26] حکمت نمبر 240نہج ا لبلاغہ
[27] ترجمہ علامہ جوادی
[28] حکمت نمبر 35 نہج البلاغہ
[29] ترجمہ علامہ جوادی
[30] وصیت نمبر 47
[31] ترجمہ علامہ جوادی
[32] وصیت 31 نہج البلاغہ ترجمہ علامہ جوادی
[33] 57 اردو ترجمہ علامہ جوادی
[34] نامہ نمبر 53 ترجمہ علامہ جوادی
[35] حکمت نمبر 373
[36] حکمت نمبر 374 نہج البلاغہ، ترجمہ علامہ جوادی
[37] سفینة البحار جلد 2 صفحہ 321
[38] اکتباس از نامہ نمبر 53 ترجمہ علامہ جوادی
[39] حکمت نمبر 3 25 نہج البلاغہ ترجمہ علامہ جوادی
[40] شرح علامہ جوادی
[41] سورہ ابراہیم آیت 42
[42] حکمت نمبر341 نہج البلاغہ
[43] حکمت نمبر 221 نہج البلا غہ
[44] حکمت نمبر 186 نہج البلا غہ
[45] شرح علا مہ جوادی
[46] وصیت نمبر 47 نہج البلاغہ
منابع و ماخذ
[1] قرآن کریم[2] انوار القرآن تر جمہ و تفسیر علامہ جوادی
[3] نہج البلاغہ
[4] نہج البلاغہ، ترجمہ اردو علامہ جوادی
[5] سفینہ البحار جلد2
[6] گفتار رفیعی جلد 1



