مقالات

وصیت نامہ 

 

صفین سے پلٹتے ہوےَ جب مقام حاضرین میں منزل کی تو امام حسنؑؑ  کے لیے یہ وصیت نامہ تحریر فرمایا :یہ وصیت ہے اس باپ کی جو فنا ہونے والا، اور زمانہ (کی چیرہ دستیوں ) کا اقرار کرنے والاہے ۔ جس کی عمر پیٹھ پھراےَ ہوئے ہے اور جو زمانہ کی سختیوں سے لاچار ہے اور دنیا کی برائیوں کو محسوس کرچکا ہے ، اور مرنے والوں کے گھر میں مقیم اور کل کو یہاں سے رخت سفر باند ھ لینے والاہے ۔ اس بیٹے کے نام جو نہ ملنے والی بات کا آرزو مند ، جادہ ٔعدم کا راہ سپار، بیماریوں کا ہدف ، زمانہ کے ہاتھوں گروی ، مصیبتوں کا نشانہ ، دنیا کا پابند ، اور اس کی فریب کاریوں کا تاجر ، موت کا قرض دار ، اجل کا قیدی ، غموں کا حلیف ، حزن وملال کا ساتھی ، آفتوں میں مبتلا، نفس سےعاجز اور مرنے والوں کا جانشین ہے ۔

تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میں نے دنیا کی روگردانی ،زمانہ کی منہ زوری اور آخرت کی پیش قدمی سے جو حقیقت پہچانی ہے وہ اس امر کے لیےَ کافی ہے کہ مجھے دوسرے تذکروں اور اپنی فکر کے علاوہ دوسری کوئی فکر نہ ہو مگر اسی وقت کہ جب دوسروں کے فکر و اندیشہ کو چھوڑ کر میں اپنی ہی دھن میں کھویا ہوا تھا اور میری عقل وبصیرت نے مجھے خواہشوں سے منحرف و رُو گرداں کردیا اور میرا معاملہ کھل کر سامنے آگیا اور مجھے واقعی حقیقت اور بے لاگ صداقت تک پہنچا دیا ۔

 میں نے دیکھا کے تم میرا ہی ایک ٹکڑا ہو ، بلکہ جو میں ہوں وہی تم ہو، یہاں تک کہ اگر تم پر کوئی آفت آئے تو گویا مجھ پر آ ئی ہے اور تمھیں موت آئے تو گویا مجھے آئی ہے ۔ اس سے مجھے تمھارا اتنا ہی خیال ہوا ، جتنا اپنا ہو سکتا ہے ۔ لہذا میں نے یہ وصیت نامہ تمھاری رہنمائی میں اسے معین سمجھتے ہوئے تحریر کیا ہے ۔ خواہ اس کے بعد میں زندہ رہوں یا دنیا سے اٹھ جاؤ ں۔

میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہنا ۔ اس کے احکام کی پابندی کرنا ، اس کے ذکر سے قلب کو آباد رکھنا اور اُسی کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہنا ۔ تمھارے اور اللہ کے درمیان جو رشتہ ہے اس سے زیادہ مضبوط رشتہ  ہو بھی کیا سکتا ہے ؟ بشرطیکہ مضبوطی سے اُسے تھامے رہو ۔

وعظ وپند سے دل کو زندہ رکھنا اور زہد سے اس کی خواہشوں کو مردہ ،یقین سے اسے سہارا دینا اور حکمت سے اُسے پر نور بنانا ،موت کی یاد سے اسے قابو میں کرنا۔ فنا کے اقرار پر اسے ٹھہرانا ۔ دنیا کے حادثے اس کے سامنے لانا ۔ گردش روزگار سے اسے ڈرانا ،گزرے ہوؤں کے واقعات اس کے سامنے رکھنا ۔ تمھارے پہلے والے لوگوں پر جو بیتی ہے اسے یاد دلانا ۔ ان کے گھروں اور کھنڈروں میں چلنا پھرنا ، اور دیکھنا کے انہوں نے کیا کچھ کیا ، کہاں سے کوچ کیا ، کہاں اترے ،اور کہاں ٹھہرے ہیں ۔دیکھو گے تو تمہیں صاف نظر آےَ گا کہ وہ دوستوں سے منہ موڑ کر چل دیئےہیں ، اور پردیس کے گھر میں جا کر اترے ہیں ، اور وہ وقت  دور نہیں کہ تمھارا شمار بھی ان میں ہونے لگے ۔

 لہذا اپنی اصل منزل کا انتظام کرو اور اپنی آخرت کا دنیا سے سودا نہ کرو ۔جو چیز جانتے نہیں ہو ، اس کے متعلق بات نہ کرو، اور جس چیز کا تم سے تعلق نہیں ہے اس کے بارے میں زبان نہ ہلاؤ ۔ جس راہ میں بھٹک جانے کا اندیشہ ہو ،اُس راہ میں قدم نہ اٹھاؤ ،کیونکہ بھٹکنے کی سر گردانیاں دیکھ کر قدم روک لینا ، خطرات مول لینے سے بہتر ہے۔

 نیکی کی تلقین کرو تاکہ خود بھی اہل خیر میں محسوب ہو۔ ہاتھ اور زبان کے ذریعہ برائی کو روکتے رہو ۔ جہاں تک ہو سکے بروں سے الگ رہو ۔ خدا کی راہ میں جہاد کا حق ادا کرو ، اور اس کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا اثر نہ لو ۔ حق جہاں ہو سختیو ں میں پھاند کر اس تک پہنچ جاؤ ۔ دین میں سوجھ بوجھ پیدا کرو ۔ سختیو ں کو جھیل لے جانے کے خوگر بنو ۔ حق کی راہ میں صبر وشکیبائی بہترین سیرت ہے ۔ہر معاملہ میں اپنے کو اللہ کے حوالے کر دو  کیونکہ ایسا کرنے سے تم اپنے کو ایک مضبوط پناہ گاہ اور قوی محافظ کے سپرد کردوگے۔ صرف اپنے پروردگار سے سوال کروکیونکہ دینا اور نہ دینا بس اسی کے اختیار میں ہے ۔ زیادہ سے زیادہ اپنے اللہ سے بھلائی کے طالب رہو۔ میری وصیت کو سمجھو اور اس سے رو گردانی نہ کرو ۔ اچھی بات وہی ہے جو فائدہ دے اور اس علم میں کوئی بھلائی نہیں جو فائدہ رساں نہ ہو۔ اور جس علم کا سیکھنا سزاوار نہ ہو اس سے کوئ فائدہ بھی نہیں اٹھایا جا سکتا ۔

اے فرزند! جب میں نے دیکھا کے کافی عمر تک پہنچ چکا ہوں اور دن بدن ضعف بڑھتا جا رہا ہے تو میں نے وصیت کرنے میں جلدی کی اور اس میں کچھ اہم مضامین درج کئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ موت میری طرف سبقت کر جاےَ اور دل کی بات دل ہی میں رہ جاےَ یا بدن کی طرح عقل وراےَ بھی کمزور پڑجاےَ یا وصیت سے پہلے ہی تم پر کچھ خواہشات کا تسلط ہو جاےَ ، یا دنیا کے جھمیلے تمہیں گھیر لیں کہ تم بھڑک اٹھنے والے منہ زور اونٹ کی طرح ہو جاؤ ۔ کیونکہ کم سن کا دل اس خالی زمین کے مانندہوتا ہے جس میں جو بیج ڈالاجاتا ہے اسے قبول کرلیتی ہے ۔

 لہذا قبل اس کے تمھارادل سخت ہو جائے اور تمھارا ذہن دوسری باتوں میں لگ جائے۔ میں نے تعلیم دینے کے لئےقدم اٹھایا تاکہ تم عقل سلیم کے ذریعہ ان چیزو ں کے قبول کرنے کے لئے آمادہ ہو جاؤ کہ جن کی آزمائش اور تجربہ کی زحمت سے تجربہ کاروں نے تمہیں بچا لیا ہے اس طرح تم تلاش کی زحمت سے مستغنی اور تجربہ کی کلفتوں سے آسودہ ہو جاؤ گے اور تجربہ و علم کی وہ باتیں (بے تعب و مشقت) تم تک پہنچ رہی ہیں کہ جن پر ہم مطلع ہوےَ اور پھر وہ چیزیں بھی اجاگر ہو کر تمھارے سامنے آرہی ہیں کہ جن میں سے کچھ ممکن ہے ۔ ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئی ہو ں۔

اے فرزند! اگرچہ میں نے اتنی عمر نہیں پائی جتنی اگلے لوگوں کی ہوا کرتی تھیں پھر بھی میں نے ان کی کار گزاریوں کو دیکھا ، ان کے حالات و واقعات میں غور کیا اور ان کے چھوڑے ہوےَ نشانات میں سیر و سیاحت کی ،یہاں تک کہ گویا میں بھی انہی میں کا ایک ہو چکا ہوں ۔ بلکہ ان سب کے حالات و معلومات جو مجھ تک پہنچ گےَ ہیں ان کی وجہ سے ایسا ہے کہ گویا میں نے ان کے اول سے لے کر آخر تک کے ساتھ زندگی گزاری ہے ۔ چنانچہ میں نے صاف کو گندلے اور نفع کو نقصان سے الگ کرکے پہچان لیا ہے۔ اور اب سب کا نچوڑ تمہارے لئے مخصوص کر رہا ہوں اور میں نے خوبیوں کو چن چن کر تمہارے لیےَ سمیٹ دیا ہے اور بے معنی چیزوں کو تم سے جدا رکھا ہے اور چونکہ کمجھے تمہاری ہر بات کا اتنا ہی خیال ہے جتنا ایک شفیق باپ کو ہونا چاہیےَ اور تمہاری اخلاقی تربیت بھی پیش نظر ہے لہذا مناسب سمجھا ہے کہ یہ تعلیم و تربیت اس حالت میں ہو کہ تم نو عمر اور بساط دہر پر تازہ وارد ہو، اور تمہاری نیت کھری اور نفس پاکیزہ ہے۔

 اور میں نے یہ چاہا تھا کہ پہلے کتاب خدا ،احکام شرع اور حلال وحرام کی تعلیم دوں اور اس کے علاوہ دوسری چیزوں کا رخ نہ کروں ۔ لیکن یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ کہیں وہ چیزیں جن میں لوگوں کے عقائد و مذہبی خیالات میں اختلاف ہے ،تم پر اُسی طرح مشتبہ نہ ہو جائیں جیسے اُن پر مشتبہ ہو گئی ہیں ۔ باوجودیکہ ان غلط عقائد کا تذکرہ تم سے مجھے نا پسند تھا مگر اس پہلو کو مضبوط کر دینا مجھے بہتر معلوم ہوا ، اس سے کہ تمہیں ایسی صورت حال کے سپرد کر دوں جس میں مجھے تمہارے لیےَ ہلاکت و تباہی کا خطرہ ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ اﷲ تمہیں ہدایت کی توفیق دے گا اور صیحیح راستے کی رہنمائی کرے گا ۔ ان وجوہ سے تمہیں یہ وصیت نامہ لکھتا ہوں ۔

بیٹا یاد رکھو کہ میری اس وصیت سے جن چیزوں کی تمہیں پابندی کرنا ہے ان میں سب سے زیادہ میری نظر میں جس چیز کی اہمیت ہے وہ اﷲ کا تقوی ٰہے اور یہ کہ جو فرائض اﷲ کی طرف سے تم پر عائد ہیں ان پر اکتفا کرو ، اور جس راہ پر تمہارے آباؤ واجداد اور تمہارےگھرانے کے افراد چلتے رہے ہیں اسی پر چلتے رہو ۔کیونکہ جس طرح تم اپنے لئے نظر وفکر کر سکتے ہو انہوں نے اس نظر و فکر میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی ۔ مگر انتہائی غور و فکر نے بھی ان کو اسی نتیجہ تک پہنچایا کہ جو انہیں اپنے فرائض معلوم ہوں اُن پر اکتفا کریں اور غیر متعلق چیزوں سے قدم روک لیں ۔لیکن اگر تمہارا نفس اس کے لیےتیار نہ ہو کہ بغیر ذاتی تحقیق سے علم حاصل کئےہوےَ جس طرح انہوں نے حاصل کیا تھا ان باتوں کو قبول کرے تو بہرحال یہ لازم ہے کہ تمہارے طلب کا انداز سیکھنے اور سمجھنے کا ہو ، نہ شبہات میں پھاند پڑنے اور بحث و نزاع میں الجھنے کااور اس فکرو نظر کو شروع کرنے سے پہلے اﷲ سے مدد کے خواستگارہو۔ اور اس سے توفیق و تائید کی دعا کرو ۔

اور ہر اُس وہم کے شائبہ سے اپنا دامن بچاؤ کہ جو تمہیں شبہ میں ڈال دے ، یا گمراہی میں چھوڑ دے ، اور جب یہ یقین ہو جاےَ کہ اب تمھارا دل صاف ہو گیا ہےاور اس میں اثر لینے کی صلاحیت پیدا ہو گئی ہے اور ذہن پورے طور پر یکسوئی کے ساتھ تیار ہے اور تمہارا ذوق وشوق ایک نقطہ پر جم گیا ہےتو پھر ان مسائل پر غور کرو جو میں نے تمہارے سامنے بیان کئےہیں ،لیکن تمہارے حسب منشادل کی یکسوئی اور نظر وفکر کی آسودگی حاصل نہیں ہوئی ہے تو سمجھ لو کہ تم ابھی اس وادی میں شبکور اونٹنی کی طرح ہاتھ پیر مار رہے ہو اور جو دین( کی حقیقت )کا طلب گار ہو وہ تاریکی میں ہاتھ پاؤ ں نہیں مارتا اور نہ خلط مبحث کرتا ہے،اس حالت مین قدم نہ رکھنا اس وادی میں بہتر ہے ۔

 اب اے فرزند!میری وصیت کو سمجھو اور یہ یقین رکھوکہ جس کے ہاتھ میں موت ہے اسی کے ہاتھ میں زندگی بھی ہے اور جو پیدا کرنے والاہے وہی مارنے والابھی ہے اور جو نیست ونابود کرنے والاہے وہی دوبارہ پلٹانے والابھی ہے اور جو بیمار ڈالنے والاہے وہی صحت عطا کرنے والابھی ہے اور بہر حال دنیا کا نظام وہی رہے گا جو اﷲ نے اس کے لیےمقرر کر دیا ہے ۔نعمتو ں کا دینا،ابتلاء وآزمائش میں ڈالنا اور آخرت میں جزا دینا یا وہ کہ جو اس کی مشیت میں گزر چکا ہے اور ہم اسے نہیں جانتے ،تو جو چیز اس میںکی تمہاری سمجھ میں نہ آئے، تو اسےاپنی لاعلمی پر محمول کرو ۔کیونکہ جب تم پہلے پہل پیدا ہوئے تھے تو کچھ نہ جانتے تھے بعد میں تمہیں سکھایا گیا اور ابھی کتنی ہی ایسی چیزیں ہیں کہ جن سے تم بے خبر ہو کہ ان میں پہلے تمہارا ذہن پریشان ہوتا ہے اور نظر بھٹکتی ہےاور پھرانہیں جان لیتے ہو۔ لہذا اُسی کا دامن تھامو،جس نے تمہیں پیدا کیا اور رزق دیا اور ٹھیک ٹھاک بنایا۔اُسی کی بس پرستش کرو ، اسی کی طلب ہو ،اُسی کا ڈر ہو ۔

اے فرزند! تمہیں معلوم ہونا چاہئےکہ کسی ایک نے بھی اﷲ سبحانہ کی تعلیمات کو ایسا پیش نہیں کیا جیسا رسول اﷲ ﷺ نے۔ لہذا ان کوبطیب خاطر اپنا پیشوا، اور نجات کا رہبر مانو۔میں نے تمہیں نصیحت کرنے میں کوئی کمی نہیں کی ،اور تم کوشش کے باوجود اپنے سود وبہبود پر اس حد تک نظر نہیں کر سکتے جس تک میں تمہارے لیئے سوچ سکتا ہوں ۔

اے فرزند! یقین کرو کہ اگر تمہارے پروردگار کا کوئی شریک ہوتا تو اس کے بھی رسول آتے، اور اس کی سلطنت و فرمانروائی  کے بھی آثار دکھائی دیتے اور اُس کے افعال و صفات بھی کچھ معلوم ہوتے، مگر وہ ایک اکیلا خدا ہے،جیسا کہ اس نے خود بیان کیا ہے۔اُس کے ملک میں کوئی اس سے ٹکر نہیں لے سکتا ۔وہ ہمیشہ سے ہے  اور ہمیشہ رہے گا۔وہ بغیر کسی نقطۂ آغاز کےتمام چیزوں سے پہلے ہےاور بغیر کسی انتہائی حد کےسب چیزوں کے بعد ہے ۔ وہ اِس سے بلند و بالاہے کہ اُس کی ربوبیت کا اثبات قلب یا نگاہ کے گھیرے میں آجانے سے وابستہ ہو ۔جب تم یہ جان چکے، تو پھر عمل کرو ۔ویسا جو تم ایسی مخلوق کو اپنی پست منزلت، کم قدرت اور بڑھی ہوئی عاجزی اور اس کی اطاعت کی جستجو  اور اس کی سزا کے خوف اور اس کی ناراضگی کے اندیشہ کے ساتھ اپنے پروردگا ر کی طرف بہت بڑی احتیاج کے ہوتے ہوئے کرنا چاہئے۔ اس نے تمہیں انہی چیزوں کا حکم دیا ہے جو اچھی ہیں اور انہی چیزوں سے منع کیا ہے جو بُری ہیں ۔

اے فرزند ! میں نے تمہیں دنیا اور اس کی حالت اور اس کی بے ثباتی و نا پائیداری سے خبر دار کر دیا ہےاور آخرت اور آخرت والوں کے لیے جو سرو سامانِ عشرت مہیا ہے اس سے بھی آگاہ کر دیا ہے اور ان دونوں کی مثالیں بھی تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں تاکہ ان سے عبرت حاصل کرو اور ان کے تقاضے پر عمل کرو ۔ جن لوگوں نے دنیا کو خوب سمجھ لیا ہے ان کی مثال ان مسافروں کی سی ہے جن کا قحط زدہ منزل سے دل اچاٹ ہوا ،اور انہوں نے ایک سر سبز وشاداب مقام ایک تروتازہ و پربہار جگہ کا رخ کیا،تو انہو ں نے راستے کی دشواریوں کو جھیلا، دوستوں کی جدائی برداشت کی ، سفر کی صعوبتیں گوارا کیں ، اور کھانے کی بد مزگیوں پر صبر کیا تاکہ اپنی منزل کی پہنائی اور دائمی قرار گاہ تک پہنچ جائیں ۔

اس مقصد کی دھن میں انہیں ان سب چیزوں سے کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی ۔ اور جتنا بھی خرچ ہو جائے اس میں نقصان معلوم نہیں ہوتا ۔ انہیں اب سب سے زیادہ وہی چیز مرغوب ہے جو انہیں منزل کے قریب اور مقصد سے نزدیک کر دے اور اس کے بر خلاف ان لوگوں کی مثال جنہوں نے دنیا سے فریب کھایا ان لوگوں کی سی ہے کہ جو ایک شاداب سبزہ زارمیں ہوں اور وہاں سے وہ دل برداشتہ ہو جائیں اور اس جگہ کا رخ کر لیں جو خشک سالیوں سے تباہ ہو۔ ان کے نزدیک سخت ترین حادثہ یہ ہو گا کہ وہ موجودہ حالت کو چھوڑ کر ادھر جائیں کہ جہاں انہیں اچانک پہنچنا ہے اور بہر صورت وہاں جانا ہے ۔

 اے فرزند!اپنے اور دوسرےکے درمیان ہر معاملہ میں اپنی ذات کو میزان قرار دو ، جو اپنے لیے پسند کرتے ہو وہی دوسروں کے لیے پسند کرو ،اور جو اپنے لئے نہیں چاہتے ،اسے دوسروں کے لئے بھی نہ چاہو۔جس طرح یہ چاہتے ہو کہ تم پر زیادتی نہ ہو یونہی دوسروں پر زیادتی نہ کرواور جس طرح یہ چاہتے ہو کہ تمہارے ساتھ حسن سلوک ہو ، یونہی دوسروں  کے ساتھ بھی حُسنِ سلوک سے پیش آؤ۔ دوسروں کی جس چیز کو برا سمجھتے ہو، اُسے اپنے میں بھی ہو تو برا سمجھو ، اور لوگوں کے ساتھ جو تمہارا رویہ ہو، اُسی رویہ کو اپنے لیےبھی درست سمجھو ۔ جو بات نہیں جانتے اس کے بارے میں زبان نہ ہلاؤ۔ اگرچہ تمہاری معلومات کم ہوں ۔دوسروں کے لیےوہ بات نہ کہو جو اپنے لیے سننا گوارا نہیں کرتے ۔

 یادرکھو !خود پسندی صحیح طریقۂ کار کے خلاف اور عقل کی تباہی کا سبب ہے ۔روزی کمانے میں دوڑ دھوپ کرو اور دوسروں کےخزانچی نہ بنو ۔ اور اگر سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق تمہارے شامل حال ہو جائے تو انتہائی درجہ تک بس اپنے پروردگار کے سامنے تذلّل اختیار کرو ۔

دیکھو تمہارے سامنے ایک دشوار گذار اور دور دراز راستہ ہے جس کے لیے بہترین زاد کی تلاش اور بقدرِ کفایت توشہ کی فراہمی، اس کے علاوہ سبکباری ضروری ہے ۔ لہذا اپنی طاقت سے زیادہ اپنی پیٹھ پر بوجھ نہ لادو۔ کہ اس کا بار تمہارے لئے وبال جان بن جائے گا اور جب ایسے فاقہ کش لوگ مل جا ئیں کہ جو تمہارا توشہ اٹھا کر میدان حشر میں پہنچا دیں اورکل کو جب تمہیں اس کی ضرورت پڑے گی ،تمہارے حوالے کر دیں تو اسے غنیمت جانو اور جتنا ہو سکے اس کی پشت پر رکھ دو ۔کیونکہ ہو سکتا ہے کے  پھرتم ایسے شخص کو ڈھونڈو اور نہ پاؤ ۔اور جو تمہاری دولت مندی کی حالت میں تم سے قرض مانگ رہا ہے اُس وعدہ پر کہ تمہاری تنگدستی کے وقت ادا کر دے گا تو اُسے غنیمت جانو ۔

 یاد رکھو! تمہارے سامنے ایک دشوار گذار گھاٹی ہے جس میں ہلکا پھلکا آدمی گراں بار آدمی سے کہیں اچھی حالت میں ہوگا اور سست رفتار تیز قدم دوڑنے والے کی بہ نسبت بری حالت میں ہوگا اور اس راہ میں لامحالہ تمہاری منزل جنت ہوگی یا دوزخ، لہذا اترنے سے پہلے جگہ منتخب کر لو، اور پڑاؤ ڈالنے سے پہلے اس جگہ کو ٹھیک ٹھاک کر لو ۔ کیونکہ موت کے بعد خوشنودی حاصل کرنے کا موقع نہ ہوگا اور نہ دنیا کی طرف پلٹنے کی کوئی صورت ہوگی ۔

یقین رکھو کہ جس کے قبضۂ قدرت میں آسمان و زمین کے خزانے ہیں ،اُس نے تمہیں سوال کرنے کی اجازت دے رکھی ہے اور قبول کرنے کا ذمہ لیا ہے اور حکم دیا ہے کہ تم مانگو تاکہ وہ دے ۔رحم کی درخواست کرو تاکہ وہ رحم کرے ۔ اس نے اپنے اور تمہارے درمیان دربان کھڑے نہیں کئے جو تمہیں روکتے ہوں۔ نہ تمہیں اس پر مجبور کیا ہے کہ تم کسی کو اس کے یہاں سفارش کے لئے لاؤ تب ہی کام ہو۔ اور تم نے گناہ کئے ہوں تو اس نے تمہارے لئے توبہ کی گنجائش ختم نہیں کی ہے ، نہ سزا دینے میں جلدی کی ہے ، اور نہ توبہ وانابت کے بعد وہ طعنہ دیتا ہے ( کہ تم نے پہلے یہ کیا تھا ،وہ کیا تھا )۔

نہ ایسے موقعو ں پر اس نے تمہیں رسوا کیا کہ جہاں تمہیں رسوا ہی ہونا چاہئے تھا اور نہ اس نے توبہ کے قبول کرنے میں ( کڑی شرطیں لگا کر ) تمہارے ساتھ سخت گیری کی ہے ۔ نہ گنا ہ کے بارے میں تم سے  سختی کے ساتھ جرح کرتا ہے اور نہ اپنی رحمت سے مایوس کرتا ہے۔ بلکہ اس نےگناہ سے کنارہ کشی کو بھی ایک نیکی قرار دیا ہے۔ اور برائی ایک ہو تو اسے ایک (برائی ) اور نیکی ایک ہو تو اسے دس (نیکیوں) کے برابر ٹھہرایا ہے ۔ اس نے توبہ کا دروازہ کھول رکھا ہے۔ جب بھی اسے پکارو وہ تمہاری سنتا ہے اور جب بھی رازو نیاز کرتے ہوئے اس سے کچھ کہو وہ جان لیتا ہے ۔ تم اسی سے مرادیں مانگتے ہو اور اسی کے سامنے دل کے بھید کھولتے ہو ۔ اسی سے اپنے دکھ  درد کا رونا روتے ہو اور مصیبتو ں سے نکالنے کی التجا کرتے ہو اور اپنے کاموں میں مدد مانگتے ہو۔ اوراس کی رحمت کے خزانوں سے وہ چیزیں طلب کرتے ہو جن کے دینے پر اور کوئی قدرت نہیں رکھتا ۔ جیسے عمروں میں درازی ، جسمانی صحت و توانائی اور رزق میں وصعت اور اس پر اُس نے تمہارے ہاتھ میں اپنے خزانوں کے کھولنے وا لی کنجیاں دے دی ہیں اس طرح کہ تمہیں اپنی بارگاہ میں سوال کرنے کا طریقہ بتایا ۔ اس طرح جب تم چاہو دعا کے ذریعے اس کی نعمت کے دروازوں کو کھلوالو ، اس کی رحمت کے جھالو ں کو برسا لو ۔

ہاں بعض اوقات قبولیت میں دیر ہو ، تو اس سے نا امید نہ ہو۔اس لئے کہ عطیہ نیت کے مطابق ہوتا ہے اور اکثر قبولیت میں اس لئے دیر کی جاتی ہے کہ سائل کے اجر میں اضافہ ہو ، اور امید وار کو عطیے اور زیادہ ملیں اور کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ تم ایک چیز مانگتے ہو اور وہ حاصل نہیں ہوتی مگر دنیا یا آخرت میں اس سےبہتر چیز تمہیں مل جاتی ہیں یا تمہارے کسی بہتر مفاد کے پیش نظر تمہیں اس سے محروم کردیا جاتا ہے اس لئے کہ تم کبھی ایسی چیز بھی طلب کر لیتے ہو کہ اگر تمہیں دے دی جائیں تو تمہارا دین تباہ ہو جا ئے ۔ لہذا تمہیں بس وہ چیز طلب کرنا چاہئےجس کا جمال پائیدار ہو اور جس کا وبال تمہارے سر نہ پڑنے والاہو ۔ رہا دنیا کا مال تو نہ یہ تمہارے لئے رہے گا ، اور نہ تم اس کے لئے رہو گے ۔

یاد رکھو تم آخرت کے لئے پیدا ہو ئے ہو ، نہ کہ دنیا کے لئے ، فنا کے لئے خلق ہو ئے ہو ، نہ بقا کے لئے، موت کے لئے بنے ہو نہ حیات کے لئے ، تم ایک ایسی منزل میں ہو جس کا کوئی ٹھکانا نہیں اور ایک ایسے گھر میں ہو جو آخرت کا سازو سامان مہیا کرنے کے لئے ہے اور صرف منزلِ آخرت کی گزرگاہ ہے ۔ تم وہ ہو جس کا موت پیچھا کئے ہوئے ہے ،جس سے بھاگنے والاچھٹکارا نہیں پاتا ۔ کتنا ہی کوئی چا ہئے ، اس کے ہاتھ سے نہیں نکل سکتا ۔ اور وہ بہرحال اسے پا لیتی ہے ، لہذا ڈرو اس سے کہ موت تمہیں ایسے گناہو کے عالم میں آجائے جن سے توبہ کے خیالات تم دل میں لاتے تھے ،مگر وہ تمہارے اور توبہ کے درمیان حائل ہو جائے۔ایسا ہُوا تو سمجھ لو کہ تم نے اپنے نفس کو ہلاک کر ڈالاہے۔

 اے فرذند ! موت کو اور اس منزل کو جس پر تمہیں اچانک وارد ہونا ہے اور جہاں موت کے بعد پہنچنا ہے، ہر وقت یاد رکھنا چاہئےتا کہ جب وہ آئے تو تم اپنا حفاظتی سروسامان مکمل اور اس کے لئے اپنی قوت مظبوط کر چکے ہو، اور وہ اچانک تم پر نہ ٹوٹ پڑے کہ تمہیں بے دست و پا کر دے ۔ خبر دار! دنیا داروں کی دنیا پرستی اور ان کی حرص و طمع جو تمہیں دکھائی دیتی ہے وہ تمہیں فریب نہ دے اس لئے کہ اللہ نے اس کا وصف خوب بیان کر دیا ہے ، اور دنیا نے خود بھی اپنی حقیقت وا ضح کر دی ہے اور اپنی برائیوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔

 اس(دنیا) کے گرویدہ بھونکنے والے کتے اور پھاڑ کھانے والے درندے ہیں، وہ آپس میں ایک دوسرے پر غراتے ہیں ۔ طاقتور کمزور کو نگلے لیتا ہے اور بڑا چھوٹے کو کچل رہا ہے ۔ ان میں کچھ    چوپا ئے بندھے ہو ئے اور کچھ چھٹے ہو ئے ہیں جنہوں نے اپنی عقلیں کھو دی ہیں اور انجانے راستے پر سوار ہو لئے ہیں ۔یہ دشوار گزار وادیوں میں آفتوں کی چراگاہ میں چھٹے ہوئے ہیں۔ نہ ان کا کوئی گلہ بان ہے جو ان کی رکھوالی کرے، نہ کو ئی چرواہا ہے جو انہیں چرائے ۔ دنیا نے ان کو گمراہی کے راستے پر لگایا ہے اور ہدایت کے مینار سے ان کی آنکھیں بند کر دی ہیں۔ یہ اس کی گمراہیوں میں سرگرداں اور اس کی نعمتوں میں غلطان ہیں ، اور اسے ہی اپنا معبود بنا رکھا ہے ۔ دنیا اُن سے کھیل رہی ہے ، اور یہ دنیا سے کھیل رہے ہیں اور اس کے آگے کی منزل کوبھولے ہوئے ہیں ۔

ٹھہرو !اندھیرا چھٹنے دو۔ گویا (میدان حشر میں ) سواریاں اتر ہی پڑی ہیں ۔ تیز قدم چلنے والوں کے لئے وہ وقت دور نہیں کہ اپنے قافلہ سے مل جائیں اور معلوم ہونا چاہئے کہ جو شخص لیل و نہار کے مرکب پر سوار ہے وہ اگرچہ ٹھہرا ہوا ہے مگر حقیقت میں چل رہا ہے ۔ اور اگرچہ ایک جگہ پر قیام کئے ہوئے ہے مگر مسا فت طے کئے جا رہا ہے اور یہ یقین کے ساتھ جانے رہو کہ تم اپنی آرزوؤں کو پورا کبھی نہیں کر سکتے ، اور جتنی زندگی لے کر آئے ہو اُس سے آگے نہیں بڑھ سکتے اور تم بھی اپنے پہلے والوں کی راہ پر ہو ،لہذا طلب میں نرم رفتاری اور کسب معاش میں میانہ روی سے کام لو ،کیونکہ اکثر طلب کا نتیجہ مال کا گنوانا ہوتا ہے ۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ رزق کی تلاش میں لگا رہنے والاکامیاب ہی ہو ، اور کدو و کاوش میں اعتدال سے کام لینے والامحروم ہی رہے ۔

ہر ذلت سے اپنے نفس کو بلند تر سمجھو ، اگرچہ وہ تمہاری من مانی چیزوں تک تمہیں پہنچا دے ۔ کیونکہ اپنے نفس کی عزت جو کھو دو گے ، اس کا بدل کوئی حاصل نہ کر سکو گے ۔ دوسروں کے غلام نہ بن جا ؤ جبکہ اﷲ نے تمہیں آزاد بنایا ہے ۔ اُس بھلائی میں کو ئی بہتری نہیں جو برائی کے ذریعے حاصل ہو اور اس آرام و آسائش میں کوئی بہتری نہیں جس کے لئے ( ذلت کی) دشواریا جھیلنا پڑیں ۔

خبر دار! تمہیں طمع و حرص کی تیز رو سواریا ں ہلاکت کے گھاٹ پر نہ لااتاریں ۔ اگر ہو سکے تو یہ کرو کہ اپنے اور اﷲکے درمیان کسی ولیٔ نعمت کو واسطہ نہ بننے دو کیو نکہ تم اپنا حصہ اور اپنی قسمت کا پا کر رہو گے ۔ وہ تھوڑا جو اﷲسے بے منّتِ خلق ملے اس بہت سے کہیں بہتر ہے جو مخلوق کے ہاتھوں سے ملے ۔ اگرچہ حقیقتاً جو ملتا ہے اﷲہی کی طرف سے ملتا ہے ۔بے محل خاموشی کا تدارک بے موقعہ گفتگو سے آسان ہے ۔ برتن میں جو ہے اس کی حفاظت یو نہی ہو گی کہ منہ بند رکھو اور جو کچھ تمہارے ہاتھ میں ہے اس کو محفوظ رکھنا دوسروں کے آگے دستِ طلب بڑھانے سے مجھے زیادہ پسند ہے۔ یاس کی تلخی سہہ لینا لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بہتر ہے ۔

پاک دامانی کے ساتھ محنت مزدوری کر لینا فسق و فجور میں گھری ہو ئی دولت مندی سے بہتر ہے انسان خود ہی اپنے راز کوخوب چھپا سکتا ہے ۔ بہت سے لوگ ایسی چیز کے لئے کو شا ں ہو تے ہیں ،جو ان کے لئے ضرر رساں ثابت ہوتی ہے ۔جو زیادہ بولتا ہے وہ بے معنی باتیں کرنے لگتا ہے ۔ سوچ بچار سے قدم اٹھانے والا(صحیح راستہ) دیکھ لیتا ہے۔ نیکوں سے میل جول رکھو گے تو تم بھی نیک ہو جاؤ گے ، بروں سے بچے رہو گے تو ان کے اثرات سے محفوظ رہو گے ۔ بد ترین کھانا وہ ہے جو حرام ہو ۔ اور بد ترین ظلم وہ ہے جو کسی کمزور و نا تواں پر کیا جائے ۔ جہاں نرمی سے کام لینا نامناسب ہو، وہاں سخت گیری ہی نرمی ہے ۔کبھی کبھی دوا بیماری، اور بیماری دوا بن جا یا کرتی ہے ۔ کبھی بد خواہ بھلائی کی راہ سوجھا دیا کرتا ہے ، اور دوست فریب دے جاتا ہے ۔

 خبر دار ! امیدوں کے سہارے پر نہ بیٹھنا ، کیونکہ امیدیں احمقوں کا سر مایہ ہوتی ہیں ۔ تجربوں کو محفوظ رکھنا عقلمندی ہے ۔بہترین تجربہ وہ ہے جو پندو نصیحت دے ۔ فرصت کا مو قع غنیمت جا نو ،قبل اس کےکہ وہ رنج و اندوہ کا سبب بن جائے ۔ہر طلب وسعی کرنے والامقصد کو پا نہیں لیا کرتا ، اور ہر جا نے والاپلٹ کر نہیںآیا کرتا ۔ توشہ کا کھو دینا اور عاقبت بگاڑ لینا بربادی و تباہ کاری ہے۔ ہر چیز کا ایک نتیجہ و ثمر ہوا کرتا ہے ۔جو تمہارے مقدر میں ہے وہ تم تک پہنچ کر رہے گا ۔ تا جر اپنے کو خطروں میں ڈالاہی کرتا ہے ۔ کبھی تھوڑا مال مالِ فراواں سے زیادہ با برکت ثابت ہوتا ہے ۔

پست طینت مددگار میں کوئی بھلائی نہیں اور نہ بد گمان دوست میں۔ جب تک زمانہ کی سواری تمہارے قابو میں ہےاس سے نباہ کرتے رہو ۔ زیادہ کی امید میں اپنے کو خطروں میں نہ ڈالو ۔ خبر دار ! کہیں دشمنی و عناد کی سواریا ں تم سے منہ زوری نہ کرنے لگیں ۔ اپنے کو اپنے بھائی کے لئے اس پر آمادہ کرو کہ جب وہ دوستی توڑے تو تم اسے جوڑو، وہ منہ پھیرے تو تم آگے بڑھو اور لطف و مہربانی سے پیش آؤ۔ وہ تمہارے لئے کنجوسی کرے تم اس پر خرچ کرو ۔وہ دوری اختیار کرے تو تم اس کے نزدیک ہونے کی کوشش کرو ، وہ سختی کرتا رہے اور تم نرمی کرو ، وہ خطا کا مرتکب ہو اور تم اس کے لئے عذر تلاش کرو ، یہاں تک کہ گویا تم اس کے غلام اور وہ تمہارا آقائے نعمت ہے ۔

 مگر خبر دار یہ برتاؤ بے محل نہ ہو ،اور نااہل سے یہ رویہ نہ اختیار کرو ۔ اپنے دوست کے دشمن کو دوست نہ بناؤ ورنہ اس دوست کے دشمن قرار پاؤ گے ۔ دوست کو کھری کھری نصیحت کی باتیں سناؤ خواہ اسے اچھی لگیں یا بری ۔ غصہ کے کڑوے گھونٹ پی جاؤ ، کیونکہ میں نے نتیجہ کے لحاظ سے اس سے زیادہ خوش مزہ و شیر یں گھونٹ نہیں پائے ۔جو شخص تم سے سختی کے ساتھ پیش آئے اُس سےنرمی کا برتاؤ کرو،کیونکہ ِاس رویہ سے وہ خود ہی نرم پڑ جائے گا ۔ دشمن پر لطف و کرم کے ذریعہ سے راہ چارہ و تدبیرمسدود کرو، کیونکہ دو قسم کی کامیابیوں میں یہ زیادہ مزے کی کامیابی ہے ۔

 اپنے کسی دوست سے تعلقات قطع کرنا چاہو، تو اپنے دل میں اتنی جگہ رہنے دو کہ اگر اس کا رویہ بدلے تو اس کے لئے گنجائش ہو ۔ جو تم سے حسن ظن رکھے، اس کے حسن کے ظن کو سچا ثابت کرو ۔ باہمی روابط کی بنا ء پر اپنے کسی بھائی کی حق تلفی نہ کرو۔ کیونکہ پھر وہ بھائی کہاں رہا جس کا حق تم تلف کرو۔یہ نہ ہونا     چا ہئے کہ تمہارے گھر والے تمہارے ہاتھوں دنیا جہاں میں سب سے زیادہ بد بخت ہو جا ئیں ۔ جو تم سے تعلقات قائم رکھنا پسند ہی نہ کرتا ہو ، اس کے خواہ مخواہ پیچھے نہ پڑو ۔تمہارا دوست قطع تعلق کرے تو تم رشتۂ  محبت جوڑنے میں اس پر بازی لے جاؤ ،اور وہ برائی سے پیش آئے تو تم حُسنِ سلوک میں اس سے بڑھ جاؤ ۔ ظالم کا ظلم تم پر گراں نہ گزرے کیونکہ وہ اپنے نقصان اور تمہارے فائدے کے لئے سر گرمِ عمل ہے اور جو تمہاری خوشی کا باعث ہو ،اُس کا صلہ یہ نہیں کہ اس سے برائی کرو۔

اے فرزند ! یقین رکھو کہ رزق دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک وہ جس کی تم جستجو کرتے ہو اور ایک وہ جو تمہاری جستجو میں لگا ہوا ہے ، اگر تم اس کی طرف نہ جا ؤ گے تو بھی وہ تم تک آ کر رہے گا ۔ ضرورت پڑنے پر گڑگڑانا اور مطلب نکل جانے پر کج خلقی سے پیش آنا کتنی بری عادت ہے ۔ دنیا سے بس اتنا ہی اپنا سمجھو جس سے اپنی عقبیٰ کی منزل سنوار سکو ۔ اگر تم ہر اس چیز پر جو تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ، واویلامچاتے ہو تو پھر ہر اس چیز پر رنج و افسوس کرو کہ جو تمہیں نہیں ملی ۔ مو جودہ حالات سے بعد کے آنے والے حالات کا قیاس کرو۔اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ کہ جن پر نصیحت اس وقت تک کارگر نہیں ہوتی جب تک انہیں پوری طرح تکلیف نہ پہنچائی جائے ۔ کیونکہ عقل مند باتوں سے مان جاتے ہیں ، اور حیوان لاتوں کے بغیر نہیں مانا کرتے ۔ ٹوٹ پڑنے والے غم و اندوہ کو صبر کی پختگی اور حسن یقین سے دور کرو ۔ جو درمیانی راستہ چھوڑ دیتا ہے وہ بے راہ ہو جاتا ہے۔ دوست بمنزلہ ٔعزیز کے ہوتا ہے۔ سچا دوست وہ ہے جو پیٹھ پیچھے بھی دوستی کو نبھاتا ہے ہوا و ہوس سے زحمت میں پڑنا لازمی ہے ۔ بہت سے قریبی بے گانو ں سے بھی زیادہ بے تعلق ہوتے ہیں اور بہت سے بیگانے قریبیوں سے بھی زیادہ نزدیک ہوتے ہیں۔ پردیسی وہ ہے جس کا کوئی دوست نہ ہو۔جو حق سے تجاوز کر جاتا ہے اس کا راستہ تنگ ہو جاتا ہے ۔جو اپنی حیثیت سے آگے نہیں بڑھتا اس کی منزل برقرار رہتی ہے ۔

 تمہارے ہاتھوں میں سب سے زیادہ مضبوط وسیلہ وہ ہے جو تمہارے اور اﷲکے درمیان ہے ۔ جو تمہاری پرواہ نہیں کرتا وہ تمہارا دشمن ہے ۔ جب حرص و طمع تباہی کا سبب ہو تو مایوسی ہی میں کامرانی ہے ۔ ہر عیب ظاہر نہیں ہوا کرتا ۔ فرصت کا موقع باربار نہیں ملاکرتا ۔ کبھی آنکھوں والاصحیح راہ کھو دیتا ہے اور اندھا صحیح راستہ پا لیتا ہے ۔ برائی کو پس پشت ڈالتے رہو کیونکہ جب چاہو گے اس کی طرف بڑھ سکتے ہو ۔ جاہل سے علاقہ توڑنا ، عقلمند سے رشتہ جوڑنے کے برابر ہے۔ جو دنیا پر اعتماد کر کے مطمئن ہو جاتا ہے، دنیا اسے دغا دے جاتی ہے ، اور جو اسے عظمت کی نگاہوں سے دیکھتا ہے وہ اسے پست و ذلیل کرتی ہے ۔ ہر تیر انداز کا نشانہ ٹھیک نہیں بیٹھا کرتا ۔ جب حکومت بدلتی ہے تو زمانہ بدل جاتا ہے ۔ راستے سے پہلے شریکِ سفر اور گھر سے پہلے ہمسایہ کے متعلق پوچھ گچھ کر لو ۔

خبر دار! اپنی گفتگو میں ہنسانے والی باتیں نہ لاؤ ، اگرچہ وہ نقلِ قول کی حیثیت سے ہو ں۔عورتوں سے ہرگز مشورہ نہ لو کیونکہ ان کی رائے کمزور اور ارادہ سست ہوتا ہے ۔ انہیں پردہ میں بٹھا کر ان کی آنکھوں کو تاک جھانک سے روکوں ۔ کیونکہ پردہ کی سختی ان کی عزت و آبرو کو برقرار رکھنے والی ہے ۔ ان کا گھروں سے نکلنا اس سے زیادہ خطر ناک نہیں ہوتا جتنا کسی نا قابل اعتماد کو گھر میں آنے دینا ، اور اگر بن پڑے تو ایسا کرو کہ تمہارے علاوہ کسی اور کو وہ پہچانتی ہی نہ ہو ں۔

 عورت کو کو اس کے ذاتی امور کے علاوہ دوسرے اختیارات نہ سونپو کیونکہ عورت ایک پھول ہے وہ کار فرما اور حکمران نہیں ہے ۔ اس کا پاس و لحاظ اس کی ذات سے آگے نہ بڑھاؤ اور یہ حوصلہ پیدا نہ ہونے دو کہ وہ دوسروں کی سفارش کرنے لگے ۔ بے محل شبہہ بد گمانی کا اظہار نہ کرو کہ اس سے نیک چلن اور پاک باز عورت بھی بے راہی اور بد کرداری کی راہ دیکھ لیتی ہے ۔

 اپنے خدمت گزاروں میں ہر شخص کے لئے ایک کام معیّن کردو ، جس کی جواب دہی اس سے کر سکو ۔ اس طریق کار سے وہ تمہارے کاموں کو ایک دوسرے پر نہیں ٹالیں گے ۔اپنے قوم قبیلے کا احترام کرو کیونکہ وہ تمہارے ایسے پرو بال ہیں کہ جن سے تم پرواز کر تے ہو ، اور ایسی بنیادیں ہیں جن کا تم سہارا لیتے ہو ، اور تمہارے وہ دست و بازو ہیں جن سے حملہ کرتے ہو ۔ میں تمہارے دین اور تمہاری دنیا کو اللہ کے حوالے کرتا ہوں ،اور اس سے حال و مستقبل اور دنیا و آخرت میں تمہارے لئے بھلائی کے فیصلہ کا خواستگار ہو ں ۔ والسلام ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button