Warning: call_user_func_array() expects parameter 1 to be a valid callback, class '' not found in /home/hp3-linc1-nfs1-x/253/506253/user/htdocs/wp-includes/class-wp-hook.php on line 324
علامہ علی نقی نقویؒ کے تاثرات اور نہج البلاغہ کے بارےمیں گفتگو - مرکز افکار اسلامی
مقالاتنہج البلاغہ مقالات

علامہ علی نقی نقویؒ کے تاثرات اور نہج البلاغہ کے بارےمیں گفتگو

طویل اور خطرناک علالت جس وقت کو قریب سے قریب تر لا رہی تھی بالآخر وہ آگیا اور مفتی جعفر حسین صاحب ہم سے جدا ہو گئے ان کی وفات کا جو قلبی صدمہ مجھے ہوا، نہ اس کے اظہار کے لیے میرے پاس لفظیں ہیں نہ ان کے اظہار کی کوئی ضرورت ہے۔ ان کا جس طرح کا ربط مجھ سے تھا وہ آخر تک قائم رہا۔ وہ بہت سوں کو معلوم ہے اور خود ان کے قول و عمل سے اس کا برابر اظہار ہوتا رہا جو ان کی عظمت نفس کی بڑی دلیل ہے۔

ان میں جس طرح خوب سے خوب تر کے قبول کرنے کی صلاحیت تھی وہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نو عمری میں لکھنؤ گئے تو پنجابی ہوتے ہوئے اسی وقت انہوں نے بہت کم عرصے میں لکھنویت کو اس طرح جذب کر لیا کہ شروع شروع جب مجھ سے ملے ہیں جس کا حال انہوں نے خود اپنی ایک تحریر میں لکھا ہے تو مجھے اگر بتاتے نہ کہ وہ پنجاب کے ہیں تو میں اسے سمجھ نہیں سکتا تھا آخر تک وہ ایسے ہی رہے کہ اگر ان کا وطن کسی کو معلوم نہ ہو تو ان کی رفتار گفتار سے کسی طرح بھی سمجھ نہیں سکتا تھا کہ وہ یو پی کے نہیں بلکہ پنجاب کے، لکھنؤ کے نہیں بلکہ گوجرانوالہ کے باشندے ہیں۔ لکھنؤ میں وہ آغا جعفر صاحب کہلاتے تھے اور ان کے خاص ساتھی مولانا حسین مہدی صاحب ہیں جو آخر میں مدرسہ ناصریہ جونپور کے پرنسپل تھے وہاں سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد مجھے ان کے متعلق کوئی علم نہیں ہے۔ غالباً مولانا سید ایوب حسین صاحب موسوی ممتاز الافاضل بھی ان کے ساتھی ہیں جو فاطمہ کالج لکھنؤ سے بحیثیت مدرس تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ مولانا آغا حیدر صاحب بحیثیت عالم دین اکثر افریقہ میں رہے اور رہتے ہیں، حکیم سید محمد اطہر صاحب ممتاز الافاضل بھی دور آخر میں لکھنؤ کے ممتاز طبیب حاذق ہونے کے علاوہ مدرسہ ناظمیہ میں معقولات کے مدرس تھے وہ بھی شاید ان کے ہم درس ہوں۔ لکھنؤ کے زمانہ طالب علمی میں عام تصور یہ تھا کہ ان پر عربی ادب کا ذوق غالب ہے چنانچہ جیسا کہ انہوں نے خود لکھا ہے کہ مجھ سے ملنے کی تقریب بھی یہی ہو مگر عراق جا کر فقہ و اصول سے تعلق ان پر ایسا غالب ہوا پھر آخری لمحہ بھی ان کا فقہ جعفری کے سلسلے میں جہاد کے ساتھ وابستگی کے عالم میں آیا اور انہوں نے اس میں اپنی عمر اور صحت جسمانی کے تقاضے کے خلاف ایسی مسلسل جدوجہد کی کہ انہیں ”فدیہ فقہ جعفری“ کہنا درست ہوگا۔

ایک جوہر خاص ان کا یہ تھا کہ سوچنے سے زیادہ عمل کے قائل تھے چنانچہ انہوں نے چاہا کہ مجھ سے اپنا ترجمہ نہج البلاغہ کا بسیط مقدمہ لکھوائیں تو اگر وہ بذریعہ خطوط مجھ سے تحریک کرتے رہتے یا تو میں ایک مختصر مقدمہ لکھ کر ان کی فرمائش کی رسمی تعمیل کر دیتا جو انہیں منظور نہ تھا یا میں اس کا ارادہ رکھتے ہوئے وعدہ کر لیتا اس کی تکمیل بلا مبالغہ شاید برسوں میں ہوتی لہذا انہوں نے یہ راہ اختیار کی مجھ سے کہے یا لکھے بغیر ہندوستان پہنچ گئے چونکہ پاسپورٹ اور ویزا وغیرہ کی اتنی پابندیاں اس وقت عائد نہیں ہوئی تھی اور لکھنؤ پہنچ کر غالباً اپنے (مادر درس گاہ) مدرسہ ناظمیہ میں سامان رکھ کر سیدھے میرے مکان (واقع عبدالعزیز روڈ لکھنؤ) پر آگئے اور مجھ سے کہا کہ میں نے یہ سفر فقط آپ سے مقدمہ لکھوانے کے لیے کیا ہے اور وہ بس اس طرح ہو سکتا ہے کہ وقت مقرر کر دیجیے میں روز آؤں گا۔ آپ بولتے جائیے میں لکھتا جاؤں گا۔

چونکہ عرصہ سے میں اپنے ذہن میں اس موضوع پر ایک مقالہ لکھنے کے لیے مواد فراہم کیے ہوئے تھا۔ میں نے ان کی اس پیشکش کو اپنے مقصود کے حصول کے لیے نعمت غیر مترقبہ سمجھا اور فورا وقت مقرر کر دیا چنانچہ روز ایک گھنٹہ کے لیے وقت معین پر پہنچ جاتے تھے۔

میں بولتا جاتا تھا وہ لکھتے جاتے تھے۔ اس ذیل میں محولہ کتابوں اور مندرجہ شخصیات کے نام میں نے اپنے حافظے کی بنیاد پر لکھائے مگر ان کتابوں کی طرف رجوع کر کے ان کے صفحات کے تعین اور جن شخصیات کے نام آئے ہیں ان کے سالہائے وفات کا اندراج یہ تمام خود ان پر چھوڑے جنہیں میرے حسب دلخواہ انہوں نے انجام دیا۔ اس طرح اپنی قلمی کاوش سے میرا علمی ذہنی سرمایہ محفوظ کر دیا جو لوگوں کی نظر میں اتنی اہمیت کا حامل ثابت ہوا کہ اردو اور نیز انگریزی میں الگ بھی اور نہج البلاغہ کا ضمیمہ بنا کر بھی اس کے اتنے ایڈیشن شائع ہوئے جن کا شاید پورا علم بھی مجھ کو نہیں ہے۔

آب یہ واقعہ ایک لطیفہ کی حیثیت رکھتا ہے کہ ایک صاحب نے لندن سے مجھے خط لکھ کر کسی بیان کی ہوئی ناقابل قبول حقائق سمجھتے ہوئے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا واقعی آپ نے اس مقدمے کو ”قلم برداشتہ“ لکھا تھا؟ میں نے جواب دیا جی نہیں میں نے اس کے لیے قلم اٹھانے کی زحمت برداشت نہیں کی۔

یہ جواب میرا ان کے لیے ضرور ایک لقمے کی حیثیت رکھتا ہوگا مگر؟ اس کی تحریر کی کیفیت میں نے لکھی ہے اس لحاظ سے جواب بالکل واقفیت پر مبنی ہے۔

اس کے ساتھ ان کا یہ کارنامہ بھی ان سے خاص تھا چونکہ اس زمانے میں میرے سفر پنجاب وغیرہ کی طرف سال میں کئی دفعہ ہوتے تھے ان سفروں میں اپنے سب کام چھوڑ کر میرے ساتھ ہو جاتے تھے اور تنہائی کے موقع کی تلاش کیے بغیر حاضرین کی موجودگی کو نظر انداز کر کے بلا تکلف وہ اپنا ترجمہ نہج البلاغہ کا جس کی تحریر میں وہ مصروف تھے مجھے سناتے تھے۔ اس طرح تقریباً پورے ترجمے کو اور بعض حواشی کو بھی جہاں ان کو ضرورت محسوس ہوئی مجھے سنایا۔

اس کارنامے کے انجام دینے میں ان کی وہ عظمت نفس شامل تھی جو راست بازی کے کمال کے ساتھ ان کی طبیعت کی سادگی اور ہر قسم کے تصنع سے بے تعلقی کے بھی جو ہر دو کی حامل تھی اور ان کا دل تو یہ چاہتا تھا کہ اب ترجمہ صحیفہ کاملہ بھی میری ہی تحریک سے انہوں نے لکھا تھا بعد کی کتابیں بھی سب مجھ کو اسی طرح سنا کر شائع کریں مگر اس کے بعد پاسپورٹ اور ویزا وغیرہ کی دشواریاں ایسی ہوئیں کہ اس سفر کے بعد پھر ان کا بھی ہندوستان آنا نہ ہوا میرے بھی سفر ادھر کے موقوف ہو گئے جس کے بعد سمجھنا چاہیے کہ ہم دونوں ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔

جب اس دور میں پہلے سال میرا پاکستان جانا ہوا تو وہ اس سال عشرہ محرم جھنگ میں پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے میرے کراچی آنے کا حال سنا تو ٹیلی فون پر مجھ سے رابطہ قائم کرنا چاہا مگر میں ٹیلی فون پر بات نہیں کرتا لہذا بالواسطہ ان کا پیغام مجھ تک پہنچا اور مولانا غلام عباس صاحب نجفی جھنگ سے مجھے بلانے کے لیے آئے مگر اس وقت کراچی میں دو مہینے تک کے وعدے کا پابند ہو گیا تھا لہذا کہیں اور جانا میرے لیے ممکن نہیں تھا۔ اس لیے اس دفعہ ان کی اور میری باہمی ملاقات نہ ہو سکی۔ یہی سال وہ تھا جب فقہ جعفری کے سلسلے میں ان کا جہاد عروج پر پہنچا اور بھکر کا عظیم اجتماع ہوا جس میں وہ قوم کے قائد تسلیم کیے گئے اور پھر ان کے اسلام آباد والا کارنامہ عالم ظہور میں آیا۔

اب جو محرم آیا اس سال کراچی کے بعد میں اسلام آباد گیا اور خواجہ محمد مرتضیٰ صاحب کے ہاں قیام ہوا تو مفتی صاحب گوجرانولہ کے لیے میرا پروگرام طے کرانے کے لیے میرے پاس اسلام آباد آئے۔ میں نے دیکھا کہ اتنے بڑے اعزاز کے حصول نے ان میں ذرا بھر تبدیلی نہیں کی تھی یہ مزید ان کی عظمت نفس کی دلیل ہے۔

دو سال ایام عزاء میں کئی کئی دفعہ لاہور ، گوجرانوالہ میں ملاقات ہوتی رہی۔ سال گزشتہ 1403ھ عشرہ محرم سے پہلے یہ کراچی میں میرے پاس دو دفعہ آئے۔ معلوم ہوا کہ دبئی عشرہ پڑھنے جا رہے ہیں۔ وہاں سے واپس میں آئے پھر مجھ سے ملے۔ میں نے محسوس کیا بہت نڈھال ہیں۔ میں تو اس کو تھکن اور نیند کا غلبہ سمجھا اور ظاہر کیا، تب بھی انہوں نے اپنی علالت کا حال بیان نہیں کیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ انہیں تو اس سے پہلے منہ سے خون آچکا تھا اور تیز بخار رہ چکا تھا۔ دبئی میں مجالس بھی کامیابی کے ساتھ وہ بخار کے عالم میں پڑھیں۔

میرے قیام کراچی میں لاہور والے شریف صاحب کے بھائی جناب ناظم علی صاحب ہر سال اپنی کوٹھی پر کسی خاص موضوع پر جس کا پہلے سے اعلان ہو جاتا ہے میری بیان کے لیے ایک بڑی اہم اور عظیم الشان مجلس کرتے ہیں۔ ان دونوں بھائیوں کو مفتی صاحب سے بڑی خاص خصوصیت رہی ہے اس لیے ناظم صاحب نے ان سے پہلے سے طے کر لیا تھا کہ دبئی سے واپسی میں ان کی مجلس میں شرکت کے بغیر اپنے وطن گوجرانوالہ نہیں جائیں گے۔ چنانچہ انہوں نے اس وعدے کی پابندی کرتے ہوئے ان کی خاطر سے کراچی میں قیام کیا اور اس مجلس میں جو کراچی میں میرے سلسلہ مجالس کی آخری مجلس ہے اس کے بعد والے طعام میں شرکت فرما دوسرے دن جب کہ میں اسلام آباد لیے روانہ ہوا وہ اپنے وطن کے لیے روانہ ہوئے شاید مرض الموت والے لاہور لندن کے ہسپتالوں کے سفروں کے سوا یہ ان کا دور دراز کا آخری سفر تھا۔

اس کے بعد جب میں لاہور گیا اور مولانا اظہر حسن صاحب زیدی کی ملاقات کے لیے ان کے مکان پر گیا تو وہاں پر مفتی صاحب، اختر حسین صاحب شائق کی معیت میں موجود تھے اور یہاں حضرت اظہر حسن صاحب زیدی کے ہمراہ ہماری ان کی شائق صاحب وغیرہ کی شرکت کے ساتھ وہ تصویر کھینچی جو بطور یادگار میرے پاس علی گڑھ میں محفوظ ہے۔ اس کے بعد گوجرانوالہ میں خود ان کے مدرسہ جعفریہ میں جہاں گوجرانوالہ کے قیام میں پہلے ہی سال سے ان کی تحریک پر میرا جانا ضروری ہو گیا ہے۔ اور اس کے بعد خواجہ رفعت علی صاحب پانی پتی کے یہاں کی دعوت میں جو ان کے باغ میں ہوتی ہے کئی گھنٹے مسلسل ملاقات رہی جس نے ان کی بیماری اور اس کے باوجود پابندی کے ساتھ مدرسہ میں حاضری، غذا کی طرف سے بے اعتنائی اور برابر منہ سے خون آنے اور بخار کے تسلسل کی کیفیت تفصیل سے معلوم ہوئی۔ اسی وقت شریف صاحب نے ارادہ ظاہر کیا کہ وہ آب انہیں لاہور لے جائیں گے اور وہاں علاج ہوگا۔

بس یہ آخری ملاقات تھی اس کے بعد میں نے فیصل آباد میں پنجاب کے پروگرام کی آخری مجلس جو اس سلسلے کی انتہا پر ہوتی ہے پڑھ کر پاکستان سے رخصت ہونے کے لیے کراچی کی طرف مراجعت کی اور وہ اس کے بعد نامعلوم کتنے وقت کے بعد حسب قرار داد لاہور لے جائے گئے۔ جس کے بعد خطوط اور اخباروں سے پتا چلتا رہا کہ اپنے سفر حیات کی آخری منزل کی طرف تیزی کے ساتھ جا رہے ہیں جہاں آخر میں ان کے پہنچ جانے کی اطلاع غالباً ریڈیو کی نشریہ سے معلوم ہوئی جسے ہندوستانی اخباروں میں بھی نمایاں طور پر شائع کیا اور لکھنؤ میں بھی ان کی ایصال ثواب کی مجلس ناظمیہ کالج میں بھی ہوئی اور مومنین کی طرف سے بھی مرکزی امام باڑے میں اور علی گڑھ میں امامیہ مسجد میں فاتحہ خوانی کی مجلس ہوئی جس میں میرا بیان ہوا۔

میرا گوجرانوالہ میں اس دفعہ جانا ہوا تو ان کے مکان پر بھی جانا ہوا ان کے مدرسہ جعفریہ میں حاضری دی اور خواجہ رفعت علی صاحب کے یہاں کی دعوت میں شرکت کی۔ سب کام جس ترتیب سے دو برس سے ہو رہے تھے آب کے بھی ہوئے مگر اس مرتبہ وہ نہ تھے انا للہ وانا الیہ راجعون

یہ واقعہ ہے کہ ان کی زندگی میں ان کے قائد ملت جعفریہ مانے جانے سے پہلے ہی بعض اشخاص غالباً برابر ان کے خلاف زبان درازی کیے رہے اور ان کے قائد مانے جانے کہ تو اعلانیہ تحریری طور پر ان کو نشانہ بنا کر دراندازی کی مہم اختیار کی جو ان کے بستر الموت میں بلکہ تقریبا آخری لمحات جب کہ ہسپتال میں کشمکش حیات موت میں تھے پوری قوت کے ساتھ جاری رہی مگر ان تیروں سے نہ کبھی وہ ذرہ بھر متاثر ہوئے نہ مشتعل۔ یہ ان کی عظمت نفس کا وہ درجہ تھا جس تک بہت کم افراد کا پہنچنا ممکن ہوتا ہے۔

وہ خوش بیان مقرر تھے اور مقبول اول منبر میں تھے مگر انہوں نے اس کو ارزاں مقبولت کی تن آسانی کے دامن پناہ لے کر ٹھوس اور دیرپا ملی و دینی خدمت سے کنارہ کشی نہیں کی جو ان کی تصنیف اور قائم کردہ عظیم الشان مدرسے سے ظاہر ہے جسے آب قائم رہنا اور ترقی دینا قوم کے ہاتھ میں ہے۔

عموماً قوم ناقدر شناس ثابت ہوئی ہے مگر ان کی زندگی میں قوم کی ایک غیر معمولی اکثریت نے جسے تقریباً تمام قوم کہا جاسکتا ہے انہیں قائد تسلیم کر کے اور اس سے زیادہ ان کی وفات کے بعد جنازے کے اعزاز اور ان کی وفات پر اظہار تاثرات میں اس قدر شناسی کاثبوت دیا ہے، اس سے زندگی میں انہوں نے کبھی کسی فائدے کے اٹھانے کا تصور نہیں کیا اور آب تو اس دنیوی عزت سے انہیں کسی فائدے کی پہنچنے کا امکان ہی باقی نہیں رہا۔ مگر خود قوم نے اپنی حق بجانب انسان شناسی اور احسان شناسی کا جو ثبوت دیا اس نے یقیناً خود قوم کے وقار کو ہر یگانا اور بیگانہ کی نگاہ میں اور امید ہے کہ باری تعالیٰ کی بارگاہ میں بھی بلند کیا ہے جس سے وہ اس مصیبت پر تعزیت کے ساتھ مستحق مبارک باد بھی ہیں۔

رہ گئے وہ ان کے لیے وثوق کے ساتھ کیا جا سکتا ہے اس منزل سے بہتر منزل میں پہنچ گئے جہاں راحت و آرام کے سوا کسی اور تکلیف و اذیت کا گزر نہیں ہے۔ فروح وريحان وَجَنَّت نعیم خدا کرے ان کے ساتھ ہم بھی اس کے مصداق ہوں۔
رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا

سوگوار
علی نقی النقوی
24 صفر، 1404ھ
شارجہ عرب امارات

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button