سیرت و احوال: حضرت امام علی رضا علیہ السلام

السلام علیک یا علی بن موسی الرضا
علماء و مورخین کابیان ہے کہ آپ بتاریخ 11 ذی قعدہ 153ھ بروز جمعرات بمقام مدینہ منورہ متولد ہوئے۔
(اعلام الوری ص ۱۸۲، جلاء الیعون ص ۲۸۰، روضة الصفا جلد ۳ ص ۱۳، انوار النعمانیہ ص ۱۲۷)
آپ کی ولادت کے متعلق علامہ مجلسی اور علامہ محمد پارسا تحریر فرماتے ہیں کہ جناب ام البنین نجمہ خاتون کا کہنا ہے کہ جب تک امام علی رضا علیہ السلام میرے بطن میں رہے مجھے گل کی گرانباری مطلقا محسوس نہیں ہوئی، میں اکثر خواب میں تسبیح و تہلیل اور تحمید کی آوازیں سنا کرتی تھی جب امام رضا علیہ السلام متولد ہوئے تو آپ نے زمین پر تشریف لاتے ہی اپنے دونوں ہاتھ زمین پرٹیک دیے اور اپنا فرق مبارک آسمان کی طرف بلند کر دیا آپ کے لب ہائے مبارک جنبش کرنے لگے، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے آپ خدا سے کچھ باتیں کررہے ہیں، اسی اثناء میں امام موسی کاظم علیہ السلام تشریف لائے اور مجھ سے ارشاد فرمایا کہ تمہیں خداوند عالم کی یہ عنایت و کرامت مبارک ہو، پھرمیں نے مولود مسعود کو آپ کی آغوش میں دیے دیا آپ نے اس کے داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا کہ ”بگیر این را کہ بقیہ خدا است در زمین حجت خدا است بعد از من“ اسے لے لو یہ زمین پر خدا کی نشانی ہے اور میرے بعد حجت اللہ کے فرائض کا ذمہ دار ہے ابن بابویہؒ فرماتے ہیں کہ آپ دیگر آئمہ علیہم السلام کی طرح مختون اور ناف بریدہ متولد ہوئے۔
(فصل الخطاب وجلاء العیون ص ۲۷۹) ۔
نام ،کنیت،القاب
آپ کے والد ماجد حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے لوح محفوظ کے مطابق اور تعیین رسول ﷺ کے موافق آپ کو اسم ”علی“ سے موسوم فرمایا، آپ آل محمد، میں کے تیسرے ”علی“ ہیں
(اعلام الوری ص ۲۲۵ ،مطالب السئول ص ۲۸۲)
آپ کی کنیت ابو الحسن تھی اور آپ کے القاب صابر، زکی، ولی، رضی، وصی تھے۔ و اشہرھا الرضاء اور مشہور ترین لقب رضا تھا۔
(نور الابصار ص ۱۲۸ و تذکرة الخواص الامة ص ۱۹۸)
لقب رضا کی توجیہ
علامہ طبرسی تحریر فرماتے ہیں کہ آپ کورضا اس لیے کہتے ہیں کہ آسمان و زمین میں خداوند عالم، رسول اکرم ﷺ اور آئمہ طاہرین، نیز تمام مخالفین و موافقین آپ سے راضی تھے۔
(اعلام الوری ص ۱۸۲)
علامہ مجلسی تحریر فرماتے ہیں کہ بزنطی نے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سے لوگوں کی افواہ کاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ کے والد ماجد کو لقب رضا سے مامون رشید نے ملقب کیا تھا آپ نے فرمایا ہرگز نہیں یہ لقب خدا ور رسول کی خوشنودی کا جلوہ بردار ہے اور خاص بات یہ ہے کہ آپ سے موافق و مخالف دونوں راضی اور خوشنود تھے۔
(جلاء العیون ص ۲۷۹، روضة الصفاجلد ۳ ص ۱۲)
آپ کی تربیت
آپ کی نشوونما اور تربیت اپنے والدبزرگوارحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے زیرسایہ ہوئی اور اسی مقدس ماحول میں بچپن اور جوانی کی متعددمنزلیں طے ہوئیں اور ۳۰ برس کی عمرپوری ہوئی اگرچہ آخری چندسال اس مدت کے وہ تھے جب امام موسی کاظمؑ عراق میں قید و ظلم کی سختیاں برداشت کررہے تھے مگر اس سے پہلے ۲۴ یا ۲۵/ برس آپ کو برابر اپنے پدر بزرگوار کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔
السلام علیک یا علی بن موسی الرضا
بادشاہان وقت
آپ نے اپنی زندگی کی پہلی منزل سے تا بہ عہد وفات بہت سے بادشاہوں کے دور دیکھے آپ ۱۵۳ھ میں بہ عہد منصور دوانقی متولد ہوئے (تاریخ خمیس) ۱۵۸ھ میں مہدی عباسی ۱۶۹ھ میں ہادی عباسی ۱۷۰ھ میں ہارون رشید عباسی ۱۹۴ھ میں امین عباسی ۱۹۸ھ مامون رشید عباسی علی الترتیب خلیفہ وقت ہوتے رہے۔
(ابن الوردی حبیب السیر ابو الفداء)
آپ نے ہر ایک کا دور بچشم خود دیکھا اور آپ پدربزرگوار نیزدیگر اولاد علی و فاطمہ کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا، اسے آپ ملاحظہ فرماتے رہے یہاں تک کہ ۲۳۰ھ میں آپ کو زہر دے کر شہید کر دیا گیا اور آپ دنیا سے رخصت ہو گئے۔
جانشینی
آپ کے پدر بزرگوارحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کو معلوم تھا کہ حکومت وقت جس کی باگ ڈور اس وقت ہارون رشید عباسی کے ہاتھوں میں تھی آپ کو آزادی کی سانس نہ لینے دے گی اور ایسے حالات پیش آ جائیں گے کہ آب کی عمر کے آخری حصہ میں اور دنیا کو چھوڑنے کے موقع پر دوستان اہل بیتؑ کا آپ سے ملنا یا بعد کے لیے راہنما کا دریافت کرنا غیر ممکن ہو جائے گا اس لیے آپ نے انہیں آزادی کے دنوں اور سکون کے اوقات میں جب کہ آپ مدینہ میں تھے پیروان اہل بیت کو اپنے بعد ہونے والے امام سے روشناس کرانے کی ضرورت محسوس فرمائی۔ چنانچہ اولاد علی و فاطمہ میں سے سترہ آدمی جو ممتاز حیثیت رکھتے تھے انہیں جمع فرما کر اپنے فرزند حضرت علی رضا علیہ السلام کی وصایت اور جانشینی کا اعلان فرمایا اور ایک وصیت نامہ تحریرا بھی مکمل فرمایا جس پر مدینہ کے معززین میں سے ساٹھ آدمیوں کی گواہی لکھی گئی یہ اہتمام دوسرے آئمہ کے یہاں نظر نہیں آیا صرف ان خصوصی حالات کی بناء پر جن سے دوسرے آئمہ اپنی وفات کے موقعہ پر دو چار نہیں ہونے والے تھے۔
امام موسی کاظمؑ کی وفات اور امام رضاؑ کے دور امامت کا آغاز
۱۸۳ھ میں حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے قید خانہ ہارون رشید میں اپنی عمر کا ایک بہت بڑا حصہ گذار کر درجہ شہادت حاصل فرمایا، آپ کی وفات کے وقت امام رضا علیہ السلام کی عمر میری تحقیق کے مطابق تیس سال کی تھی والد بزرگوار کی شہادت کے بعد امامت کی ذمہ داریاں آپ کی طرف منتقل ہو گئیں یہ وہ وقت تھا جب بغداد میں ہارون رشید تخت خلافت پرمتمکن تھا اور بنی فاطمہ کے لیے حالات بہت ہی ناسازگار تھے۔
ہارونی فوج اور خانہ امام رضا علیہ السلام
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے بعد دس برس ہارون رشیدکا دور رہا یقیناً وہ امام رضا علیہ السلام کے وجود کوب ھی دنیا میں اسی طرح برداشت نہیں کر سکتا تھا جس طرح اس سے پہلے آپ کے والد ماجد کا رہنا اس نے گوارا نہیں کیا مگر یا تو امام موسی کاظم علیہ السلام کے ساتھ جو طویل مدت تک تشدد اور ظلم ہوتا رہا اور جس کے نتیجہ میں قیدخانہ ہی کے اندر آپ دنیا سے رخصت ہو گئے اس سے حکومت وقت کی عام بدنامی ہو گئی تھی یا ظالم کو واقعی بدسلوکیوں کا احساس اور ضمیرکی طرف سے ملامت کی کیفیت تھی جس کی وجہ سے کھلم کھلا امام رضا علیہ السلام کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔ لیکن وقت سے پہلے اس نے امام رضا علیہ السلام کو ستانے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا۔ حضرت کے عہدہ امامت کو سنبھالتے ہی ہارون رشید نے آپ کا گھر لٹوا دیا، اور عورتوں کے زیوارت اور کپڑے تک اتروا لیے تھے۔
تاریخ اسلام میں ہے کہ ہارون رشید نے اس حوالہ اور بہانے سے کہ محمد بن جعفرصادق علیہ السلام نے اس کی حکومت و خلافت سے انکار کر دیا ہے ایک عظیم فوج عیسیٰ جلودی کی سربراہی میں مدینہ منورہ بھیج کرحکم دیا کہ علی و فاطمہ کی تمام اولاد کی بالکل ہی تباہ و برباد کر دیا جائے ان کے گھروں کو آگ لگا دی جائے ان کے سامان لوٹ لیے جائیں اور انہیں اس درجہ مفلوج اور مفلوک الحال کر دیا جائے کہ پھر ان میں کسی قسم کے حوصلہ کے ابھرنے کا سوال ہی پیدا نہ ہو سکے اور محمد بن جعفر صادق کو گرفتار کرکے قتل کر دیا جائے، عیسیٰ جلودی نے مدینہ پہنچ کر تعمیل حکم کی سعی بلیغ کی اور ہر ممکن طریقہ سے بنی فاطمہ کو تباہ و برباد کیا، حضرت محمد بن جعفر صادق علیہ السلام نے بھر پور مقابلہ کیا لیکن آخر میں گرفتار ہو کر ہارون رشید کے پاس پہنچا دیئے گئے۔
السلام علیک یا علی بن موسی الرضا
عیسیٰ جلودی سادات کرام کو لوٹ کرحضرت امام علی رضا علیہ السلام کے دولت کدہ پر پہنچا اور اس نے خواہش کی کہ وہ حسب حکم ہارون رشید، خانہ امام میں داخل ہو کر اپنے ساتھیوں سے عورتوں کے زیورات اور کپڑے اتروا لے، امام علیہ السلام نے فرمایا یہ نہیں ہوسکتا، میں خود تمہیں سارا سامان لا کر دیے دیتا ہوں۔ پہلے تو وہ اس پر راضی نہ ہوا لیکن بعد میں کہنے لگا کہ اچھا آپ ہی سارا سامان لے آئیے۔ آپ محل سرا میں تشریف لے گئے اور آپ نے تمام زیورات اور سارے کپڑے ایک ستر پوش چادر کے علاوہ لا کر دیدیا اور اسی کے ساتھ ساتھ اثاث البیت نقد و جنس یہاں تک کہ بچوں کے کان کے بندے سب کچھ اس کے حوالہ کر دیا وہ ملعون تمام سامان لے کر بغداد روانہ ہو گیا،یہ واقعہ آپ کے آغاز امامت کا ہے۔
علامہ مجلسی بحار الانوار میں لکھتے ہین کہ محمد بن جعفر صادقؑ کے واقعہ سے امام علی رضا علیہ السلام کا کوئی تعلق نہ تھا وہ اکثر اپنے چچا محمد کو خاموشی کی ہدایت اور صبرکی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ ابو الفرج اصفہانی مقاتل الطالبین میں لکھتے ہیں کہ محمد بن جعفر نہایت متقی اور پرہیزگار شخص تھے کسی ناصبی نے دستی کتبہ لکھ کر مدینہ کی دیواروں پر چسپاں کر دیا تھا جس میں حضرت علی و فاطمہ علیہما السلام کے متعلق ناسزا الفاظ تھے یہی آپ کے خروج کا سبب بنا۔
آپ کی بیعت لفظ امیر المومنین سے کی گئی آپ جب نماز کو نکلتے تو آپ کے ساتھ دو سو صلحا و اتقیا ہوا کرتے تھے علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی وفات کے بعد صفوان بن یحیٰ نے حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے کہا کہ مولا ہم آپ کے بارے میں ہارون رشید سے بہت خائف ہیں۔ ہمیں ڈر ہے کہ یہ کہیں آپ کے ساتھ وہی سلوک نہ کرے جو آپ کے والد کے ساتھ کر چکا ہے؟ حضرت نے ارشاد فرمایا کہ یہ تو اپنی سعی کرے گا لیکن مجھ پر کامیاب نہ ہو سکے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا اور حالات نے اسے کچھ اس اس درجہ آخر میں مجبور کر دیا تھا کہ وہ کچھ بھی نہ کر سکا یہاں تک کہ جب خالد بن یحیٰ برمکی نے اس سے کہا کہ امام رضاؑ اپنے باپ کی طرح امر امامت کا اعلان کرتے اور اپنے کو امام زمانہ کہتے ہیں تو اس نے جواب دیا کہ ہم جو ان کے ساتھ کر چکے ہیں وہی ہمارے لیے کافی ہے اب تو چاہتا ہے کہ ”ان نقتلہم جمیعا“ ہم سب کے سب کو قتل کر ڈالیں، اب میں ایسا نہیں کروں گا۔
(نور الابصار ص ۱۴۴ طبع مصر)
علامہ علی نقی لکھتے ہیں کہ پھر بھی ہارون رشید کا اہلبیت رسولؑ سے شدید اختلاف اور سادات کے ساتھ جو برتاؤ اب تک رہا تھا اس کی بناء پر عام طور سے عمال حکومت یا عام افراد بھی جنہیں حکومت کو راضی رکھنے کی خواہش تھی اہلبیتؑ کے ساتھ کوئی اچھا رویہ رکھنے پر تیار نہیں ہو سکتے تھے اور نہ امامؑ کے پاس آزادی کے ساتھ لوگ استفادہ کے لیے آ سکتے تھے نہ حضرت کو سچے اسلامی احکام کی اشاعت کے مواقع حاصل تھے۔
ہارون کا آخری زمانہ اپنے دونوں بیٹوں، امین اور مامون کی باہمی رقابتوں سے بہت بے لطفی میں گزرا، امین پہلی بیوی سے تھا جو خاندان شاہی سے منصور دوانقی کی پوتی تھی اور اس لیے عرب سردار سب اس کے طرف دار تھے اور مامون ایک عجمی کنیز کے پیٹ سے تھا اس لیے دربار کا عجمی طبقہ اس سے محبت رکھتا تھا، دونوں کی آپس کی رسہ کشی ہارون کے لیے سوہان روح بنی ہوئی تھی اس نے اپنے خیال میں اس کا تصفیہ مملکت کی تقسیم کے ساتھ یوں کر دیا کہ دار السلطنت بغداد اور اس کے چاروں طرف کے عربی حصہ جسے شام، مصر، حجاز، یمن، وغیرہ محمد امین کے نام کئے اور مشرقی ممالک جیسے ایران، خراسان، ترکستان، وغیرہ مامون کے لیے مقرر کئے مگر یہ تصفیہ تو اس وقت کارگر ہو سکتا تھا جب دونوں فریق ”جیو اور جینے دو“ کے اصول پر عمل کرتے ہوتے لیکن جہاں اقتدار کی ہوس کار فرما ہو، وہاں بنی عباس میں ایک گھر کے اندر دو بھائی اگر ایک دوسرے کے مد مقابل ہوں تو کیوں نہ ایک دوسرے کے خلاف جارحانہ کاروائی کرنے پر تیار نظر آئے اور کیوں نہ ان طاقتوں میں باہمی تصادم ہو جب کہ ان میں سے کوئی اس ہمدردی اور ایثار اور خلق خدا کی خیرخواہی کا بھی حامل نہیں ہے جسے بنی فاطمہ اپنے پیش نظر رکھ کر اپنے واقعی حقوق سے چشم پوشی کر لیا کرتے تھے اسی کا نتیجہ تھا کہ ادھر ہارون کی آنکھ بند ہوئی اور ادھر بھائیوں میں خانہ جنگیوں کے شعلے بھڑک اٹھے آخر چار برس کی مسلسل کشمکش اور طویل خونریزی کے بعد مامون کو کامیابی حاصل ہوئی اور اس کا بھائی امین محرم ۱۹۸ھ میں تلوار کے گھاٹ اتار دیا گیا اور مامون کی خلافت تمام بنی عباس کے حدود سلطنت پر قائم ہو گئی۔
السلام علیک یا علی بن موسی الرضا
یہ سچ ہے کہ ہارون رشید کے ایام سلطنت میں آپ کی امامت کے دس سال گزرے اس زمانہ میں عیسیٰ جلودی کی تاخت کے بعد پھر اس نے آپ کے معاملات کی طرف بالکل سکوت اور خاموشی اختیار کر لی اس کی دو وجہیں معلوم ہوتی ہیں:
اول تو یہ کہ اس دس سالہ زندگی کے ابتدائی ایام میں وہ آل برامکہ کے استیصال رافع بن لیث ابن تیار کے غد اور فساد کے انسداد میں جو سمرقند کے علاقہ سے نمودار ہو کر ماوراء النہر اور حدود عرب تک پھیل چکاتھا ایسا ہمہ وقت اور ہمہ دم الجھا رہا کہ پھر اس کو ان امور کی طرف توجہ کرنے کی ذرا بھی فرصت نہ ملی۔
دوسرے یہ کہ اپنی دس سالہ مدت کے آخری ایام میں یہ اپنے بیٹوں میں ملک تقسیم کر دینے کے بعد خود ایسا کمزور اور مجبور ہو گیا تھا کہ کوئی کام اپنے اختیار سے نہیں کر سکتا تھا نام کا بادشاہ بنا بیٹھا ہوا، اپنی زندگی کے دن نہایت عسرت اور تنگی کی حالتوں میں کاٹ رہا تھا اس کے ثبوت کے لیے واقعہ ذیل ملاحظہ فرمائیں:
صباح طبری کا بیان ہے کہ ہارون جب خراسان جانے لگا تو میں نہروان تک اس کی مشایعت کو گیا راستہ میں اس نے بیان کیا کہ اے صباح تم اب کے بعد پھر مجھے زندہ نہ پاؤ گے میں نے کہا امیر المومنین ایسا خیال نہ کریں آپ ان شاء اللہ صحیح و سالم اس سفر سے واپس آئیں گے یہ سن کر اس نے کہا کہ شاید تجھ کو میرا حال معلوم نہیں ہے آؤ میں دکھا دوں، پھر مجھے راستہ کاٹ کر ایک سمت درخت کے نیچے لے گیا اور وہاں سے اپنے خواصوں کو ہٹا کر اپنے بدن کا کپڑا اٹھا کرمجھے دکھایا، تو ایک پارچہ ریشم شکم پر لپیٹا ہوا تھا، اور اس سے سارا بدن کسا ہوا تھا یہ دکھا کر مجھ سے کہا کہ میں مدت سے بیمار ہوں۔ تمام بدن میں درد اٹھتا ہے مگر کسی سے اپنا حال نہیں کہہ سکتا تمہارے پاس بھی یہ راز امانت رہے میرے بیٹوں میں سے ہر ایک کا گماشتہ میرے اوپر مقرر ہے۔ مامون کی طرف سے مسرور، امین کی جانب سے بختیشوع، یہ لوگ میری سانس تک گنتے رہتے ہیں، اور نہیں چاہتے کہ میں ایک روز بھی زندہ رہوں، اگر تم کو یقین نہ ہو تو دیکھو میں تمہارے سامنے گھوڑا سوار ہونے کو مانگتا ہوں، ایسا لاغر ٹٹو میرے لیے لائیں گے جس پرسوار ہو کرمیں اور زیادہ بیمار ہو جاؤں،یہ کہہ کر گھوڑا طلب کیا واقعی ایسا ہی لاغر اڑیل ٹٹو حاضر کیا۔ اس پر ہارون بے چون و چرا سوار ہو گیا اور مجھ کو وہاں سے رخصت کرکے جرجان کا راستہ پکڑ لیا۔
(لمعة الضیاء ص ۹۲)
بہرحال ہارون رشید کی یہی مجبوریاں تھیں جنہوں نے اس کو حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے مخالفانہ امور کی طرف متوجہ نہیں ہونے دیا ورنہ اگر اسے فرصت ہوتی اور وہ اپنی قدیم ذی اختیاری کی حالتوں پر قائم رہتا تو اس سلسلہ کی غارت گری و بربادی کو کبھی بھولنے والا نہیں تھا، مگر اس وقت کیا کر سکتا تھا اپنے ہی دست و پا اپنے اختیار میں نہیں تھے بہرحال ہارون رشید اسی ضیق النفس مجبوری ناداری اور بے اختیاری کی غیر متحمل مصیبتوں میں خراسان پہنچ کر اوائل ۱۹۳ھ میں مر گیا۔
ان دونوں بھائیوں امین اور مامون کے متعلق مورخین کا کہنا ہے کہ مامون تو پھر بھی سوجھ بوجھ اور اچھے کیرکٹر کا آدمی تھا لیکن امین عیاش، لا ابالی اور کمزور طبیعت کا تھا سلطنت کے تمام حصوں، بازی گر، مسخرے اور نجومی جوتشی بلوائے، نہایت خوبصورت طوائف اور نہایت کامل گانے والیوں اور خواجہ سراوں کو بڑی بڑی رقمیں خرچ کرکے اور ناٹک کی ایک محفل مثل اندر سبھا کے ترتیب دی، یہ تھیٹر اپنے زرق برق سامانوں سے پریوں کا اکھاڑا ہوتا تھا سیوطی نے ابن جریر سے نقل کیا ہے کہ امین اپنی بیویوں اور کنیزوں کو چھوڑ کرخصیوں سے لواطت کرتا تھا۔
(تاریخ اسلام جلد ۱ ص ۶۰)
السلام علیک یا علی بن موسی الرضا
امام علی رضا کا حج اور ہارون رشید عباسی
زمانہ ہارون رشید میں حضرت امام علی رضا علیہ السلام حج کے لیے مکہ معظمہ تشریف لے گئے اسی سال ہارون رشید بھی حج کے لیے آیا ہوا تھا خانہ کعبہ میں داخلہ کے بعد امام علی رضا علیہ السلام ایک دروازہ سے اور ہارون رشید دوسرے دروازہ سے نکلے امام علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ دوسرے دروازہ سے نکلنے والا جو ہم سے دور جا رہا ہے عنقریب طوس میں دونوں ایک جگہ ہوں گے ایک روایت میں ہے کہ یحیٰ ابن خالد برمکی کو امام علیہ السلام نے مکہ میں دیکھا کہ وہ رومال سے گرد کی وجہ سے منہ بند کئے ہوئے جا رہا ہے آپ نے فرمایا کہ اسے پتہ بھی نہیں کہ اس کے ساتھ امسال کیا ہونے والا ہے یہ عنقریب تباہی کی منزل میں پہنچا دیا جائے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
راوی مسافر کا بیان ہے کہ حج کے موقع پر امام علیہ السلام نے ہارون رشید کو دیکھ کر اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ملاتے ہوئے فرمایا کہ میں اور یہ اسی طرح ایک ہو جائیں گے وہ کہتا ہے کہ میں اس ارشاد کا مطلب اس وقت سمجھا جب آپ کی شہادت واقع ہوئی اور دونوں ایک مقبرہ میں دفن ہوئے موسیٰ بن عمران کا کہنا ہے کہ اسی سال ہارون رشید مدینہ منورہ پہنچا اور امام علیہ السلام نے اسے خطبہ دیتے ہوئے دیکھ کر فرمایا کہ عنقریب میں اور ہارون ایک ہی مقبرہ میں دفن کئے جائیں گے۔
(نورالابصار ص ۱۴۴)