صحیفہ کاملہ

6۔ دعائے صبح و شام

(۶) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ

عِنْدَ الصَّبَاحِ وَ الْمَسَآءِ

دُعائے صبح و شام:

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ خَلَقَ اللَّیْلَ وَ النَّهَارَ بِقُوَّتِهٖ وَ مَیَّزَ بَیْنَهُمَا بِقُدْرَتِهٖ، وَ جَعَلَ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا حَدًّا مَّحْدُوْدًا، وَ اَمَدًا مَّمْدُوْدًا، یُوْلِجُ كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا فِیْ صَاحِبِهٖ، وَ یُوْلِجُ صَاحِبَهٗ فِیْهِ، بِتَقْدِیْرٍ مِّنْهُ لِلْعِبَادِ فِیْمَا یَغْذُوْهُمْ بِهٖ، وَ یُنْشِئُهُمْ عَلَیْهِ.

سب تعریف اس اللہ کیلئے ہے جس نے اپنی قوت و توانائی سے شب و روز کو خلق فرمایا، اور اپنی قدرت کی کار فرمائی سے ان دونوں میں امتیاز قائم کیا، اور ان میں سے ہر ایک کو معینہ حدود و مقررہ اوقات کا پابند بنایا، اور ان کے کم و بیش ہونے کا جو اندازہ مقرر کیا اس کے مطابق رات کی جگہ پر دن اور دن کی جگہ پر رات کو لاتا ہے، تاکہ اس ذریعہ سے بندوں کی روزی اور ان کی پرورش کا سرو سامان کرے۔

فَخَلَقَ لَهُمُ اللَّیْلَ لِیَسْكُنُوْا فِیْهِ، مِنْ حَرَكَاتِ التَّعَبِ وَ نَهَضَاتِ النَّصَبِ، وَ جَعَلَهٗ لِبَاسًا لِّیَلْبَسُوْا مِنْ رَّاحَتِهٖ وَ مَنَامِهٖ، فَیَكُوْنَ ذٰلِكَ لَهُمْ جَمَامًا وَّ قُوَّةً، وَ لِیَنَالُوْا بِهٖ لَذَّةً وَّ شَهْوَةً.

چنانچہ اس نے ان کیلئے رات بنائی تاکہ وہ اس میں تھکا دینے والے کاموں اور خستہ کر دینے والی کلفتوں کے بعد آرام کریں، اور اسے پردہ قرار دیا تاکہ سکون کی چادر تان کر آرام سے سوئیں، اور یہ ان کیلئے راحت و نشاط اور طبعی قوتوں کے بحال ہونے اور لذت و کیف اندوزی کا ذریعہ ہو۔

وَ خَلَقَ لَهُمُ النَّهَارَ مُبْصِرًا لِّیَبْتَغُوْا فِیْهِ مِنْ فَضْلِهٖ، وَ لِیَتَسَبَّبُوْاۤ اِلٰى رِزْقِهٖ، وَ یَسْرَحُوْا فِیْۤ اَرْضِهٖ، طَلَبًا لِّمَا فِیْهِ نَیْلُ الْعَاجِلِ مِنْ دُنْیَاهُمْ.

اور دن کو ان کیلئے روشن و درخشاں پیدا کیا تاکہ اس میں (کار و کسب میں سرگرم عمل ہو کر) اس کے فضل کی جستجو کریں، اور روزی کا وسیلہ ڈھونڈیں، اور دنیاوی منافع اور اُخروی فوائد کے وسائل تلاش کرنے کیلئے اس کی زمین میں چلیں پھریں۔

وَ دَرَكُ الْاٰجِلِ فِیْۤ اُخْرَاهُمْ، بِكُلِّ ذٰلِكَ یُصْلِحُ شَاْنَهُمْ، وَ یَبْلُوْ اَخْبَارَهُمْ، وَ یَنْظُرُ كَیْفَ هُمْ فِیْۤ اَوْقَاتِ طَاعَتِهٖ، وَ مَنَازِلِ فُرُوْضِهٖ، وَ مَوَاقِعِ اَحْكَامِهٖ، ﴿لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَسَآءُوْا بِمَا عَمِلُوْا وَ یَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا بِالْحُسْنٰیۚ۝﴾.

ان تمام کارفرمائیوں سے وہ ان کے حالات سنوارتا، اور ان کے اعمال کی جانچ کرتا ہے، اور یہ دیکھتا ہے کہ وہ لوگ اطاعت کی گھڑیوں، فرائض کی منزلوں اور تعمیل احکام کے موقعوں پر کیسے ثابت ہوتے ہیں، تاکہ بروں کو ان کی بداعمالیوں کی سزا اور نیکوکاروں کو اچھا بدلہ دے۔

اَللّٰهُمَّ فَلَكَ الْحَمْدُ عَلٰى مَا فَلَقْتَ لَنا مِنَ الْاِصْبَاحِ، وَ مَتَّعْتَنَا بِهٖ مِنْ ضَوْءِ النَّهَارِ، وَ بَصَّرْتَنَا مِنْ مَطَالِبِ الْاَقْوَاتِ، وَ وَقَیْتَنَا فِیْهِ مِنْ طَوَارِقِ الْاٰفَاتِ.

اے اللہ! تیرے ہی لئے تمام تعریف و توصیف ہے کہ تو نے ہمارے لئے (رات کا دامن چاک کر کے) صبح کا اُجالا کیا، اور اس طرح دن کی روشنی سے ہمیں فائدہ پہنچایا، اور طلب رزق کے مواقع ہمیں دکھائے، اور اس میں آفات و بلیات سے ہمیں بچایا۔

اَصْبَحْنَا وَ اَصْبَحَتِ الْاَشْیَآءُ كُلُّهَا بِجُمْلَتِهَا لَكَ: سَمَآؤُهَا وَ اَرْضُهَا، وَ مَا بَثَثْتَ فِیْ كُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا، سَاكِنُهٗ وَ مُتَحَرِّكُهٗ، وَ مُقِیْمُهٗ وَ شَاخِصُهٗ، وَ مَا عَلَا فِی الْهَوَآءِ، وَ مَا كَنَّ تَحْتَ الثَّرٰى.

ہم اور ہمارے علاوہ سب چیزیں تیری ہیں، آسمان بھی اور زمین بھی اور وہ سب چیزیں جنہیں تو نے ان میں پھیلایا ہے، وہ ساکن ہوں یا متحرک، مقیم ہوں یا راہ نورد، فضا میں بلند ہوں یا زمین کی تہوں میں پوشیدہ۔

اَصْبَحْنَا فِیْ قَبْضَتِكَ یَحْوِیْنَا مُلْكُكَ وَ سُلْطَانُكَ، وَ تَضُمُّنَا مَشِیَّتُكَ، وَ نَتَصَرَّفُ عَنْ اَمْرِكَ، وَ نَتَقَلَّبُ فِیْ تَدْبِیْرِكَ، لَیْسَ لَنا مِنَ الْاَمْرِ اِلَّا مَا قَضَیْتَ، وَ لَا مِنَ الْخَیْرِ اِلَّا مَاۤ اَعْطَیْتَ.

ہم تیرے قبضۂ قدرت میں ہیں، اور تیرا اقتدار اور تیری بادشاہت ہم پر حاوی ہے، اور تیری مشیت کا محیط ہمیں گھیرے ہوئے ہے، تیرے حکم سے ہم تصرف کرتے، اور تیری تدبیر و کار سازی کے تحت ہم ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹتے ہیں، جو امر تو نے ہمارے لئے نافذ کیا اور جو خیر اور بھلائی تو نے ہمیں بخشی اس کے علاوہ ہمارے اختیار میں کچھ نہیں ہے۔

وَ هٰذَا یَوْمٌ حَادِثٌ جَدِیْدٌ، وَ هُوَ عَلَیْنَا شَاهِدٌ عَتِیْدٌ، اِنْ اَحْسَنَّا وَدَّعَنَا بِحَمْدٍ، وَ اِنْ اَسَاْنَا فَارَقَنَا بِذَمٍّ.

اور یہ دن نیا اور تازہ وارد ہے جو ہم پر ایسا گواہ ہے جو ہمہ وقت حاضر ہے۔ اگر ہم نے اچھے کام کئے تو وہ توصیف و ثنا کرتے ہوئے ہمیں رخصت کرے گا اور اگر برے کام کئے تو برائی کرتا ہوا ہم سے علیحدہ ہو گا۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ ارْزُقْنَا حُسْنَ مُصَاحَبَتِهٖ، وَ اعْصِمْنَا مِنْ سُوْٓءِ مُفَارَقَتِهٖ، بِارْتِكَابِ جَرِیْرَةٍ، اَوِ اقْتِرَافِ صَغِیْرَةٍ اَوْ كَبِیْرَةٍ، وَ اَجْزِلْ لَنا فِیْهِ مِنَ الْحَسَنَاتِ، وَ اَخْلِنَا فِیْهِ مِنَ السَّیِّئَاتِ، وَ امْلَاْ لَنا مَا بَیْنَ طَرَفَیْهِ حَمْدًا وَّ شُكْرًا، وَ اَجْرًا وَّ ذُخْرًا، وَ فَضْلًا وَّ اِحْسَانًا.

اے اللہ! تو محمدﷺ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور ہمیں اس دن کی اچھی رفاقت نصیب کرنا، اور کسی خطا کے ارتکاب کرنے یا صغیرہ و کبیرہ گناہ میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اس کے چیں بہ جبیں ہو کر رخصت ہونے سے ہمیں بچائے رکھنا، اور اس دن میں ہماری نیکیوں کا حصہ زیادہ کر، اور برائیوں سے ہمارا دامن خالی رکھ، اور ہمارے لئے اس کے آغاز و انجام کو حمد و سپاس، ثواب و ذخیرہ آخرت اور بخشش و احسان سے بھر دے۔

اَللّٰهُمَّ یَسِّرْ عَلَى الْكِرَامِ الْكَاتِبِیْنَ مَئُوْنَتَنَا، وَ امْلَاْ لَنا مِنْ حَسَنَاتِنَا صَحَآئِفَنَا، وَ لَا تُخْزِنَا عِنْدَهُمْ بِسُوْٓءِ اَعْمَالِنَا.

اے اللہ! کراماً کاتبین پر (ہمارے گناہ قلمبند کرنے کی) زحمت کم کر دے، اور ہمارا نامۂ اعمال نیکیوں سے بھر دے، اور بداعمالیوں کی وجہ سے ہمیں ان کے سامنے رسوا نہ کر۔

اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ لَنَا فِیْ كُلِّ سَاعَةٍ مِّنْ سَاعَاتِهٖ حَظًّا مِّنْ عِبَادِكَ، وَ نَصِیْبًا مِّنْ شُكْرِكَ، وَ شَاهِدَ صِدْقٍ مِّنْ مَّلٰٓئِكَتِكَ.

بار الٰہا! تو اس دن کے لمحوں میں سے ہر لمحہ و ساعت میں اپنے خاص بندوں کا حظ و نصیب اور اپنے شکر کا ایک حصہ اور فرشتوں میں سے ایک سچا گواہ ہمارے لئے قرار دے۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ احْفَظْنَا مِن بَیْنِ اَیْدِیْنَا وَ مِنْ خَلْفِنَا، وَ عَنْ اَیْمَانِنَا وَ عَنْ شَمَآئِلِنَا، وَ مِنْ جَمِیْعِ نَوَاحِیْنَا، حِفْظًا عَاصِمًا مِّنْ مَّعْصِیَتِكَ، هَادِیًاۤ اِلٰى طَاعَتِكَ، مُسْتَعْمِلًا لِّمَحَبَّتِكَ.

اے اللہ! تو محمدﷺ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور آگے پیچھے اور داہنے اور بائیں اور تمام اطراف و جوانب سے ہماری حفاظت کر۔ ایسی حفاظت جو ہمارے لئے گناہ و معصیت سے سد راہ ہو، تیری اطاعت کی طرف رہنمائی کرے اور تیری محبت میں صرف ہو۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ وَفِّقْنَا فِیْ یَوْمِنَا هٰذَا وَ لَیْلَتِنَا هَذِهٖ، وَ فِیْ جَمِیْعِ اَیَّامِنَا، لِاسْتِعْمَالِ الْخَیْرِ، وَ هِجْرَانِ الشَّرِّ، وَ شُكْرِ النِّعَمِ، وَ اتِّبَاعِ السُّنَنِ، وَ مُجَانَبَةِ الْبِدَعِ، وَ الْاَمْرِ بِالْمَعْرُوْفِ، وَ النَّهْیِ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَ حِیَاطَةِ الْاِسْلَامِ، وَ انْتِقَاصِ الْبَاطِلِ وَ اِذْلَالِهٖ، وَ نُصْرَةِ الْحَقِّ وَ اِعْزَازِهٖ، وَ اِرْشَادِ الضَّالِّ، وَ مُعَاوَنَةِ الضَّعِیْفِ، وَ اِدْرَاكِ اللَّهِیْفِ‏.

اے اللہ! تو محمدﷺ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور ہمیں آج کے دن اور آج کی رات اور زندگی کے تمام دنوں میں توفیق عطا فرما کہ ہم نیکیوں پر عمل کریں، برائیوں کو چھوڑیں، نعمتوں پر شکر اور سنتوں پر عمل کریں، بدعتوں سے الگ تھلگ رہیں اور نیک کاموں کا حکم دیں اور برے کاموں سے روکیں، اسلام کی حمایت و طرفداری کریں، باطل کو کچلیں اور اسے ذلیل کریں، حق کی نصرت کریں اور اسے سر بلند کریں، گمراہوں کی رہنمائی، کمزوروں کی اعانت اور درد مندوں کی چارہ جوئی کریں۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اجْعَلْهُ اَیْمَنَ یَوْمٍ عَهِدْنَاهُ، وَ اَفْضَلَ صَاحِبٍ صَحِبْنَاهُ، وَ خَیْرَ وَقْتٍ ظَلِلْنَا فِیْهِ، وَ اجْعَلْنَا مِنْ اَرْضٰى مَنْ مَّرَّ عَلَیْهِ اللَّیْلُ وَ النَّهَارُ، مِنْ جُمْلَةِ خَلْقِكَ، اَشْكَرَهُمْ لِمَاۤ اَوْلَیْتَ مِنْ نِّعَمِكَ، وَ اَقْوَمَهُمْ بِمَا شَرَعْتَ مِنْ شرَآئِعِكَ، وَ اَوْقَفَهُمْ عَمَّا حَذَّرْتَ مِنْ نَّهْیِكَ.

بار الٰہا! محمدﷺ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور آج کے دن کو ان تمام دنوں سے جو ہم نے گزارے زیادہ مبارک دن، اور ان تمام ساتھیوں سے جن کا ہم نے ساتھ دیا اس کو بہترین رفیق، اور ان تمام وقتوں سے جن کے زیر سایہ ہم نے زندگی بسر کی اس کو بہترین وقت قرار دے، اور ہمیں ان تمام مخلوقات میں سے زیادہ راضی و خوشنود رکھ جن پر شب و روز کے چکر چلتے رہے ہیں، اور ان سب سے زیادہ اپنی عطا کی ہوئی نعمتوں کا شکر گزار، اور ان سب سے زیادہ اپنے جاری کئے ہوئے احکام کا پابند، اور ان سب سے زیادہ ان چیزوں سے کنارہ کشی کرنے والا قرار دے جن سے تو نے خوف دلا کر منع کیا ہے۔

اَللّٰهُمَّ اِنِّیْۤ اُشْهِدُكَ وَ كَفٰى بِكَ شَهِیْدًا، وَ اُشْهِدُ سَمَآءَكَ وَ اَرْضَكَ وَ مَنْ اَسْكَنْتَهُمَا، مِنْ مَّلٰٓئِكَتِكَ وَ سَآئِرِ خَلْقِكَ، فِیْ یَوْمِیْ هٰذَا وَ سَاعَتِیْ هٰذِهٖ وَ لَیْلَتِیْ هٰذِهٖ وَ مُسْتَقَرِّیْ هٰذَا، اَنِّیْۤ اَشْهَدُ اَنَّكَ اَنْتَ اللّٰهُ الَّذِیْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ، قَآئِمٌ بِالْقِسْطِ، عَدْلٌ فِی الْحُكْمِ، رَءُوْفٌ بِالْعِبَادِ، مَالِكُ الْمُلْكِ، رَحِیْمٌ بِالْخَلْقِ.

اے خدا! میں تجھے گواہ کرتا ہوں اور تو گواہی کیلئے کافی ہے، اور تیرے آسمان اور تیری زمین کو، اور ان میں جن جن فرشتوں اور جس جس مخلوق کو تو نے بسایا ہے، آج کے دن اور اس گھڑی اور اس رات میں اور اس مقام پر گواہ کرتا ہوں کہ میں اس بات کا معترف ہوں کہ صرف تو ہی وہ معبود ہے جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، انصاف کا قائم کرنے والا، حکم میں عدل ملحوظ رکھنے والا، بندوں پر مہربان، اقتدار کا مالک اور کائنات پر رحم کرنے والا ہے۔

وَ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُكَ وَ رَسُوْلُكَ، وَ خِیَرَتُكَ مِنْ خَلْقِكَ، حَمَّلْتَهٗ رِسَالَـتَكَ فَاَدَّاهَا، وَ اَمَرْتَهٗ بِالنُّصْحِ لِاُمَّتِهٖ فَنَصَحَ لَهَا.

اور اس بات کی بھی شہادت دیتا ہوں کہ محمدﷺ تیرے خاص بندے رسول اور برگزیدۂ کائنات ہیں۔ ان پر تو نے رسالت کی ذمہ داریاں عائد کیں تو انہوں نے اسے پہنچایا اور اپنی اُمت کو پند و نصیحت کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے نصیحت فرمائی۔

اَللّٰهُمَّ فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ اَكْثَرَ مَا صَلَّیْتَ عَلٰۤى اَحَدٍ مِّنْ خَلْقِكَ، وَ اٰتِهٖ عَنَّاۤ اَفْضَلَ مَا اٰتَیْتَ اَحَدًا مِّنْ عِبَادِكَ، وَ اجْزِهٖ عَنَّاۤ اَفْضَلَ وَ اَكْرَمَ مَا جَزَیْتَ اَحَدًا مِّنْ اَنبِیَآئِكَ عَنْ اُمَّتِهٖ.

(بار الٰہا! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر اس سے کہیں زیادہ رحمت نازل فرما جو تو نے اپنی مخلوق میں سے کسی پر نازل فرمائی ہو)، ہماری طرف سے انہیں وہ بہترین تحفہ عطا کر جو تیرے ہر اس انعام سے بڑھا ہوا ہو جو اپنے بندوں میں سے تو نے کسی ایک کو دیا ہو، اور ہماری طرف سے انہیں وہ جزا دے جو ہر اس جزا سے بہتر و برتر ہو جو انبیاء علیہم السلام میں سے کسی ایک کو تو نے اس کی اُمت کی طرف سے عطا فرمائی ہو۔

اِنَّكَ اَنْتَ الْمَنَّانُ بِالْجَسِیْمِ، الْغَافِرُ لِلْعَظِیْمِ، وَ اَنْتَ اَرْحَمُ مِنْ كُلِّ رَحِیْمٍ، فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهِ الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهِرِیْنَ الْاَخْیَارِ الْاَنْجَبِیْنَ.

بے شک تو بڑی نعمتوں کا بخشنے والا اور بڑے گناہوں سے درگزر کرنے والا اور ہر رحیم سے زیادہ رحم کرنے والا ہے، لہٰذا تو محمدﷺ اور ان کی پاک و پاکیزہ اور شریف و نجیب اولاد علیہم السلام پر رحمت نازل فرما۔

–٭٭–

اس دُعا کا سرنامہ ’’دُعائے صبح و شام‘‘ ہے جس میں اختلاف شبِ و روز کی کرشمہ سازی، اوقات کی تبدیلی و تنوع کی حکمت اور قدرت کے ارادہ و مشیّت کی کارفرمائی کا ذکر فرمایا ہے اور حسنِ عمل، شکرِ نعمت، اتباعِ سنّت، ترکِ بدعت، امربالمعروف و نہی عن المنکر، اسلام کی طرفداری و حفاظت، باطل کی تذلیل و سرکوبی، حق کی نصرت و حمایت، ارشاد و ہدایت میں سرگرمی اور کمزور و ناتواں کی خبرگیری کیلئے توفیقِ الٰہی کے شاملِ حال ہونے کی دُعا فرمائی ہے، تا کہ دُعا کے تاثرات، عملی استحکام کا پیش خیمہ ثابت ہوں اور زندگی کے لمحات مقصدِ حیات کی تکمیل میں صرف ہوں۔

یہ اوقات کا تبدل، طلوع و غروب کا تسلسل اور صبح کے بعد شام اور شام کے بعد سپیدۂ سحر کی نمود کار فرمائے فطرت کی وہ حسین کارفرمائی ہے جو نگاہوں کیلئے حظ و کیف اور قلب و روح کیلئے سرور و نشاط کا سامان ہونے کے علاوہ بے شمار مصالح و فوائد کی بھی حامل ہے۔ چنانچہ شب و روز کی تعیین، مہینوں اور سالوں کا انضباط اور کاروبار، معیشت اور آرام و استراحت کے اوقات کی حدبندی اسی سے وابستہ ہے اور پھر اس میں زندگی کی تسکین و راحت کا بھی سامان ہے۔ کیونکہ وقت اگر ہمیشہ ایک حالت پر رہتا اور لیل و نہار کے سیاہ و سفید ورق نگاہوں کے سامنے اُلٹے نہ جاتے تو طبیعتیں بے کیف، دل سیر اور زندگی کیلئے دل بستگی کے تمام ذرائع ختم ہو جاتے اور حُسنِ یک رنگ آنکھوں میں کھٹکنے لگتا اور نغمۂ بے زیر و بم وَبالِ گوش ہو جاتا۔ کیونکہ انسان کی تنوع پسند طبیعت یکسانی و یک رنگی کی حالت سے جلد اُکتا جاتی ہے۔اس لئے قدرت نے انسانی طبیعت کے خواص کے مطابق شب و روز کی تفریق قائم کر دی تا کہ شام کے بعد صبح اور صبح کے بعد شام کا انتظار زندگی کی خستگیوں اور اس کی مسلسل اُلجھنوں اور پریشانیوں سے سہارا دیتا رہے۔ چنانچہ قدرت نے اختلافِ شب و روز کی مصلحت کی طرف متوجہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:

﴿اِنْ جَعَلَ اللہُ عَلَيْكُمُ النَّہَارَ سَرْمَدًا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَۃِ مَنْ اِلٰہٌ غَيْرُ اللہِ يَاْتِيْكُمْ بِلَيْلٍ تَسْكُنُوْنَ فِيْہِ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ۝۷۲ وَمِنْ رَّحْمَتِہٖ جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّہَارَ لِتَسْكُنُوْا فِيْہِ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝۷۳﴾

اگر خدا تمہارے لئے قیامت کے دن تک دن ہی رکھتا تو اللہ کے علاوہ اور کون ہے جو تمہارے لئے رات لاتا کہ تم اس میں آرام کرو، کیا تم اتنا بھی نہیں دیکھتے۔ اور اس نے اپنی رحمت سے تمہارے لئے رات اور دن قرار دئیے ہیں تا کہ رات کو آرام کرو اور دن کو اس کا رزق تلاش کرو تا کہ اس کے نتیجہ میں تم شکر ادا کرو۔[۱]

اسی نظم اوقات کا نتیجہ ہے کہ جب صبح نمودار ہوتی ہے اور سورج کی تابناک کرنیں فضا میں پھیل کر کارگاہِ ہستی کے گوشہ گوشہ کو جگمگا دیتی ہیں تو خاموش و پرسکون فضا میں گہما گہمی شروع ہو جاتی ہے۔ پرندے آشیانوں سے، حیوان بھٹوں اور کھوؤں سے ، کیڑے مکوڑے بلوں اور سوراخوں سے اور انسان جھونپڑوں اور مکانوں سے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ حرکت و عمل کی دنیا آباد ہو جاتی ہے اور ہر صنف اپنے کار و کسب میں مصروف اور اپنے مشاغل میں سرگرمِ عمل نظر آنے لگتی ہے۔ پرندے فضا میں، حیوان زمین کے اوپر سے اور کیڑے مکوڑے زمین کے اندر سے اپنی روزی ڈھونڈنے لگتے ہیں اور چیونٹیاں بھی اپنی مختصر جسامت کے باوجود سعی پیہم و جہد مسلسل کا وہ مظاہرہ کرتی ہیں کہ انسانی عقلیں دَنگ رہ جاتی ہیں۔ دھوپ ہو یا سایہ، نہ محنت سے جی چراتی ہیں، نہ مشقّت سے منہ موڑتی ہیں اور ہر وقت دوڑ و دھوپ کرتی اور طلب و تلاش میں مصروف نظر آتی ہیں۔ غرض کائنات کی ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی مخلوق محنت و کاوش کو اپنا دستورِ حیات بنائے ہوئے پیٹ پالنے کیلئے بھاگ دوڑ کرتی ہے اور کمزور سے کمزور حیوان بھی یہ گوارا نہیں کرتا کہ جب تک اس کے ہاتھ پاؤں میں سکت ہے بیکار پڑا رہے اور اپنے ہم جنسوں سے بھیک مانگے اور ان کے آگے ہاتھ پھیلائے۔ یہ حیوانی سیرت، انسانی غیرت کیلئے ایک تازیانہ ہے اور انسان کیلئے ایک داعیۂ فکر ہے کہ جب حیوان اس کی سطح سے کہیں پست تر ہونے کے باوجود سوال میں عار محسوس کرتا ہے تو وہ اپنے ہم جنسوں کے آگے کس طرح ہاتھ پھیلانا گوارا کر لیتا ہے۔

انسانی بلندی کا تقاضا تو یہ ہے کہ اپنے قوتِ بازو سے کمائے اور سوال کی ذلّت اور احتیاج کی نکبت سے عزت نفس پر حرف نہ آنے دے۔وہ افراد جو تن آسانی کی وجہ سے بے کار پڑے رہتے ہیں وہ آرام و سکون کی حقیقی لذت سے یکسر محروم رہتے ہیں۔ سچی راحت اور اصلی سکون تو محنت و مشقّت کے بعد ہی حاصل ہوتا ہے۔ سایہ کی قدر و قیمت کو وہی جان سکتا ہے جو سورج کی تمازت اور دھوپ کی تپش میں مصروفِ کار ہو اور ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں سے وہی کیف اندوز ہو سکتا ہے جو گرمی و حدّت کی شعلہ باریوں میں پسینہ سے شرابور ہو اور رات کے پُر سکون لمحات اسی کیلئے سکون و راحت کا پیغام ثابت ہو سکتے ہیں جس کا دن محنت و جفا کشی کا حامل ہو۔ چنانچہ ایک ٹوکری ڈھونے والا مزدور اور چلچلاتی دھوپ میں ہل چلانے والا کسان جب دن کے کاموں سے فارغ ہوتا ہے تو فطرت پوری فراخ حوصلگی سے اس کیلئے سر و سامان راحت مہیّا کر دیتی ہے۔ سورج کا چراغ گُل ہو جاتا ہے، چاند کی ہلکی اور ٹھنڈی چھاؤں کا شامیانہ تن جاتا ہے، ستاروں کی قندیلیں ٹمٹمانے لگتی ہیں، شفق کے رنگین پردے آویزاں ہو جاتے ہیں، ہری بھری گھاس کا مخملی فرش بچھ جاتا ہے، شاخیں جھوم کر مروحہ جنبانی کرتی ہیں اور پتے ہوا کے جھونکوں سے ٹکرا کر فضا کے دامن کو خواب آور نغموں سے بھَر دیتے ہیں اور فرشِ زمین کے اوپر اور شامیانۂ فلک کے نیچے سونے والا رات کی سیاہ چادر اوڑھ کر آرام سے سو جاتا ہے۔

کیا اس کے مقابلے میں وہ کاہل و آرام طلب جس کے ہاں نرم و گداز گدے، آرام دہ مسہریاں، ہوا میں لہریں پیدا کرنے والے بجلی کے پنکھے اور آنکھوں کو خیرگی سے بچانے والے ہلکے سبز رنگ کے قمقمے اور دوسرے مصنوعی و خودساختہ سامانِ آسائش مہیّا ہوں، زیادہ پر سکون و پرکیف رات بسر کر سکتا ہے؟ بہرحال کارخانہ ہست و بود کی بو قلمونیاں اور فطرت کی متنوع رعنائیاں انسان کے حسیات کی تسکین اور زندگی کی دل بستگی و آسائش کا مکمّل سر و سامان لئے ہوئے ہیں۔

لیکن یہ عالم کے دل آویز نقوش اور راحت و آسائش کے سامان کس لئے ہیں؟ کیا اس لئے ہیں کہ انسان چند دن کھائے پئے، گھومے پھرے اور پھر قبر میں جا سوئے۔ اگر ایسا ہو تو زندگی کا کوئی مآل و مقصد ہی نہیں رہتا۔ حالانکہ دنیائے کائنات کی ہر چیز کا ایک مقصد اور ایک مدّعا ہے تو پھر زندگی اور زندگی کے سر و سامان بغیر مقصد کے کیونکر ہو سکتے ہیں؟ اس کا بھی کوئی مقصد ہونا چاہیے اور وہ مقصد صرف آخرت کی زندگی ہے۔ جس کی سعادتوں اور کامرانیوں کو حاصل کرنے کیلئے دنیا کو ایک ذریعہ اور امتحان گاہ قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:

﴿وَلٰكِنْ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِ﴾

لیکن جو اُس نے تمہیں دیا ہے اُس میں تمہیں آزمانا چاہتا ہے، لہٰذا نیکیوں کی طرف بڑھنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو۔[۲]

یہ آزمائش اسی صورت میں آزمائش رہ سکتی ہے جب ان نیکیوں پر عمل پیرا ہونے اور ان میں سبقت لے جانے میں انسانی اختیار کا عمل دخل ہو۔ اور اگر وہ ایمان و عمل صالح پر مجبور ہو تو آزمائش کے معنی ہی کیا، بلکہ ایسی صورت میں تو ہر ایک کو ایمان لانا پڑتا اور اعمال بجا لانے پڑتے، کیونکہ قدرت اپنی بات کے منوانے میں مجبور و قاصر نہیں ہے۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:

﴿وَلَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِي الْاَرْضِ كُلُّھُمْ جَمِيْعًا﴾

اور اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو زمین میں بسنے والے سب کے سب اس پر ایمان لے آتے۔[۳]

بے شک کائنات کا ہر ذرّہ اس کی مشیّت کے تابع ہے۔ اس طرح کہ کوئی اس کے محیط اقتدار سے باہر نہیں ہے۔ وہ زمین ہو یا اس پر چلنے پھرنے والی مخلوق، پہاڑ ہوں یا اُن کے دامن میں معدنیات، دریا ہوں یا ان میں رہنے والی مچھلیاں، سمندر ہوں یا اُن میں عنبر مونگے اور موتیوں کے خزانے، فضا ہو یا اُس میں پروا زکرنے والے پرندے، بادلوں کے لکّے ہوں یا اُن میں امڈتے ہوئے پانی کے ذخیرے، چاند سورج ہوں یا اُن کی جوہری شعاعیں، ستارے ہوں یا اُن کی مخصوص تاثیریں، فرشتے ہوں یا اُن کی سرگرمیاں، سب ہی تو اُس کی مشیّت کے اندر جکڑی بندھی ہوئی ہیں۔ اگر انسان بھی اعتقاد و اعمال میں اسی طرح بے بس ہوتا اور مشیّت ہر ایک کو ایک مخصوص طریق کار کا پابند بنا دیتی تو جزا و سزا بےکار ہو جاتی۔ حالانکہ قانونِ مکافات کی رُو سے جزا و سزا سے دوچار ہونا ضروری ہے۔ جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے:

﴿لَہَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْہَا مَااكْتَسَبَتْ﴾

اگر اس نے اچھا کام کیا تو اپنے فائدے کیلئے اور بُرا کام کیا تو اس کا وبال اس کے سر پڑے گا۔[۴]

تو جب اپنے ہی اعمال سامنے آتے ہیں تو وہی اوقات و لمحات زندگی کا سرمایہ ہیں جن میں اعمالِ خیر کے ذریعہ آخرت کا سرمایہ بہم پہنچا لیا گیا ہو اور وہی شب و روز مبارک و مسعود ہیں جن میں اُخروی ہلاکت و تباہی سے بچنے کا سامان کر لیا گیا ہو۔ یہ دن اور یہ راتیں ہمارے اچھے اور بُرے اعمال کی نگران ہیں۔ اگر ان کے سامنے ہماری نیکیاں آتی ہیں تو اُن کی پیشانی کی گرہیں کُھل جاتی ہیں اور اُن کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے اور وہ ہم سے خوش خوش رُخصت ہوتے ہیں اور اگر برائیوں کو دیکھتے ہیں تو ان کی جبین پر شکنیں پڑ جاتی ہیں اور بُرائی کرتے ہوئے رخصت ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا ارشاد ہے:

مَا مِنْ يَّوْمٍ يَمُرُّ عَلَى ابْنِ اٰدَمَ اِلَّا قَالَ لَهٗ ذٰلِكَ الْيَوْمُ: اَنَا يَوْمٌ جَدِيْدٌ وَّ اَنَا عَلَيْكَ شَهِيْدٌ، فَقُلْ فِیَّ خَيْرًا وَّ اعْمَلْ فِیَّ خَيْرًا اَشْهَدْ لَكَ بِهٖ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ.

انسان کی زندگی کا جو دن گزرتا ہے وہ (زبانِ حال سے) خطاب کرتے ہوئے اُس سے کہتا ہے کہ: میں تیرے لئے نیا دن اور تیرے اعمال کا گواہ ہوں۔ لہٰذا زبان اور اعضاء سے نیک عمل کرو، میں اُس کی قیامت کے دن گواہی دوں گا۔[۵]

لہٰذا صبح کی پرسکون فضا اور ستاروں کی ٹھنڈی چھاؤں میں آنے والے دن کا استقبال اس دُعا سے کیا جائے، تا کہ کم از کم اس دن تو اس کے تاثرات ہماری زندگی پر چھائے رہیں اور فکر و عمل کی پاکیزگی ہمارے تصورات پر محیط رہے اور یہی اس دُعا کا مرکزی نقطۂ نگاہ ہے۔

[٭٭٭٭٭]

[۱]۔ سورۂ قصص، آیت ۷۲ – ۷۳

[۲]۔ سورۂ مائدہ، آیت ۴۸

[۳]۔ سورۂ یونس، آیت ۹۹

[۴]۔ سورۂ بقرہ، آیت ۲۸۶

[۵]۔ من لا یحضرہ الفقیہ ج۴، ص ۳۹۷

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button