کلمات قصار

نہج البلاغہ حکمت 404: »لَاحَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ «کے معنی

(٤٠٤) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ

(۴۰۴)

وَ قَدْ سُئِلَ عَنْ مَّعْنٰى قَوْلِهِمْ: لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللهِ:

حضرتؑ سے ’’لاحول ولا قوۃ الا باللہ‘‘ (قوت و توانائی نہیں مگر اللہ کے سبب سے) کے معنی دریافت کئے گئے تو آپؑ نے فرمایا کہ:

اِنَّا لَا نَمْلِكُ مَعَ اللهِ شَیْئًا، وَ لَا نَمْلِكُ اِلَّا مَا مَلَّكَنَا، فَمَتٰى مَلَّكَنَا مَا هُوَ اَمْلَكُ بِهٖ مِنَّا كَلَّفَنَا، وَ مَتٰۤى اَخَذَهٗ مِنَّا وَضَعَ تَكْلِیْفَهٗ عَنَّا.

ہم خدا کے ساتھ کسی چیز کے مالک نہیں۔ اس نے جن چیزوں کا ہمیں مالک بنایا ہے بس ہم انہیں پر اختیار رکھتے ہیں۔ تو جب اس نے ہمیں ایسی چیز کا مالک بنایا جس پر وہ ہم سے زیادہ اختیار رکھتا ہے تو ہم پر شرعی ذمہ داریاں عائد کیں اور جب اس چیز کو واپس لے لے گا تو ہم سے اس ذمہ داری کو بھی بر طرف کر دے گا۔

مطلب یہ ہے کہ انسان کو کسی شے پر مستقلاً تملک و اختیار حاصل نہیں، بلکہ یہ حق ملکیت و قوتِ تصرف قدرت کا بخشا ہوا ایک عطیہ ہے اور جب تک یہ تملک و اختیار باقی رہتا ہے تکلیف شرعی بر قرار رہتی ہے اور اسے سلب کر لیا جاتا ہے تو تکلیف بھی برطرف ہو جاتی ہے۔ کیونکہ ایسی صورت میں تکلیف کا عائد کرنا تکلیف ما لایُطاق ہے جو کسی حکیم و دانا کی طرف سے عائد نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ اللہ سبحانہ نے اعضا و جوارح میں اعمال کے بجا لانے کی قوت ودیعت فرمانے کے بعد ان سے تکلیف متعلق کی۔ لہٰذا جب تک یہ قوت باقی رہے گی ان سے تکلیف کا تعلق رہے گا اور اس قوت کے سلب کر لینے کے بعد تکلیف بھی برطرف ہو جائے گی۔ جیسے زکوٰۃ کا فریضہ اسی وقت عائد ہوتا ہے جب دولت ہو۔اور جب وہ دولت کو چھین لے گا تو اس کے نتیجہ میں زکوٰۃ کا وجوب بھی ساقط کر دے گا، کیونکہ ایسی صورت میں تکلیف کا عائد کرنا عقلاً قبیح ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button