کلمات قصار

نہج البلاغہ حکمت 464: بنی اُمیہ

(٤٦٤) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ

(۴۶۴)

اِنَّ لِبَنِیْۤ اُمَیَّةَ مِرْوَدًا یَجْرُوْنَ فِیْهِ، وَ لَوْ قَدِ اخْتَلَفُوْا فِیْمَا بَیْنَهُمْ ثُمَّ كَادَتْهُمُ الضِّبَاعُ لَغَلَبَتْهُمْ.

بنی امیہ کیلئے ایک مرود (مہلت کا میدان) ہے جس میں وہ دوڑ لگا رہے ہیں، جب ان میں باہمی اختلاف رونما ہو تو پھر بجّو بھی ان پر حملہ کریں تو ان پر غالب آ جائیں گے۔

وَ «الْمِرْوَدُ» هٰهُنَا مِفْعَلٌ مِّنَ الْاِرْوَادِ، وَ هُوَ الْاِمْهَالُ وَ الْاِنْظَارُ، وَ هٰذَا مِنْ اَفْصَحِ الْكَلَامِ وَ اَغْرَبِهٖ، فَكَاَنَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ شَبَّهَ الْمُهْلَةَ الَّتِیْ هُمْ فِیْهَا بِالْمِضْمَارِ الَّذِىْ یَجْرُوْنَ فِیْهِ اِلَى الْغَایَةِ، فَاِذَا بَلَغُوْا مُنْقَطَعَهَا انْتَقَضَ نِظَامُهُمْ بَعْدَهَا.

(سیّد رضیؒ فرماتے ہیں کہ:) ’’مرود‘‘ ارواد سے مِفْعَل کے وزن پر ہے اور اس کے معنی مہلت و فرصت دینے کے ہیں اور یہ بہت فصیح اور عجیب و غریب کلام ہے۔ گویا آپؑ نے ان کے زمانہ مہلت کو ایک میدان سے تشبیہ دی ہے جس میں انتہا کی حد تک پہنچنے کیلئے دوڑ رہے ہیں۔ چنانچہ جب اپنی آخری حد تک پہنچ جائیں گے تو ان کا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔

یہ پیشین گوئی بنی اُمیہ کی سلطنت کے زوال و انقراض کے متعلق ہے جو حرف بحرف پوری ہوئی۔ اس سلطنت کی بنیاد معاویہ ابن ابی سفیان نے رکھی اور نوے برس گیارہ مہینے اور تیرہ دن کے بعد ۱۳۲ ہجری میں مروان الحمار پر ختم ہو گئی۔ بنی اُمیہ کا دور ظلم و ستم اور قہر و استبداد کے لحاظ سے آپ اپنی نظیر تھا۔ اس عہد کے مطلق العنان حکمرانوں نے ایسے ایسے مظالم کئے کہ جن سے اسلام کا دامن داغدار، تاریخ کے اوراق سیاہ اور روح انسانیت مجروح نظر آتی ہے۔ انہوں نے اپنے شخصی اقتدار کو برقرار رکھنے کیلئے ہر تباہی و بربادی کو جائز قرار دے لیا تھا۔ مکہ پر فوجوں کی یلغار کی، خانہ کعبہ پر آگ برسائی، مدینہ کو اپنی بہیمانہ خواہشوں کا مرکز بنایا اور مسلمانوں کے قتل عام سے خون کی ندیاں بہا دیں۔

آخر ان سفاکیوں اور خونریزیوں کے نتیجہ میں ہر طرف سے بغاوتیں اور سازشیں اٹھ کھڑی ہوئیں اور ان کے اندرونی خلفشار اور باہمی رزم آرائی نے ان کی بربادی کا راستہ ہموار کر دیا۔ اگرچہ سیاسی اضطراب ان میں پہلے ہی سے شروع ہو چکا تھا مگر ولید ابن یزید کے دور میں کھلم کھلا نزاع کا دروازہ کھل گیا اور ادھر چپکے چپکے بنی عباس نے بھی پر پرزے نکالنا شروع کئے اور مروان الحمار کے دور میں ’’خلافت الٰہیہ‘‘ کے نام سے ایک تحریک شروع کر دی اور اس تحریک کو کامیاب بنانے کیلئے انہیں ابو مسلم خراسانی ایسا امیر سپاہ مل گیا جو سیاسی حالات و واقعات کا جائزہ لینے کے علاوہ فنون حرب میں بھی پوری مہارت رکھتا تھا۔ چنانچہ اس نےخراسان کو مرکز قرار دے کر اُمویوں کے خلاف ایک جال بچھا دیا اور عباسیوں کو بر سر اقتدار لانے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ شخص ابتدا میں گمنام اور غیر معروف تھا۔ چنانچہ اسی گمنامی و پستی کی بنا پر حضرتؑ نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو ’’بجو‘‘ سے تعبیر کیا ہے کہ جو ادنیٰ و فرومایہ لوگوں کیلئے بطور استعارہ استعمال ہوتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button