شخصیات

شیخ صدوق (رح)

شیخ صدوق (رح) کی مختصر سوانح عمری

 ”بابویہ“ شیخ صدوق كے پر دادا ھیں، آپ كے والد محترم یعنی علی بن حسین بن موسی ابن بابویہ اس خاندان كے پھلے وہ شخص ھیں جو ابن بابویہ كے لقب سے ملقب ھوئے۔ ابن بابویہ خود بھی شیعہ علماء میں سے تھے اور مختلف موضوعات پر سو سے زیادہ كتابیں ضبط تحریر كی تھیں، وہ اپنے زمانے میں قم اور اس كے گرد و نواح كے شیعوں كے رھبر كی حیثیت سے تھے، انھوں نے غیبت امام آخر عجل اللہ فرجہ الشریف اور حسین بن روح كی خاص نیابت كے زمانے كو درك كیا تھا۔
یہ عظیم زاھد اور متقی عالم دین قم ھی میں ایك دكان ركھتے تھے وہ علمی مشغولیات كے ساتھ كچھ وقت تجارت میں بھی صرف كرتے تھے اور اس سے ھونے والی آمدنی سے امرار معاش كیا كرتے تھے لیكن درحقیقت وہ اس قدر عظیم عالم دین تھے كہ نہ صرف یہ كہ اپنے زمانے كے درمیان عظیم علمی منزلت كے حامل تھے بلكہ آج بھی علوم دینیہ كے طلاب اور اساتید كے درمیان احترام كی نظر سے دیكھے جاتے ھیں۔
جس چیز نے آپ كے والد كو سالھا سال محزون ركھا وہ ایك فرزند كا نہ ھونا تھا، اگرچہ وہ عمر كے پچاس سال گزار چكے تھے اور ضعیفی كی طرف بڑھ رھے تھے مگر رحمت الھی سے مایوس نھیں تھے، انھوں نے بارھا خدا سے دعا كی تھی كہ خدا انھیں فرزند عطا كرے لیكن وہ اصل مشكل سے بےخبر تھے یھاں تك كہ انھوں نے ایك دن اپنے ھادی اور امام حضرت حجت (عج) كو نامہ لكھنے كا ارادہ كر لیا وہ ایك اچھے موقع اور قابل اطمینان شخص كی تلاش میں تھے تا كہ اس كے ذریعہ نامہ ارسال كر سكیں، یھاں تك كہ ایك دن قم سے ایك قافلہ عراق كی طرف عازم سفر ھوا، اس قافلہ میں ایك ابو جعفر نامی دوست كو پایا جو خط كو اس كے مقصد تك پھنچا سكتے تھے۔
آپ نے نامہ تحریر كر كے ان كے حوالے كر دیا تاكہ وہ عراق میں حسین بن روح  كو دے سكیں اور ان كو حضرت تك پھونچانے كے لئے كھہ دیں۔ ابو جعفر كھتے ھیں كہ میں نے آپ كے خط كو نائب امام آخر الزمان (عج) كی خدمت میں پھونچا دیا انھوں نے تین دن كے بعد خبر دی كہ حضرت نے ابن بابویہ كے لئے دعا كردی ھے اور جلد ھی خداوند انھیں ایك ایسا فرزند دے گا جو بھت سی بركات كا سبب ھوگا۔
 
شیخ طوسی اپنی كتاب "غیبت” میں آپ كی ولادت كے بارے میں اس طرح رقم طراز ھیں: قم كے بھت سے معزّزین نے نقل كیا ھے كہ علی بن حسین بن بابویہ نے اپنی چچا زاد سے شادی كی لیكن صاحب اولاد نہ ھوئے، ابوالقاسم حسین بن روح كو خط لكھا كہ حضرت امام عج سے دعا كرنے كو كھیں تاكہ خدا انھیں فرزند عنایت فرمائے۔ حضرت كی طرف سے جواب آیا كہ اس ھمسر سے صاحب اولاد نھیں ھوں گے لیكن جلد ھی ایك دیلمی كنیز سے شادی كرو گے اور خداوند اس كے ذریعہ تمھیں دو فقیہ فرزند سے نوازے گا۔  شیخ صدوق نے بھی حضرت ولی عصر عج كی دعا اور اپنی ولادت كا ماجرا كتاب كمال الدین میں ذكر كرتے ھوئے لكھا ھے كہ جب بھی ابو جعفر محمد بن علی اسود مجھے دیكھتے تھے كہ حدیث و علوم اھل بیت علیھم السلام كے حصول میں بھت ھی اشتیاق و رغبت كے ساتھ اساتید كی مجلسوں میں جاتا ھوں تو فرماتے تھے :
تمھارے اس تعلیم كے شوق اور رغبت میں كوئی تعجب نھیں ھے اس لئے كہ تم امام زمانہ (عج) كی دعا سے متولد ھوئے ھو۔
بھرحال ابن بابویہ تك یہ بشارت پھنچی اور كچھ ھی زمانے میں خدا نے انھیں ایك دیلمی كنیز كے ذریعہ ” محمد ” سے نوازا كہ اس وقت باپ كے لئے نور چشم اور امید كا باعث قرار پائے، اس كے بعد خدا نے انھیں ایك اور فرزند عطا كیا جس كا نام ” حسین ” ركھا۔ حسین بن علی بن بابویہ كا شمار بھی بزرگ علماء میں ھوتا تھا اور وہ اپنے والد بزرگوار اور اپنے بھائی محمد كے بعد بابویہ خاندان كی سب سے عظیم اور مشھور شخصیت كے حامل تھے۔
 
شیخ صدوق كے بچپن اور نوجوانی كا دور
جس زمانے میں خدا نے علی كو محمد عطا كیا آپ كے والد جوانی كے ایام ماضی كے حوالے كر چكے تھے اور دینی مسائل اور اسلامی آداب محدثین اور علماء كے مكتب سے حاصل كر چكے تھے، اس زمانے میں ان كا شمار عالم اسلام كی بزرگ شخصیت اور قم كی شیعہ قوم كے رئیس كی حیثیت سے ھوتا تھا۔
شاید خدا كی حكمت تھی كہ محمد كا اس خاندان میں ورود اس وقت ھو جب تجربہ اور انتظار صحیح پرورش كا بستر لگا چكے ھوں اور یہ تازہ وارد نھال (پودا) علم و ادب كے كشت زار میں پھولے پھلے، اسی بنا پر ماں نے آپ كو بھت اچھے انداز میں پالا پوسا اور باپ نے بھترین طریقے سے سنوارا۔
 
شیخ صدوق كا تعلیمی دور
”محمد“ نے بچپنے كے سالوں میں حصول علم دین كا آغاز اپنے والد ماجد سے كیا اور آپ كی ابتدائی تعلیم اور علوم كی پھلی منزلیں شھر قم میں ھی طے ھوئیں جو كہ اس وقت علماء اور محدثین كا شھر تھا۔
وہ بےانتھا لگن اور سعی بلیغ كے ساتھ تحصیل علوم میں لگ گئے، كوئی دن ایسا نھیں گزرتا تھا جب ان كے علم میں اضافہ نہ ھو، انھوں نے اكثر چیزیں اپنے والد علی بن بابویہ سے سیكھیں اس كے علاوہ علماء كے علمی جلسوں میں بھی حاضری دی جب وہ علم كے بڑے مدارج تك پھونچ گئے تو انھوں نے بزرگ اساتیذ اور محدثین سے كسب فیض كے سلسلے میں سفر كرنا شروع كیا ۔ شاید یہ كھنا بیجا نہ ھوگا كہ ان كی كامیابی كا ایك راز زیادہ اساتیذ كی خدمت میں حاضری اور ان كے خرمن علم سے خوشہ چینی تھا۔ اسی بنا پر آپ كے اساتیذ كا شمار كرنا قدرے مشكل ھے۔
محقق عالم دین شیخ عبد الرحیم ربانی شیرازی شیخ صدوق كی كتاب ” معانی الاخبار ” كے مقدمہ میں جو آپ كی سوانح حیات كے سلسلے میں تحریر كیا ھے اس میں صدوق كے 252 اساتیذ كا نام ذكر كرتے ھیں۔
شیخ صدوق نے قم میں جن اساتذہ سے كسب فیض كیا ان میں محمد بن حسن بن ولید، احمد بن علی بن ابراھیم قمی، محمد بن یحیی بن عطار اشعری قمی، حسن بن ادریس قمی اور حمزہ بن محمد علوی جیسے بزرگان كا نام لیا جا سكتا ھے۔
ھم اس محنتی اور جفا كش عالم دین كے سفر كے باب میں ان میں سے بعض حضرات كا ذكر كریں گے جن سے آپ نے ان سالوں میں مختلف بلاد اور علاقوں میں كسب فیض كیا ھے اور احادیث اخذ كی ھیں۔
شیخ صدوق كے زمانے كے اھم واقعات میں سے ایك ایرانی اور شیعہ مذھب آل بویہ كا اقتدار میں آنا ھے كہ جنھوں نے 322 سے لیكر 448 تك ایران، عراق، جزیرہ سے شام كی شمالی سرحدوں تك كے اكثر علاقوں پر حكومت كی۔
شیخ صدوق كی ”قم“ سے”رے“ كی طرف ھجرت بھی انھیں حاكموں میں سے ایك حاكم "ركن الدولہ دیلمی” كی درخواست پر ھوئی تھی۔
علامہ شوشتری نے شیخ صدوق كی قم سے رے كی طرف ھجرت كے واقعہ كو اس طرح ذكر كیا ھے: ركن الدولہ نے مذھب حق كی تبلیغ كے لئے شیخ كو دار الخلیفہ میں تشریف لانے كی دعوت دی حاكم نے پھلی نشست میں مذھب حق كی تحقیق كے سلسلہ میں جو سوال ذھن نشیں كیے ھوئے تھے شیخ كی خدمت میں پیش كیے جیسا كہ وہ پھلے ھی سے شیخ كے بارے میں باخبر تھے اور اپنے سوالات كے صحیح جوابات بھی پاگئے تو شیخ كو عزت و احترام كی جگہ دی اور انعام و اكرام سے نوازا۔  شاید اس دعوت اور سفر كا اصل سبب شیخ كلینی كی رے سے بغداد كی طرف ھجرت اور پھر ان كی وفات سے پیدا ھونے والا خلا تھا ۔ درحقیقت شیخ كا رے میں قیام بھت سی بركات كا سبب بن سكتا تھا ۔ آپ نے بھی اس موضوع كی اھمیت كو سمجھتے ھوئے ركن الدولہ كی دعوت كو قبول كرلیا اور اپنے وطن كو ترك كركے رے كی طرف عازم سفر ھوگئے ۔ اس مدعا كی بھترین دلیلیں خود آپ كی وہ بحثیں ھیں جو آپ نے رے میں مختلف اسلامی موضوعات خصوصاً امامت اور غیبت امام زماں عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف جیسے موضوعات پر انجام دی ھیں۔ آپ كی ان گفتگؤوں كا نتیجہ كہ جس میں سے بعض بحثیں خود ركن الدولہ كے حضور ھویئں تھیں آپ كی وہ گرانبھا كتابیں ھیں جو باقی رہ گئیں ھیں۔
 
عصر حدیث
عصر صدوق كو عصر حدیث كھا جانا چاھیے جس علمی دور كا آغاز كلینی كے ذریعہ ھوا تھا اس نے صدوق كی سعی پیھم سے دوام حاصل كیا۔ شیخ كلینی نے بھی كلین سے رے كی طرف ھجرت كی تھی اور وھاں پر شیعوں كی كتب اربعہ كی پھلی كتاب كو تحریر كیا انھوں نے اس نئی علمی تحریك كے ذریعہ مكتب حدیث نویسی كی بنیاد ركھی كہ جس پر شیخ صدوق جیسے افراد نے ضبط و نشر حدیث كی مستحكم عمارت تعمیر كی۔ جس راستے كو كلینی نے انتخاب كیا تھا صدوق نے اس كو جاری ركھنے كے لئے علمی سفروں كا آغاز كیا، آپ كی زندگی كے اس گوشہ كو ایك نئے باب كے طور پر دیكھا جا سكتا ھے۔
اگر شیخ صدوق كی زندگی كے اس گوشہ كا مطالعہ اور اس میں غور و خوض كیا جائے تو معلوم ھوگا كہ آپ كا وجود احادیث كی جمع آوری كے عشق سے سرشار تھا اور آپ نے ھادیان دین كے اقوال كی حفاظت اور ان كی نشر و اشاعت اپنا پھلا مشغلہ بنا ركھا تھا اور اسی مقصد تك پھنچنے كے لئے بلخ و بخارا سے لے كر كوفہ و بغداد اور وھاں سے مكہ اور مدینہ تك كا سفر كركے تمام سنی و شیعہ اسلامی مراكز تك اپنے كو پھونچایا اس سفر میں آپ كو بھت سی مشكلات كا سامنا ھوا لیكن آپ نے ان كو اپنا لیا غربت كا غم برداشت كیا اور پیغمبر و آل پیغمبر علیھم السلام كی احادیث كے بھت بڑے ذخیرہ كے ساتھ واپس پلٹے۔
 آپ جس شھر میں وارد ھوتے تھے وھاں كے جیّد علماء كی تلاش میں لگ جاتے اور ان كے علم سے استفادہ كرتے تھے اور طلاب علوم دین كو اپنے علمی ذخیرہ سے سیراب كرتے تھے ۔ آپ ماہ رجب 352 میں امام رضا علیہ السلام كی زیارت كے لئے مشھد تشریف لے گئے اور اس كے بعد رے واپس آگئے۔ اسی سال آپ نے ماہ شعبان میں نیشاپور كا سفر كیا جو اس زمانے میں خراسان كے اھم ترین شھروں میں سے تھا وھاں كے لوگ آپ كے چاروں طرف جمع ھو گئے اور آپ نے وھاں پر اپنی واضح اور مدلل گفتگو سے غیبت امام مھدی (عج) كے متعلق لوگوں كی فكری گتھیوں كو سلجھا دیا۔ آپ نے خود ھی اس واقعہ كا ذكر اپنی كتاب اكمال الدین میں كیا ھے، اس كے علاوہ آپ نے وھاں كے بعض علماء سے حدیث سنیں اور انھیں نقل كیا ھے ان میں سے بعض حسین بن احمد بیھقی، ابو الطیب حسین بن احمد اور عبد اللہ بن محمد بن عبد الوھاب ھیں۔ مرو میں بھی آپ نے كچھ افراد سے احادیث سنیں اور انھیں نقل كیا ھے جن میں سے بعض افراد محمد بن علی شاہ فقیہ، ابو یوسف رافع بن عبد اللہ بن عبد الملك ھیں، آپ نے اس كے بعد بغداد كی طرف سفر كیا وھاں كے چند علماء سے احادیث حاصل كی ان میں سے بعض یہ ھیں: حسین بن یحیی علوی، ابراھیم بن ھارون، علی بن ثابت (والیبی)۔ آپ ۳۵۴ میں وارد كوفہ ھوئے اور وھاں كے بزرگوں سے اخذ حدیث كیا جن میں سے محمد بن بكران نقاش، احمد بن ابراھیم بن ھارون، حسن بن محمد بن سعید ھاشمی، علی بن عیسیٰ، حسن بن محمد مسكونی اور یحییٰ بن زید بن عباس بن ولید جیسے مشائخ كے نام لیے جا سكتے ھیں۔
اسی سال آپ زیارت اور حج بیت اللہ كے لیے حجاز روانہ ھوئے اور ھمدان كے راستے میں قاسم بن محمد بن احمد بن عبدویہ، فضل بن فضل بن عباس كندی اور محمد بن فضل بن زیدویہ جلاب سے احادیث سنیں اور نقل كیا ھے ۔ حج كے انجام دینے كے بعد سفر سے واپسی پر مكہ اور فید كے درمیان احمد بن ابی جعفر بیھقی سے روایت حاصل كی۔ آپ دوبارہ ۳۵۵ میں بغداد تشریف لائے شاید آپ كی یہ تشریف آوری حج بیت اللہ سے واپسی كے بعد كی ھے۔ كتاب المجالس سے معلوم ھوتا ھے كہ آپ اس كے علاوہ دوبار اور بھی مشھد كی زیارت سے مشرف ھوئے ھیں ایك بار ۳۶۷ میں تشریف لے گئے اور وھاں سید ابو بركات علی بن حسین حسینی اور ابوبكر محمد بن علی كے سامنے حدیثیں پیش كیں اور محرم سے پھلے ۳۶۸ میں رے واپس آگئے، دوسری مرتبہ اس وقت جب كہ ماوراء النھر كی طرف سفر كا ارادہ تھا راستے میں مشھد اور بلخ كی طرف بھی تشریف لے گئے اور وھاں كے علماء منجملہ حسین بن محمد انشانی رازی، حسین بن احمد استرآبادی، حسن بن علی بن محمد بن علی بن عمرو العطار، حاكم ابو حامد احمد بن حسین اور عبید اللہ بن احمد فقیہ سے كسب فیض كیا۔ ایلاق میں بھی محمد بن عمرو بن علی بن عبد اللہ بصری اور محمد بن حسن بن ابراھیم كرخی وغیرہ سے اخذ حدیث كیا، یھی وہ دیھات تھا جھاں شریف الدین ابو عبداللہ محمد بن حسن المعروف بہ نعمت نے آپ سے درخواست كی تھی كہ كتاب من لا یحضرہ الفقیہ تحریر كریں جس كی تفصیل ھم تالیفات كی فصل میں بیان كریں گے۔ آپ اس كے بعد سرخس كی طرف عازم سفر ھوئے اور وھاں سے سمرقند تشریف لے گئے۔ گرگان كی طرف سفر میں بھی آپ نے ابو الحسن محمد بن قاسم استرآبادی سی حدیثیں لیں ھیں۔
 
شیخ صدوق كے شاگرد
شیخ صدوق نے یہ بات اچھی طرح درك كرلی تھی كہ اقوال معصومین علیھم السلام كہ جو كسی بھی زمانے میں خائنوں كی تحریف و خراب كاری كی زد میں آسكتے ھیں ان كی حفاظت كا بھترین راستہ ان كی تدوین، تحریر اور حفظ كے علاوہ عاشقان مكتب اھل بیت علیھم السلام كے سینوں میں منتقل كرنا ھے اسی بنا پر جھاں كھیں كسی حدیث كو سنتے تھے فورا ھی اسے ذھن نشین كرلیا كرتے، لكھتے اور دوسروں كو بھی سناتے تھے، اس طرح اس زمانے كے بھت كم ھی ایسے علماء تھے جن سے آپ نے استفادہ نہ كیا ھو اور بھت كم ھی ایسے طلاب تھے جن كو آپ نے علوم وحی و عصمت سے كچھ نہ بخشا ھو۔ آپ جس شھر میں بھی تشریف لے گئے وھاں كے اكثر دانشوروں نے آپ كے خرمن دانش سے خوشہ چینی كی اور فیضیاب ھوئے ھیں اس طرح آپ كے شاگردوں كی تعداد سیكڑوں میں لكھی گئی ھے۔ آپ كے شاگروں میں سے ممتاز شاگرد كے طور پر عالم تشیع كے صاحب نام عالم دین محمد بن محمد بن نعمان المعروف بہ شیخ مفید كا نام لیا جا سكتا ھے كہ جو واقعاً اس لقب كے لائق تھے اور دین و دیانت كے سلسلہ میں بھت زیادہ خدمات كی ھیں۔ آپ كے آثار آپ كی وسعت علم كی واضح دلیل ھیں۔
 
شیخ مفید كے علاوہ آپ كے شاگردوں میں سے ان معزز علمائے كرام كے نام لئے جا سكتے ھیں: آپ كے بھائی حسین بن علی بن بابویہ قمی، ھارون بن موسی تلعكبری، حسین بن عبید اللہ غضائری، حسن بن محمد قمی (تاریخ قم كے موٴلف)، علی بن احمد بن عباس نجاشی، علم الھدیٰ سید مرتضیٰ، سید ابو البركات علی بن حسین جوزی حسینی حلی۔
 
شیخ صدوق دوسروں كی نظر میں
شیخ صدوق كی عظمت كا یہ عالم ھے كہ شیعہ اور سنی دونوں فرقہ كے علماء جب بھی آپ كے نام تك پھونچے تو آپ كی مدح و ثناء كرنے لگے اور آپ كی عظمت كا كلمہ پڑھا اور بلند و طویل القاب اور پرمعنیٰ عبارتوں كے ساتھ آپ كا نام لیا ھے۔ ان بزرگوں كے كلام كی بعض تعبیریں تو انسان كو تعجب كے كٹگھرے میں لا كھڑا كرتی ھیں اور آپ كی والا شخصیت كے سامنے انسان كے تعظیمی جذبہ میں اور زیادہ اضافہ كر دیتی ھیں۔ شیخ طوسی الفھرست میں لكھتے ھیں: صدوق، عظیم حافظ احادیث، ناقد اخبار اور عالم رجال تھے۔ ذھنی پختگی اور علمی اعتبار سے قم كے دانشوروں میں آپ كے مانند كوئی نھیں تھا۔
 
محمد بن ادریس صاحب سرائر : ” آپ ایك عظیم دانشور، قابل اطمینان، عالم اخبار، ناقد آثار، عالم رجال اور حدیث كے عظیم حافظ تھے، آپ ھمارے پیشوا شیخ مفید محمد بن محمد بن نعمان كے استاد ھیں۔”
مشھور عالم رجال نجاشی: ھمارے فقیہ اور بزرگ صدوق خراسان كے شیعوں كی مشھور و معروف شخصیت تھی ۔ وہ اپنی جوانی كے ایام میں ۳۵۵ میں بغداد تشریف لائے اور وھاں كے بزرگوں نے آپ كی خدمت میں آكر فیض حاصل كیا۔
سید ابن طاؤوس: شیخ ابو جعفر محمد بن علی بن بابویہ كی یہ شخصیت تھی كی آپ علم و عمل میں مورد اتفاق اور گفتار میں كامل اطمینان كے قابل ھیں۔
شیخ اسد اللہ شوشتری صاحب كتاب مقابس الانوار: صدوق رئیس المحدثین، اساس دین كو حیات دینے والے، صاحب فضایل و مكارم تھے وہ اور ان كے بھائی حضرت امام حسن عسكری اور حضرت ولی عصر علیھما السلام كی دعا كے ذریعہ پیدا ھوئے تھے۔
علامہ مامقانی صاحب تنقیح المقال: محمد بن علی بن بابویہ كی وہ شخصیت ھے جس كی فقاھت سے تمام لوگوں نے اور جس كی احادیث سے تمام فقھاء نے استفادہ كیا ھے اور نامور علماء اور دانشورں نے آپ كی تعریف و تمجید كی ھے اور آپ كی عظمتوں كو سلام كیا ھے۔
مرحوم سید حسن صدر: محمد بن علی بن حسین نے تین سو سے زیادہ كتابیں تصنیف كی ھیں اور اسلامی دانشوروں مین آپ كی كوئی مثال نھیں ملتی۔
یہ تمام توصیفات و تعریفات فقط شیعہ علماء اور دانشورں سے ھی مختص نھیں ھیں، اھل سنت بھی آپ كے مدح سرا رھے ھیں، ھم اس مختصر مقالے میں فقط بطور نمونہ ایك كی طرف اشارہ كر رھے ھیں۔
خیر الدین زركلی صاحب كتاب الاعلام: محمد بن علی بن حسین المعروف بہ شیخ صدوق كی مثال قم كے علماء میں نھیں تھی وہ رے میں مقیم تھے اور خراسان و شرقی علاقوں میں عظیم مقام ركھتے تھے، شھر رے میں رحلت فرمائی اور وھیں پر سپر خاك ھوئے اور آپ نے تقریبا تین سو كتابوں كو تالیف كیا۔
 
روایت اور گفتار میں صداقت
علم رجال كے باب میں ایك مسئلہ جو مورد توجہ قرار دیا جاتا ھے اور جس كے ذریعہ محدثین حدیث كو قبول كرتے ھیں وہ مسئلہ علمائے رجال كا راوی كی وثاقت، اطمینان اور صداقت كی تصریح كرنا ھے جب كہ علمائے رجال كے كلام میں صدوق كی وثاقت كا بیان ندرت سے ملتا ھے۔ عالم تشیع كے عظیم محدث اور وسائل الشیعہ جیسی كتاب كے مولف شیخ حر عاملی اسی سلسلہ میں تحریر فرماتے ھیں: بزرگ رجال نویس علماء نے اس قدر آپ كی تعریف و تمجید كی ھے جو كہ توثیق سے كم نھیں ھے۔ جس وقت كوئی شخص اس قدر شھرت كا حامل ھو كہ اس كی حالت كسی سے بھی ڈھكی چھپی نہ ھو تب اس كی توثیق كی ضرورت نھیں ھوتی۔ شیخ صدوق پر علمائے دین كا اعتماد اس درجہ پر تھا كہ اگر ان كو ” آپ مورد وثوق اور قابل اطمینان ھیں” جیسی عبارتوں سے تعبیر كیا جائے تو یہ ان كی شان میں گستاخی ھی ھو گی ۔ محقق بحرانی فرماتے ھیں:
بعض اصحاب كو دیكھا ھے جو صدوق كی نقل كی ھوئی مرسلہ روایات  كو صحیح جانتے ھیں اور كھتے ھیں كہ صدوق كے مراسیل ابن ابی عمیر كی مراسیل سے كمتر نھیں ھیں كتاب ” مختلف “ میں علامہ ”شرح ارشاد“ میں شھید اور ”حواشی فقیہ“ میں سید داماد ان لوگوں میں سے ھیں جنھوں نے آپ كی مر اسیل كو صحیح جانا ھے۔
مشھور رجالی علامہ مامقانی تنقیح المقال میں تحریر فرماتے ھیں: اس مرد كی وثاقت، عدالت اور عظمت كو خدشہ اور تامل كی نگاہ سے دیكھنا فروزاں خورشید كے نور میں تامل كرنے كی طرح ھے حضرت ولی عصر عجل اللہ فرجہ الشریف نے آپ كے بارے میں فرمایا ھے: ان اللہ سبحانہ ینفع بہ۔ خداوند عالم اس كے ذریعہ لوگوں كو نوازے گا۔ یہ خود ھی آپ كی وثاقت اور عدالت كی دلیل ھے۔
نیز بعض لوگوں نے آپ كی وثاقت كو سلمان و ابوذر كی وثاقت كے مثل جانا ھے۔
 
شیخ صدوق كے آثار
صدوق كی كتابوں كے بیان كرنے كے لئے خود ایك مستقل كتاب كی ضرورت ھے ۔ بجا ھوگا اگر كتابنامہٴ صدوق تحریر كردی جائے اور اس عظیم عالم دین كی تحریروں سے علمی اور اسلامی معاشرہ كو آشنا بنایا جائے۔
 شیخ طوسی كتاب فھرست میں لكھتے ھیں: انھوں (صدوق) نے تقریبا تین سو كتابیں تالیف كی ھیں۔
نجاشی نے اپنی كتاب رجال میں صدوق كی ۱۹۸ كتابوں كا ذكر كیا ھے۔ یہ كتاب شیخ كی كتاب كے بعد لكھی گئی ھے۔
صدوق كو كتاب كے سلسلے میں اتنا عالی مرتبہ ملا یہ عظمت اپنی جگہ لیكن اصل میں آپ كی اھمیت آپ كی تالیفات كی كثرت نھیں بلكہ آپ كے كاموں كا افادہ اور استفادہ ھے ۔ احادیث معصومین علیھم السلام كی تنظیم و ترتیب میں جو خلاقیت آپ نے بخشی ماضی سے لے كر عصر صدوق تك دكھائی نھیں پڑتی، یہ بھی احادیث پر آپ كی خاص مھارت كی دلیل ھے۔
ھم اس مختصر مقالہ میں جناب صدوق علیہ الرحمہ كے آثار كو اجمالی تبصرہ كے ساتھ پیش كر رھے ھیں۔
 
كتاب من لا یحضرہ الفقیہ
مدینة العلم كے بعد آپ كی یہ كتاب سب سے بڑی اور شھرت خاص كی حا مل كتاب ھے اس كا شمار تشیع كی كتب اربعہ میں ھوتا ھے۔ یہ كتاب تقریبا چھ ھزار احادیث پر مشتمل ھے كہ جو فقہ كے مختلف موضوعات كے لحاظ سے تالیف كی گئی ھے۔ اس كتاب كی تالیف كا سبب ایك خوبصورت اور قابل سماع حكایت ھے جس كو آپ نے اپنی كتاب كے مقدمہ میں تحریر كیا ھے ۔ آپ وھاں اس واقعہ پر روشنی ڈالتے ھوئے اس طرح لكھتے ھیں :
میں نے یہ نہ چاھا كہ دوسرے مصنفین كی طرح جس موضوع پر جو حدیث مل جائے اس كو ضبط تحریر كر دوں بلكہ میں نے اس كتاب میں فقط ان روایات كو نقل كیا ھے جس كے مطابق فتوا دیتا ھوں اور ان كو صحیح جانتا ھوں اور ان كی صحت كا معتقد ھوں اور وہ میرے اور پروردگار كے درمیان حجت ھیں ۔
مرحوم مامقانی علامہ طباطبائی (بحرالعلوم) سے نقل كرتے ھوئے لكھتے ھیں : بعض اصحاب كتاب الفقیہ كی روایات كو كتب اربعہ كی دوسری كتابوں پر چند دلیلوں كے ذریعہ فوقیت دیا كرتے تھے:
مولف كے قوی حافظہ كا مالك ھونا كہ جو بھتر طریقہ سے روایات كی حفاظت كا سبب ھوتا ھے ۔ من لا یحضرہ الفقیہ كا كتاب كافی سے موخر ھونا ۔ صدوق نے اپنی كتاب میں جو بھی ذكر كیا اس كی صحت كی خود ضامت دی ھے ۔
ان كا مقصد فقط احادیث كا نقل كرنا نھیں تھا بلكہ خود آپ كے بقول جس حدیث كو آپ نے نقل كیا ھے اس كے مطابق فتوا بھی دیا ھے۔
 
كمال الدین و تمام النعمہ
شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے اس كتاب كو اواخر عمر میں تالیف كیا ھے، اس زمانے میں ایك طرف اسماعیلیہ فرقہ اپنا نفوذ بڑھا رھا تھا تو دوسری طرف زیدیہ فرقہ، جعفر كذاب كے حمایتی اور بھت سے اھل سنت حضرات فرقہ امامیہ پر اعتراضات اور شبھات وارد كرنے میں لگے تھے اور اس طرح لوگوں كے اذھان كو آلودہ كر رھے تھے۔ اسی بنا پر شیخ صدوق رضوان اللہ علیہ نے كتاب كمال الدین تالیف كی۔ آپ اس كتاب كے شروع میں پھلے مخالفین كے اشكالات كو ذكر كرتے ھیں اس كے بعد ان كا جواب لكھتے ھیں اور خوبصورت طریقہ سے امامیہ عقیدہ كا دفاع كرتے ھوئے قائم آل محمد (عج) كے بارے میں تفصیل كے ساتھ بحث كرتے ھیں۔ 33 اگرچہ یہ كتاب تقریباً حضرت ولی عصر (عج) كی غیبت كبریٰ كے نوے سال بعد لكھی گئی ھے اس كتاب كی گفتگو سے معلوم ھوتا ھے كہ اس زمانے میں جب كہ ابھی اس مسئلہ كے پیش آئے ھوئے زیادہ دن نھیں گزرے تھے بعض اھل كفر و نفاق نے واقعہ غیبت كو تردید كی نگاہ سے دیكھتے ھوئے شیعوں پر نكتہ چینی شروع كر دی تھی۔ شیخ نے بھی اس نكتہ كی طرف بارھا اشارہ كیا ھے ۔
 
معانی الاخبار
صدوق كی اھم كتابوں میں سے ایك معانی الاخبار ھے یہ كتاب ان روایات پر مشتمل ھے جو مبھم اور مشكل آیات و روایات كی توضیح بیان كرتی ھیں۔
 
عیون اخبار الرضا (ع)
آپ نے یہ كتاب آل بویہ كے دانشور و دیندار وزیر كے لئے تحریر فرمائی اور ان كو ھدیہ كیا ھے ۔ اس كتاب میں آپ نے حضرت امام رضا علیہ السلام كی روایات كو جمع كیا ھے۔
 
خصال
آپ كی یہ كتاب اخلاقی، علمی، تاریخی، فقھی اور درس آموز پند و نصیحت پر مشتمل ھے اور اعداد كے لحاظ سے مرتب كی گئی ھے اس تنظیم و ترتیب نے آپ كے اس كام كی اھمیت اور اس كے حسن كو دوبالا كر دیا ھے۔ آپ نے ھر فصل میں انھیں روایات كو درج كیا ھے جس میں اس عدد كے مطابق كوئی نكتہ یا مفھوم پایا جاتا ھو۔
 
امالی (مجالس)
اس كتاب میں شیخ صدوق كی تقریروں اور دروس كو ضبط تحریر كیا گیا ھے ۔ اس كتاب كے مطالب كو آپ كے شاگردوں نے تحریر كیا ھے۔
 
علل الشرائع
جیسا كہ اس كتاب كے نام سے ھی معلوم ھو جاتا ھے كہ یہ كتاب احكام كے فلسفہ اور ان كی علتوں اور اسباب كے بارے میں ھے، موٴلف نے ان تمام احادیث كو جو احكام كی علتوں اور ان كے فلسفہ كو بیان كرتی ھیں ایك مجموعہ كی شكل میں اسی نام كے ساتھ پیش كیا ھے اور شاید اس موضوع كی یہ پھلی كتاب ھوگی۔
آپ كی بعض دوسری كتابیں مندرجہ ذیل ھیں:
1۔ ثواب الاعمال
2۔ عقاب الاعمال
3۔ المقنع
4۔ الاٴوایل
5۔ الاٴواخر
6۔ المناھی
7۔ التوحید
8۔ دعائم الاسلام
9۔ اثبات الوصیہ
10 ۔ المصابیح
11 ۔ التاریخ
12 ۔ المواعظ
13 ۔ التقیہ
14 ۔ الناسخ و المنسوخ
15 ۔ ابطال العلو و التقصیر
16 ۔ السر المكتوم الی الوقت المعلوم
17 ۔ مصباح المصلی
18 ۔ مصادقہ الاخوان
19 ۔ الھدایہ فی الاصول و الفقہ
20 ۔ المواعظ و الحكم
21 ۔ بھت سی كتابیں بعض مھینوں اور اعمال كی فضیلت كے سلسلہ ھیں
22 ۔ فقہ وغیرہ كے مختلف موضوعات پر كثیر تعداد میں كتابیں
 23۔ كئی كتابیں پیغمبر اكرم و ائمہ علیھم السلام اور بعض اصحاب كے فضائل میں
24۔ پیغمبر اكرم و ائمہ علیھم السلام كے زھد كے متعلق متعدد كتابیں
25 ۔ اور لوگوں كے سوالات پر مشتمل كثیر تعداد میں كتابیں ۔
 
گمشدہ گوھر یا مدینةالعلم
شیخ صدوق كی اھم ترین كتاب جس كا خود آپ نے ذكر كیا ھے اور شیخ بھائی كے والد محترم كے زمانے تك علماء دین كے استفادہ میں تھی اس كا نام مدینة العلم ھے جو مفقود ھو گئی اور افسوس كہ ھم تك نہ پھونچ سكی ۔
”معالم العلماء“ میں ابن شھر آشوب لكھتے ھیں كہ كتاب مدینة العلم دس جلدوں پر مشتمل ھے اور من لا یحضرہ الفقیہ چار جلدوں میں ھے اور اس تحریر سے معلوم ھوتا ھے كہ مدینة العلم، من لایحضرہ الفقیہ كے دو برابر تھی ۔
شیخ طوسی، شیخ منتخب الدین اور دوسرے حضرات نے اس كتاب كو شیخ صدوق كی اھم ترین كتاب كے عنوان سے ذكر كیا ھے اور بھت سے بزرگان دین نے كتاب مدینة العلم سے احادیث نقل كی ھیں۔
 
صاحب روضات الجنات تحریر فرماتے ھیں:
علامہ اور شھیدین كے زمانے كے بعد كتاب مدیة العلم كھیں دكھائی نھیں پڑی اور نہ ھی اس كے بارے سنا گیا لیكن بعض لوگ معتقد ھیں كہ یہ كتاب شیخ بھائی كے والد كے زمانے تك موجود تھی اور ان كے پاس ایك نسخہ موجود تھا ۔
شیخ حسین بن عبد الصمد حارثی (شیخ بھاء الدین عاملی كے والد) اپنی درایت كی كتاب میں لكھتے ھیں: ھماری احادیث كے معتبر اصول اور بنیاد پانچ كتابیں ھیں: كافی، مدینة العلم، من لا یحضرہ الفقیہ، تھذیب اور استبصار ۔
علامہ مجلسی اور اس كے بعد سید محمد باقر جیلانی (سید شفتی) نے اس كتاب كی تلاش میں بھت زیادہ وقت و مال صرف كیا لیكن اس كتاب كو نہ پا سكے۔

منبع: http://ur.ar1979.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button