شمع زندگی

231۔ تکبر

عَجِبْتُ لِلْمُتَکَبِّرِ الَّذِیْ کَانَ بِالْاَمْسِ نُطْفَةً وَ یَکُوْنُ غَدًا جِیفَةً۔ (نہج البلاغہ حکمت ۱۲۶)
مجھے تعجب ہے متکبر و مغرور پر جو کل ایک نطفہ تھا اور کل کو مردار ہوگا۔

انسان اتنا بڑا اور صاحب عزت ہے کہ خالق اسے خطاب کر کے فرماتا ہے میں نے اولاد آدم کو بڑی عزت و شرف سے نوازا۔مگر یہی انسان جب خود کو بھول کر بڑا بننا شروع کر دیتا ہے یا اس بڑے بنانے والے کو فراموش کر کے خود کو بڑا سمجھنے لگتا ہے تو یہی تکبر کہلاتا ہے اور تکبر اسے بڑا بنانے کے بجائے پست کر دیتا ہے۔

امیرالمؤمنینؑ نے نہج البلاغہ میں تکبر کے مرض کو بار بار دہرایا بلکہ نہج البلاغہ کا طولانی ترین خطبہ قاصعہ اسی تکبر کی مذمت میں بیان فرمایا ہے۔ اس فرمان میں آپؑ نے تعجب کا اظہار کر کے تکبر کے مرض ہونے کو بیان فرمایا اور پھر اسی جملے میں اس مرض کا علاج بھی بیان کر دیا۔ تکبر ایسی نفسانی و اخلاقی بیماری ہے جس کا سبب انسان کی خود سے غفلت اور نا آشنائی ہے۔

امیرالمؤمنینؑ اس فرمان میں انسان کو اس غفلت سے بیدار کر کے بیماری سے نجات دلانا چاہتے ہیں۔ فرمایا خود کو پہچان، اپنی ابتدا کو دیکھ انتہا کو دیکھ۔ تیرا اول نطفہ تیرا آخر مردار کہ اپنے پیارے بھی جس سے گھبراتے ہیں۔ اگر کوئی زندگی کے دونوں اطراف کو جان لے تو یقیناً وہ تکبر کے مرض سے نجات پا کر بڑا اور کامل انسان بن جائے گا۔ تکبر مرض ہے اور حقیقت شناسی اور اپنی کم مائیگی کی پہچان اس کی دوا ہے۔ تکبر گناہوں اور غلطیوں کی جڑ ہے چونکہ تکبر کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے انسان میں سیکھنے اور اپنی انسانیت کو سنوارنے کی طلب نہیں رہتی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button