شمع زندگی

315۔ مسکین اللہ کا نمائندہ

اِنَّ الْمِسْكِيْنَ رَسُولُ اللهِ فَمَنْ مَنَعَهٗ فَقَدْ مَنَعَ اللَّهَ وَ مَنْ اَعْطَاهُ فَقَدْ أَعْطَى اللَّهَ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۳۰۴)
غریب و مسکین اللہ کا بھیجا ہوا ہوتا ہے جس نے اس سے اپنا ہاتھ روکا اس نے خدا سے ہاتھ روکا اور جس نے اسے کچھ دیا اس نے خدا کو دیا۔

انسان غربت و فقر کے امتحان سے دو چار ہو تو بہت سے قریبی اسے دور کر دیتے ہیں۔ اپنے پرائے بن جاتے ہیں اور سب اسے گھٹیا سمجھنے لگتے ہیں۔ اس فرمان میں امیرالمؤمنینؑ نے مال سے محروم انسان کی جو عظمت بیان کی وہ آپؑ ہی بیان کر سکتے ہیں اور یہ بھی اس سے واضح ہوتا ہے کہ انسانیت ہر حال میں عظیم ہے۔ دولت و فقر کے بدلنے سے اس کا مقام و مرتبہ نہیں بدلنا چاہیے۔ آپؑ نے غریب و مسکین کو اللہ تعالیٰ کا رسول یعنی بھیجا ہوا قرار دیا۔ گویا جس نے اسے نہ دیا اس نے ایک انسان کا ہاتھ خالی نہیں پلٹایا بلکہ اللہ تعالیٰ کو خالی پلٹایا ہے اور جس نے مسکین کے ہاتھ کو اہمیت دی اور اپنی استطاعت و توفیق کے مطابق اسے دیا۔ گویا اس نے بندے کو نہیں اس کے خالق کو دیا۔

ایک غریب و مسکین کے ہاتھ کی اس اہمیت کو کوئی جان لے تو کبھی کسی ضرورت مند کو نہ جھٹرکے گا بلکہ ضرورت مند کے ہاتھ کو تھامے گا اور یہی سمجھے گا کہ اس نے گویا اللہ کے ہاتھ کو تھاما۔ یہ انسانی ہاتھ کا مقام ہے اور ضرورت و حاجت کسی قسم کی بھی ہو سکتی ہے۔ اگر غریب و مسکین اپنے اس مقام کو سمجھے تو وہ ہر کسی کے سامنے اپنا یہ عظیم ہاتھ پھیلائے گا ہی نہیں اور اگر کبھی زمانہ اسے واقعاً مجبور کر دے تو کوئی اسے خالی نہیں پلٹائے گا اور دونوں طرف کا یہ عمل انسان کی زندگی کی زینت بن جائے گا اور انسانیت کا وقار بلند ہوگا۔

اس فرمان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فقیر و مسکین کی عزت کو کم نہ سمجھیں، اس کی ہلکی سی بھی اہانت نہ ہو۔ اگر آپ مدد کرتے ہیں تو اس کا احترام مدنظر رہے اور کچھ نہ دے سکیں تو معذرت ضرور کریں۔ اللہ سبحانہ نے قرآن مجید میں اسی دینے کو اللہ تعالیٰ کے لیے قرض سے تعبیر کیا ہے۔ امام سجادؑ جب کسی فقیر کو کچھ دیتے تھے تو اس کا ہاتھ چومتے تھے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button