سیّد علیہ الرحمہ کی زندگی کا ہر پہلو ان کے آباؤ اجداد کے کردار کا آئینہ دار اور ان کی سیرت کا ہر رخ آئمہ اطہار علیہ السلام کی پاکیزہ زندگیوں کا نمونہ تھا۔ وہ اپنے علمی تبحر، عملی کمال، پاکیزگی اخلاق اور حسن سیرت و استغناء نفس کی دل آویز اداؤں میں اتنی کشش رکھتے تھے کہ نگاہیں ان کی خوبی و زیبائی پر جم کر رہ جاتیں تھیں اور دل اس ورثہ دار عظمت ور فعت کے آگے جھکنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔
آپ کا نام ’’محمد‘‘، لقب ’’رضی‘‘ اور کنیت ’’ابو الحسن‘‘ تھی۔ ۳۵۹ھ میں سر زمین بغداد میں پیدا ہوئے اور ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جو علم و ہدایت کا مرکز اور عزت و شوکت کا محور تھا۔
اُن کے والد بزرگوار ابو احمد حسین تھے، جو پانچ مرتبہ نقابت آل ابی طالبؑ کے منصب پر فائز ہوئے اور بنی عباس اور بنی بویہ کے دور حکومت میں یکساں عظمت و بزرگی کی نظروں سے دیکھے گئے۔ چنانچہ ابو نصر بہاء الدولہ ابن بویہ نے انہیں ’’الطاہر الاوحد‘‘ کا لقب دیا اور ان کی جلالتِ علمی و شرافت نسبی کا ہمیشہ پاس و لحاظ رکھا۔ ان کا خاندانی سلسلہ صرف چار واسطوں سے امامت کے سلسلہ زرّیں سے مل جاتا ہے، جو اس شجرۂ نسب سے ظاہر ہے:
ابو احمد حسین ابن موسیٰ ابن محمد ابن موسیٰ ابن ابراہیم ابن امام موسیٰ کاظم علیہ السلام۔
۲۵ جمادی الاولیٰ ۴۰۰ھ میں ستانوے (۹۷) برس کی عمر میں انتقال فرمایا اور حائر حسینی میں دفن ہوئے۔ ابو العلاء معریٰ نے ان کا مرثیہ کہا ہے، جس کا ایک شعر یہ ہے:
اَنْتُمْ ذُوُو النَّسَبِ الْقَصِيْرِ فَطَوْلُكُمبادٍ عَلَى الْكُبَرَآءِ وَ الْاَشْرَافِ
’’تمہارے اور امامؑ کے درمیان بہت تھوڑے سے وسائط حائل ہیں اور تمہاری بلندیاں اکابر و اشراف پر نمایاں ہیں‘‘۔
آپ کی والدہ معظمہ کی شرافت و بلندی مرتبت کی طرف آگے اشارہ ہو گا، یہاں پر صرف ان کا شجرۂ نسب درج کیا جاتا ہے:
فاطمہ بنت الحسین بن حسن الناصر ابن علی ابن حسن ابن عمر ابن علیؑ ابن حسینؑ ابن علی ابن ابی طالب علیہ السلام ۔
ایسے نجیب و بلند مرتبت ماں باپ کی اخلاقی نگہداشت و حسن تربیت کے ساتھ آپ کو استاد و مربی بھی ایسے نصیب ہوئے جو اپنے وقت کے ماہرین باکمال اور ائمۂ فن مانے جاتے تھے، جن میں سے چند کا یہاں پر ذکر کیا جاتا ہے:
حسن ابن عبداللہ سیرافی: نحو ولغت و عروض و قوافی میں استاد کامل تھے۔کتاب سیبویہ کی شرح اور متعدد کتابیں لکھی ہیں۔ سیّد نے بچپن میں ان سے قواعد نحو پڑھے اور انہی کے متعلّق آپ کا مشہور نحوی لطیفہ ہے کہ ایک دن حلقۂ درس میں نحوی اعراب کی مشق کراتے ہوئے سیّد رضیؒ سے پوچھا کہ: اِذَا قُلْنَا: رَاَیْتُ عُمَرَ، فَمَا عَلَامَۃُ نَصْبِ عُمَرَ: ’’جب ہم رَاَیْتُ عُمَرَ کہیں تو اس میں علامت نصب (۱) کیا ہو گی‘‘؟ آپ نے برجستہ جواب دیا: ’’بُغْضُ عَلِیٍّ‘‘ ۔ اس جواب پر سیرافی اور دوسرے لوگ ان کی ذہانت و طباعی پر دنگ رہ گئے۔ حالانکہ ابھی آپ کا سن دس برس کا بھی نہ تھا۔
سالی کہ نکو است از بہارش پیداست
ابو اسحاق ابراہیم احمد ابن محمد طبری: بڑے پایہ کے فقیہ و محدّث اور علم پرور و جوہر شناس تھے۔ سیّد نے ان سے بچپن میں قرآن مجید کا درس لیا۔
علی ابن عیسیٰ ربعی: انہوں نے بیس برس ابو علی فارسی سے استفادہ کیا اور نحو میں چند کتابیں لکھی ہیں۔ سیّد نے ان سے ’’ایضاح ‘‘ ابو علی اور عروض و قوافی کی چند کتابیں پڑھیں۔
ابو الفتوح عثمان ابن جنی: علوم عربیہ کے بڑے ماہر تھے۔ دیوانِ متنبّی کی شرح اور اصول و فقہ میں متعدد کتابیں لکھی ہیں۔ سیّد نے ان سے بھی استفادۂ علمی کیا۔
ابوبکر محمد ابن موسیٰ خوارزمی: یہ اپنے وقت میں مرجع درس اور صاحب فتویٰ تھے۔ سیّد نے ان سے بھی استفادہ علمی کیا۔
ابو عبد اللہ شیخ مفید علیہ الرحمہ: سیّد رضیؒ کے اساتذہ میں سب سے زیادہ بلند منزلت ہیں۔ علم و فقاہت اور مناظرہ و کلام میں اپنا مثل و نظیر نہیں رکھتے تھے۔ تقریباً دو سو کتابیں اپنی یادگار چھوڑی ہیں۔
ابن ابی الحدید نے معد ابن فخار سے نقل کیا ہے کہ: ایک رات شیخ مفید نے خواب دیکھا کہ: جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا (امام)حسنؑ اور (امام)حسینؑ کے ہمراہ مسجد کرخ میں تشریف لائیں اور ان سے خطاب کرکے فرمایا کہ: ’’اے شیخ! میرے اِن بچوں کو علم فقہ و دین پڑھاؤ‘‘۔ شیخ جب خواب سے بیدار ہوئے تو حیرت و استعجاب نے گھیر لیا اور ذہن خواب کی تعبیر میں اُلجھ کر رہ گیا۔ اِسی عالم میں صبح ہوئی تو دیکھا کہ فاطمہ بنت الحسین کنیزوں کے جھرمٹ میں تشریف لا رہی ہیں اور ان کے دونوں بیٹے سیّد مرتضیٰ اور سیّد رضی ان کے ہمراہ ہیں۔ شیخ انہیں دیکھ کر تعظیم کیلئے کھڑے ہو گئے۔ جب وہ قریب آئیں تو فرمایا: اے شیخ! میں ان بچوں کو آپ کے سپرد کرنے آئی ہوں، آپ انہیں علم دین پڑھائیں۔ یہ سُن کر رات کا منظر ان کی نظروں میں پھرنے لگا، مجسم تعبیر نگاہوں کے سامنے آگئی، آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور ان سے رات کا خواب بیان کیا جسے سُن کر سب دم بخود ہو کر رہ گئے۔ شیخ نے اسی دن سے انہیں اپنی توجہ کا مرکز بنا لیا اور انہوں نے بھی اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر علم و فضل میں وہ بلند مقام حاصل کیا جس کی رفعت اپنوں ہی کو نظر نہ آتی تھی، بلکہ دوسرے بھی نظریں اُٹھا کر دیکھتے رہ جاتے تھے۔
سیّد علیہ الرحمہ علم و فضیلت میں یگانہ روزگار ہونے کے ساتھ ایک بہترین انشاء پرداز اور بلند پایہ سخن طراز بھی تھے۔ چنانچہ ابو حکیم خبری نے آپ کے جواہر پاروں کو چار ضخیم جلدوں میں جمع کیا ہے، جو شوکتِ الفاظ، سلاستِ بیان، حُسنِ ترکیب اور بلندیٔ اسلوب میں اپنا جواب نہیں رکھتے اور پرکھنے والوں کی یہ رائے ہے کہ انہوں نے لوحِ ادب پر جو بیش بہا موتی ٹانکے ہیں، ان کے سامنے کلام عرب کی چمک دمک ماند پڑ گئی اور بلاشبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ قریش بھر میں ان سے بہتر کوئی ادیب و سخن راں پیدا نہیں ہوا۔ لیکن سیّد علیہ الرحمہ نے کبھی اسے اپنے لئے وجہ نازش و سرمایہ افتخار نہیں سمجھا اور نہ ان کے دوسرے کمالات و خصوصیات کو دیکھتے ہوئے ان کی طبع موزوں کی روانیوں کو اتنی اہمیت دی جا سکتی ہے کہ شعر و سخن کو ان کیلئے وجہ فضیلت سمجھ لیا جائے۔ البتہ انہوں نے اپنے مخصوص طرزِ نگارش میں جو علمی و تحقیقی نقش آرائیاں کی ہیں ان کی افادیت و معنویت کا پایہ اتنا بلند ہے کہ انہیں سیّد کی بلندیٔ نظر کا معیار ٹھہرایا جا سکتا ہے اور ان کی تفسیر کے متعلق تو ابنِ خلکان کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ: ’’یَتَعَذَّرُ وُجُوْدُ مِثْلِہٖ‘‘ : ’’اس کی مثل پیش کرنا دشوار ہے‘‘۔
انہوں نے اپنی مختصر سی عمر میں جو علمی و ادبی نقوش اُبھارے ہیں وہ علم و ادب کا بہترین سرمایہ ہیں۔ چنانچہ ان کی چند نمایاں تصنیفات یہ ہیں:
حقائق التاویل
تلخیص البیان عن مجاز القرآن
مجازات الآثار النبویۃ
خصائص الائمہ
حاشیۃ خلاف الفقہاء
حاشیۃ ایضاح، وغیرہ۔
مگر ان تمام تصنیفات میں آپ کی تالیف کردہ کتاب ’’نہج البلاغہ‘‘ کا پایہ بلند ہے کہ جس میں امیرالمومنین علیہ السلام کے خطبات و توقیعات اور حکم و نصائح کے انمول موتیوں کو ایک رشتہ میں پرو دیا ہے۔
سیّد ممدوح کے علمی خدوخال کو ان کی حمیت و خودداری اور عالی ظرفی و بلند نظری نے اور بھی نکھار دیا تھا۔ انہوں نے زندگی بھر بنی بویہ کے انتہائی اصرار کے باوجود ان کا کوئی صلہ و جائزہ قبول نہیں کیا اور نہ کسی کے زیر بار احسان ہو کر اپنی آن میں فرق اور نفس میں جھکاؤ آنے دیا۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ کے ہاں فرزند کی ولادت ہوئی تو اس زمانہ کے رسم و رواج کے مطابق ابو غالب فخرالملک وزیر بہاؤ الدولہ نے ایک ہزار دینار بھجوائے اور طبیعت شناس و مزاج آشنا ہونے کی وجہ سے یہ کہلوا بھیجا کہ یہ دایہ کیلئے بھیجے جا رہے ہیں۔ مگر آپ نے وہ دینار واپس کر دئیے اور یہ جواب دیا کہ: ہمارے ہاں کا دستور نہیں کہ غیر عورتیں ہمارے حالات پر مطلع ہوں، اس لئے دوسری عورتوں سے یہ خدمت متعلق نہیں کی جایا کرتی، بلکہ ہمارے گھر کی بڑی بوڑھیاں خود ہی اسے سر انجام دے لیا کرتی ہیں اور وہ اس کیلئے کسی ہدیہ و اُجرت کو قبول کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہو سکتیں۔
اسی عزتِ نفس و احساسِ رفعت نے انہیں سہارا دے کر جوانی ہی میں وقار و عظمت کی اس بلندی پر پہنچا دیا تھا کہ جو عمر طویل کی کار گزاریوں کی آخری منزل ہو سکتی ہے۔ ابھی ۲۱ سال کی عمر تھی کہ آل ابی طالب کی نقابت اور حجاج کی امارت کے منصب پر فائز ہوئے۔ اس زمانہ میں یہ دونوں منصب بہت بلند سمجھے جاتے تھے۔ خصوصاً نقابت کا عہدہ تو اتنا ارفع و اعلیٰ تھا کہ نقیب کو حدود کے اجراء، اُمور شرعیہ کے نفاذ، باہمی تنازعات کے تصفیہ اور اس قبیل کے تمام اختیارات حاصل ہوتے تھے اور اس کے فرائض میں یہ بھی داخل ہوتا تھا کہ وہ سادات کے نسب کی حفاظت اور ان کے اخلاق و اطوار کی نگہداشت کرے اور آخر میں تو ان کی نقابت کا دائرہ اتنا ہمہ گیر و وسیع ہو گیا تھا کہ مملکت کا کوئی شہر اس سے مستثنیٰ نہ تھا اور ’’نقیب النقباء‘‘ کے لقب سے یاد کئے جانے لگے تھے۔ مگر عمر کی ابھی سینتالیس (۴۷) منزلیں ہی طے کرنے پائے تھے کہ (۴۰۶ہجری میں) نقیب موت نے ان کے دروازے پر دستک دی اور یہ وجود گرامی ہمیشہ کیلئے آنکھوں سے روپوش ہو گیا۔
لِلّٰهِ عُمْرُكَ مِنْ قَصِيْرٍ طَاهِرٍوَ لَرُبَّ عُمْرٌ طَالَ بِالْاَدْنَاسِ
’’تمہاری چھوٹی مگر پاک و پاکیزہ عمر کی خوبیوں کا کیا کہنا! اور بہت سی عمریں تو گندگیوں کے ساتھ بڑھ جایا کرتی ہیں‘‘۔
ان کے بڑے بھائی علم الہدیٰ سیّد مرتضیٰ نے جس وقت یہ روح فرسا منظر دیکھا تو تاب و توانائی نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا اور درد و غم کی شدّت سے بے قرار ہو کر گھر سے نکل کھڑے ہوئے اور اپنے جدّ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے روضۂ اطہر پر آ کر بیٹھ گئے۔ چنانچہ نماز جنازہ ابو غالب فخر الملک نے پڑھائی جس میں تمام اعیان و اشراف اور علماء و قضاۃ نے شرکت کی۔ اس کے بعد علم الہدیٰ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بڑی مشکلوں سے انہیں واپس لے جانے میں کامیاب ہوئے۔ ان کا مرثیہ ان کے قلبی تاثرات کا آئینہ دار ہے جس کا ایک شعر اوپر درج کیا گیا ہے۔