کلمات قصار

نہج البلاغہ حکمت 311: اَنس ابن مالک

(٣۱۱) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ

(۳۱۱)

لِاَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَ قَدْ كَانَ بَعْثَهٗ اِلٰى طَلْحَةَ وَ الزُّبَیْرِ لَمَّا جَآءَ اِلَى الْبَصْرَةِ، یُذَكِّرُهُمَا شَیْئًا مِّمَّا سَمِعَهٗ مِنْ رَّسُوْلِ اللهِ ﷺ فِیْ مَعْنَاهُمَا، فَلَوٰى عَنْ ذٰلِكَ، فَرَجَعَ اِلَیْهِ، فَقَالَ: اِنِّیْۤ اُنْسِیْتُ ذٰلِكَ الْاَمْرَ. فَقَالَ ؑ:

جب حضرتؑ بصرہ میں وارد ہوئے تو انس بن مالک کو طلحہ و زبیر کے پاس بھیجا تھا کہ ان دونوں کو کچھ وہ اقوال یاد دلائیں جو آپؑ کے بارے میں انہوں نے خود پیغمبر اکرمﷺ سے سنے ہیں۔ مگر انہوں نے اس سے پہلوتہی کی اور جب پلٹ کر آئے تو کہا کہ: وہ بات مجھے یاد نہیں رہی۔ اس پر حضرتؑ نے فرمایا:

اِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَضَرَبَكَ اللهُ بِهَا بَیْضَآءَ لَامِعَةً لَّا تُوَارِیْهَا الْعِمَامَةُ.

اگر تم جھوٹ بول رہے ہو تو اس کی پاداش میں خداوند عالم ایسے چمکدار داغ میں تمہیں مبتلا کرے کہ جسے دستار بھی نہ چھپا سکے۔

قَالَ الرَّضِیُّ: یَعْنِی الْبَرَصَ، فَاصَابَ اَنَسًا هٰذَا الدَّآءُ فِیْمَا بَعْدُ فِیْ وَجْهِهٖ، فَكَانَ لَا یُرٰى اِلَّا مُبَرْقَعًا.

سیّد رضیؒ فرماتے ہیں کہ: سفید داغ سے مراد ’’برص‘‘ ہے۔ چنانچہ انس اس مرض میں مبتلا ہو گئے جس کی وجہ سے ہمیشہ نقاب پوش دکھائی دیتے تھے۔

علامہ رضیؒ نے اس کلام کے جس مورد و عمل کی طرف اشارہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ: جب حضرتؑ نے جنگ جمل کے موقع پر انس ابن مالک کو طلحہ و زبیر کے پاس اس مقصد سے بھیجا کہ وہ انہیں پیغمبر کا قول: «اِنَّکُمَا سَتُقَاتِلَانِ عَلِیًّا وَّ اَنْتُمَا لَہٗ ظَالِمَانِ» [۱]: (تم عنقریب علی علیہ السلام سے جنگ کر و گے اور تم ان کے حق میں ظلم و زیادتی کرنے والے ہوگے )یاد دلائیں، تو انہوں نے پلٹ کر یہ ظاہر کیا کہ وہ اس کا تذکرہ کرنا بھول گئے تو حضرتؑ نے ان کیلئے یہ کلمات کہے۔

مگر مشہور یہ ہے کہ حضرتؑ نے یہ جملہ اس موقع پر فرمایا جب آپؑ نے پیغمبر ﷺ کے اس ارشاد کی تصدیق چاہی کہ:

مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَّوْلَاہُ، اَللّٰھُمَّ وَالِ مَنْ وَّالَاہُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاہُ.

جس کا میں مولا ہوں اس کے علیؑ بھی مولا ہیں۔ اے اللہ! جو علیؑ کو دوست رکھے تو بھی اسے دوست رکھ اور جو انہیں دشمن رکھے تو بھی اسے دشمن رکھ۔[۲]

چنانچہ متعدد لوگوں نے اس کی صحت کی گواہی دی، مگر انس ابن مالک خاموش رہے، جس پر حضرتؑ نے ان سے فرمایا کہ: تم بھی تو غدیر خم کے موقع پر موجود تھے، پھر اس خاموشی کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے کہا کہ: یا امیر المومنینؑ! میں بوڑھا ہو چکا ہوں، اب میری یاد داشت کام نہیں کرتی۔ جس پر حضرتؑ نے ان کیلئے بددُعا فرمائی۔ چنانچہ ابن قتیبہ تحریر کرتے ہیں کہ:

وَ ذَكَرَ قَوْمٌ اَنَّ عَلِيًّا- رَّضِىَ اللهُ عَنْهُ- سَئَلَهٗ عَنْ قَوْلِ رَسُوْلِ اللهِ- ﷺ: اَللّٰهُمَّ وَالِ مَنْ وَّالَاهُ، وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ؟ فَقَالَ: كَبُرَتْ سِنِّیْ وَ نَسِيْتُ. فَقَالَ لَهٗ عَلِىٌّ- رَّضِىَ اللهُ عَنْهُ:- اِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَضَرَبَكَ اللهُ بِبَيْضَآءَ لَا تُوَارِيْهَا الْعِمَامَةَ.

لوگوں نے بیان کیا ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے انس ابن مالک سے رسول اللہ کے ارشاد: ’’اے اللہ! جو علیؑ کو دوست رکھے تو بھی اسے دوست رکھ اور جو انہیں دشمن رکھے تو بھی اسے دشمن رکھ‘‘ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں بوڑھا ہو چکا ہوں اور اسے بھول چکا ہوں تو آپؑ نے فرمایا کہ: ’’اگر تم جھوٹ کہتے ہو تو خدا تمہیں ایسے برص میں مبتلا کرے جسے عمامہ بھی نہ چھپا سکے‘‘۔ (المعارف، ص۲۵۱)

ابن ابی الحدید نے بھی اسی قول کی تائید کی ہے اور سیّد رضیؒ کے تحریر کردہ واقعہ کی تردید کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ:

فَاَمَّا مَا ذَكَرَهُ الرَّضِیُّ مِنْ اَنَّهٗ بَعَثَ اَنَسًا اِلٰى طَلْحَةَ وَ الزَّبَيْرِ فَغَيْرُ مَعْرُوْفٍ، وَ لَوْ كَانَ قَدْ بَعَثَهٗ لِيُذَكِّرَهُمَا بِكَلَامٍ يَخْتَصُّ بِهِمَا مِنْ رَّسُوْلِ اللهِ ﷺ لَمَاۤ اَمْكَنَهٗ اَنْ‏ يَّرْجِعَ فَيَقُوْلَ: اِنِّیْۤ اُنْسِيْتُهٗ لِاَنَّهٗ مَا فَارَقَهٗ مُتَوَجِّهًا نَحْوَهُمَا اِلَّا وَ قَدْ اَقَرَّ بِمَعْرِفَتِهٖ وَ ذِكْرِهٖ، فَكَيْفَ يَرْجِعُ بَعْدَ سَاعَةٍ، اَوْ يَوْمٍ، فَيَقُوْلَ: اِنِّیْۤ اُنْسِيْتُهٗ، فَيُنْكِرُ بَعْدَ الْاِقْرَارِ، هٰذَا مِمَّا لَا يَقَعُ.

سیّد رضیؒ نے جس واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ حضرتؑ نے انس کو طلحہ و زبیر کی طرف روانہ کیا تھا ایک غیر معروف واقعہ ہے۔ اگر حضرتؑ نے اس کلام کی یاد دہانی کیلئے انہیں بھیجا ہوتا کہ جو پیغمبر ﷺ نے ان دونوں کے بارے میں فرمایا تھا تو یہ بعید ہے کہ وہ پلٹ کر یہ کہیں کہ میں بھول گیا تھا۔ کیونکہ جب وہ حضرتؑ سے الگ ہو کر روانہ ہوئے تھے تو اس وقت یہ اقرار کیا تھا کہ پیغمبر ﷺ کا یہ ارشاد میرے علم میں ہے اور مجھے یاد ہے۔ پھر کس طرح یہ ہو سکتا ہے کہ وہ ایک گھڑی یا ایک دن کے بعد یہ کہیں کہ میں بھول گیا تھا اور اقرار کے بعد انکار کریں۔ یہ ایک نہ ہونے والی بات ہے۔ (شرح ابن ابی الحدید، ج۴، ص۳۸۸)

[۱]۔ منہاج البراعۃ، ج ۲۱، ص ۳۹۹۔

[۲]۔ مسند احمد ، ج ۲، ص ۲۶۲، حدیث ۹۵۰۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button