کلمات قصار

نہج البلاغہ حکمت 468: خریدو فروخت

(٤٦٨) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ

(۴۶۸)

یَاْتِیْ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ عَضُوْضٌ یَّعَضُّ الْمُوْسِرُ فِیْهِ عَلٰى مَا فِیْ یَدَیْهِ وَ لَمْ یُؤْمَرْ بِذٰلِكَ، قَالَ اللهُ سُبْحَانَهٗ: ﴿وَ لَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَكُمْ ؕ ﴾، تَنْهَدُ فِیْهِ الْاَشْرَارُ، وَ تُسْتَذَلُّ الْاَخْیَارُ، وَ یُبَایِـعُ الْمُضْطَرُّوْنَ، وَ قَدْ نَهٰى رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَنْۢ بِیْعِ الْمُضْطَرِّیْنَ.

لوگوں پر ایک ایسا گزند پہنچانے والا دور آئے گا جس میں مالدار اپنے مال میں بخل کرے گا حالانکہ اسے یہ حکم نہیں۔ چنانچہ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے کہ: ’’آپس میں حسن سلوک کو فراموش نہ کرو‘‘۔ اس زمانہ میں شریر لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے اور نیکو کار ذلیل و خوار سمجھے جائیں گے اور مجبور اور بے بس لوگوں سے خرید و فروخت کی جائے گی، حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے مجبور و مضطر لوگوں سے (اونے پونے) خریدنے کو منع کیا ہے۔

مجبور و مضطر لوگوں سے معاملہ عموماً اس طرح ہوتا ہے کہ ان کی احتیاج و ضرورت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر ان سے سستے داموں چیزیں خرید لی جاتی ہیں اور مہنگے داموں ان کے ہاتھ فروخت کی جاتی ہیں۔ اس پریشان حالی میں ان کی مجبوری و بے بسی سے فائدہ اٹھانے کی کوئی مذہب اجازت نہیں دیتا اور نہ آئین اخلاق میں اس کی کوئی گنجائش ہے کہ دوسرے کی اضطراری کیفیت سے نفع اندوزی کی راہیں نکالی جائیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button