مقالات

تفسیر قرآن کی علوی روش

تفسیر آیات قرآن کے حوالہ سے حضرت علی ۔ سے جو روایات اور تاریخ میں نقل ہوتی ہے اگر چہ بہت متفرق ہیں لیکن جب انہیں یکجا جمع کیا جاتا ہے اور ان میں غور و خوض کیا جاتا ہے تو متعدد روشوں کا انکشاف ہوتا جن میں بعض کو مختصر وضاحت کے ساتھ ذیل میں ذکر کیا جارہا ہے:

قرآن سے قرآن کی تفسیر

الف) تقیید مطلق:

’’یا ایھا الذین آمنوا اتقوا اللہ حق تقاتہ‘‘(1)اے صاحبان ایمان خدا سے کما حقہ تقویٰ اختیار کرو۔ اس آیت کے بارے میں جب امیر المومنین ۔ سے سوال کیا گیا تو آپ ؑ نے اس کی تفسیر اس طرح فرمائی:’’واللہ ماعمل بھٰذا غیر اہل بیت رسول اللہ، نحن ذکرنا اللہ فلا ننساہ و نحن شکرنا فلا نکفر و نحن اطعناہ فلا نعصیہ فلما نزلت ہٰذہ الآیہ قالت الصحابہ لا نطیق ذلک فانزل اللہ ‘‘ فاتقوا ماستطتم‘‘(2،3)

سفیان بن مہرہ ہمدانی ،عبد خیر سے نقل کرتے ہیں کہ علی بن ابی طالب ؑ سے اللہ کے قول ’’ یاایھا الذین آمنوا اتقوا اللہ حق تقاتہ‘‘ کے بارے میں سوال کیا تو فرمایا بخد اہل بیت رسول کے علاوہ کسی نے اس آیت پر عمل نہیں کیا۔ہم نے اللہ کو یاد کیابھولے نہیں ،ہم نے شکر سے کام لیا کفران نعمت نہیں کیا، ہم نے اطاعت کی اور معصیت سے دور رہے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ نے کہا ہم میں اس آیت پر عمل کرنے کی طاقت نہیں ہے تو اللہ نے آیت نازل کی ’’ جتنا ہوسکتا ہے تقویٰ اختیار کرو‘‘ فاتقوا ماستعطم‘‘

ب)تخصیص عام:

ان اولی الناس بابراہیم للذین اتبوۃ وہٰذالتی الذین آمنوا واللہ ولی المومنین‘‘ابراہیم کی بہ نسبت سب سے زیادہ شائستہ افراد وہ ہیں کہ جنہوں نے ان کی پیروی کی۔ یہ نبی اور وہ لوگ کہ جو صاحب ایمان ہیں فنحن مرۃ اولیٰ القرابۃ و تارۃ اولیٰ

بالطاعہ ولما احتج المہاجرون علی الانصار یوم السقیفہ برسول اللہ فلجوا علیہم فان یکن الفلج بہ فالحق لنا دونکم(4)

پس ہم ایک مرتبہ پیغمبر ﷺ سے ورابت کے سبب اور ایک بار اطاعت خدا کی خاطر( خلافت کے )زیادہ حقدار ہیں اور جب مہاجرین نے روز سقیفہ امصار پر احتجاج کیا اور صرف قرابت کے ذکر سے ان پر کامیاب ہوگئے تو اگر یہ برتری کی دلیل ہے تو حق ہمارے ساتھ ہے نہ تمہارے ساتھ۔

حضرت علی ۔ نے نہج البلاغہ خط ۲۸ میں جو معاویہ کے نام خط لکھا ہے اور اس میں اس کی گمراہی اور اپنی افضلیت کو بیان کیا ہے اس خط میں آپ ؑ ۵ آیات کو شاہد کے طور پر لائے ہیں اور ان میں دو کی خاص و عام کی روش سے تفسیر کی ہے۔

ج)آیات مبین کے ذریعہ مجمل کی تفسیر:

سورہ زمر میں ارشاد ہوتا ہے: ’’ انک میت و انہم میتون‘‘(5)آپ کو موت آئے گی اور وہ بھی دنیا سیجائیں گے، حضرت علی ۔ سے مروی ہے کہ جب یہ آیت ’’ انک میت و انہم میتون‘‘ نازل ہوئی تو میں نے چوچھا اے پروردگار کیا تمام مخلوقات کو موت آئے گی اور انبیاء باقی رہیں گے؟ تو آیت نازل ہوئی: ’’ کل نفس ذائقۃ الموت ثم الینا ترجعون‘‘(6،7) یعنی ہر نفس کو موت کا مزہ چھکنا ہے اس کے بعد تمہیں ہماری طرف پلٹایا جائے گا۔

د) تعیین مصداق:

سورہ نمل میں خداوند کریم نے فرمایا ہے’’ قل لا یعلم من فی السمٰوات والارض الغیب الّا اللہ‘‘(8) یعنی آپ کہہ دیجیے کہ جو آسمانوں اور زمین میں ہیں غیب کا علم نہیں رکھتے سوائے خدا کے۔

نہج البلاغہ میں ایک روایت ملتی ہے کہ ایک روز آپ ؐ نے بعض ایسے امور کی خبر دی کہ جو ابھی محقق نہیں ہوئے تھے۔

تو ایک صحابی نے کہا: آپ کو علم غیب عطا کیا گیا ہے!

آپ ہنسے اور کلبی قبیلہ کے مرد سے فرمایا: یا اخا کلب لیس ہو بعلم غیب و انما ہو تعلم من ذی علم و انما علم الغیب علم الساعۃ و ما عددہ اللہ سبحانہ بقولہ ‘‘ ان اللہ عندہ علم الساعۃ…(9) یعنی اے برادر کلبی یہ اطلاع علم غیب نہیں ہے یہ وہ علم ہے جو صاحب علم(غیب پیغمبر ﷺ) سے حاصل کی ہے علم غیب علم قیامت ہے اور وہ کہ جو خدا اپنے قول میں لے آیا ہے کہ

’’علم قیامت خدا کے پاس ہے‘‘۔ اس کے بعد فرماتے ہیں خدا جو شکم مادر میں ہے نر یا مادہ ، بدصورت، خوبصورت، سخی یا بخیل، شقی یا سعید سے آگاہ ہے اور وہ جو واصل جہنم ہوگا یا بہشت میں نبیوں کی صحبت میں رہے گا سب کا اسے علم ہے پس یہ وہ ذاتی علم غیب ہے جس کا علم صرف خدا کو ہے ان کے علاوہ جو علم غیب ہے اس کی اللہ نے اپنے نبی کو تعلیم دی ہے اور انہوں نے مجھے سکھایا ہے۔

ھ) آیات متشابہ پر توجہ:

’’مافرطنا فی الکتاب من شء‘‘ ہم نے قرآن میں کوئی بھی کمی نہیں رکھی۔حضرت علی ۔ فرماتے ہیں ’’ام انزل اللہ سبحانہ دینا ناقصا…‘‘کیا اللہ نے ناقص دین بھیجا اور اس کے کامل کرنے سب ان سے مدد لی؟ کیا وہ خدا کے شریک ہیں کہ دین کے معاملہ میں جو دل چاہے بولیں اور خدا راضی ہے؟ یا اللہ نے دین کامل نازل فرمایا پس رسول ﷺ نے اس کے پہنچانے میں کوتاہی کی۔ واللہ سبحانہ یقول ’’ ما فرطنا فی الکتاب من شئ وفیہ تبیان لکل شء‘‘ یعنی اللہ سبحانہ نے فرمایا ہے ہم نے قرآن میں کوئی بھی کمی نہیں رکھی ہے اس میں ہر چیز کا بیان موجود ہے۔

و)آیات ناسخ و منسوخ پر توجہ:

’’یاایّھاالذین آمنوا اذا ناجیتم الرسول فقدموا بین یدی نجواکم صدقہ‘‘۔(10) اے ایمان والوجب تم رسول خدا سے نجوی کرنا چاہتے ہو تو اس سے پہلے صدقہ دیا کرو۔ حضرت علی ۔ فرماتے ہیں ان فی کتاب اللہ آیۃ لم یعمل بھا احد قبلی ولم یعمل بھابعدی آیۃ النجوی… یعنی کتاب خدا میں سے ایک آیت ایسی ہے کہ جس پر نہ مجھ سے پہلے کسی نے عمل کیا اور نہ ہی میرے بعد، وہ آیہ نجویٰ ہے اس کے بعد فرماتے ہیں کہ میرے پاس ایک دینار تھا میں نے اسے دس درہم میں تبدیل کیا اور جب بھی پیغمبر ﷺ سے گفتگو کرنا چاہتا تھا ایک درہم صدقہ دیتا تھا یہاں تک کہ پورے درہم ختم ہوگئے، اس کے بعد آیہ نجویٰ کی تلاوت کرتے ہیں ’’یاایّھاالذین آمنوا اذا ناجیتم الرسول فقدموا بین یدی نجواکم صدقہ‘‘ ۔ پھرآپ فرماتے ہیں کہ آیت نسخ ہوگئی اور کسی نے اس پر عمل نہیں کیا اور یہ آیت نازل ہوئی’’ أ أشفقتم ان تقدموا بین یدی نجواکم صدقات‘‘(11) یعنی کیا تم نجویٰ کرنے سے پہلے صدقات دینے سے ڈر گئے‘‘ !

۲) کلام پیغمبر ﷺ سے قرآن کی تفسیر:

سنت اور حدیث کے ذریعہ قرآن کی تفسیر کو اصطلاحا تفسیر ماثور کہتے ہیں ۔ حضرت علی ۔ کے بیانات میں اس کے متعدد نمونے پائے جاتے ہیں جیسے آپؑ ’’ وفی السماء رزقکم وماتوعدون‘‘(12) کی تفسیر نبی اکرم ﷺ سے اس طرح نقل کرتے ہیں کہ آسمان میں تمہاری روزی سے مراد برسات ہے۔ (13)

۳)الفاظ آیات کے معنی کی تبیین:

قرآن عربی زبان میں نازل ہوا اور عربی زبان دیگر زبانوں کی مانند مخصوص قواعد و ضوابط کی حامل ہے۔ ہر عربی متن منجملہ فہم قرآن کے لئے ان قواعد اور معنیٰ کلمات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ حضرت علی ۔ کا متعدد مقامات پر آیات قرآن کی تفسیر میں الفاظ اور کلمات کے بیان معنی پر توجہ دینا اس امر کا پتہ دیتا ہے کہ تفسیر میں اس کی کس حد تک ضرورت ہے۔ مثلًا ’’انّ اللہ یامر بالعدل والاحسان‘‘(14) یعنی خداوند عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے ۔ آپ نے اس طرح تفسیر کی ہے العدل الانصاف والاحسان التفضل، عدل یعنی انصاف اور تفضل یعنی فضل و بخشش(15)

۴)عقلی اور اجتہادی تفسیر:

قرآنی آیات کے سمجھنے اور اس کے مقاصد کو کشف کرنے میں ہر قسم کے عقلی فہم و درک کے استعمال کو عقلی یا اجتہادی تفسیر کا نام دیا جاتا ہے۔ جس کے اپنے مخصوص شرائط ہیں جن کے ذکر کا یہاں مقام نہیں ہے۔

امیرالمومنین ۔ کے اقوال پر نظر کرنے سے یہ پتہ چلتا ہے آپ نے مذکورہ روشوں کی بہ نسبت اجتہادی روش سے زیادہ استفادہ کیا ہے۔ جیسے آیت’’توتی اکلہا کل حین باذن ربھا‘‘(16) یعنی ہر وقت اپنے پروردگار کی اجازت سے پھل دیتی ہے۔ حضرت علی ۔ فرماتے ہیں : ’’حین‘‘ چھ ماہ کی مدت کے معنی میں ہے۔

نہج البلاغہ میں تفسیر نمونے :

تفسیری اور حدیثی منابع میں حضرت علی علیہ السلام کے تفسیری نمونے ملتے ہیں جن میں صرف بعض کی جانب ذیل میں اشارہ کیا جارہا ہے :

۱۔ اشعث نے حضرت علی علیہ السلام کے حضور میں کہا ’’ انا للہ وانا الیہ راجعون (17)امام علیہ السلام نے پوچھا کای تو اسکی تاویل کو جانتا ہے اس نے کہا آپ علم کے آخری درجہ پر ہیں آپ ؑ نے فرمایا ’’ انا للہ ‘‘ بندگی کا اقرار ہے اور ’’ وانا الیہ راجعون ‘‘ فنا اور نابودی کا اعتراف ہے ۔

۲۔ امام فرماتے ہیں مکمل زہد قرآن کے دو کلمہ کے درمیان ہے خداوند متعال فرماتا ہے ’’ لکیلا تاسوا علی ما فاتکم ولا تفرحوا بما اتاکم ۔ جو تمہارے ہاتھ سے چلائے اس کا افسوس نہ کرو اور جو مل جائے اس پر خوشحال مت ہو ۔ ومن لم یاس علی الماضی ولم یفرح بالاتی فقد اخد الزھد بطرفیہ (18) جو گذشتہ پر افسوس نہ کرے اور آئندہ پر خوش نہ ہو تو اس نے زہد کو دونوں حصوں کو حاصل کر لیا ہے ۔

۳۔ حضرت امیر المومنین ؑ سے ان اللہ یامر بالعدل والاحسان ‘‘(خدا عدل و احسان کا حکم دیتا ہے ) کے بارے میں میں سوال ہوا آپ نے فرمایا: العدل الانصاف والاحسان التفضل عدل کے معنی انصاف اور احسان کے معنی فضل وبخش سے پیش آنا (19)

۴۔ آنحضرت ’’ فلنحینہ حیاۃ طیبہ ‘‘ (20) ہم اسے پاکیزہ حیات عطا کریں گے اس کے معنی کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : القناعۃ یعنی پاکیزہ حیات سے مراد قناعت ہے ۔

۵۔ قرآن کریم صراحت سے بیان کرتا ہے کہ متشابہ آیات کے معنی اور انکی تاویل کا علم صرف خدا اور راسخون فی العلم کے پاس ہے (21)

بہت سی احادیث نے ائمہ اھلبیت کہ ’’ راسخون فی العلم ‘‘ بیان کیا ہے حضرت علی علیہ السلام ایک خطبہ کے ضمن میں فرماتے ہیں :این الذین زعموا انھم الراسخون فی العلم دوناکذبا وبغیاً علیاً …‘‘ وہ ولوگ کہاں ہیں جو یہ خیال کرتے ہیں کہ ہمارے علاوہ وہ خو د قرآن کا علم رکھنے والے ( راسخون فی العلم ) ہیں یہ چھوٹ اور ہمارے اوپر ظلم و بغاوت ہے(22)

۶۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں روی زمین پر دو چیزیں عذاب سے امان کا باعث تھیں ان میں سے ایک اٹھالی گئی پس دوسری کو مضبوطی سے پکڑلو وہ امان جس سے اٹھا لیا گیا رسول خدا تھے لیکن وہ امان کہ جو باقی ہے طلب مغفرت ہے (23)

خداوند متعال فرماتا ہے : وما کان اللہ لیغفرلہم وانت فیہم وما کان اللہ معذبہم وہم یستغفرون (24)

نہج البلاغہ میں قرآنی مستندات

جب ہم قرآنی آیات اور نہج البلاغہ کے مطالب پر نظر کرتے ہیں تو مندرجہ ذیل صورتیں سامنے آتی ہیں ۔

الف)دونوں کے ہم مضمون مطالب :

قرآن مجید اور نہج البلاغہ میں تقریباً ۳۵ مقامات ایسے ہیں جہاں پر ہم معنی مطالب کا ذکر ہوا ہے بطور نمونہ صرف چند موارد کی جانب اشارہ کیا جارہا ہے :

۱۔ خداوند متعال کی حمد و ثنا : انعام آیت ۱ ’’ الحمد للہ الذی خلق السموات ولارض وجعل الظلمات والنور ‘‘تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے جن نے تاریکیوں اور نور کو قرار دیا ۔ کہف آیت ۱ ’’ الحمد للہ الذی انزل علی عبدہ الکتاب ‘‘ تمام حمد و ثنا اس خدا کے لیے ہے جس نے اپنے بندہ (محمد ؐ) پر کتاب نازل کی ۔ خطبہ ۴۸میں حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

ا لحمد للہ کلما وقب لیل وغسق والحمد للہ کلما لاح نجم وحفق ۔ تمام تعریفیں خدا کے لیے ہیں جب رات آجائے اور تاریکی چھا جائے تمام حمد و ثنا اللہ کے لیے جب ستارہ ظاہر ہو جائے اور پھر چھپ جائے ۔

۲۔ دین فقط اسلام : آل عمران ؍۱۹ : ان الذین عند اللہ الاسلام ‘‘ خدا کے نزدیک دین فقط اسلام ہے خطبہ ۸۹ ثم ان ھذا الاسلام دین اللہ الذی اصطفاہ لنفسہ واصطفعہ علی عینہ یہ اسلام دین خدا ہے اور اسے اپنے لیے منتخب فرمایا اور اپنی نظر عنایت سے پروان چڑھایا ہے ۔

۳۔ انسان کی با مقصد خلقت : مومنون آیت ۱۱۵؛ ’’ افحسبتم انما خلقنا کم عبثاً وانکم الینا ترجعون ‘‘ کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہم نے تمہیں بے ھذف پیدا کیا ہے او رتم ہماری طرف نیز پلٹائے جاؤ گے۔ خطبہ۷۵ فان اللہ سبحانہ لم یخلقکم عبثاً ولم یقرکم سدیً ‘‘ خداوند نے تمہیں بے کار پیدا نہیں کیا ہے اور نہ ہی آزاد چھوڑ ا ہے ۔

۴۔ شرک ناقبل بخشش گناہ : نساء ایت ؍۴۸ : ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ ویغفر ما دون ذالک لما یشاء ۔‘‘ بے شک خداوند اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اس کا شریک قرار دیا جائے اور اس کے علاوہ جس چیز کو چاہے بخش سکتا ہے (25)خطبہ ۱۷۵: فاما الظلم الذی لا یغفر فاشرک باللہ… وہ ظلم کہ جو ناقابل بخشش ہے خدا اکا شریک قائل ہو نا ہے ۔

۵۔ نیکی کا بہتر نیکی سے جواب : نساء آیت ؍۸۶’’ واذا حییتم بجحیہ فحیوا باحسن منھا او ردوھا .. اور جب تم لوگوں کو کوئی تحفہ (سلام ) پیش کیا جائے تو اس سے بہتر یا کم سے کم ویسا ہی واپس کرو (26)

حکمت ۵۹ : اذا حییت بتحیۃ فحیّ باحسن منھا … جب تم کو کوئی سلام کرے تو اس سے بہتر جواب دو ۔

ب) ایک دوسرے کے لیے اجمال و تفصیل : قرآن میں بعض ایسے مطالب ہیں کہ جو بطور اجمال بیان ہوئے ہیں اور نہج البلاغہ میں اسکی تفصیل اور وضاحت بیان ہوئی ہے ذیل میں چند نمونے پیش کئے جار ہے ہیں :

۱۔ توحید خداوند : سورہ اخلاص آیت ؍ ۱ ’’ قل ہو اللہ احد ‘‘ آپ کہہ دیجئے کہ خدا ایک ہے ۔ خطبہ ۱۵۲الاحد لابتاویل عدد ‘ خدا ایک ہے عد د کی طرف رجوع کئے بغیر حکمت ۴۶۱ میں واللہ وحید الاتتوھمہ ۔یعنی خدا کو ایک سمجھنے کا مطلب ہے اس سے وہم و خیلا میں نہ لاؤ۔

۲۔ جنت عمل صالح کا نتیجہ : سورہ اعراف آیت ۴۳…. ونودو ان تلکم الجنۃ او رثتموہا بما کنتم تعلمون ‘‘ اہل بہشت کو آواز دیں کہ یہ جنت انکے اعمال کا نتیجہ ہے خطبہ ؍۱۶۶ الفرائض الفرائض ادوھا الی اللہ تودوکم الی الجنۃ ۔ یعنی واجبات واجبات انہیں اللہ کے لیے انجام دو تاکہ وہ تمہیں جنت میں پہنچادیں ۔

۳۔ عصرجاہلیت کی گمراہی : آل عمران آیت ۱۶۴: ’’ وان کانوا من قبل لفی ضلال مبین ‘‘ یقیناًلوگ (پیغمبر اکرم ؐ) کے آنے سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔ خطبہ۹۴’’ میں دور جاہلیت کے لوگوں کی مختلف گمراہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ بعثہ والناس

ضلال فی حیرۃ و خابطون فی فتنۃ قد استوتہم الاھواء و استنزلتھم الکبرایاء واستخفنتم الی ابی ھلیۃ الجھلاء حیاری فی زلزال من الامروبلا من الجھل ‘‘ یعنی خداوند متعال نے آنحضرت کو اس وقت مبعوث فرمایا جب لوگ وگمراہی میں سرگرداں تھے آنکھ بند کر کے فتنہ و فساد میں قدم رکھ رہے تھے ان پر نفسانی خواہشات کا غلبہ تھا غرور و تکبر نے ان کے اندر لغزش پیدا کردی تھی کثیر جاہلیت کے سبب ذلت میں مبتلا تھے اور اپنے امور میں سرگردان و حیران تھے ۔

خطبہ ۱۸۷میں گمراہی کی علت کی طرف اس طرح اشارہ فرماتے ہیں بعثہ حین لا علم قائم ولا منارساطع ولا منھج واضح یعنی خداوند نے آپ کو مبعوث فرمایا جب نہ کوئی علامت اور نشانی موجود تھی نہ کوئی روشنی اور نورانیت ظاہر تھی اور نہ کوئی واضح صراط مستقیم تھا ۔

۴۔ ہر چیزکی خلقت معین وقت کیلئے : سورہ احقاف آیت ۱۳’’ خلقنا السموات والارض وما بینھما الا بالحق واجل مسمی ‘‘ ہم نے زمین و آسمانوں اور جو چیزیں انکے درمیان ہیں حق کے ہمراہ اور معین مدت کیلئے پیدا کیا ۔ خطبہ ۸۲: وجعل لعل شیئی قدر اً ولکل قدر اجلاً ولکل اجل کتابا ‘‘ یعنی خداوند نے ہر چیز کے لئے ایک اندازہ اور ہر اندازہ کے لیے ایک مدت ار ہر مدت کے لیے ایک معین نوشتہ مقدر فرمایا ہے ۔

۵۔ بدگمانی سے پرہیز: سورہ حجرات آیت ۱۲: یا ایھا الذین آمنوا اجتنبوا کثیراً من الظن ان بعض الظن اثم ‘‘ اے ایمان والوا بہت سے گمان سے بچو چونکہ بعض گمان گناہ ہیں ۔حکمت ۳۵۲: لا تطف بکلمۃ خرجت من احد سوٓءً وانت تجدلھا فی الخیر محتملا ’’ یعنی وہ لفظ جو کوئی شخص ادا کررہا ہے اس کے بارے میں نیک احتمال دے سکنے کی حالت میں بدگمانی سے پرہیز کرو ۔

(ب)قرآن اور نہج البلاغہ کے بظاہر متضاد مطالب :

قرآن اور نہج البلاغہ کے مطالب اگر چہ بعض اوقات آپس میں مختلف اور متضاد نظر آتے ہیں البتہ نظرغائی ڈالنے کے بعد اختلاف اور تضاد حل ہو جاتا ہے جن میں سے بعض موارد کو بیان کیا جارہا ہے ۔

۱) عزت کا خدا سے مخصوص ہونا :

سورہ منافقون آیت ؍۸’’ واللہ العزۃ والرسولہ وللمومنین ولکن المنافقین لا یعلمون ‘‘ عذاب خدا رسول اور مومنین سے مخصوس ہے لیکن منفافقین کو علم نہیں ہے خطبہ ۶۴ ’’ وکل عزیز غیرہ ذلیل یعنی خدا کے علاوہ ہر عزیز ذلیل ہے ۔

مذکراہ تضاد اس طرح سے قابل حل ہے کہ اصالۃ اور ذاتاً عزت پروردگار سے مختص ہے اور ہر مخلوق اس عزت کے مقابلے میں خوار و ذلیل اور فقیر و محتاج ہے ۔

۲)تقوے کی مقدار :

آل عمران آیت ۱۰۲ :’’ یا ایھا الذین آمنوا اتقوا للہ حق تقاتہ ولا تموتن الا وانتم مسلمون ‘‘ اے صاحبان ایمان اللہ سے اس طرح تقویٰ اختیار کرو جو اسکا حق ہے اور تم اسلام کی حالت پر دنیا سے کوچ کرو ۔ حکمت ۲۳۴: اتق اللہ بعض التقی وان قل واجعل بینک و بین اللہ سترا وان رق ‘‘ یعنی خدا سے ڈرو اگر چہ کم ہی کیوں نہ ہو اپنے اور اللہ کے درمیان ایک پردہ قرار دو اگر چہ نازک ہی سبھی ۔

اللہ نے کماحقہ تقوے اور حضرت علی علیہ السلام نے تھوڑ سے تقوے کا مطالبہ کیا ہے ان دو چیزوں میں منافات نہیں ہے جو کہ مطلوب دونوں قسم کا تقوی ہے اگرچہ اسکا اعلیٰ درجہ، اتم اور اکمل تقوی ہے ۔

(۳)نبی اکرم ﷺ کے ذریعہ ہدایت کا مسألہ:

سورہ بقرہ آیت ۲۷۲ ’’ لَیْسَ عَلَیْکَ ہُدَاہُمْ وَلَکِنَّ اﷲَ یَہْدِی مَنْ یَشَاءُ‘‘ ہدایت کی ذمہ داری آپ کے اوپر نہیں البتہ خدا جسے چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے۔ خطبہ ۱: فہداہم بہ عن الضلالہ وانقذہم بمکانہ من الجہالۃ یعنی خدا نے پیغمبر اسلام ﷺ کے ذریعہ لوگوں کی ہدایت کی اور ان کے سبب انہیں جہالت سے نجات دلائی۔ یہان پر بظاہر آیت اور خطبہ کے مذکورہ جز میں تضاد نظر آتا ہے۔ قرآن نے فریضہ ہدایت کی حضور اکرم ﷺ سے نفی کی ہے لیکن نہج البلاغہ کی نظرمیں اللہ نے آپؐ کے ذریعہ لوگوں کی ہدایت کی ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ خود قرآن نے ایک جگہ پر فرمایا ہے : ذلک لتہدی الی صراط مستقیم (27) یعنی بے شک آپ راہ راست کی طرف ہدایت کرتے ہیں دوسرے یہ کہ مرسل اعظم ﷺ یا دیگر نبیوں کے لئے جو ہدایت کا لفظ استعمال ہو تا ہے اس سے مراد راستہ دکھاناہوتا ہے نہ منزل مقصود تک ہاتھ پکڑ کر پہنچانا۔ لہٰذا وہ آیتیں جو پیغمبر اسلام ﷺ سے ہدایت کی نفی کرتی ہیں وہاں مراد منزل و مقصود تک پہنچانا ہے اور وہ آیات یا احادیث جیسے نہج البلاغہ کا ذکر شدہ جملہ، جو حضور کو وسیلہ ہدایت بتاتا ہے، ان سے مراد لوگوں کو راستہ دکھانا ہے۔

خلاصہ:

خداوندمتعال ک واحد کتاب کہ جو ہر طرح کی تحریف سے منزہ اور مبرا ہے،قرآن مجید ہے۔ یہ کتاب زندگی اور صراط المستقیم ہے۔ خداوند متعال اپنی اس کتاب میں انسانون کو تفکر و تدبر اور عمل کی دعوت دیتا ہے۔ قرآن میں غور و فکر اور اس کی ہدایات سے انسان اسی وقت مستفیض ہوسکتا ہے جب آیات کو صحیح طریقے سے سمجھے۔ اس اعتبار سے قرآنی معارف کو تین حصوں پر تقسیم کیا جاسکتا ہے:

۱۔ وہ آیات جو عربی داں افراد کے لئے قابل فہم و درک ہیں۔

۲۔ وہ آیات کہ جو تدبر اور تفسیر کی محتاج ہیں ۔

۳۔ وہ آیات کہ جن کو کامل منابع یعنی معصومین 222 کے اقوال اور بیانات کی روشنی میں تفسیر و توضیح کی ضرورت ہے۔

تفسیر قرآن کا سلسلہ صدر اسلام سے شروع ہوا۔ دور رسالت میں بعض اصحاب نے پیغمبر اکرم ﷺ کے حضور تفسیر سیکھی جس میں سب سے نمایاں شخصیت حضرت علی ۔ کی ہے۔ آپ نے تفسیر قرآن کے لئے مختلف روشوں بالخصوص تفسیر قرآن بہ قرآن سے استفادہ فرمایا ہے۔ مذکورہ مقالہ میں مقدماتی بحث کے بعد علی ۔ کی نظر میں تفسیر کے شرائط،مبانی اور روش کے علاوہ آپ کے تفسیری نمونوں نیز آنحضرتؐ کے قرآن مستندات کو بیان کیا گیا ہے۔

خدا ہم سب کی قرآنی روش اور علوی سیرت پر چلنے کی توفیق کرامت فرمائے۔

آمین۔

حوالہ جات

  1. سورہ آل عمران آیت ۱۰۲
  2. مجلسی، بحارالانوار، ج۳۸، ص۶۳
  3. سورہ تغابن۔ آیت ۱۶
  4. نہج البلاغہ، خط۲۸
  5. زمر ۳
  6. سورہ عنکبوت،آیت ۵۷
  7. کنزالعمال، ج۲، ص ۴۹۱
  8. سورہ نمل،آیت ۶۵
  9. سورہ لقمان،آیت ۳۴
  10. نہج البلاغہ، خ ۱۸
  11. کنزالعمال، ج۲،ص۵۲۱
  12. سورہ ذاریات، آیت ۲۲
  13. مسند امام علی، ج۲، ص۲۴۷
  14. نہج البلاغہ، خطبہ ۲۳۱
  15. سورہ ابراہیم ، آیت ۲۵
  16. مسند امام علی، ج۲، ص۲۹۲
  17. سورہ بقرہ، آیت۱۵۶
  18. نہج البلاغہ خطبہ ۴۲۱
  19. نہج البلاغہ خطبہ ۲۳۱
  20. سورہ نحل
  21. سورہ آل عمران، آیت۷
  22. نہج البلاغہ خطبہ ۱۴۴
  23. نہج البلاغہ،خطبہ ۲۳۱
  24. سورہ انفال ، آیت۳۳
  25. نہج البلاغہ ، اردو ترجمہ
  26. نہج البلاغہ ، اردو ترجمہ
  27. سورہ شورای۔آیت ۵۲

تحریر: سید عباس مہدی حسنی   مقالہ :نہج البلاغہ بطور تفسیر قرآن

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button