کتب کا تعارفلائبریریمقالاتھوم پیج

کتاب من لایحضرہ الفقیہ کا تعارف

مصنف:

محمد بن علی بن الحسین بن موسیٰ بن بابویہ قمی جو شیخ صدوق کے نام سے مشہور ہیں۔

ولادت:

 ۳۰۶ھ وفات۳۸۱ھ

آپ امام زمانہ صاحب الزمان(ع) کی دُعا کی برکت سے قم میں پیدا ہوئے، قم میں دو لاکھ محدّثین تھے اور شیخ صدوق کے والد ابوالحسن علی بن الحسین علیہ الرحمہ ان کے سرداراور ان کے فقیہ تھے۔

آپ تین سو سے زیادہ کتابوں کے مصنّف ہیں جن میں چند مشہور کتابوں کے نام یہ ہیں:

۱۔ علل الشرائع          ۲۔ الخصال                ۳۔ عیون اخبار الرّضا

۴۔ اَمَالِی    ۵۔ ثواب الاعمال       ۶۔ من لا یحضرہ الفقیہ

۷۔ معانی الاخبار        ۸۔ عقائد  ۹۔ کتاب المقنع فی الفقہ

۱۰۔ کتاب التوحید       ۱۱۔ کمال الدین و تمام النعمۃ

۱۲۔ صفات الشیعۃ      ۱۳۔ فضائل الشیعۃ     ۱۴۔ حقوق الاخوان

اس کتاب کی وجہ تسمیہ اور تالیف کے بارے میں شیخ صدوق اس طرح رقم طراز ہیں:

“میں سفر کر کے بلخ کی سرزمین پر پہنچا اور اس کے ایک قصبے میں جس کا نام ایلاق تھا میری ملاقات شریف الدین ابوعبداللہ محمد بن حسن موسوی سے ہوئی جو نعمہ کے نام سے مشہور تھے۔ انھوں نے مجھ سے ایک کتاب کا ذکر کیا جسے تصنیف کیا ہے محمد بن زکریا نے جو اپنے وقت کے بہت بڑے طبیب تھے اور “رے” کے باشندے تھے۔ جس کا نام “مَنْ لَا یَحْضُرُہُ الطَّبِیْب” تھا (یعنی جس کے پاس طبیب موجود نہ ہو تو وہاں یہ کتاب طبیب کی جگہ دوا اور علاج میں لوگوں کی رہنمائی کرے گی) اُنہوں نے مجھ سے فرمائش کی کہ میں اُن کے لیے فقہ میں ایک کتاب تحریر کروں جو حلال و حرا م، شرائع اور احکام پر مشتمل ہو اور اس قبیل کی تمام باتیں اس کتاب میں مندرج ہوں اور میں اس کتاب کا نام رکھوں من لایحضرہ الفقیہ (یعنی جس کے پاس کوئی فقیہ موجود نہ ہو تو یہ کتاب فقہ میں اس کی رہنمائی کرے)

لہٰذا اُن کی فرمائش پر میں نے یہ کتاب تحریر کی اور اس میں ۲۴۵ کتابیں ہیں۔ میں نے اس میں اسانید حذف کر دی ہیں تاکہ اس کے طرق اور زیادہ ہوں اور اس کے فائدے بیش تر ہوں اور میرا عقیدہ ہے کہ اِنَّہٗ حُجَّۃٌ فِیْمَا بَیْنِیْ وَ بَیْنَ رَبِّیْ، یہ کتاب اور جو کچھ اس میں ہے میرے اور میرے رب کے درمیان حجّت ہے۔ اور اس کتاب میں جتنی احادیث ہیں وہ مشہور کتابوں سے لی گئی ہیں، انھی پر اعتماد ہے اور وہی مرجع ہیں، جیسے کتاب حریز بن عبداللہ سجستانی، کتاب عبیداللہ بن علی الحلبی، اور کُتبُ علی بن مہزیار الاھوازی، اور کتب الحسین بن سعید اور نوادر احمد بن محمد بن عیسیٰ اور کتاب نوادر الحکمۃ، تصنیف محمد بن احمد بن یحییٰ بن عمران الاشعری اور کتاب الرحمہ از سعد بن عبداللہ اور جامع شیخنا محمد بن الحسن بن الولیدؓ اور نوادر محمد بن ابی عمیر اور کتب المحاسن لاحمد بن ابی عبداللہ البرقی اور “رسالۃ”  میرے والد کا تحریر کردہ اس کے علاوہ دیگر اُصول اور مصنّفات سے استفادہ کیا ہے۔”

طلبِ حدیث کے لیے سفر

آپ کی نشوونما اور تربیت والد کے زیر سایہ قم میں ہوئی اور آپ نے شیوخِ قم مثلاً محمد بن حسن بن احمد بن ولید اور حمزہ بن محمد بن احمد بن جعفر بن محمد بن زید بن علی(ع) سے بہت کچھ سُنا اور طلبِ حدیث کے لیے وطن سے رجب۳۳۹ ھ کو سفر اختیار کیا اور شہر “رے ”، مشہد مقدس، استرآباد و جرجان، نیشاپور، ما وراء النہر، سرخس، سمرقند، بلخ، ایلاق، فرغانہ، ہمدان، بغداد، کوفہ، مکہ و مدینہ اور فید کا سفر کیا اور وہاں کے محدّثین سے حدیثیں اخذ کیں، انھیں حدیثیں سنائیں اور ان سے احادیث سنیں اور روایت کی۔

شیخ صدوق کے بارے میں متقدمین کی رائے

احمد بن علی بن احمد بن العباس النجاشی(۳۷۲۔۴۵۰)اپنی کتاب الرجال (ص۳۰۲،۳۰۳)میں فرماتے ہیں کہ محمد بن علی بن الحسین بن موسیٰ بن بابویہ قمی ابوجعفر جو “رے ” میں مقیم ہیں ہمارے شیخ اور فقیہ اور خراسان میں طائفہ کے نمایاں فرد تھے۔ ۳۵۵ ھ میں بغداد تشریف لے گئے اور وہاں کے شیوخ سے احادیث کی سماعت کی جب کہ وہ ابھی نوجوان تھے اور انھوں نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔

علّامہ حلّی( متوفی،۴۸۱ھ) فرماتے ہیں کہ ہمارے شیخ، فقیہ اور خراسان میں مذہب شیعہ کے زعیم ۳۵۶ھ میں بغداد تشریف لائے، ان سے بزرگانِ دین نے حدیث کی سماعت کی جب کہ وہ نوجوان تھے۔ وہ جلیل القدر، حافظِ حدیث، مردم شناس روایات نقل کرنے والے تھے، قم کے رہنے والوں میں ان جیسا حافظ حدیث اور زیادہ علم رکھنے والا کوئی نہ تھا۔

سیّد بحرالعلوم نے اُن کے بارے میں فرمایا ہے:

بزرگانِ شیعہ میں سے ایک بزرگ، شریعت کے رکن رکین، رئیس المحدثین، ائمہ(ع) کی روایات نقل کرنے میں صادق، صاحب الامر(ع) کی دُعا سے متولد ہوئے اور اسی سبب سے بڑی فضیلت و شرف کے مالک اور افتخار کے درجے پر فائز ہوئے۔

امامِ زمانہؑ کی توقیع جو ناحیۂ مقدسہ سے ملی ہے، اس میں امامؑ نے صاحبِ من لایحضرہ الفقیہ کی توصیف ان الفاظ میں کی ہے:

“اِنَّہٗ فَقِیْہٌ مُبَارَکٌ نَفَعَ اللہ بِہٖ”

“وہ ایک بابرکت فقیہ ہیں، اللہ تعالیٰ اُن کے فائدے کو عام کرے۔”

کتاب من لایحضرہ الفقیہ کا تعارف

سیّد بحر العلوم نے اس کتاب کے بارے میں تحریر کیا ہے:

“ان کی یہ کتاب دنیا میں ایسی شہرت کی حامل ہے، جیسے سورج نصف النہار میں چمکتا ہے۔”

محدث نوری نے کہا ہے:

“بہت سے علماء نے من لا یحضرہ الفقیہ کی احادیث کو دیگر تین کتب احادیث پر اس لیے ترجیح دی ہے کہ شیخ صدوق علیہ الرحمہ اکثر احادیث کے حافظ تھے، انھوں نے اِنہیں اچھی طرح منضبط کیا اور ہر روایت کی جانچ پڑتال کی ہے، انھوں نے کافی کے بعد اپنی کتاب تحریر کی ہے اور تحریر کردہ احادیث کی صحت کی ضمانت لی ہے، انھوں نے د یگر مصنّفین کی طرح صرف احادیث و روایات کو جمع کرنے کا قصد نہیں کیا بلکہ ان ہی احادیث کو رقم کیا ہے جن سے فتویٰ صادر کیا اور اُن کی صحت کا حکم لگایا اور اس اعتقاد کے ساتھ جمع کیا کہ یہ احادیث ان کے اور رب کے مابین حجّت ہیں۔”

شیخ صدوق نے اپنی کتاب من لا یحضرہ الفقیہ کو چار جلدوں میں مرتّب کیا ہے:

۱۔ پہلی جلد کا آغاز باب المیاہ و طھرھا و نجاستھا سے ہوتا ہے اور اس کا اختتام باب نوادر الصلوات پر ہوتا ہے۔ یہ کتاب الطّھارۃ اور کتاب الصّلٰوۃ ہے۔ اس جلد میں احادیث کی تعداد ۱۵۷۳ ہے اور ۳۴ ابواب ہیں۔

۲۔ دوسری جلد کا آغاز ابواب الزّکاۃ سے ہوتا ہے اور اس کا اختتام باب الفروض علی الجوارح پر ہوتا ہے۔ اس جلد میں کتاب الزکاۃ، کتاب الخمس، کتاب الصّوم اور کتاب الحجّ ہے۔ اس جلد میں حدیث۱۵۷۴ سے لے کر حدیث ۳۲۱۵ تک ہے۔

۳۔ تیسری جلد کا آغاز ابواب القضایا والاحکام سے ہوتا ہے اور اختتام باب معرفۃ الکبائر پر ہوتا ہے۔ اس جلد میں کتاب القضایا و الاحکام اور کتاب المعیشۃ، کتاب النکاح اور کتاب الطلاق ہے۔ اس جلد میں احادیث کا آغاز حدیث ۳۲۱۶ سے لے کر حدیث ۴۹۶۷ تک ہے۔

۴۔ چوتھی جلد کا آغاز باب ذکر جمل من مناھی النّبیّ سے ہوتا ہے۔

اور اس جلد میں کتاب الحدود اور کتاب الدّیات اور کتاب الوصیّۃ اور کتاب الوقف اور کتاب الفرائض و المواریث اور آخر میں باب النّوادر ہے۔ اس جلد میں حدیث کا آغاز ۴۹۶۸ سے لے کر حدیث ۵۹۲۰ تک ہے اور اسی کتاب کے آخر میں مشیخۃ کے عنوان سے ۴۲۲ سے ۵۳۹ تک ان راویوں کا تذکرہ ہے جن سے شیخ صدوق نے روایات اخذ کی ہیں۔

محدث بحرانی نے ہر جلد کی احادیث کو شمار کیا تو ان کے نزدیک احادیث کی تعداد ۵۹۶۳ ہوئی جب کہ ۴۴۶ ابواب قائم کیے ہیں۔

۳۹۱۳ احادیث مسند ہیں اور ۲۰۵۰ احادیث مرسل ہیں۔ اس کتاب کے قلمی نسخے بہت ہیں اس کا ایک نسخہ جو ۶۸۱ھ کا تحریر شدہ ہے، مانچسٹر کی لائبریری میں موجود ہے۔ یہ کتاب بار بار چھپی ہے۔

لکھنؤ ہندوستان میں   ۱۳۰۰ ھ میں

تبریز ایران میں        ۱۳۳۲ ھ میں

طہران ایران میں      ۱۳۷۲ ھ میں

نجف اشرف عراق میں             ۱۳۷۷ ھ میں

اس کتاب کا اُردو ترجمہ سیّد حسن امداد صاحب ممتاز الافاضل غازی پوری نے کیا ہے جو ۴؍ جلدوں میں شائع ہوا ہے۔

شیخ صدوق کے مشائخ

مرزا حسین نوری نے مستدرک الوسائل میں ۲۱۱؍ افراد کے نام تحریر کیے ہیں جو شیخ صدوق کے مشائخ تھے جن میں سے چار افراد نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔

۱۔ شیخ صدوق کے والد علی بن حسین بابویہ قمی

۲۔ محمد بن حسن بن احمد بن الولید

۳۔ محمد بن علی بن ماجیلویہ

۴۔ محمد بن موسیٰ بن متوکّل

جب ہم مشیخہ من لایحضرہ الفقیہ پر نظر کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ شیخ صدوق نے اس وجیزہ میں ۲۰۶؍ مرتبہ اپنے والد کے طریق سے اور ۱۱۷؍ مرتبہ اپنے اُستاد ابن الولید کے طریق سے اور ۴۸؍ مرتبہ اپنے دوسرے اُستاد محمد بن علی بن ماجیلویہ کے طریق سے اور آخر ۳۶؍ مرتبہ محمد بن موسیٰ بن متوکّل کی سند سے خود کو صاحبانِ کتب اور اُصول اوّلیّہ تک ذکر کرتے ہیں۔

شاگردانِ شیخ صدوق

نجاشی کے مطابق جب شیخ صدوق  ۳۵۵ ھ میں بغداد تشریف لائے تو بہت سے مشائخ شیعہ نے ان سے احادیث اخذ کیں، حال آں کہ وہ اس وقت نوجوان تھے۔ جب ہم اس عہد پر نظر کرتے ہیں تو مرجعیتِ عامہ شیخ صدوق پر منتہی ہوتی ہے۔ شیعیانِ جہان، دُنیا کے اطراف و اکناف سے سوالات اور دینی معاملات کے بارے میں شیخ صدوق سے رجوع کرتے تھے۔ مقدمہ معانی الاخبار کی تحقیق کے مطابق ۲۷؍ افراد سے زیادہ ان کے شاگردوں کے بارے میں علم نہیں ہوسکا ہے، جن میں اہم ترین یہ اشخاص ہیں۔

۱۔ ابوالعباس احمد بن علی بن محمد بن العباس بن نوح

۲۔ ابوعبداللہ حسین بن عبداللہ غضائری

۳۔ ابوعبداللہ حسین بن علی بن الحسین بن بابویہ (شیخ صدوق کے بھائی)

۴۔ علی بن احمد بن العباس النجاشی (نجاشی، کتاب الرجال کے والد گرامی)

۵۔ السیّد مرتضیٰ علم الہدیٰ

۶۔ ابوعبداللہ محمد بن محمد بن النعمان شیخ مفید

۷۔ ابو محمد ہارون بن موسیٰ التلعکبری

۸۔ شریف ابوعبداللہ محمد بن الحسن معروف بہ نُعمہ (جن کی فرمائش پر یہ کتاب معرضِ وجود میں آئی)

۹۔ حسن بن حسین بن علی بن بابویہ

۱۰۔ ابوالحسن جعفر بن الحسن بن حسکہ القمی

شیخ صدوق نے جو کتابیں اُس وقت تک تحریر کی تھیں اور ان کی دسترس میں تھیں ان سے استفادہ کیا ہے۔ ان میں سے کتاب کلینی الرازی الکافی بھی تھی جو شیخ صدوق سے کچھ عرصہ قبل تالیف کی گئی تھی وہ باب “الوصی لمنعِ الوارث” میں حدیث لکھنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں، حدیث ۵۵۲۶ کے ذیل میں:

مَا وَجَدتُّ ہٰذَا الْحَدِیْثَ اِلَّا فِیْ کِتَابِ مُحَمَّدِ بْنِ یَعْقُوْبَ وَ مَا رَوَیْتُہٗ اِلَّا مِنْ طَرِیْقِہٖ حَدَّثَنِیْ بِہٖ غَیْرُ وَاحِدٍ مِّنْھُمْ مُحَمَّدِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِصَامٍ الْكُلَيْنِيُّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَعْقُوبَ۔

“میں نے اس حدیث کو محمد بن یعقوب (کلینی رازی) کی کتاب میں پایا ہے اور صرف انھی کے طریق سے روایت کی ہے۔”

نیز باب نوادر الوصایا میں حدیث ۵۵۴۸ من لایحضرہ الفقیہ، جلد۴، ص۲۲۳ میں فرماتے ہیں:

“رَوٰى مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ الْكُلَيْنِيُّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ زِيَادٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَمَاعَةَ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ جَبَلَةَ وَ غَيْرِهِ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَمَّارٍ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللهِ ع قَالَ أَعْتَقَ أَبُو جَعْفَرٍؑ مِنْ غِلْمَانِهِ عِنْدَ مَوْتِهِ شِرَارَهُمْ وَ أَمْسَكَ خِيَارَهُم۔” [1]

شیخ صدوق کی کرامت

جیسا کہ کتاب روضات الجنات فی احوال العلماء والسادات تالیف محمد باقر خواسناری کی کتاب جلد۶ میں صفحہ ۵۷۴ پر ہے کہ جسد پاک و مطہر شیخ صدوق ۱۲۳۸ ھ یعنی ان کی وفات کے ۸۵۷ سال بعد ایک سیلاب کے اثر سے ظاہر ہوا اور تہران اور رے کے ہزاروں علما اور اکابرین نے ان کے تر و تازہ جسد کا مشاہدہ کیا، داڑھی، تلووں اور ناخنوں میں مہندی کے آثار باقی تھے۔

کتاب نقباء البشر جلد۴، ص۱۴۷۲ میں ہے کہ ملّا علی کنی مرجع تقلید اور اپنے زمانے کی ممتاز شخصیت، ولادت  ۱۲۲۰  ھ اور وفات  ۱۳۰۶ ھ میں ہوئی، اس وقت ۱۸؍ سال کے تھے اور انھوں نے شیخ کے تر و تازہ جسم کا مشاہدہ کیا تھا۔

[1] من لایحضرہ الفقیہ، جلد۴، ص۲۲۱، طبع ثانی، ۱۴۰۴ھ، منشورات جماعۃ المدرسین فی الحوزۃ العلمیۃ فی قم المقدسۃ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button