شمع زندگیھوم پیج

113۔ یتیم پروری

اَللهَ اللهَ فِي الْاِيْتَامِ، فَلاَ تُغِبُّوْا اَفْوَاهَهُمْ۔ (خط ۴۷)
دیکھو یتیموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا، ان کے لیے بھوک کی نوبت نہ آئے۔

انسان کامل کی بلند نظری، دردمندی اور دوسرے انسانوں کی بہتری کی سوچ کے لیے یہ بہترین جملے ہیں۔ امیرالمؤمنینؑ کی زندگی کے آخری ایام کی اور زخمی ہونے کے بعد کی یہ وصیت ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کامل کی فقط اپنی اولاد پر نظر نہیں ہوتی بلکہ اس وصیت میں آپؑ اپنی اولاد کو ان انسانوں کی دیکھ بھال کی تاکید کر رہے ہیں جو بے سہارا ہیں۔ گویا ایک حقیقی رہبر و راہنما اپنی زندگی کے بعد پر بھی نظر رکھتا ہے کہ بے سہارا لوگوں کا کیا ہوگا۔

یتیم عموماً اسے کہتے ہیں جس کا باپ نہ ہو مگر حدیث کی زبان میں وہ افراد جو کمال تک پہنچنے کی راہوں میں مشکلات سے دوچار ہوں انھیں بھی یتیم یعنی بے سرپرست کہا گیا ہے۔ کچھ لوگ مالی طور پر تو یتیم نہیں ہوتے مگر اخلاقی و تربیتی اعتبار سے بے سرپرست و یتیم ہوتے ہیں۔ مالی طور پر یتیم کو لقمہ مل جائے تو اسے تسلی ہوتی ہے مگر جو اخلاقی طور پر یتیم ہو اسے مسلسل سہارا دینا پڑتا ہے، اس کی حوصلہ افزائی کرنی پڑتی ہے، اس کے دوستوں پر نظر رکھنی ہوتی ہے۔ گویا اس کے پیٹ کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے اور اس کے دماغ کی پرورش بھی لازمی ہے۔

شمع زندگی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button