مَنْ اَبْطَاَ بِهٖ عَمَلُهٗ لَمْ يُسْرِعْ بِهٖ نَسَبُهٗ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۲۲)
جسے اس کے اعمال پیچھے ہٹادیں اسے نسب آگے نہیں بڑھا سکتا۔
انسان فطرت میں کمال پسند ہے۔ اکثر افراد چونکہ کمال کی راہوں سے آشنا نہیں ہوتے اس لیے اندھیروں میں بھٹک کر اپنی زندگی کا محور حیوانی ضروریات کے حصول کو بنائے رکھتے ہیں۔ ان کمالات کے حصول میں بہترین مددگار بلند مرتبہ خاندان ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک پڑھے لکھے خاندان کے لئے پڑھنا لکھنا آسان ہوتا ہے اور ایک معنوی و اخلاقی بلندیوں پر فائز شخص کی اولاد ان مدارج کو آسانی سے طے کر سکتی ہے مگر امیرالمومنینؑ یہاں خبردار کرتے ہیں کہ فقط خاندان کی عظمت اور نسل و نسب کمالات کا سبب نہیں بنتے بلکہ عمل ہے جو انسان کو اچھائیوں میں نامور بناتا ہے۔ کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ خاندانی شہرت ہی انسان کی بلندیوں میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ آپ کے فرمان کا کسی بزرگ نے بہت خوبصورت معنی کیا ہے کہ ’’آنکھ کا اندھا جو عصا کا سہارا لے کر چلتا ہے اور عقل کا اندھا جو قبر کی ہڈیوں پر سہارا لے کر چلتا ہے ان میں کوئی فرق نہیں‘‘۔ (جواد مغنیہ)
ہماری جوان نسل اگر ترقی کرنا چاہتی ہے تو اسے خاندان کو ذریعہ بنانا چاہیے مگر اصل ترقی کا راز اس کی اپنی محنت و جد و جہد ہوتی ہے اور ہمارے اکثر جوان اس لئے ناکام ہوتے ہیں کہ وہ خاندان کے سہارے جیتے ہیں۔ اپنے عمل کو ہتھیار نہیں بناتے۔ سعدی نے کیا خوب کہا: “دیہاتوں کے دانشور وزارت و بادشاہی تک پہنچ گئے اور وزیروں کے ناقص العقل بیٹے گدائی کے لئے دیہاتوں میں پہنچ گئے”۔علامہ اقبال فرماتے ہیں: