شمع زندگی

362۔ خود فریبی

رُبَّ مَفْتُوْنٍ بِحُسْنِ الْقَوْلِ فِيْهِ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۴۶۲)
بہت سے لوگ اپنے بارے میں تعریف سے فریب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

با کمال لوگ دوسروں کی چھوٹی چھوٹی چیزوں اور کاموں کی تعریف کر کے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ کسی بزرگ کا تشویق و تعریف کا ایک جملہ سامنے والے کی کئی گنا ہمت بڑھا دیتا ہے۔ یوں کسی کی تعریف سے معاشرے میں اچھائیوں میں پیشرفت ہوتی ہے۔ البتہ بہت سے لوگوں کے لیے یہی تعریف فریب و فتنہ کا سبب بن جاتی ہے۔ خاص کر اگر یہ تعریف کسی ما تحت یا ضرورت مند کی طرف سے ہو تو یہ انسان کو متکبر و مغرور بنا دیتی ہے۔ ایسا انسان پھر ہر کسی سے احترام اور تعریف کی توقع رکھتا ہے اور اگر کوئی ما تحت یا چھوٹا اس کی تعریف نہیں کرے گا تو ممکن ہے اس کا حق بھی مکمل نہ دے۔

زیادہ تعریف کا یہ بھی نقصان ہوتا ہے کہ جس کی تعریف کی جا رہی ہے وہ خود کو کامل سمجھنے لگتا ہے اور پھر آگے بڑھنے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔ تعریف اگر حقیقی بھی ہو تو قابل تعریف آدمی کے حاسد پیدا کر دیتی ہے اور کچھ لوگ حسد کی وجہ سے ان سے دشمنی پر اتر آتے ہیں اور ہر طریقے سے اسے کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے تعریف کرنے میں نہ بخل کرنا چاہیے نہ حد سے بڑھنا چاہیے۔

امیر المؤمنینؑ نے (خطبہ 191 میں) انسان کامل کی تعریف میں فرمایا۔ ”جب ان میں سے کسی ایک کو سراہا جاتا ہے تو وہ اپنے حق میں کہی ہوئی باتوں سے لرز جاتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ میں دوسروں سے زیادہ اپنے نفس کو جانتا ہوں اور میرا پروردگار مجھ سے بھی زیادہ میرے نفس کو جانتا ہے“۔ امیر المومنینؑ نے گویا فرمایا کہ ’’تعریف انسان کو فریب دے سکتی ہے اس لیے اس سے ہوشیار رہیں۔‘‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button