کلمات قصار

نہج البلاغہ حکمت 455: امراء القیس

(٤٥٥) وَ سُئِلَ عَلَیْهِ السَّلَامُ

(۴۵۵)

مَنْ اَشْعَرُ الشُّعُرَآءِ؟ فَقَالَ ؑ:

حضرتؑ سے پوچھا گیا کہ سب سے بڑا شاعر کون ہے؟ فرمایا کہ:

اِنَّ الْقَوْمَ لَمْ یَجْرُوْا فِیْ حَلْبَةٍ تُعْرَفُ الْغَایَةُ عِنْدَ قَصَبَتِهَا، فَاِنْ كَانَ وَ لَا بُدَّ فَالْمَلِكُ الضِّلِّیْلُ.

شعرا کی دوڑ ایک روش پر نہ تھی کہ گوئے سبقت لے جانے سے ان کی آخری حد کو پہچانا جائے، اور اگر ایک کو ترجیح دینا ہی ہے تو پھر ’’ملک ضلیل‘‘ (گمراہ بادشاہ) ہے۔

یُرِیْدُ امْرَاُ الْقَیْسِ.

سیّد رضی کہتے ہیں کہ: حضرتؑ نے اس سے امرأ القیس مراد لیا ہے۔

مطلب یہ ہے کہ شعراء میں موازنہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ان کے تو سن فکر ایک ہی میدان سخن میں جولانیاں دکھائیں اور جبکہ ایک روش دوسرے کی روش سے جدا اور ایک کا اسلوب کلام دوسرے کے اسلوب کلام سے مختلف ہے، تو یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے کہ کون میدان ہار گیا اور کون گوئے سبقت لے گیا۔ چنانچہ مختلف اعتبارات سے ایک کو دوسرے پر ترجیح دی جاتی ہے اور اگر کوئی کسی لحاظ سے اور کوئی کسی لحاظ سے اشعر سمجھا جاتا رہا ہے جیسا کہ مشہور مقولہ ہے کہ:

اَشْعَرُ الْعَرَبِ امْرَئُ الْقَیْسِ اِذَا رَکِبَ، وَ الْاَعْشٰی اِذَا رَغِبَ، وَ النّابِغَۃُ اِذَا رَھِبَ.

عرب کا سب سے بڑا شاعر ’’امرأ القیس‘‘ ہے جب وہ سوار ہو اور’’ اَعشیٰ‘‘ جب وہ کسی چیز کا خواہشمند ہو اور ’’نابغہ‘‘ جب اسے خوف و ہراس ہو۔

لیکن اس تقیید کے باوجود امرأ القیس حسن تخییل و لطفِ محاکات اور اَن چھوتی تشبیہات اور نادر استعارات کے لحاظ سے طبقہ اولیٰ کے شعراء میں سب سے اونچی سطح پر سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ اس کے اکثر اشعار عام معیار اخلاق سے گرے ہوئے اور فحش مضامین پر مشتمل ہیں، مگر اس فحش نگاری کے باوجود اس کی فنی عظمت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے کہ فنکار صرف فنی زاویہ نگاہ سے شعر کے حسن و قبح کو دیکھتا ہے اور دوسری حیثیات کو جو فن میں دخیل نہیں ہوتیں، نظر انداز کر دیتا ہے۔

بہرحال امرأ القیس عرب کا نامور شاعر تھا اور اس کا باپ حجر کندی سلاطین کندہ کا آخری فرد اور صاحب علم و سپاہ تھا اور بنی تغلب کے مشہور شاعر و سخن ران ’’کلیب‘‘ اور ’’مہلہل‘‘ اس کے ماموں ہوتے تھے۔ اس لئے فطری رجحان کے علاوہ یہ اپنے ننھیال کی طرف سے بھی شعر وسخن کا ورثہ دار تھا اور سرزمینِ نجد کی آزاد فضا اور عیش و تنعم کے گہوارے میں تربیت پانے کی وجہ سے شورہ پشتی و سرمستی اس کے خمیر میں رچ بس گئی تھی۔ چنانچہ حسن و عشق اور نغمہ و شعر کی کیف آور فضاؤں میں پوری طرح کھو گیا۔ باپ نے باز رکھنا چاہا، مگر اس کی کوئی نصیحت کار گر نہ ہوئی۔ آخر اس نے مجبور ہو کر اسے الگ کر دیا۔ الگ ہونے کے بعد اس کیلئے کوئی روک ٹوک نہ تھی۔ پوری طرح دادِ عیش و عشرت دینے پر اتر آیا اور جب اپنے باپ کے مارے جانے کی اسے خبر ہوئی تو اس کے قصاص کیلئے کمر بستہ ہوا اور مختلف قبیلوں کے چکر لگائے تاکہ ان سے مدد حاصل کرے اور جب کہیں سے حسب دلخواہ امداد حاصل نہ ہوئی تو قیصر روم کے ہاں جا پہنچا اور اس سے مدد کا طالب ہوا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ وہاں بھی اس نے ایک ناشائستہ حرکت کی جس سے قیصر روم نے اسے ٹھکانے لگانے کیلئے ایک زہرآلودہ پیراہن دیا، جس کے پہنتے ہی زہر کا اثر اس کے جسم میں سرایت کر گیا اور اسی زہر کے نتیجہ میں اس کی موت واقع ہوئی اور انقرہ میں دفن ہوا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button