مقالات

عدالت علی علیہ السلام (حصہ اول)

مقدمہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للّہ ربّ العالمین والصّلاۃ والسّلام علیٰ محمّد و ال ِمحمّد

 نہج البلاغہ میں جن موضوعات پر سیر بحث ہوئی ہے ـ‘ ان میں ’’عدالت ‘‘ایک اہم موضوع ہے۔

عدالت کامفہوم یہ ہے کہ ہر شخص کی بنیادی ضرورتوں کو اوراس کی استعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے اس سے اس کا حق دیا جائے ‘معاشرے کی مثال ایک گاڑی سی ہے کہ جس کا ہر پرزہ اپنی جگہ پر لگاہوا ہے ۔

 اگر پوری نہج البلاغہ کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں یہ محسوس ہوگا کہ حضرت علی علیہ السلام نے عدالت کے موضوع پر بہت زیادہ روشنی ڈالی ہے۔اور اس کی اہمیت پر بہت زیادہ زور دیا ہے ۔یقینا وہ افراد جو اسلام کے علاوہ دوسرے ادیان ومذاہب کی تعلیمات سے آشنا ئی رکھتے ہیں ان کے لیے یہ بات قابل تعجب ہے کہ دین کا رہبر و پیشواعدالت کے موضوع پر کیوں اس طرح منہک ہے ؟کیا یہ وہ مسائل نہیں ‘ جن کا دنیا اور دنیوی زندگی سے ہے اور ایک دینی رہبر کا دنیوی زندگی اور اجتماعی مسائل سے کوئی ربط نہیں ہواکرتا ۔

    لیکن جو افراد اسلامی تعلیمات سے آشنا ہے ان کے لیے کوئی تعجب نہیں ہوتا ۔چونکہ حضرت علی علیہ السلام کی پوری زندگی ان کے سامنے ہوتی ہے اور وہ جانتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے پوری زندگی آغوش پیغمبر(ص)میں تربیت پائی ۔بلکہ پیغمبر(ص) نے بچپنے سے ہی حضرت علی علیہ السلام کواپنے گھر میں رکھ کر پروان چڑھایا ‘ مخصوص تعلیم تربیت سے آراستہ کیا ‘اسلام کے رموز واسرار ودیعت فرمائے اور اصول وفروع کو رگ وپے میں لہو بنا کردوڑایاہے۔

  ایسے افراد کے لیے اگر حضرت علی علیہ السلام نے عدالت جیسے مو ضو ع پر کچھ ارشاد نہ فرما یا ہوتا تو یہ قابل تعجب ہوتا چونکہ قرآن کریم کا ارشادہے کہ؎

                   ((لَقَدْاَرْسَلْنَارُسُلَنَا بِالْبَیّنَاتِ وَاَنْزَلْنَامَعْہُمُ الْکِتَابَ وَال۔مِیْزَانَ لِیَقُومَ النَّاسُ بِالقِسْط ِ ))(۱)

             ہم نے اپنے رسولوں کو روشن دلیلوں اور کتاب و میزان کے ساتھ بیھجاہے تاکہ لوگوں کے درمیان عدالت قائم کریں ۔

      اس آیہ شریفہ میں تمام انبیاء کی بعثت کامقصد’’ قیام عدالت ‘‘ کو قرار دیا گیا ہے عدالت اتنا مقدس سرما یہ ہے کہ تمام انبیآء اسی کو فروع دینے کے لیے مبعوث ہوئے ۔

         انبیاء جو کہ صاحب شریعت ہے اور آل محمد ؑ محافظ شریعت ہو نے کے با وجود کیسے ممکن ہے کہ حضرت علی علیہ السلام جیسا انسان جو قرآن کا مفسر ‘ قرآن نا طق اور اسلام کے اصول وفروع کی اہمیت کو نظر انداز کردے۔

 معنی عدالت :

   عدالت کے معنی لغت میں برابر ی ‘ برابرکرنے کے ہے۔ اور عرف عام میں عدالت دوسروں کے حقوق کی رعایت کر نا درمقابل ظلم

   اصطلاح  میںیہ معنی ہے: وضع کُلّ شیئِِ فی موضِعہ( ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھنا )

اقسام عدالت

         (الف)عدل تکوینی :۔خداوند متعال ہر مخلوق کو اس کی صلاحیت اور لیاقت کے مطابق عطافرماتاہے قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ ؎  ہمارا پرودگار وہ ہے جس نے ہر شے کو اسکے مناسب خلقت عطا کی اور پھر ہدایت کی ہے۔(۲)

        (ب) عدل تشریعی :۔خداوند پیغمبروں اور دینی قوانین پر مشتمل شریعت کو بھیج کر معنوی کمالات کے حصول کی صلاحیت رکھنے والے انسان کی ہدایت کرتا ہے اور اس پر اسکی طاقت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالتا۔

بے شک اللہ عدل ‘احسان اور قرابت داری اور ظلم سے روکتا ہے کہ شاید تم اس کی طرح نصیحت حاصل کرو۔ (۳)

اسی طرح فریضہ الٰہی کے طاقت سے زیادہ نہ ہونے کے سلسلے میں اشاد ہوا ہے ۔اللہ کسی نفس اور اس کی  وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔(۴)

عدالت کی اہمیت

        عدالت کی اہمیت کے بارے میں بہت ساری آیات و روا یا ت ملتی ہیں ۔

        پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ و آ لہ وسلّم فرما تے ہیں کہ ایک رہبرومسئول لوگوں کے درمیان ایک روز عدالت کے ساتھ رفتار کریں تواُن ایک سوسال یاپنچاس سال کہ جسمیں اپنے اھل وعیال کے ساتھ عبادت میں مشغول رہاہو بہتر ہیں ۔(۵)

امیر المئومنین علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ عدالت ’ہم لوگوں کی مصلحت اور ہم روش پروردگار ہے۔ اور اسی طرح فرماتے ہیںکہ ’’ العدل حیاۃ التبورُ ممات‘‘ عدالت حیات ‘اور ظلم مرگ اجتماع ہے۔

      اسلام کی تعلیمات نے سب بے پہلے اپنے عقیدت مندوں کی فکر ونظر کو متاثر کیا اسلام فقط انسانی معاشرے اور کائنات سے متعلق نیا علمی رجحان لے کر نہیں آیا تھا بلکہ اسلامی تعلیمات نے فکرو نظرکے دھارے کو موڑ دیا تھا ۔اسلام کا یہ اقدام کسی طرح جہاں وکا ئنا ت سے متعلق دیے گے نظریات وعلوم سے کم نہیں تھا ۔

        ہراستاد اپنے شاگردوں کو نئی معلومات فراہم کرتا ہے اورہر صاحب نظر اپنے پیروکاروں اوراتباع کرنے والوں کے لیے نئی اطلاعات فراہم کرتاہے لیکن بہت ہی کم ایسے اساتذہ اور صاحبان نظر ہوں گے جنھوں نے اپنے شاگردوں کو جہاں جدید نظر یات و خیالات سے آگہی دی ہو اس کے ساتھ ساتھ ان کے طرزتفکر کو بھی نیارُخ دیاہو۔

     یہ بات توضیح طلب ہے کہ کیسے منطق اور انداز فکر میں تبدیلی آئی چونکہ انسان مفکّر ہے اس لیے وہ تما م علمی واجتماعی مسائل میں استدلال کرتے ہوئے خواہ ناخواہ بعض بنیادی اصولوں پر اعتماد کرتا ہے اور پھر نتیجہ نکالتا ہے چونکہ نظریات وطرزتفکّر کا انحصار انہیں اصولوں پر ہوتا ہے جیسے جیسے اصول بدلتے ہیں نظر یات میں بھی تبدیلی پیداہوجا تی ہے پھر اس میں یہ دیکھا جا تا ہے کہ استدلال اور نتیجہ میں کس قسم کے ا صول پر تکیہ کیا گیا ہے اور یہیں سے تفکّر ات اور نتائج ہو جاتے ہیں ۔

        اسلام نے ہر چیز کی حثیتوں کو اجاگر کیاہے مثلاً۔تقویٰ کی کو ئی قدر وقیمت نہ تھی اسے بلند مرتبہ دیا ہے اور اس کی بے حد اہمیت کا قائل ہوا۔ اوراسکے بر خلاف قتل وخونریزی خاندانی و نسلی جذبہ بر تر ی جیسی چیز جن کی زیا دہ قدروقیمت تھی ‘ ان کو گھٹا کر صفر کی حد تک پہونچادیا ۔اسلام ہی کے ذریعہ عدالت نے نئی زندگی اور بلند منزلت پائی ہے اسلام نے اس چیز کو نہج البلاغہ میں خود حضرت علی علیہ السلا م کی زبان مبارک سے سُنیں ۔ایک ذہین نکتہ سنج سائل نے امیرالمئومنین علیہ السّلام سے سوال کیا ۔(( اَلْعَدل اَفضَل اَم الجُود)) عدالت افضل ہے یا سخاوت ؟(۶)

        اس جگہ انسان کی دوخصلتوں سے متعلق سائل نے امیرالمئومنین علیہ السّلام سے سوال کیا ہے۔

         انسان ہمیشہ ظلم وستم سے گریز اورفرار کرتا رہاہے اور اسی اُمید کے بغیر کسی کے ساتھ نیکی یا احسان کیا ہو۔

     یو ں اس سوال کا جواب بہت آسان نظر آتا ہے پہلی ہی فکر میں آدمی فیصلہ کرلیتا ہے کہ سخاوت ‘عدالت سے افضل ہے کیونکہ عدالت دوسروں کے حقوق کی ریایت اور ان کی ریایت اور مقر رہ کردہ حدوں کو تجاوز نہ کرنے کا نا م ہے لیکن سخاوت میں انسان اپنے مسلّم حقوق کو دوسروں پر نثار کرتا ہے اس کے بر خلاف جو عدالت سے کام لیتا ہے وہ دوسروں کے حقوق کو نہ خود پائمال کرتا ہے بلکہ دوسروں کے حقوق کو پامالی سے بھی بچاتا ہے لیکن جو سخا وت کرتا ہے وہ جذبہ وفداکاری کا اظہار کرکے اپنے ذاتی حق کو دوسروں پر قربان کرکے خود دست بردار ہوجاتا ہے لھٰذا ایسی صورت میں سخاوت وعدالت سے بہتر وبالاتر ہے۔

        اگر اخلاقی اور انفرادی معیار پر پَرکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ سخا وت عدالت سے کہیں زیا دہ کما ل نفس اورارتقاء روح کا مظہر ہے۔لیکن حضرت علی علیہ السلام اس کے بر عکس ارشاد فرما تے ہیں کہ عدل دو دلیلوں کی بنا پر سخا وت سے بہتر ہے ۔

(۱)۔((اَلْعَدْلُ یَضَعُ الْا ُمُوْرَ مَوَا ضِعَھَا‘ وَالْجُو دُ یُخْرِجُھَا مِنْ جَھْتِھَا)) عدالت کے ذریعہ نظام پر محل انجا م پاتے ہیں اور سخاوت نظام ہستی کا رُخ موڑ دیتی ہے۔(۷)

 (۲)۔((اَلْعَدْلُ سَائِسُ عَامُّ ‘ وَالْجُودُ عارِضُ خَاصُ)) عدالت اس عام قانون اورہمہ گیر ضابطے کو کہتے ہیں کہ جس کی گرفت میں پورا معاشرہ ہے اور اس عظیم شاہراہ پر گامزن رہنا چاہے !

امیر المئومنین علیہ السّلام اس کے بعد فرماتے ہیں کہ؎

                                                          ((فاَلْعَدْلُ اَشرُ فُھُمَا وَ اَفْضَلُھُمَا)) لھٰذا عدل سخا وت سے بہتر وبرتر ہے۔(۸)

       حضرت علی علیہ السّلام کی نظر میں عدالت ہی وہ اصل ہے جس کے ذریعہ اجتماع کے نظم ونسق کی بقاء اورلوگوں کی رضامندی معاشرے کے پیکر کی سلامتی ۔۔۔۔۔۔اور اجتماعی روح کو سکون ملتا ہے ‘ ظلم وجور اور طبقاتی نظام سے خودظالم اور اس انسان کی روح کو کبھی کبھی سکون نہیں مل سکتا ہے کہ جس کے فائدہ کے لیے ظلم کیا گیا ہے پس مظلوم اور غریبوں کو کیسے سکو ن وآرام مل سکتا ہے عدالت ایک عام شاہراہ ہے کہ تمام لوگ اس سے بآسانی گزر سکتے ہیں ظلم وجور ایسی پُر پیچ اور خطرناک راہ ہے کہ جس سے ظالم وستمگر بھی اپنی منزل پر نہیں پہنچ سکتاہے ۔

عدالتِ علی علیہ السّلام   

      حضرت امیرالمئومنین علی ابن ابیطالب علیہ السّلام کے عدل کی یہ کیفیت تھی کہ مال سب کو مساوی تقسیم فرماتے تھے ۔آنحضرت ؐ کا ارشادآپ کے حق میں ہے کہ ؎       ’’وَاقْسمھم بالسوریۃ‘‘(۹)

          امام شبعی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السّلام نے اپنی زرہ ایک یہودی کے پاس دیکھی آپ اس کو قاضی شریح کے پاس لے گیے اورخود فرش کے کنا بیٹھ گیے فرمایا کہ اگر میرا مدعا علیہ مسلمان ہوتا تو میں بھی اس کے برابر کھڑ ا ہو جا تا یہ کہہ کر آپ نے فرما یا کہ یہ زرہ میری ہے یہودی نے انکار کیا۔قاضی نے شریح نے گواہ طلب کیے آپ نے امام حسن ؑ اور قنبر کو پیش کیا مگر قاضی شریح نے قبول نہ کیا اور دلیل طلب کی حضرت علی علیہ السّلام نے فرمایا کہ کوئی دلیل نہیں قاضی نے یہودی کے موافق فیصلہ کردیا ۔ حضرت علی علیہ السّلام نے خاموشی اختیار کی ۔وہ یہودی زِرہ لیکر کچھ دورجانے کے بعد پھر واپس پلٹا اور کہنے لگا کہ میں اس امر کی گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اوراس امر کی شھادت دیتا ہوں کہ یہ انبیآء کے احکام ہیں کہ حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السّلام ایسا شخص مجھ کو قاضی کے سامنے لائے کہ قاضی اس پر قضا جاری کرے میں اقرار کرتا ہوں کہ یہ زِرہ جنگ صفین میں علی ؑ سے گرپڑی تھی ۔حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السّلام اُس یہودی کے مسلمان ہوجانے سے بہت خوش ہوئے اور زِرہ اسی کو بخش دی اور ایک گھوڑابھی عنایت کیا وہ یہودی حضرت علی علیہ السّلام کے ساتھ رہ کر جنگ نہروان میں شھید ہوا(۱۰)

          خلیفہ سوم عثمان بن عفان نے جب اپنی خلافت کے دوران مسلمانوں کے اموال کو اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کردیا تھا اور عثمان کے بعد جب حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السّلام نے حکومت کی باگ ڈود سنبھالی تو آپ سے گزارش کی گی کہ گزری ہوئی باتوں پر توجہ نہ دیں ۔اورنہ ہی اس کو چھیڑیں بلکہ اپنی کوششوں کو ان حادثات پر صرف فرمائیں جو آ کی خلافت کے زمانے میں پیش آنے والے ہیں توآ پ نے ان کے جواب میں میں فرمایا کہ ؎   (( اَلْحَق القَدِیم لا یبطلہ شئی )) حق قدیم اور پُرانہ ہونے کی وجہ سے کبھی باطل نہیں ہوتا

     ’’ خداکی قسم اگر کسی نے بیتُ المال سے اپنی شادی کی ہویا کنیز یں خرید ی ہو تو بھی میں اسے بیت ُالمال میں پلٹا دوں گا‘‘(خطبہ ۱۵)اور اس کے بعد فرماتے ہیں کہ؎    

  ((فَاِنَّ فِی الْعَدْلِ سَعَۃًوَ مَنْ ضَا قَ عَلَیْہِ الْعَدْلُ‘فَالْجُورُ عَلَیْہِ اَضْیَقُ )) (۱۱)

         عدالت میں ہی آسانیاں ہیں جس پر عدالت سخت ودشوار ہوگی پھر ظلم وزیادتی تو اس پر دشوار تر ہوجائے گی عدالت ایک حصار محکم سمجھنا چایئے اور اس کی حدوں کا پاس ولحاظ بھی رکھنا چایئے ۔

اگر خدانخواستہ اس کی حدیں ٹوٹ گیں اور اس میں کسی اور چیز کی آمیزش ہوگی تو پھر کوئی قانون محفوظ نہیں رہ سکتا اور ایسی صورت میں طبیعت کے تقاضوں اور شہوت کی پیاس بجھانے کے لیے دوسری حدوں کا تشنہ ہوگا اور نتیجہ میں ناراضگی کا احساس زیادہ کرنے لگے گا ۔

حوالہ جات

 ۱۔سورہ الحدید۲۵

۲۔سورہ طہٰ آیہ ۵۰                

  ۳۔سورہ

 ۴۔سورہ مومنون آیہ ۶۲  

 ۵۔جامع السّعادات جلد ۲صفحہ ۲۲۳

  ۶۔نہج البلاغہ حکمت۴۳۷

۷۔نہج البلاغہ حکمت ۴۳۷ 

۸۔نہج البلاغہ حکمت۴۳۷ 

۹۔کنزالعمال جلد۶صفحہ ۲۵۱

 ۱۰۔بنابیع المودۃ صفحہ ۲۹۰منقول از صواعق محرمہ

۱۱۔نہج البلاغہ خطبہ ۱۵      

تحریر: بلال علی ڈار کشمیری( کشمیر ھند)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button