مقالات

17 ربیع الاول حضور اکرم کی ولادت باسعادت

ربیع الاول کو سب سے بلند و بالا مقام رکھنے والا بندہ خدا، محبوب خدا اور خاتم الانبیاءحضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آ لہ وسلم) اس دنیا میں تشریف لائے اور آپ نے اپنے نور سے عالم کائنات کو منور کردیا۔
جس پیغمبر کو خداوندعالم نے شاہد و مبشر و نذیر اور سراج منیر جیسے الفاظ سے نوازا، اور ان کی شان میں فرمایا: ”و ماارسلناک الا رحمة للعالمین“، وہ پیغمبر رحمت، دریائے مہربانی اور خوبیوں کی مجسم تصویر تھی۔وہ پیغمبر جس کو لوگوں نے پتھر مارے، جن کے سر پر مٹی ڈالی اور جن کی شان میں گستاخیاں کیں لیکن آنحضرت (ص) نے ان پر نفرین اور بددعا کے بجائے ان کے لئے دعا کی، لہٰذا ان کا دین بھی دین رحمت اور دین مہربانی ھے۔


آنحضرت (ص) کے فضائل و مناقب کو کوئی درک نھیں کرسکتا، اور نہ ھی ان کو شمار کیا جاسکتا ھے، آپ کی ذات مبارک نے اولین و آخرین میں سب سے پھلے خدا کی ربوبیت کا اقرار کیا، آپ امام الائمہ، حبیب خدا اور ایک کلام میں خداوندسبحان کی مثل اعلیٰ ھیں۔
آپ نے خداوندعالم کی بارگاہ میں ایسی عبادت کی کہ جس سے آپ کے پائے مبارک پر ورم آگیا۔ جابر بن عبد اللہ کہتے ھیں: جب بھی حضرت رسول اکرم (ص) سے کوئی سوال کیا جاتا تھا تو آپ اس کا جواب منفی نھیں دیتے تھے۔
آپ کے دشمن آپ کو امانت دار کے نام سے جانتے تھے، یھاں تک کہ آپ ،اپنے دشمنوں کے درمیان ”امین“ کے نام سے مشھور تھے، اور وہ آپ کو صادق اور سچا مانتے تھے۔ آپ کی بزم، علم و حلم اور حیا اور وقار کی بزم ھوتی تھی، آپ بہت زیادہ خاموش رہتے تھے، اور جب تک گفتگو کی ضرورت نھیں ھوتی تھی، کلام نھیں کرتے تھے، آپ کا ہنسنا تبسم تھا، آپ خوشی اور غضب کے عالم میں حق کے علاوہ کچھ نھیں کہتے تھے، جب کوئی شخص آپ کے پاس آکر بیٹھتا تھا تو اس کے جانے سے پھلے نھیں اٹھتے تھے۔
۱۷ ربیع الاول ھی کو حضرت امام صادق علیہ السلام کی ولادت با سعادت بھی ھے، آپ کی ذات مبارک سے تعلیمات نبوی کے دریا بہہ کر ھمارے لئے اب بھی یادگار کے عنوان سے باقی ھیں، آپ نے حضرت رسول خدا ﷺ کے بہت سے فضائل و مناقب بیان کئے ھیں، چنانچہ آپ فرماتے ھیں:
”حضرت رسول اکرم (ص) اپنے خوشی کے لمحات کو اپنے اصحاب کے درمیان تقسیم فرمایا کرتے تھے اور سب اصحاب کو مساوی دیکھا کرتے تھے، آپ نے کبھی بھی اپنے اصحاب کے درمیان اپنے پائے مبارک نھیں پھیلائے اور اگر کوئی شخص آپ سے مصافحہ کرتا تھا تو آپ اس کا ھاتھ اس وقت تک نھیں چھوڑتے تھے کہ جب تک وہ خود نہ چھوڑ دے۔
اس ذات کے مناقب کس طرح بیان کئے جاسکتے ھیں کہ جس کو معراج پر بلانے کے سبب خداوندعالم خود اپنی تسبیح و تقدیس کرتا ھے اور فرماتا ھے: ”سبحان الذی اسریٰ بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصیٰ“ [پاک و پاکیزہ ھے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندہ کو راتوں رات، مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ تک]
اور انھیں منتخب کیا تاکہ ان سے ملاءاعلیٰ میں نجوا کریں۔ ”فاوحیٰ الی عبدہ ما اوحیٰ“۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے چند اقوال زرین :
آنحضرت (ص) نے جناب ابوذر سے خطاب کرتے ھوئے فرمایا:
1-    یا اباذر ، أعبدالله کأنک تراه فإن کنت لا تراه فإنه یراک
اے ابوذر! خدا کی ایسی عبادت کرو کہ گویا اس کو دیکھ رھے ھو، پس اگر تم اُسے نھیں دیکھ رھے تو بے شک وہ تمھیں دیکھ رھا ھے۔
2-    یا اباذر ،اغتنم خمساً قبل خمس: شبابک قبل هرمک ، و صحّتک قبل سقمک ، و غناک قبل فقرک و فراغک قبل  شغلک، و حیاتک قبل موتک.
اے ابوذر! پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پھلے غنیمت شمار کرو، جوانی کو بڑھاپے سے پھلے، صحت و سلامتی کو بیماری سے پھلے، مالداری کو غربت سے پھلے، فراغت کو مشغولیت سے پھلے اور زندگی کو موت سے پھلے۔
3-    یا اباذر ، لا تنظر إلی صغر الخطیئة و لکن انظر إلی من عصیت.
اے ابوذر! گناہ کے چھوٹے ھونے پر نگاہ نہ کرو، بلکہ یہ دیکھو کہ کس کی نافرمانی کر رھے ھو، [یہ اس بات کا کنایہ ھے کہ کسی بھی گناہ کو چھوٹا نہ سمجھنا چاہئے کیونکہ وہ نافرمانی خدا ھے]
4-    یا اباذر ، من لم یأت یوم القیامة بثلاث فقد خسر ، قلت : و ما الثلاث فداک أبی و امی ؟ قال ورع یحجزه عمّا حرّم الله عزّوجّل علیه ، و حلم یردّ به جهل السفیه ، و خلق یداری به الناس.
اے ابوذر! جو شخص روز قیامت تین چیز ساتھ نہ لائے گا وہ خسارہ میں ھوگا، ابوذر کہتے ھیں کہ میں نے سوال کیا کہ یارسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ھوں، وہ تین چیزیں کیا ھیں: تو آنحضرت (ص) نے فرمایا: ایسا ورع [اور تقویٰ] جو اُسے خداوندعالم کی حرام کردہ چیزوں سے روکے، ایسا حلم [بردباری] جو کسی جاھل کی نادانی کا اپنے حلم کے ذریعہ جواب دے۔ اور ایسا اخلاق جس کے ذریعہ لوگوں کے ساتھ مدارا اور تواضع کرے۔
5-     طوبی لمن عمل بعلمه و أنفق الفضل من ماله ، و أمسک الفضل من قوله.
خوش قسمت ھے وہ شخص جو اپنے علم پر عمل کرے، اور اپنے اضافی مال سے راہ خدا میں خرچ کرے، اور اپنے کلام میں زیادہ گوئی سے پرھیز کرے۔
(اکثر مطالب اقتباس از کتاب مقدمة فی اصول الدین ،تالیف: حضرت آیت اللہ العظمیٰ وحید خراسانی مد ظلہ العالی)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button