مقالات

کیا ”عارف“ اللہ کے ناموں میں سے ہے؟

مولانا عامر حسین شہانی

کبھی کبھی دین کی گہرائیوں میں غوطہ لگانے سے ایسے علمی موتی ہاتھ آتے ہیں جو عقل کو جلا بخشتے ہیں اور ایمان کو تازگی عطا کرتے ہیں۔ آج ہم ایک ایسے ہی نکتے پر گفتگو کریں گے جو امیرالمومنین، امام المتقین، حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے کلام سے ہمارے سامنے آیا ہے۔ مولا علیؑ، جن کا ہر فرمان علم و حکمت کا خزینہ ہے، نہج البلاغہ کے پہلے ہی خطبے میں اللہ رب العزت کی حمد و ثنا بیان کرتے ہوئے اس کی صفات کا ذکر کچھ یوں فرماتے ہیں:

عَالِمًۢا بِهَا قَبْلَ ابْتِدَآئِهَا، مُحِیْطًۢا بِحُدُوْدِهَا وَ انْتِهَآئِهَا، عَارِفًۢا بِقَرَآئِنِهَا وَ اَحْنَآئِهَا.
ترجمہ: ”وہ (اللہ) تمام مخلوقات کو ان کی پیدائش سے پہلے جاننے والا ہے، ان کی حدود اور انتہا پر احاطہ کیے ہوئے ہے، اور ان کے جوڑ جوڑ اور رگ و پے سے واقف ہے“۔ (نہج البلاغہ، خطبہ 1)

اس پُر حکمت جملے میں ایک لفظ ”عَارِفًۢا“ استعمال ہوا ہے۔ یہیں سے اہلِ علم و فکر کے لیے ایک لطیف علمی بحث کا دروازہ کھلتا ہے۔ کیا باری تعالیٰ کی ذات کے لیے ”عارف“ کا لفظ استعمال کیا جا سکتا ہے؟ کیا یہ اسماء الٰہی میں سے ہے؟ آئیے اس مسئلے کو کھول کر بیان کرتے ہیں۔

اشکال اور اس کی بنیاد

بعض شارحینِ نہج البلاغہ اور علمائے کرام نے اس مقام پر ایک سوال اٹھایا ہے۔ ان کے تردد کی دو بنیادی وجوہات ہیں:

1۔ لغت کے اعتبار سے اعتراض:

پہلی وجہ یہ ہے کہ لفظ ”عارف“ کا مادہء اصلی ”ع ر ف“ ہے جس سے لفظ عارف اور اسی طرح لفظ ”معرفت“ مشتق ہوتا ہے۔ لغتِ عرب کے مشہور امام، راغب اصفہانی اپنی شہرہ آفاق کتاب "مفردات القرآن“ میں ”معرفت“ کی تعریف کچھ یوں کرتے ہیں:

ٱلْمَعْرِفَةُ: هِيَ إِدْرَاكُ ٱلشَّيْءِ بِتَفَكُّرٍ وَتَدَبُّرٍ لِأَثَرِهِ
یعنی ”معرفت اس ادراک کو کہتے ہیں جو غور و فکر اور تدبر کے ذریعے حاصل ہو۔“

اس تعریف کی روشنی میں معرفت ایک ایسا علم ہے جو سوچ بچار، غور و فکر اور دلیل و استدلال کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ یہ علم پہلے سے موجود نہیں ہوتا بلکہ حاصل کیا جاتا ہے۔ جب کہ اللہ رب العزت کا علم ازلی، ابدی اور ذاتی ہے۔ وہ کسی چیز کو سوچ کر یا اس کے آثار دیکھ کر نہیں جانتا، بلکہ اس کا علم ہر شے پر ہمیشہ سے محیط ہے۔ اس کا علم کسبی (Acquired) نہیں بلکہ ذاتی (Innate) ہے۔ پس اس تعریف کی رو سے اللہ کو ”عارف“ کہنا درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ اس میں محدودیت اور اکتسابِ علم کا پہلو پایا جاتا ہے جس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف دینا درست نہیں۔

2۔ حدیث کے اعتبار سے اعتراض:

دوسری وجہ ایک مشہور حدیثِ مبارکہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے:

إِنَّ لِلهِ تَعَالَى تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمًا، مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ
ترجمہ: "بے شک اللہ تعالیٰ کے ننانوے (99) نام ہیں، جو انہیں شمار کرے گا (اور ان پر ایمان رکھے گا) وہ جنت میں داخل ہوگا۔“ (الدر المنثور ج3 ص147)

علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جو مشہور 99 نام ”اسمائے حسنیٰ“ کے عنوان سے بیان ہوئے ہیں، ان میں ”عارف“ کا نام شامل نہیں ہے۔ تو پھر اس نام کا اطلاق ذاتِ باری تعالیٰ پر کیسے کیا جا سکتا ہے؟

اشکال کا جواب اور مسئلے کا حل

یہ اعتراضات اپنی جگہ علمی وزن رکھتے ہیں، لیکن جب ہم گہرائی میں اترتے ہیں تو اس کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔

پہلے اعتراض کا جواب

یہ درست ہے کہ لفظ ”معرفت“ کی ابتدائی اور بنیادی تعریف وہی ہے جو امام راغب نے بیان کی، یعنی فکر و تدبر سے حاصل ہونے والا علم۔ لیکن زبان کا یہ اصول ہے کہ بعض الفاظ کثرتِ استعمال کی وجہ سے اپنے ابتدائی معنی سے نکل کر ایک وسیع مفہوم اختیار کر لیتے ہیں۔ لفظ ”معرفت“ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اہلِ عرب اور پھر اسلامی متون میں یہ لفظ ہر قسم کی آگاہی اور علم کے لیے استعمال ہونے لگا، چاہے وہ سوچ بچار سے حاصل ہو یا اس کے بغیر۔ (کلام امیر المومنین، ج1، ص۔105)

لہٰذا، جب مولا علی علیہ السلام نے اللہ کے لیے ”عارف“ کا لفظ استعمال کیا تو ان کی مراد معرفت کا وہ محدود لغوی معنی نہیں تھا، بلکہ اس سے مراد اللہ کا وہ کامل اور مطلق علم تھا جو ہر شے کے ظاہر و باطن، جزئیات و کلیات، اور رگ و پے پر محیط ہے۔

دوسرے اعتراض کا جواب

جس حدیث میں اللہ کے 99 ناموں کا ذکر ہے، وہ حدیث اللہ کے ناموں کو صرف 99 میں محدود یا محصور نہیں کرتی۔ اس حدیث کا مقصد یہ بتانا ہے کہ یہ 99 نام اللہ کی صفات کے سب سے نمایاں اور برجستہ مظاہر ہیں، اور جو شخص ان صفات کو اپنی زندگی میں اتارے گا اور ان کی معرفت حاصل کرے گا، اس کے لیے جنت کی بشارت ہے۔

ابن میثم بحرانی اپنی شرح نہج البلاغہ میں اس اعتراض کا ذکر کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اللہ کے نام ان 99 تک محدود نہیں ہیں بلکہ یہ تو نمایاں اور مشہور اسماء ہیں۔ وہ اس بات پر دلائل بھی پیش کرتے ہیں۔ (شرح نہج البلاغہ، ابن میثم، ج1، ص137)

مزید برآں، دعائے جوشن کبیر میں بھی اللہ تعالیٰ کے ایک ہزار اسماء کا ذکر آیا ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اللہ کے نام صرف 99 تک محدود نہیں ہیں بلکہ بے شمار ہیں۔

سب سے بڑی دلیل: فرمانِ باب العلم

ان تمام علمی اور منطقی جوابات سے بڑھ کر سب سے قوی اور فیصلہ کن دلیل خود مولائے کائنات، حضرت علی علیہ السلام کا اپنا عمل ہے۔نہج البلاغہ میں آپ نے ایک مقام پہ وصفی صورت میں جبکہ دوسرے مقام پہ فعلی صورت میں یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال کیا ہے۔ اسی طرح اصول کافی میں بھی کئی مقامات پر یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے۔

کون ہے جو اللہ کی صفات اور اس کے اسمائے حسنیٰ کو رسول اللہ ﷺ کے بعد علی علیہ السلام سے بہتر جانتا ہو؟ آپ ”باب مدینۃ العلم“ (شہرِ علم کا دروازہ) ہیں۔ جب وہ ہستی جو توحید اور معرفتِ الٰہی کا امام ہے، اپنی زبانِ مبارک سے اللہ تعالیٰ کو ”عارف“ کہہ رہی ہے، تو یہ ہمارے لیے سب سے بڑی حجت اور دلیل ہے۔ آپ کا یہ لفظ استعمال کرنا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کا اطلاق ذاتِ باری تعالیٰ پر کرنا نہ صرف جائز بلکہ عین معرفت ہے۔

نتیجہ و حاصلِ کلام

اس تمام گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ اگرچہ لفظ ”عارف“ اپنی لغوی اصل کے اعتبار سے ایک محدود علم کی طرف اشارہ کرتا تھا، لیکن کثرتِ استعمال نے اسے وسعت بخشی اور اب یہ مطلق علم و آگاہی کے معنی میں بھی مستعمل ہے۔نیز اسمائے حسنیٰ کی 99 کی تعداد حتمی اور حصری نہیں ہے، بلکہ یہ نمایاں ترین صفات کا بیان ہے۔

پس اگرچہ انسانی سطح پر ”معرفت“ ایک محدود مفہوم رکھتی ہے، لیکن جب یہ لفظ اللہ کے لیے استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد مطلق اور غیر محدود علم و آگاہی ہے، جو نہ کسی فکر کا محتاج ہے نہ کسی محدودیت کا۔ امیرالمؤمنین حضرت امام علی علیہ السلام کا اللہ کے لیے ”عارف“ کا لفظ استعمال فرمانا اس حقیقت پر دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو صرف انسانی فہم کی تنگ دائرہ میں نہیں باندھنا چاہیے۔

اللہ تعالیٰ وہ ہے جس کا علم ہر چیز پر محیط ہے، وہ ہر چیز کے وجود سے پہلے بھی جاننے والا ہے اور اس کے انجام سے بھی آگاہ ہے۔ لہٰذا ”اللہ عارف ہے“ کہنا، در حقیقت اس کے کامل اور محیط علم کا اعتراف کرنا ہے، نہ کہ اسے انسانی "معرفت” کے محدود دائرے میں لانا۔

اس علمی نکتے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ دین کی گہرائیوں کو سمجھنے کے لیے صرف سطحی مطالعہ کافی نہیں، بلکہ زبان کے ارتقاء، احادیث کے سیاق و سباق، اور سب سے بڑھ کر، کلامِ اہل بیت علیہم السلام کی معرفت کی روشنی میں غور کرنا لازم ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں حقیقی علم اور پختہ ایمان کی منزل تک پہنچاتا ہے۔

مآخذ

  1. نہج البلاغہ، مرکز افکار اسلامی
  2. کلام امیر المومنین، شرح نہج البلاغہ
  3. مفردات القرآن، راغب اصفہانی
  4. الدر المنثور
  5. ابن میثم بحرانی، شرح نہج البلاغہ
  6. مفاتیح الجنان، دعائے جوشن کبیر

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button