مقالات

معرفتِ خدا اور علی مرتضیٰؑ {تیسرا حصہ}

خلقتِ الہی کے عجائبات

امیرالمؤمنینؑ نے اللہ سبحانہ کی معرفت کے لئے اُس کی مخلوقات کے عجائبات کو بڑی تفصیل سے چند خطبات میں بیان فرمایا اور بار بار اس کا بھی ذکر فرمایا کہ  اس نے مخلوق کو کسی ضرورت کے تحت پیدا نہیں کیا  اور نہ ہی انہیں  پیدا کرنے میں  کوئی اس کا مددگار یا شریک رہا۔

الَّذِي ابْتَدَعَ الْخَلْقَ عَلَى غَيْرِ مِثَالٍ امْتَثَلَهُ وَ لَا مِقْدَارٍ احْتَذَى عَلَيْهِ مِنْ خَالِقٍ مَعْبُودٍ كَانَ قَبْلَهُ وَ أَرَانَا مِنْ مَلَكُوتِ قُدْرَتِهِ وَ عَجَائِبِ مَا نَطَقَتْ بِهِ آثَارُ حِكْمَتِهِ وَ اعْتِرَافِ الْحَاجَةِ مِنَ الْخَلْقِ إِلَى أَنْ يُقِيمَهَا بِمِسَاكِ قُوَّتِهِ مَا دَلَّنَا بِاضْطِرَارِ قِيَامِ الْحُجَّةِ لَهُ عَلَى مَعْرِفَتِهِ فَظَهَرَتِ الْبَدَائِعُ الَّتِي أَحْدَثَتْهَا آثَارُ صَنْعَتِهِ وَ أَعْلَامُ حِكْمَتِهِ فَصَارَ كُلُّ مَا خَلَقَ حُجَّةً لَهُ وَ دَلِيلًا عَلَيْهِ وَ إِنْ كَانَ خَلْقاً صَامِتاً فَحُجَّتُهُ بِالتَّدْبِيرِ نَاطِقَةٌ وَ دَلَالَتُهُ عَلَى الْمُبْدِعِ قَائِمَةٌ۔

وہ وہی ہے کہ جس نے مخلوقات کو ایجاد کیا بغیر اس کے کہ کوئی مثال اپنے سامنے رکھتا اور بغیر اس کے کہ اپنے سے پہلے کسی اور خالق و معبود کی بنائی ہوئی چیزوں کا چربہ اتارتا ،اس نے اپنی قدرت کی بادشاہت اور ان عجیب چیزوں کے واسطہ سے کہ جن میں اس کی حکمت و دانائی کے آثار (منہ سے) بول رہے ہیں اور مخلوق کے اس  اعتراف سے کہ وہ اپنے رکنے تھمنے میں اس کے سہارے کی محتاج ہے  ہمیں وہ چیزیں دکھائی ہیں کہ جنہوں نے قہراً دلیل قائم ہو جانے کے دباؤ سے اس کی معرفت کی طرف ہماری راہنمائی کی ہے اور اس کی پیدا کر دہ عجیب و غریب چیزوں میں اس کی صنعت کے نقش و نگار اور حکمت کے آثار نمایاں اور واضح ہیں۔ چنانچہ ہر مخلوق اس کی ایک حجت اور ایک برہان بن گئی ہے ۔ چاہے وہ خاموش مخلوق ہو۔ مگر اللہ کی تدبیر و کار سازی کی ایک بولتی   ہوئی دلیل ہے اور ہستی صانع کی طرف اس کی راہنمائی ثابت و برقرا رہے ۔(خطبہ89)

ایک اور مقام پر فرمایا:  

اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الدَّالِّ عَلَى وُجُودِهِ بِخَلْقِهِ

تمام تعریف اس اللہ کے لئےہے کہ جو خلق (کائنات سے) اپنے وجود کا ۔۔۔پتہ دینے والاہے۔(خطبہ150)

امیر المؤمنینؑ نے  چیونٹی کے وجود کو سامنے رکھ کر توحید کی عظمتوں کو بیان فرمایا اور اسے بھی واضح کیا کہ اسے مخلوق کی خلقت میں کسی مدد گار کی ضرورت نہیں:

انْظُرُوا إِلَى النَّمْلَةِ فِي صِغَرِ جُثَّتِهَا وَ لَطَافَةِ هَيْئَتِهَا لَا تَكَادُ تُنَالُ بِلَحْظِ الْبَصَرِ وَ لَا بِمُسْتَدْرَكِ الْفِكَرِ كَيْفَ دَبَّتْ عَلَى أَرْضِهَا وَ صُبَّتْ عَلَى رِزْقِهَا تَنْقُلُ الْحَبَّةَ إِلَى جُحْرِهَا وَ تُعِدُّهَا فِي مُسْتَقَرِّهَا تَجْمَعُ فِي حَرِّهَا لِبَرْدِهَا وَ فِي وِرْدِهَا لِصَدَرِهَا مَكْفُولٌ بِرِزْقِهَا مَرْزُوقَةٌ بِوِفْقِهَا لَا يُغْفِلُهَا الْمَنَّانُ وَ لَا يَحْرِمُهَا الدَّيَّانُ وَ لَوْ فِي الصَّفَا الْيَابِسِ وَ الْحَجَرِ الْجَامِسِ وَ لَوْ فَكَّرْتَ فِي مَجَارِي أَكْلِهَا فِي عُلْوِهَا وَ سُفْلِهَا وَ مَا فِي الْجَوْفِ مِنْ شَرَاسِيفِ بَطْنِهَا وَ مَا فِي الرَّأْسِ مِنْ عَيْنِهَا وَ أُذُنِهَا لَقَضَيْتَ مِنْ خَلْقِهَا عَجَباً وَ لَقِيتَ مِنْ وَصْفِهَا تَعَباً فَتَعَالَى الَّذِي أَقَامَهَا عَلَى قَوَائِمِهَا وَ بَنَاهَا عَلَى دَعَائِمِهَا لَمْ يَشْرَكْهُ فِي فِطْرَتِهَا فَاطِرٌ وَ لَمْ يُعِنْهُ عَلَى خَلْقِهَا قَادِرٌ

ذرا اس چیونٹی کی طرف اس کی جسامت کے اختصا راورشکل و صورت کی باریکی کے عالم میں نظر کرو۔اتنی چھوٹی کہ گوشۂ چشم سے بمشکل دیکھی جاسکے اور نہ فکروں میں سماتی ہے ۔دیکھو تو کیو نکر زمین پر رینگتی پھرتی ہے اوراپنے رزق کی طرف لپکتی ہے اور دانے کو اپنے بِل کی طرف لئے جاتی ہے اور اسے اپنے قیام گاہ میں مہیا رکھتی ہے اور گرمیوں میں جاڑے کے موسم کےلئے اور قوت و توانائی کے زمانے میں عجز و درماندگی کے دنو ں کے لئے ذخیرہ اکٹھا کر لیتی ہے۔ اس کی روزی کا ذمہ لیا جاچکاہے اور اس کے مناسب حال رزق اسے پہنچتا رہتا ہے ۔خدائے کریم اس سے تغافل نہیں برتتا اور صاحب عطا وجزا اسے محروم نہیں رکھتا ۔اگر چہ وہ خشک پتھر اور جمے ہوئے سنگ خارا کے اندر کیوں نہ ہو۔

 اگر تم اس کی غذا کی نالیوں اور اس کے بلندو پست حصوں اور اس کے خول میں پیٹ کی طرف جھکے ہو ئے پسلیوں کے کناروں اور اس کے سر میں (چھوٹی چھوٹی) آنکھوں اور کانوں کی (ساخت میں)غورو فکر کرو گے تو اس کی آفرنیش پر تمہیں تعجب ہوگا اوراس کا وصف کرنے میں تمہیں تعب اٹھاناپڑے گا۔بلند وبرتر ہے وہ کہ جس نے اس کو اس کے پیروں پر کھڑا کیا ہے اور ستونوں (اعضاء) پر اس کی بنیا د رکھی ہے ۔اس کے بنانے میں کوئی بنانے والا اس کاشریک نہیں ہو ا ہے اور نہ اس کے پیدا کرنے میں کسی قادر و توانا نے اس کا ہاتھ بٹایا ہے ۔(خطبہ183)

اس  حصہ میں امامؑ نے توحید کی بہت سی باریک ابحاث کو بیان فرما یا ہے چیونٹی کو رزق دینے والا اللہ ہے اور اس کی حرکتوں کا علم رکھنے والا بھی اللہ ہی ہے۔اس کے فورا بعد ایک جملہ فصاحت کی معراج کا فرمایا:

وَ لَوْ ضَرَبْتَ فِي مَذَاهِبِ فِكْرِكَ لِتَبْلُغَ غَايَاتِهِ مَا دَلَّتْكَ الدَّلَالَةُ إِلَّا عَلَى أَنَّ فَاطِرَ النَّمْلَةِ هُوَ فَاطِرُ النَّخْلَةِ لِدَقِيقِ تَفْصِيلِ كُلِّ شَيْ‏ءٍ وَ غَامِضِ اخْتِلَافِ كُلِّ حَيٍّ وَ مَا الْجَلِيلُ وَ اللَّطِيفُ وَ الثَّقِيلُ وَ الْخَفِيفُ وَ الْقَوِيُّ وَ الضَّعِيفُ فِي خَلْقِهِ إِلَّا سَوَاءٌ۔

اگر تم سوچ بچار کی راہوں کو طے کرتے ہوئے اس کی آخری حد تک پہنچ جاؤ تو عقل کی رہنمائی تمہیں بس اس نتیجے پر پہنچائے گی کہ جو چیونٹی کا پید اکرنے والاہے ۔وہی کھجور کے درخت کا پیدا کرنے والاہے،کیونکہ ہر چیز کی تفصیل لطافت وباریکی لئے ہوئے ہے اورہر ذی حیات کے مختلف اعضاء میں باریک ہی سا فرق ہے۔ اس کی مخلوقات میں بڑی اور چھوٹی ،بھاری اورہلکی ،طاقتو راور کمزور چیزیں یکساں ہیں ۔(خطبہ183)

چمگادڑ  کو سامنے رکھ کر اللہ سبحانہ کی کارسازیوں کو یوں بیان فرمایا:

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي انْحَسَرَتِ الْأَوْصَافُ عَنْ كُنْهِ مَعْرِفَتِهِ وَ رَدَعَتْ عَظَمَتُهُ الْعُقُولَ فَلَمْ تَجِدْ مَسَاغاً إِلَى بُلُوغِ غَايَةِ مَلَكُوتِهِ هُوَ اللَّهُ الْحَقُّ الْمُبِينُ أَحَقُّ وَ أَبْيَنُ مِمَّا تَرَى الْعُيُونُ لَمْ تَبْلُغْهُ الْعُقُولُ بِتَحْدِيدٍ فَيَكُونَ مُشَبَّهاً وَ لَمْ تَقَعْ عَلَيْهِ الْأَوْهَامُ بِتَقْدِيرٍ فَيَكُونَ مُمَثَّلًا خَلَقَ الْخَلْقَ عَلَى غَيْرِ تَمْثِيلٍ وَ لَا مَشُورَةِ مُشِيرٍ وَ لَا مَعُونَةِ مُعِينٍ فَتَمَّ خَلْقُهُ بِأَمْرِهِ وَ أَذْعَنَ لِطَاعَتِهِ فَأَجَابَ وَ لَمْ يُدَافِعْ وَ انْقَادَ وَ لَمْ يُنَازِعْ  وَ مِنْ لَطَائِفِ صَنْعَتِهِ وَ عَجَائِبِ خِلْقَتِهِ مَا أَرَانَا مِنْ غَوَامِضِ الْحِكْمَةِ فِي هَذِهِ الْخَفَافِيشِ۔۔۔

تمام حمد اس اللہ کےلئےہے جس کی معرفت کی حقیقت ظاہر کرنے سے اوصاف عاجز ہیں اور اس کی عظمت و بلندی نے عقلوں کو روک دیا ہے جس سے وہ اس کی سرحد فرمانروائی تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں پاتیں۔ وہ اللہ اقتدار کا مالک ہے اور (سراپا) حق اور (حق کا) ظاہر کرنے والاہے ۔وہ ان چیزوں سے بھی زیادہ (اپنے مقام پر) ثابت و آشکارا ہے کہ جنہیں آنکھیں دیکھتی ہیں۔ عقلیں اس کی حد بندی کرکے اس تک نہیں پہنچ سکتیں کہ وہ دوسروں سے مشابہہ ہو جائے اور نہ ہم اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کسی چیز کے مانند ہو جائے۔ اس نے بغیر کسی نمونہ و مثال کے اور بغیر کسی مشیرِکار کے مشورہ کے اور بغیر کسی معاون کی امداد کے مخلوقات کو پیدا کیا۔ اُس کے حکم سے مخلوق اپنے کمال کو پہنچ گئی اور اس کی اطاعت کے لئے جھک گئی اور بلاتوقف لبیک کہی اور بغیر کسی نزاع و مزاحمت کے اس کی مطیع ہوگئی۔ اس کی صنعت کی لطافتوں اور خلقت کی عجیب و غریب کارفرمائیوں میں کیا کیا گہری حکمتیں ہیں کہ جو اس نے ہمیں چمگادڑوں کے اندر دکھائی ہیں (خطبہ153)

پرندوں کے رنگوں اور خاص کر مور کی آفرینش کا تذکرہ  یوں فرماتے ہیں:

ابْتَدَعَهُمْ خَلْقاً عَجِيباً مِنْ حَيَوَانٍ وَ مَوَاتٍ وَ سَاكِنٍ وَ ذِي حَرَكَاتٍ وَ أَقَامَ مِنْ شَوَاهِدِ الْبَيِّنَاتِ عَلَى لَطِيفِ صَنْعَتِهِ وَ عَظِيمِ قُدْرَتِهِ مَا انْقَادَتْ لَهُ الْعُقُولُ مُعْتَرِفَةً بِهِ وَ مَسَلِّمَةً لَهُ وَ نَعَقَتْ فِي أَسْمَاعِنَا دَلَائِلُهُ عَلَى وَحْدَانِيَّتِهِ وَ مَا ذَرَأَ مِنْ مُخْتَلِفِ صُوَرِ الْأَطْيَارِ الَّتِي أَسْكَنَهَا أَخَادِيدَ الْأَرْضِ وَ خُرُوقَ فِجَاجِهَا وَ رَوَاسِيَ أَعْلَامِهَا مِنْ ذَاتِ أَجْنِحَةٍ مُخْتَلِفَةٍ وَ هَيْئَاتٍ مُتَبَايِنَةٍ مُصَرَّفَةٍ فِي زِمَامِ التَّسْخِيرِ وَ مُرَفْرِفَةٍ بِأَجْنِحَتِهَا فِي مَخَارِقِ الْجَوِّ الْمُنْفَسِحِ وَ الْفَضَاءِ الْمُنْفَرِجِ كَوَّنَهَا بَعْدَ إِذْ لَمْ تَكُنْ فِي عَجَائِبِ صُوَرٍ ظَاهِرَةٍ وَ رَكَّبَهَا فِي حِقَاقِ مَفَاصِلَ مُحْتَجِبَةٍ وَ مَنَعَ بَعْضَهَا بِعَبَالَةِ خَلْقِهِ أَنْ يَسْمُوَ فِي الْهَوَاءِ خُفُوفاً وَ جَعَلَهُ يَدِفُّ دَفِيفاً وَ نَسَقَهَا عَلَى اخْتِلَافِهَا فِي الْأَصَابِيغِ بِلَطِيفِ قُدْرَتِهِ وَ دَقِيقِ صَنْعَتِهِ فَمِنْهَا مَغْمُوسٌ فِي قَالَبِ لَوْنٍ لَا يَشُوبُهُ غَيْرُ لَوْنِ مَا غُمِسَ فِيهِ وَ مِنْهَا مَغْمُوسٌ فِي لَوْنِ صِبْغٍ قَدْ طُوِّقَ بِخِلَافِ مَا صُبِغَ بِهِ وَ مِنْ أَعْجَبِهَا خَلْقاً الطَّاوُسُ ۔ ۔

قدرت نے ہر قسم کی مخلوق کو ، وہ جاندار ہو یا بے جان، ساکن ہو یا متحرک ،عجیب و غریب آفرینش کا جامہ پہنا کر ایجاد کیا ہے اور اپنی لطیف صنعت اور عظیم قدرت پر ایسی واضح نشانیاں شاہد بنا کر قائم کی ہیں کہ جن کے سامنے عقلیں اُس کی ہستی کا اعتراف اور اُس کی (فرمانبرداری) کا اقرار کرتے ہوئے سرِاطاعت خم کرچکی ہیں اور اس کی یکتائی پر یہی عقل کی تسلیم کی ہوئی اور (اُس کے خالق بے مثال ہونے پر) مختلف شکل و صورت کے پرندوں کی آفرینش سے ابھری ہوئی دلیلیں ہمارے کانوں میں گونج رہی ہیں۔

وہ پرندے جن کو اس نے زمین کے گڑھوں، دروں کے شگافوں اور مضبوط پہاڑوں کی چوٹیوں پر بسایا ہے ،جو مختلف طرح کے پروبال اور جداگانہ شکل و صورت والے ہیں۔ جنہیں تسلط (الہٰی) کی باگ ڈور میں گھمایا پھرایا جاتا ہے اور جو کشادہ ہوا کی وسعتوں اور کھلی فضاؤں میں پروں کو پھڑپھڑاتے ہیں۔ انہیں جبکہ یہ موجود نہ تھے عجیب و غریب ظاہری صورتوں سے (آراستہ کرکے) پیدا کیا اور (گوشت و پوست میں) ڈھکے ہوئے جوڑوں کے سروں سے ان کے (جسموں کی) ساخت قائم کی۔

ان میں سے بعض وہ ہیں جنہیں ان کے جسموں کے بوجھل ہونے کی وجہ سے فضا میں بلند ہو کر تیز پروازی سے روک دیا ہے اور انہیں ایسا بنایا ہے کہ وہ زمین سے کچھ تھوڑے ہی اونچے ہوکر پرواز کرسکیں۔ اُس نے اپنی لطیف قدرت اور باریک صنعت سے ان قسم قسم کے پرندوں کو (مختلف) رنگوں سے ترتیب دیا ہے۔ چنانچہ ان میں سے بعض ایسے ہیں جو ایک ہی رنگ کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں۔ یوں کہ جس رنگ میں انہیں ڈبو دیا گیا ہے اس کے علاوہ کسی اور رنگ کی ان میں آمیزش نہیں کی گئی اور بعض اس طرح رنگ میں ڈبوئے گئے ہیں کہ جس رنگ کا طوق انہیں پہنا دیا گیا ہے وہ اس رنگ سے نہیں ملتا جس سے خود رنگین ہیں۔ ان سب پرندوں سے زائد عجیب الخلقت مور ہے۔(خطبہ 163)

ان خطبات میں حیوانوں اور پرندوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے  امام فرماتے ہیں کہ اللہ کی جس مخلوق کو آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ان کے اوصاف بیان کرنے سے آپ کی عقلیں مغلوب ہیں تو ان کے خالق کے اوصاف کی حقیقت کو کب درک کر سکتے ہیں۔ایک مقام پر ارشاد فرمایا:

فَلَسْنَا نَعْلَمُ كُنْهَ عَظَمَتِكَ إِلَّا أَنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ حَيٌّ قَيُّومُ لَا تَأْخُذُكَ سِنَةٌ وَ لَا نَوْمٌ لَمْ يَنْتَهِ إِلَيْكَ نَظَرٌ وَ لَمْ يُدْرِكْكَ بَصَرٌ أَدْرَكْتَ الْأَبْصَارَ وَ أَحْصَيْتَ الْأَعْمَالَ وَ أَخَذْتَ بِالنَّوَاصِي وَ الْأَقْدَامِ۔۔

 ہم تیری عظمت و بزرگی کی حقیقت کو نہیں جانتے مگر اتنا کہ تو زندہ و کار ساز (عالم) ہے، نہ تجھے غنودگی ہوتی ہے اور نہ نیند آتی ہے ،نہ تار نظر تجھ تک پہنچ سکتا ہے اور نہ نگاہیں تجھے دیکھ سکتی ہیں۔ تو نے نظروں کو پالیاہے اور عمروں کا احاطہ کرلیاہے اور پیشانی کے بالوں کو پیروں (سے ملاکر) گرفت میں لے لیا ہے ۔ (خطبہ158)

علمِ الہی

امیر المؤمنینؑ نے عقیدۂ توحید کی مضبوطی اورمعرفت کے لئے اللہ سبحانہ کے علم  کا مختلف طریقوں سے ذکر کیا ہے۔ اپنے علم کے بارے فرمایا:

فَهَذَا عِلْمُ الْغَيْبِ الَّذِي لَا يَعْلَمُهُ أَحَدٌ إِلَّا اللَّهُ وَ مَا سِوَى ذَلِكَ فَعِلْمٌ عَلَّمَهُ اللَّهُ نَبِيَّهُ (صلى الله عليه وآله) فَعَلَّمَنِيهِ وَ دَعَا لِي بِأَنْ يَعِيَهُ صَدْرِي وَ تَضْطَمَّ عَلَيْهِ جَوَانِحِي۔

یہ وہ علم غیب ہے جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ رہا دوسری چیزوں کا علم تو وہ اللہ نے اپنے نبیؐ کو دیا اور نبیؐ نے مجھے بتایا اور میرے لیے دعا فرمائی کہ میرا سینہ انہیں محفوظ رکھےّ اور میری پسلیاں انہیں سمیٹے رہیں ۔(خطبہ 126)

ایک مقام پر علم الہی کے بارے میں فرمایا:

لَا يَشْغَلُهُ شَأْنٌ وَ لَا يُغَيِّرُهُ زَمَانٌ وَ لَا يَحْوِيهِ مَكَانٌ وَ لَا يَصِفُهُ لِسَانٌ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ عَدَدُ قَطْرِ الْمَاءِ وَ لَا نُجُومِ السَّمَاءِ وَ لَا سَوَافِي الرِّيحِ فِي الْهَوَاءِ وَ لَا دَبِيبُ النَّمْلِ عَلَى الصَّفَا وَ لَا مَقِيلُ الذَّرِّ فِي اللَّيْلَةِ الظَّلْمَاءِ يَعْلَمُ مَسَاقِطَ الْأَوْرَاقِ وَ خَفِيَّ طَرْفِ الْأَحْدَاقِ۔۔

 خدا وند عالم کو ایک حالت دوسری حالت سے سدّراہ نہیں ہوتی نہ زمانہ اس میں تبدیلی پید اکر تا ہے ،نہ کوئی جگہ اسے گھیرتی ہے اور نہ زبان اس کا وصف کر سکتی ہے۔ اس سے پانی کے قطروں اور آسمان کے ستا روں اور ہوا کے جھکڑوں کا شمار ،چکنے پتھر پر چیونٹی کے چلنے کی آواز اور اندھیری رات میں چھو ٹی چیونٹیوں کے قیام کرنے کی جگہ کوئی چیز پو شیدہ نہیں ہے۔و ہ پتوں کے گرنے کی جگہوں اور آنکھ کے چوری چھپے اشاروں کو جانتا ہے ۔(خطبہ 176)

ایک مقام پر امامؑ فرماتے ہیں:

يَعْلَمُ عَجِيجَ الْوُحُوشِ فِي الْفَلَوَاتِ وَ مَعَاصِيَ الْعِبَادِ فِي الْخَلَوَاتِ وَ اخْتِلَافَ النِّينَانِ فِي الْبِحَارِ الْغَامِرَاتِ وَ تَلَاطُمَ الْمَاءِ بِالرِّيَاحِ الْعَاصِفَاتِ وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً نَجِيبُ اللَّهِ وَ سَفِيرُ وَحْيِهِ وَ رَسُولُ رَحْمَتِهِ

وہ (خدا وندِعالم )بیابانوں میں چوپاؤ ں کے نالے (سنتا ہے )،تنہائیوں میں بندوں کے گنا ہو ں سے آگاہ ہے اور انتھاہ دریاؤں میں مچھلیوں کی آمد و شد اور تند ہواؤں کے ٹکراؤ سے پانی کے تپھیڑوں کو جانتا ہے۔(خطبہ:196)

بے مثل ہے

امیر المؤمنینؑ نے بارہا   اللہ سبحانہ کےشریک اور شبیہ  کی نفی کی ہے ۔فرمایا:

وَ أَشْهَدُ أَنَّ مَنْ سَاوَاكَ بِشَيْ‏ءٍ مِنْ خَلْقِكَ فَقَدْ عَدَلَ بِكَ وَ الْعَادِلُ بِكَ كَافِرٌ بِمَا تَنَزَّلَتْ بِهِ مُحْكَمَاتُ آيَاتِكَ وَ نَطَقَتْ عَنْهُ شَوَاهِدُ حُجَجِ بَيِّنَاتِكَ۔۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ جس نے تجھے تیری مخلوق میں سے کسی کے برابر جانا اس نے تیرا ہمسر بنا ڈالا اور تیرا ہمسر بنانے والاتیری کتاب کی محکم آیتوں کے مضامین اور ان حقائق کا جنہیں تیری طرف کے روشن دلائل واضح کررہے ہیں ،منکر ہے (خطبہ 89)

امیر المؤمنینؑ اپنی زندگی کے آخری خطبہ جس کے راوی نوف بکالی ہیں ،میں  فرماتے ہیں:

وَ لَا يُدْرَكُ بِالْحَوَاسِّ وَ لَا يُقَاسُ بِالنَّاسِ۔۔

نہ حواس سے وہ جانا پہچاناجاسکتا ہے ۔اور نہ انسانوں پر اس کا قیاس ہوسکتاہے(خطبہ 180)

ایک مقام پر امامؑ فرماتے ہیں:

الْحَمْدُ لِلَّهِ الْعَلِيِّ عَنْ شَبَهِ الْمَخْلُوقِينَ الْغَالِبِ لِمَقَالِ الْوَاصِفِينَ الظَّاهِرِ بِعَجَائِبِ تَدْبِيرِهِ لِلنَّاظِرِينَ وَ الْبَاطِنِ بِجَلَالِ عِزَّتِهِ عَنْ فِكْرِ الْمُتَوَهِّمِينَ

تما م حمد ا س اللہ کے لئے ہے جو مخلوقات کی مشابہت سے بلند تر ،توصیف کرنے والوں کے تعریفی کلمات سے بالاتر ،اپنے عجیب وغریب نظم و نسق کی بدولت دیکھنے والوں کے سامنے آشکارا  اوراپنے جلال ِعظمت کی وجہ سے وہم و گمان دوڑانے والوں کے فکر و اوہام سے پوشیدہ ہے۔(خطبہ211)

رازق

اوصافِ الہیہ میں سے   رازق کی صفت کو امامؑ نے متعدد بار بیان فرمایا ہے۔

ذَلِكَ مُبْتَدِعُ الْخَلْقِ وَ وَارِثُهُ وَ إِلَهُ الْخَلْقِ وَ رَازِقُهُ۔۔۔َسَمَ أَرْزَاقَهُمْ وَ أَحْصَى آثَارَهُمْ وَ أَعْمَالَهُمْ۔۔

وہی مخلوقات کو پیدا کرنے والا، اور اس کا وارث ہے اور کائنات کا معبود اور ان کا رازق ہے۔ ۔  ۔ اس نے سب کو روزی بانٹ رکھی ہے ۔ وہ سب کے عمل و کردار اور سانسوں کے شمار تک کو جانتا ہے(خطبہ88)

خطبۃ الاشباح جس میں امام نے بڑی وضاحت سے اوصافِ الہی کو بیان کیا وہاں رزق کے موضوع سے متعلق فرماتے ہیں:

 وَ هُوَ الْمَنَّانُ بِفَوَائِدِ النِّعَمِ وَ عَوَائِدِ الْمَزِيدِ وَ الْقِسَمِ عِيَالُهُ الْخَلَائِقُ ضَمِنَ أَرْزَاقَهُمْ وَ قَدَّرَ أَقْوَاتَهُمْ وَ نَهَجَ سَبِيلَ الرَّاغِبِينَ إِلَيْهِ وَ الطَّالِبِينَ مَا لَدَيْهِ وَ لَيْسَ بِمَا سُئِلَ بِأَجْوَدَ مِنْهُ بِمَا لَمْ يُسْأَلْ

وہ فائدہ بخش نعمتوں اور عطیوں کی فراوانیوں اور روزیوں (کی تقسیم) سے ممنون احسان بنانے والا ہے  ساری مخلوق اس کا کنبہ ہے ۔ اس نے سب کی روزیاں مقرر کر رکھی ہیں۔ اس نے اپنے خواہش مندوں اور اپنی نعمت کے طلب گاروں کے لیے راہ کھول دی ہے ۔ وہ دستِ طلب کے نہ بڑھنے پر بھی اتنا ہی کریم ہے جتنا طلب و سوال کا ہاتھ بڑھنے پر۔(خطبہ89)

ایک مقام پر امامؑ فرماتے ہیں:

كُلُّ شَيْ‏ءٍ خَاشِعٌ لَهُ وَ كُلُّ شَيْ‏ءٍ قَائِمٌ بِهِ غِنَى كُلِّ فَقِيرٍ وَ عِزُّ كُلِّ ذَلِيلٍ وَ قُوَّةُ كُلِّ ضَعِيفٍ وَ مَفْزَعُ كُلِّ مَلْهُوفٍ مَنْ تَكَلَّمَ سَمِعَ نُطْقَهُ وَ مَنْ سَكَتَ عَلِمَ سِرَّهُ وَ مَنْ عَاشَ فَعَلَيْهِ رِزْقُهُ 

ہر چیز اس کے سامنے عاجز و سرنگوں اور ہر شے اس کے سہارے وابستہ ہے ۔وہ ہر فقیر کا سرمایہ ہر ذلیل کی آبرو ، ہر کمزور کی توانائی اور ہر مظلوم کی پناہ گا ہے ۔ جو کہے، اس کی بات بھی وہ سنتا ہے اور جو چپ رہے اس کے بھید سے بھی وہ آگاہ ہے۔ جو زندہ ہے اس کے رزق کا ذمہ اس پر ہے ۔(خطبہ107)

امیر المؤمنینؑ  رزق کے لئے اللہ سے سوال کرتے نظر آتے ہیں۔

اللَّهُمَّ انْشُرْ عَلَيْنَا غَيْثَكَ وَ بَرَكَتَكَ وَ رِزْقَكَ وَ رَحْمَتَكَ

خدا وند ا! تو ہم پر باران و برکت اور رزق و رحمت کا دامن پھیلادے (خطبہ:141)

ربوبیت

اللہ سبحانہ کو اپنی جو صفت سب سے زیادہ پسند ہے اور جسے قرآن مجید میں الحمد کے بعد بیان فرمایا وہ اس کی ربوبیت ہے۔امیر المؤمنینؑ بھی اس وصف کو  بار بار استعمال کرتے ہیں  اور اکثر راز و نیاز کے لئے اسی صفت کو ذکر کیا۔ جنگِ صفین کی طرف جاتے ہوئے دعا میں ارشاد فرماتے ہیں:

اَللَّهُمَّ رَبَّ السَّقْفِ الْمَرْفُوعِ وَ الْجَوِّ الْمَكْفُوفِ الَّذِي جَعَلْتَهُ مَغِيضاً لِلَّيْلِ وَ النَّهَارِ وَ مَجْرًى لِلشَّمْسِ وَ الْقَمَرِ وَ مُخْتَلَفاً لِلنُّجُومِ السَّيَّارَةِ وَ جَعَلْتَ سُكَّانَهُ سِبْطاً مِنْ مَلَائِكَتِكَ لَا يَسْأَمُونَ مِنْ عِبَادَتِكَ وَ رَبَّ هَذِهِ الْأَرْضِ الَّتِي جَعَلْتَهَا قَرَاراً لِلْأَنَامِ وَ مَدْرَجاً لِلْهَوَامِّ وَ الْأَنْعَامِ وَ مَا لَا يُحْصَى مِمَّا يُرَى وَ مَا لَا يُرَى وَ رَبَّ الْجِبَالِ الرَّوَاسِي الَّتِي جَعَلْتَهَا لِلْأَرْضِ أَوْتَاداً وَ لِلْخَلْقِ اعْتِمَاداً إِنْ أَظْهَرْتَنَا عَلَى عَدُوِّنَا فَجَنِّبْنَا الْبَغْيَ وَ سَدِّدْنَا لِلْحَقِّ وَ إِنْ أَظْهَرْتَهُمْ عَلَيْنَا فَارْزُقْنَا الشَّهَادَةَ وَ اعْصِمْنَا مِنَ الْفِتْنَةِ۔ .

اے اللہ!اے اُس بلند آسمان اور تھمی ہوئی فضا کے پروردگار جسے تو نے شب و روز کے سر چھپانے ،چاند اور سورج کے گردش کرنے اور چلنے پھرنے والے ستاروں کی آمدورفت کی جگہ بنایا ہے اور جس میں بسنے والافرشتوں کا وہ گروہ بنایا ہے جو تیری عبادت سے اکتاتا نہیں ۔ اے اس زمین کے پروردگار جسے تو نے انسانوں کی قیام گاہ اور حشرات الارض اور چوپاؤں اور لاتعداد دیکھی اور اَن دیکھی مخلوق کے چلنے پھرنے کا مقام قرار دیا ہے۔ اے مضبوط پہاڑوں کے پروردگار جنہیں تو نے زمین کے لیے میخ اور مخلوقات کے لیے (زندگی کا) سہارا بنایا ہے ۔ 

دعا

ہم اس تحریر کو امیر المؤمنینؑ کی نہج البلاغہ میں موجود دعاؤں میں سے ایک پر  ختم کرتے ہیں ۔اس دعا سے کو اکثر آپ پڑھتے تھے اس دعا سے  یہ واضح ہوتا ہے کہ علی علیہ السلام اپنے رب سے کیسے باتیں کرتے ہیں اور ہمیں بھی اسی طرح  کا درس دیتے ہیں۔

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يُصْبِحْ بِي مَيِّتاً وَ لَا سَقِيماً وَ لَا مَضْرُوباً عَلَى عُرُوقِي بِسُوءٍ وَ لَا مَأْخُوذاً بِأَسْوَإِ عَمَلِي وَ لَا مَقْطُوعاً دَابِرِي وَ لَا مُرْتَدّاً عَنْ دِينِي وَ لَا مُنْكِراً لِرَبِّي وَ لَا مُسْتَوْحِشاً مِنْ إِيمَانِي وَ لَا مُلْتَبِساً عَقْلِي وَ لَا مُعَذَّباً بِعَذَابِ الْأُمَمِ مِنْ قَبْلِي أَصْبَحْتُ عَبْداً مَمْلُوكاً ظَالِماً لِنَفْسِي لَكَ الْحُجَّةُ عَلَيَّ وَ لَا حُجَّةَ لِي وَ لَا أَسْتَطِيعُ أَنْ آخُذَ إِلَّا مَا أَعْطَيْتَنِي وَ لَا أَتَّقِيَ إِلَّا مَا وَقَيْتَنِي اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَفْتَقِرَ فِي غِنَاكَ أَوْ أَضِلَّ فِي هُدَاكَ أَوْ أُضَامَ فِي سُلْطَانِكَ أَوْ أُضْطَهَدَ وَ الْأَمْرُ لَكَ اللَّهُمَّ اجْعَلْ نَفْسِي أَوَّلَ كَرِيمَةٍ تَنْتَزِعُهَا مِنْ كَرَائِمِي وَ أَوَّلَ وَدِيعَةٍ تَرْتَجِعُهَا مِنْ وَدَائِعِ نِعَمِكَ عِنْدِي اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ أَنْ نَذْهَبَ عَنْ قَوْلِكَ أَوْ أَنْ نُفْتَتَنَ عَنْ دِينِكَ أَوْ تَتَابَعَ بِنَا أَهْوَاؤُنَا دُونَ الْهُدَى الَّذِي جَاءَ مِنْ عِنْدِكَ۔

تمام حمد اس اللہ کے لئے ہے جس نے مجھے اس حالت میں رکھا کہ نہ مردہ ہو ں ،نہ بیمار ،نہ میری رگوں پر برص کے جراثیم کا حملہ ہوا ،نہ برے اعمال میں گرفتار ہو ں ،نہ بے اولاد ہوں ،نہ دین سے برگشتہ، نہ اپنے پروردگار کا منکر ہوں اور نہ ایمان سے متوحش، نہ میری عقل میں فتو ر آیا ہے اورنہ پہلی امتوں کے سے عذاب میں مبتلاہوں ۔میں اس کا بے اختیار بند ہ اور اپنے نفس پر ستم ران ہوں ۔

(اے اللہ تیری حجّت مجھ پر تمام ہو چکی ہے ،اور میرے لئے اب عذرکی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔خدایا !مجھ میں کسی چیز کے حاصل کرنے کی قوت نہیں سوا اس کے کہ جوتو مجھے عطا کردے اور کسی چیز سے بچنے کی سکت نہیں سوائے اس کےکہ جس سے تو مجھے بچائے رکھے ۔اے اللہ میں تجھ سے پناہ کا خواستگا ر ہو ں کہ تیری ثروت کے باوجود فقیرو تہی دست رہوں یاتیری رہنمائی کے ہوتے ہوئے بھٹک جاؤں یا تیری سلطنت میں رہتے ہوئے ستایا جاؤں یا ذلیل کیا جاؤںجبکہ تمام اختیارات تجھے حاصل ہیں ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button