مقالات

حضرت علی علیہ السلام کا یوم شہادت

شیر خدا، صدیق اکبر، فاروق اعظم، اول مظلوم کائنات، مولود کعبہ، شہید محراب، مجسمہ عدل و عدالت  حضرت مولانا امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب ,عالم اسلام بلکہ عالم بشریت کی مفتخر ترین ہستیوں میں مرسل اعظم ، نبی رحمت حضرت محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد سب سے پہلا نام امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب کا آتا ہے، لیکن آپ سے متعلق محبت و معرفت کی تاریخ میں بہت سے لوگ عمدا یا سہوا افراط و تفریط کا بھی شکار ہوئے ہیں اور شاید اسی لیے ایک دنیا دوستی اور دشمنیوں کی بنیاد پر مختلف گروہوں اور جماعتوں میں تقسیم ہو گئی ہے، خود امیر المومنین علی (ع) نے نہج البلاغہ کے خطبہ 127 میں ایک جگہ خبردار کیا ہے کہ :

جلد ہی میرے سلسلے میں دو گروہ ہلاک ہوں گے، ایک وہ دوست جو افراط سے کام لیں گے اور ناحق باتیں میری طرف منسوب کریں گے اور دوسرے وہ دشمن جو تفریط سے کام لے کر کینہ و دشمنی میں آگے بڑھ جائیں گے اور باطل کی راہ اپنا لیں گے۔ میرے سلسلے میں بہترین افراد وہ ہیں جو میانہ رو ہیں اور راہ حق و اعتدال سے تجاوز نہیں کرتے۔

19 ماہ رمضان المبارک کو وقت سحر سجدۂ معبود میں جس وقت امیر المومنین کی پیشانی خون میں غلطاں ہوئی خدا کے معتمد اور رسول اسلام (ص) کے امین ، فرشتوں کے امیر ، جنگ احد میں لافتی الّا علی لاسیف الّا ذوالفقار کا نعرہ بلند کرنے والے جبرئیل نے تڑپ کر آواز بلند کی تھی :

ان تَہَدّمَت و اَللہ اَرکان الہُدیٰ،

خدا کی قسم ارکان ہدایت منہدم ہو گئے،

اور مسجد کوفہ میں جب سارے مسلمان اپنے امام و پیشوا کے غم میں نوحہ و ماتم کرنے میں مصروف تھے، خداوند کا مخلص بندہ اپنے معبود سے ملاقات کا اشتیاق دل میں لیے آواز دے رہا تھا:

فُزتُ وَ رَبّ الکَعبہ،

رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا،

اور علی (ع) آج بھی کامیاب ہیں کیونکہ ان کی سیرت ، ان کا کردار ، ان کے اقوال و ارشادات ان کی حیات اور شہادت کا ایک ایک پہلو نہ صرف عالم اسلام بلکہ عالم بشریت کی کامیابی و کامرانی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے، اسی لیے علی ابن ابی طالب (ع) سے محبت اور معرفت رکھنے والے کل بھی اور آج بھی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ علی (ع) کی شہادت تاریخ بشریت کے لیے ایک عظیم خسارہ اور ایسی مصیبت ہے کہ اس پر جتنا ماتم کیا جائے کم ہے۔

نبی اکرم (ص) کی رحلت کے بعد ملت اسلامیہ کا وہ کارواں جو 25 سال پیچھے دھکیل دیا گيا تھا، جب حضرت علی (ع) کی ولایت و امامت پر متفق ہوا اور حکومت و اقتدار امیر المومنین کے حوالے کر دیا گیا تو 18 ذی الحجّہ سن 35 ہجری سے 21 ماہ رمضان المبارک سن 40 ہجری تک چار سال دس مہینہ کی مختصر مدت میں علی ابن ابی طالب نے وہ عظیم کارنامے قلب تاریخ پر ثبت کر دئیے کہ اگر ظلم و خیانت کی شمشیر نہ چلتی اور جرم و سازش کا وہ گھنونا کھیل نہ کھیلا جاتا جو عبد الرحمن ابن ملجم اور اموی خاندان کے جاہ طلبوں نے مل کر کھیلا تھا، تو شاید دنیائے اسلام کی تقدیر ہی بدل جاتی پھر بھی علی ابن ابی طالب (ع) نبی اکرم (ص) کی 23 سالہ زندگی کے ساتھ اپنی پانچ سالہ حکومت کے وہ زریں نقوش تفسیر و تشریح کی صورت میں چھوڑ گئے ہیں کہ رہتی دنیا تک کے لیے اسلام کی حیات کا بیمہ ہو چکا ہے اور قیامت تک روئے زمین پر قائم ہونے والی ہر حکومت اس کی روشنی میں عالم بشریت کی ہر ضرورت کی تکمیل کر سکتی ہے۔

چونکہ 21 رمضان المبارک کو علوی زندگی کا وہ صاف و شفاف چشمہ جو دنیائے اسلام کو ہمیشہ سیر و سیراب کر سکتا تھا، ہم سے چھین لیا گيا لہذا یہ مصیبت ایک دائمی مصیبت ہے اور آج بھی ایک دنیا علی (ع) کے غم میں سوگوار اور ماتم کناں ہے۔

19 رمضان المبارک:

سن 40 ہجری قمری حضرت علی علیہ السلام مسجد کوفہ میں قاتلانہ حملہ سے شدید زخمی ہوئے۔

عبد الرحمن ابن ملجم مرادی ملعون خوارج میں سے تھا اور ان تین آدمیوں میں سے تھا کہ جنہوں نے مکہ معظمہ میں قسم کھا کر عہد کیا تھا کہ تین افراد یعنی امام علی بن ابیطالب (ع) معاویہ ابن ابی سفیان اور عمرو عاص کو قتل کر ڈالیں گے۔

ہر کوئی اپنے منصوبے کے مطابق اپنی جگہ کی طرف روانہ ہوا اور اس طرح عبد الرحمن ابن ملجم مرادی 20 شعبان سن 40 ہجری کو شہر کوفہ میں داخل ہوا۔

19 رمضان سن 40 ہجری کی سحر کو کوفہ کی جامعہ مسجد میں  امیر المومنین علی (ع) کے آنے کا انتظار کر رہا تھا۔

دوسری طرف قطامہ نے وردان ابن مجالد نامی شخص کے ساتھ اپنے قبیلے کے دو آدمی اسکی مدد کے لیے روانہ کیے تھے۔

اشعث ابن قیس کندی جو کہ امام علی (ع) کے ناراض سپاہیوں اور اپنے زمانے کا زبردست چاپلوس اور منافق آدمی تھا، حضرت امام علی (ع) کو قتل کرنے کی سازش میں ان کی رہنمائی کی اور انکا حوصلہ بڑھایا۔

حضرت علی علیہ السلام 19 رمضان کی شب اپنی بیٹی ام کلثوم کے ہاں مہمان تھے۔

روایت میں آیا ہے کہ آپ اس رات بیدار تھے اور کئی بار کمرے سے باہر آ کر آسمان کی طرف دیکھ  کر فرماتے تھے: خدا کی قسم میں جھوٹ نہیں کہتا اور نہ ہی مجھے جھوٹ کہا گيا ہے۔ یہی وہ رات ہے جس میں مجھے شہادت کا وعدہ دیا گيا ہے۔

مولا علی (ع) بہر حال نماز صبح کے لیے کوفہ کی جامعہ مسجد میں داخل ہوئے اور سوئے ہوئے افراد کو نماز کے لیے بیدار کیا، من جملہ خود عبد الرحمن ابن ملجم مرادی کو جو کہ پیٹ کے بل سویا ہوا تھا کو بیدار کیا اور اسے نماز پڑھنے کو کہا۔

جب آپ محراب میں داخل ہوئے اور نماز شروع کی تو پہلے سجدے سے ابھی سر اٹھا ہی رہے تھے کہ شبث ابن بجرہ نے شمشیر سے حملہ کیا مگر وہ محراب کے طاق کو جا لگی اور اسکے بعد عبد الرحمن ابن ملجم مرادی نے نعرہ لگایا :

للہ الحکم یا علی ، لا لک و لا لاصحابک !

اور اپنی شمشیر سے حضرت علی علیہ السلام کے سر مبارک  پر حملہ کیا اور آنحضرت کا سر سجدے کی جگہ ( ماتھے ) تک زخمی ہو گیا۔

حضرت علی علیہ السلام نے محراب میں گر کر اسی حالت میں فرمایا:

بسم اللہ و بااللہ و علی ملّۃ رسول اللہ ، فزت و ربّ الکعبہ،

خدائے کعبہ کی قسم ، میں کامیاب ہو گيا۔

پھر سوره طہ کی اس آیت کی تلاوت فرمائی: ہم نے تم کو خاک سے پیدا کیا ہے اور اسی خاک میں واپس پلٹا دیں گے اور پھر اسی خاک سے تمہیں دوباره اٹھائیں گے۔

کچھ نماز گذار شبث اور ابن ملجم کو پکڑنے کے لیے باہر کی طرف دوڑ پڑے اور کچھ حضرت علی (ع) کی طرف بڑے اور کچھ سر و صورت پیٹتے ماتم کرنے لگے۔

حضرت علی (ع) کہ جن کے سر مبارک سے خون جاری تھا فرمایا:

ھذا وعدنا اللہ و رسولہ،

یہ وہی وعدہ ہے جو خدا اور اسکے رسول نے میرے ساتھ کیا تھا۔

حضرت علی (ع) چونکہ اس حالت میں نماز پڑھانے کی قوت نہیں رکھتے تھے، اس لیے اپنے فرزند امام حسن مجتبی (ع) سے نماز جماعت کو جاری رکھنے کو کہا اور خود بیٹھ کر نماز ادا کی۔

روایت میں آيا ہے کہ جب عبد الرحمن ابن ملجم نے سر مبارک حضرت علی (ع) پر شمشیر ماری زمین لرز گئی ، دریا کی موجیں تھم گئی اور آسمان متزلزل ہوا، کوفہ مسجد کے دروازے آپس میں ٹکرائے، آسمانی فرشتوں کی صدائيں بلند ہوئيں ، کالی گھٹا چھا گئیں ،

اس طرح کہ زمین تیرہ و تار ہو گی اور جبرائيل امین  نے صدا دی اور ہر کسی نے اس آواز کو سنا وہ کہہ رہا تھا:

تھدمت و اللہ اركان اللہ ھدي، و انطمست اعلام التّقي، و انفصمت العروۃ الوثقي، قُتل ابن عمّ المصطفي، قُتل الوصيّ المجتبي، قُتل عليّ المرتضي، قَتَلہ اشقي الْاشقياء ،

خدا کی قسم ارکان ہدایت منہدم ہو گئے، علم نبوت کے چمکتے ستارے کو خاموش کیا گيا اور پرہیزگاری کی علامت کو مٹایا گيا اور عروۃ الوثقی کو کاٹا گيا کیونکہ رسول خدا (ص) کے ابن عم کو شہید کیا گيا۔ سید الاوصیاء علی مرتضی کو شہید کیا گيا، انہیں شقی ترین شقی (ابن ملجم) نے شہید کر دیا ہے۔

آپ نے اپنی مبارک اور پربرکت زندگی کے بالکل آخری لمحات میں فرمایا کہ:

میں تمہیں اور جس تک میری نصیحت پہنچ رہی ہے ، تقویٰ و پرہیزگاری اور اپنے کاموں میں نظم و ضبط قائم کرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ یتیموں کاخیال رکھو، پڑوسیوں کے ساتھ نیکی کرو۔ پیغمبر اکرم (ص) اس قدر پڑوسیوں کے بارے میں نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ پڑوسی بھی ورثے میں شریک ہوں گے۔

قرآن سے دوری اختیار نہ کرنا، کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسرے اس پر عمل کرنے میں تم سے آگے نکل جائیں۔

نماز کو اہمیت دو کہ نماز دین کا ستون ہے۔

حضرت علی (ع) اپنی زندگی کے آخری لمحات میں بھی لوگوں کی اصلاح و سعادت کی طرف متوجہ تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹوں، عزیزوں اور تمام مسلمانوں سے اس طرح عظیم وصیت کا ذکر فرمایا۔

آپ کے رحم و کرم اور مساوات پسندی کا عالم یہ تھا کہ جب آپ کے قاتل کو گرفتار کر کے آپ کے سامنے لایا گیا، اور آپ نے دیکھا کہ اس کا چہرہ زرد ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، تو آپ کو اس پر بھی رحم آ گیا۔

آپ نے اپنے  دونوں بیٹوں امام حسن علیہ السّلام و امام حسین علیہ السّلام کو ہدایت فرمائی کہ یہ ہمارا قیدی ہے اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا، جو کچھ خود کھانا وہ اسے بھی کھلانا،  اگر میں صحتیاب ہو گیا تو مجھے اختیار ہے کہ چاہے اسے سزا دوں یا معاف کر دوں اور اگر میں دنیا میں نہ رہا اور آپ نے اس سے انتقام لینا چاہا تو اسے ایک ہی ضربت لگانا کیونکہ اس نے مجھے ایک ہی ضربت لگائی ہے اور ہرگز اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ قطع نہ کرنا کیونکہ یہ اسلامی  تعلیم کے خلاف ہے۔

حضرت علی علیہ السّلام دو روز تک بستر بیماری پر کرب و بے چینی  کے ساتھ کروٹیں بدلتے رہے۔ آخر کار زہر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور 21 رمضان کو نمازِ صبح کے وقت آپ کی روح جسم سے پرواز کر گئی۔ حضرت امام حسن و امام حسین علیہما السّلام نے تجہیز و تکفین کے بعد آپ کے جسم اطہر کو نجف میں دفن کر دیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button